HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4554

۴۵۵۴: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ بُکَیْرٍ ، عَنِ الْوَلِیْدِ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِیْ حُسَیْلٍ ، وَنَحْنُ نُرِیْدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہٗ۔قَالُوْا : فَلَمَّا مَنَعَہُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ حُضُوْرِ بَدْرٍ ، لِاسْتِحْلَافِ الْمُشْرِکِیْنَ الْقَاہِرِیْنَ لَہُمَا ، عَلٰی مَا اسْتَحْلَفُوْھُمَا عَلَیْہِ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْحَلِفَ عَلَی الطَّوَاعِیَۃِ وَالْاِکْرَاہِ سَوَاء ٌ ، کَذٰلِکَ الطَّلَاقُ وَالْعَتَاقُ وَہٰذَا أَوْلَی مَا فُعِلَ فِی الْآثَارِ ، اِذَا وُقِفَ عَلَی مَعَانِیْ بَعْضِہَا أَنْ یُحْمَلَ مَا بَقِیَ مِنْہَا عَلٰی مَا لَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ الْمَعْنَی ، مَتَی مَا قَدَرَ عَلٰی ذٰلِکَ ، حَتّٰی لَا تَضَادَّ فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ حَدِیْثَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی الشِّرْکِ ، وَحَدِیْثَ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الطَّلَاقِ وَالْأَیْمَانِ ، وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ وَأَمَّا حُکْمُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّ فِعْلَ الرَّجُلِ مُکْرَہًا ، لَا یَخْلُو مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ : اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ الْمُکْرَہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْفِعْلِ اِذَا فَعَلَہُ مُکْرَہًا ، فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَفْعَلْہٗ، فَلَا یَجِبُ عَلَیْہِ شَیْء ٌ أَوْ یَکُوْنَ فِیْ حُکْمِ مَنْ فَعَلَہٗ، فَیَجِبُ عَلَیْہِ، مَا یَجِبُ عَلَیْہِ لَوْ فَعَلَہُ غَیْرَ مُسْتَکْرَہٍ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَاہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِی الْمَرْأَۃِ اِذَا أَکْرَہَہَا زَوْجُہَا وَہِیَ صَائِمَۃٌ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ أَوْ حَاجَّۃٌ ، فَجَامَعَہَا ، أَنَّ حَجَّہَا یَبْطُلُ ، کَذٰلِکَ صَوْمُہَا وَلَمْ یُرَاعُوْا فِیْ ذٰلِکَ الْاَسْتِکْرَاہٖ، فَیُفَرِّقُوْا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الطَّوَاعِیَۃِ ، وَلَا جُعِلَتِ الْمَرْأَۃُ فِیْہِ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یَفْعَلْ شَیْئًا ، بَلْ قَدْ جُعِلَتْ فِیْ حُکْمِ مَنْ قَدْ فَعَلَ فِعْلًا یَجِبُ عَلَیْہِ الْحُکْمُ ، وَرُفِعَ عَنْہَا الْاِثْمُ فِیْ ذٰلِکَ خَاصَّۃً وَکَذٰلِکَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَکْرَہَ رَجُلًا عَلَی جِمَاعِ امْرَأَۃٍ اُضْطُرَّتْ اِلَی ذٰلِکَ ، کَانَ الْمَہْرُ ، فِی النَّظَرِ ، عَلَی الْمُجَامِعِ ، لَا عَلَی الْمُکْرِہٖ، وَلَا یَرْجِعُ بِہٖ الْمُجَامِعُ عَلَی الْمُکْرِہٖ، لِأَنَّ الْمُکْرِہَ لَمْ یُجَامِعْ ، فَیَجِبُ عَلَیْہِ بِجِمَاعِہِ مَہْرٌ ، وَمَا یَجِبُ فِیْ ذٰلِکَ الْجِمَاعِ ، فَہُوَ عَلَی الْمُجَامِعِ ، لَا عَلَی غَیْرِہٖ۔ فَلَمَّا ثَبَتَ فِیْ ہٰذِہِ الْأَشْیَائِ أَنَّ الْمُکْرَہَ عَلَیْہَا مَحْکُوْمٌ عَلَیْہِ بِحُکْمِ الْفَاعِلِ کَذٰلِکَ فِی الطَّوَاعِیَۃِ ، فَیُوْجِبُوْنَ عَلَیْہِ فِیْہَا مِنَ الْأَمْوَالِ ، مَا یَجِبُ عَلَی الْفَاعِلِ لَہَا فِی الطَّوَاعِیَۃِ ، ثَبَتَ أَنَّہٗ کَذٰلِکَ الْمُطَلِّقُ وَالْمُعْتِقُ وَالْمُرَاجِعُ فِی الْاِسْتِکْرَاہٖ، یُحْکَمُ عَلَیْہِ بِحُکْمِ الْفَاعِلِ ، فَیَلْزَمُ أَفْعَالَہُ کُلَّہَا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَلِمَ لَا أَجَزْتُ بَیْعَہُ وَاِجَارَتَہٗ؟ قِیْلَ لَہٗ : اِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْبُیُوْعَ وَالْاِجَارَاتِ ، قَدْ تُرَدُّ بِالْعُیُوْبِ وَبِخِیَارِ الرُّؤْیَۃِ ، وَبِخِیَارِ الشَّرْطِ ، وَلَیْسَ النِّکَاحُ کَذٰلِکَ ، وَلَا الطَّلَاقُ وَلَا الْمُرَاجَعَۃُ وَلَا الْعِتْقُ .فَمَا کَانَ قَدْ تُنْقَضُ بِالْخِیَارِ لِلشُّرُوْطِ فِیْہِ وَبِالْأَسْبَابِ الَّتِیْ فِیْ أَصْلِہِ مِنْ عَدَمِ الرُّؤْیَۃِ وَالرَّدِّ بِالْعُیُوْبِ ، نُقِضَ بِالْاِکْرَاہٖ، وَمَا لَا یَجِبُ نَقْضُہُ بِشَیْئٍ بَعْدَ ثُبُوْتِہٖ، لَمْ یُنْقَضْ بِاِکْرَاہٍ وَلَا بِغَیْرِہِ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، وَقَدْ رَأَیْنَا مِثْلَ ہَذَا قَدْ جَائَ تْ بِہٖ السُّنَّۃُ
٤٥٥٤: حضرت ابوالطفیل نے حضرت حذیفہ بن یمان (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں اور میرا والد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچنے کا ارادہ لے کر نکلے پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بدر کی حاضری سے اس لیے منع کردیا کہ ظالم مشرکوں نے ان سے زبردستی وعدہ لیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ خوشی اور مجبوری دونوں حالتوں کی قسم کا حکم برابر ہے اور طلاق و عتاق کا بھی یہی حکم ہے۔ جب بعض روایات کے معنی کی اطلاع ہوگئی تو بقیہ آثار کو بھی اس معنی پر محمول کرنا زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے تاکہ وہ اس معنی کے خلاف نہ ہوں اور روایات میں باہم تضاد نہ ہو۔ مذکورہ بالا بحث کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عباس (رض) کی روایت کا تعلق شرک وغیرہ اعتقادیات سے ہے اور حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کی روایت کا تعلق قسم ‘ طلاق و عتاق جیسے معاملات سے ہے جب فریق ثانی کا مؤقف ثابت بالآثار ہوگیا تو اب بطریق نظر بھی اس کو ثابت کیا جاتا ہے۔ چنانچہ غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی آدمی کا مجبوری کی حالت میں کوئی کام کرنا دو حالتیں رکھتا ہے۔ وہ شخص اس فعل کے کرنے سے اس آدمی کے حکم میں ہوجائے جس نے یہ عمل نہیں کیا تو اب اس شخص پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔ وہ شخص عمل کرنے والے کے حکم میں ہوگا تو اس صورت میں اس پر وہ چیز لازم ہوگی جو مجبور نہ کرنے کی صورت میں عمل کی وجہ سے واجب ہوتی ہے۔ پس ہم نے اس سلسلہ میں جب غور کیا تو دیکھا کہ ان حضرات کا اس عورت کے بارے میں اختلاف نہیں ہے کہ جس کا خاوند اس کو جماع پر مجبور کرے اور اس نے رمضان المبارک کا روزہ رکھا ہوا تھا اور حج کا احرام باندھ رکھا تھا۔ اب جماع سے اس کا حج باطل ہوجائے گا اسی طرح روزہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ فریق اوّل نے اس جبر میں کسی قسم کی رعایت نہیں دی کہ وہ اس مجبوری عمل اور مرضی سے عمل کرنے میں فرق کرتے اور اس ضمن میں عورت کو عمل نہ کرنے والے کے حکم میں شمار نہ کرتے بلکہ اس مقام میں وہ عورت کو اس کے حکم میں شمار کرتے ہیں جس نے کوئی فعل کیا ہو اور اس پر حکم لازم ہوا ہو البتہ اس سے صرف گناہ اٹھا لیا گیا ہو۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی ایسی عورت سے جماع کرنے پر مجبور کرے جو جماع کے لیے بےقرار ہو۔ تو قیاس کے مطابق مہر جماع کرنے والے پر ہوگا جبر کرنے والے پر نہ ہوگا کیونکہ جماع جبر کرنے والے نے نہیں کیا کہ اس کے جماع کرنے سے مہر لازم ہو تو اس جماع کی صورت میں جماع کرنے والے پر مہر لازم ہوگا کسی دوسرے پر لازم نہ ہوگا۔ پس جب ان تمام اشیاء میں ثابت ہوگیا کہ فاعل وہی شخص کہلاتا ہے جس پر جبر کیا گیا ہے جس طرح کہ مرضی سے کام کرنے والے کو فاعل کہتے ہیں اور اس پر مال کو اسی طرح لازم کرتے ہیں جس طرح مرضی سے عمل کرنے والے پر لازم قرار دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ جبر کی صورت میں طلاق دینے والے ‘ آزاد کرنے اور رجوع کرنے والے پر فاعل جیسا حکم لگایا جائے گا اور اس کے تمام افعال لازم و نافذ شمار ہوں گے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ جبر کی حالت میں اجارہ اور تجارت کو تو آپ بھی جائز قرار نہیں دیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے خریدو فروخت اور اجارہ پر غور کیا کہ ان کو خیار عیب ‘ خیار رؤیت ‘ خیار شرط پر رد کردیا جاتا ہے۔ مگر نکاح طلاق و عتاق ایسی چیز نہیں جس کو رد کیا جاسکے۔ پس جو چیز خیار شرط کی وجہ سے ٹوٹ جائے اور اصل میں پائے جانے والے اسباب عدم رویت سے ٹوٹ جائے اور عیوب کی وجہ سے اس کو مسترد کیا جائے تو وہ مجبوری کی صورت میں بدرجہ اولیٰ ٹوٹ جانی اور رد ہونی چاہیے اور جو چیز ثابت ہونے کے بعد کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی تو وہ جبر واکراہ سے بھی نہ ٹوٹنی چاہیے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے اور حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے روایت ابوہریرہ (رض) یہ ہے۔
طریق استدلال : جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بدر کی حاضری سے اس لیے منع کردیا کہ ظالم مشرکوں نے ان سے زبردستی عدہ لیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ خوشی اور مجبوری دونوں حالتوں کی قسم کا حکم برابر ہے اور طلاق و عتاق کا بھی یہی حکم ہے۔
جب بعض روایات کے معنی کی اطلاع ہوگئی تو بقیہ آثار کو بھی اس معنی پر محمول کرنا زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے تاکہ وہ اس معنی کے خلاف نہ ہوں اور روایات میں باہم تضاد نہ ہو۔
فریق اوّل کے مستدل کا جواب : مذکور بالا بحث کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عباس (رض) کی روایت کا تعلق شرک وغیرہ اعتقادیات سے ہے اور حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کی روایت کا تعلق قسم ‘ طلاق و عتاق جیسے معاملات سے ہے جب فریق ثانی کا مؤقف ثابت بالآثار ہوگیا تو اب بطریق نظر بھی اس کو ثابت کیا جاتا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی آدمی کا مجبوری کی حالت میں کوئی کام کرنا دو حالتیں رکھتا ہے۔
نمبر 1: وہ شخص اس فعل کے کرنے سے اس آدمی کے حکم میں ہوجائے جس نے یہ عمل نہیں کیا تو اب اس شخص پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔
نمبر 2: وہ شخص عمل کرنے والے کے حکم میں ہوگا تو اس صورت میں اس پر وہ چیز لازم ہوگی جو مجبور نہ کرنے کی صورت میں عمل کی وجہ سے واجب ہوتی ہے۔ پس ہم نے اس سلسلہ میں جب غور کیا تو دیکھا کہ ان حضرات کا اس عورت کے بارے میں اختلاف نہیں ہے کہ جس کا خاوند اس کو جماع پر مجبور کرے اور اس نے رمضان المبارک کا روزہ رکھا ہوا تھا اور حج کا احرام باندھ رکھا تھا۔ اب جماع سے اس کا حج باطل ہوجائے گا اسی طرح روزہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ فریق اوّل نے اس جبر میں کسی قسم کی رعایت نہیں دی کہ وہ اس مجبوری عمل اور مرضی سے عمل کرنے میں فرق کرتے اور اس ضمن میں عورت کو عمل نہ کرنے والے کے حکم میں شمار نہیں کرتے بلکہ اس مقام میں وہ عورت کو اس کے حکم میں شمار کرتے ہیں جس نے کوئی فعل کیا ہو اور اس پر حکم لازم ہوا ہو البتہ اس سے صرف گناہ اٹھا لیا گیا ہو۔
بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی ایسی عورت سے جماع کرنے پر مجبور کرے جو جماع کے لیے بےقرار ہو۔ تو قیاس کے مطابق مہر جماع کرنے والے پر ہوگا جبر کرنے والے پر نہ ہوگا کیونکہ جماع جبر کرنے والے نے نہیں کیا کہ اس کے جماع کرنے سے مہر لازم ہو تو اس جماع کی صورت میں جماع کرنے والے پر مہر لازم ہوگا کسی دوسرے پر لازم نہ ہوگا۔
پس جب ان تمام اشیاء میں ثابت ہوگیا کہ فاعل وہی شخص کہلاتا ہے جس پر جبر کیا گیا ہے جس طرح کہ مرضی سے کام کرنے والے کو فاعل کہتے ہیں اور اس پر مال کو اسی طرح لازم کرتے ہیں جس طرح مرضی سے عمل کرنے والے پر لازم قرار دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ جبر کی صورت میں طلاق دینے والے ‘ اذاد کرنے اور رجوع کرنے والے پر فاعل جیسا حکم لگایا جائے گا اور اس کے تمام افعال لازم و نافذ شمار ہوں گے۔
سوال : جبر کی حالت میں اجارہ اور تجارت کو تو آپ بھی جائز قرار نہیں دیتے۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے خریدو فروخت اور اجارہ پر غور کیا کہ ان کو خیار عیب ‘ خیار روایت ‘ خیار شرط پر رد کردیا جاتا ہے۔ مگر نکاح طلاق و عتاق ایسی چیز نہیں جس کو رد کیا جاسکے۔ پس جو چیز خیار شرط کی وجہ سے ٹوٹ جائے اور اصل میں پائے جانے والے اسباب عدم رویت سے ٹوٹ جائے اور عیوب کی وجہ سے اس کو مسترد کیا جائے تو وہ مجبوری کی صورت میں بدرجہ اولیٰ ٹوٹ جانی اور رد ہونی چاہیے اور جو چیز ثابت ہونے کے بعد کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی تو وہ جبرو اکراہ سے بھی نہ ٹوٹنی چاہیے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
اور حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے روایت ابوہریرہ (رض) سے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔