HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4784

۴۷۸۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ : سَمِعْتُ سُفْیَانَ یَقُوْلُ فِیْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ ذَاتَ مَحْرَمٍ مِنْہُ فَدَخَلَ بِہَا قَالَ : لَا حَدَّ عَلَیْہِ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَی الَّذِیْنَ احْتَجُّوْا عَلَیْہِمَا بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ فِیْ تِلْکَ الْآثَارِ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقَتْلِ وَلَیْسَ فِیْہَا ذِکْرُ الرَّجْمِ ، وَلَا ذِکْرُ اِقَامَۃِ الْحَدِّ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا جَمِیْعًا أَنَّ فَاعِلَ ذٰلِکَ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ قَتْلٌ اِنَّمَا یَجِبُ عَلَیْہِ - فِیْ قَوْلِ مَنْ یُوْجِبُ عَلَیْہِ الْحَدَّ - عَلَیْہِ الرَّجْمُ اِنْ کَانَ مُحْصَنًا .فَلَمَّا لَمْ یَأْمُرْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّسُوْلَ بِالرَّجْمِ ، وَاِنَّمَا أَمَرَہٗ بِالْقَتْلِ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ ذٰلِکَ الْقَتْلَ لَیْسَ بِحَد لِلزِّنَا ، وَلٰـکِنَّہٗ لِمَعْنًی خِلَافَ ذٰلِکَ .وَہُوَ أَنَّ ذٰلِکَ الْمُتَزَوِّجَ ، فَعَلَ مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ عَلَی الْاِسْتِحْلَالِ کَمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَصَارَ بِذٰلِکَ مُرْتَدًّا ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُفْعَلَ بِہٖ مَا یُفْعَلُ بِالْمُرْتَدِّ .وَہٰکَذَا کَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانُ رَحِمَہُمَا اللّٰہٗ، یَقُوْلَانِ فِیْ ہٰذَا الْمُتَزَوِّجِ اِذَا کَانَ أَتَی فِیْ ذٰلِکَ عَلَی الْاِسْتِحْلَالِ أَنَّہٗ یُقْتَلُ .فَاِذَا کَانَ لَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَنْفِیْ مَا یَقُوْلُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَسُفْیَانُ ، لَمْ یَکُنْ فِیْہِ حُجَّۃٌ عَلَیْہِمَا لِأَنَّ مُخَالِفَہُمَا لَیْسَ بِالتَّأْوِیْلِ أَوْلَی مِنْہُمَا .وَفِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقَدَ لِأَبِیْ بُرْدَۃَ الرَّایَۃَ وَلَمْ تَکُنَ الرَّایَاتُ تُعْقَدُ اِلَّا لِمَنْ أَمَرَ بِالْمُحَارَبَۃِ ، وَالْمَبْعُوْثُ عَلَی اِقَامَۃِ حَدِّ الزِّنَا ، غَیْرُ مَأْمُوْرٍ بِالْمُحَارَبَۃِ .وَفِی الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّہٗ بَعَثَہُ اِلٰی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیْھَاوَلَیْسَ فِیْہِ أَنَّہٗ دَخَلَ بِہَا .فَاِذَا کَانَتْ ہٰذِہِ الْعُقُوْبَۃُ وَہِیَ الْقَتْلُ مَقْصُوْدًا بِہَا اِلَی الْمُتَزَوِّجِ لِتَزَوُّجِہِ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہَا عُقُوْبَۃٌ وَجَبَتْ بِنَفْسِ الْعَقْدِ لَا بِالدُّخُوْلِ وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ اِلَّا وَالْعَاقِدُ مُسْتَحِلٌّ لِذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہُوَ عِنْدَنَا عَلٰی أَنَّہٗ تَزَوَّجَ وَدَخَلَ بِہَا .قِیْلَ لَہٗ : وَہُوَ عِنْدَ مُخَالِفِک عَلٰی أَنَّہٗ تَزَوَّجَ وَاسْتَحَلَّ .فَاِنْ قَالَ : لَیْسَ لِلِاسْتِحْلَالِ ذِکْرٌ فِی الْحَدِیْثِ .قِیْلَ لَہٗ : وَلَا لِلدُّخُوْلِ ذِکْرٌ فِی الْحَدِیْثِ فَاِنْ جَازَ أَنْ تَحْمِلَ مَعْنَی الْحَدِیْثِ عَلَی دُخُوْلٍ غَیْرِ مَذْکُوْرٍ فِی الْحَدِیْثِ جَازَ لِخَصْمِک أَنْ یَحْمِلَہٗ عَلَی اسْتِحْلَالٍ غَیْرِ مَذْکُوْرٍ فِی الْحَدِیْثِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ حَرْفٌ زَائِدٌ عَلٰی مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .
٤٧٨٤: ابو نعیم نے سفیان سے روایت کی ہے کہ اس آدمی کے متعلق جس نے ذی رحم محرم سے شادی کر کے اس سے جماع کیا ہو تو اس پر حد نہیں لگے گی اور ان دلائل سے جو انھوں نے دونوں کے خلاف قائم کئے ہیں ان میں یہ آثار ہیں۔ ان آثار مذکورہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل کا حکم فرمایا ہے اس میں نہ رجم کا تذکرہ ہے اور نہ حد کے قائم کرنے کا تذکرہ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محرم سے نکاح کے مرتکب پر قتل لازم نہیں جو لوگ حد کو لازم کرتے ہیں ان کے ہاں تو رجم چاہیے جبکہ وہ شادی شدہ ہو تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم نہیں فرمایا بلکہ قتل کا حکم دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ قتل حد زنا کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ اس کی کوئی اور وجہ تھی اور وہ وجہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کی زبانی یہ ہے کہ شادی کرنے والے نے اس فعل کو حلال سمجھ کر کیا جیسا کہ جاہلیت میں وہ لوگ کرتے تھے یہ حلال سمجھنے سے مرتد ہوگیا۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ساتھ مرتد والا معاملہ فرمایا اور روایت میں تو ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو امام ابوحنیفہ (رح) کی تاویل کے خلاف ہو اور ان کے خلاف حجت بن سکے اور رہی فریق اوّل کی تاویل تو وہ اس تاویل سے اولیٰ نہیں۔ اس روایت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ” عقد لابی بردۃ الرایۃ “ حالانکہ جھنڈے تو کفار سے محاربہ کے لیے باندھے جاتے تھے اور زانی کو حد لگانے کے لیے جو شخص جائے وہ محاربہ کے لیے تو نہیں جاتا۔ اس روایت میں یہ ہے کہ اس نے والد کی بیوی سے شادی کی ہے اس میں جماع کا تذکرہ نہیں۔ جب یہ سزائے قتل محرم سے فقط شادی کرنے والے کے لیے ہے تو یہ اس بات کی واضح دلالت ہے کہ یہ بطور عقوبت ہے جو نفس عقد سے لازم ہوجاتی ہے ‘ دخول سے متعلق نہیں اور یہ اتنی بڑی سزا تبھی ہوسکتی ہے جبکہ عقد کرنے والا اس کو حلال سمجھ کر کرے اگر کوئی معترض کہے کہ فریق ثانی کے ہاں یہ شادی کرنے اور اس سے جماع کرنے پر موقوف ہے۔ تو ان کو جواب میں کہا جائے گا یہ بات بلاشبہ ہمارے ہاں ہے مگر اس صورت میں جبکہ وہ اس کو حلال سمجھ کر کرنے والا ہو۔ اگر کوئی معترض کہے کہ جناب حدیث میں تو حلال قرار دینے کا تذکرہ نہیں ملتا۔ تو اس کو کہا جائے گا کہ حدیث میں جس طرح دخول کا تذکرہ نہیں اسی طرح حلال قرار دینے کا بھی تذکرہ نہیں۔ پس اگر حدیث کے معنی میں دخول غیر مذکور ہونے کے باوجود مراد لینا درست ہے۔ تو فریق ثانی کو حلال قرار دینے کا معنی غیر مذکور ہونے کی وجہ سے مراد لینا کیونکر درست نہیں۔ اس روایت میں دیگر روات سے مزید الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : ان آثار مذکورہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل کا حکم فرمایا ہے اس میں نہ رجم کا تذکرہ ہے اور نہ حد کے قائم کرنے کا تذکرہ ہے۔
نمبر 2: اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محرم سے نکاح کے مرتکب پر قتل لازم نہیں جو لوگ حد کو لازم کرتے ہیں ان کے ہاں تو رجم چاہیے جبکہ وہ شادی شدہ ہو تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم نہیں فرمایا بلکہ قتل کا حکم دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ قتل حد زنا کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ اس کی کوئی اور وجہ تھی اور وہ وجہ امام ابوحنیفہ (رح) اور سفیان ثوری (رح) کی زبانی یہ ہے کہ شادی کرنے والے نے اس فعل کو حلال سمجھ کر کیا جیسا کہ جاہلیت میں ہو لوگ کرتے تھے حلال سمجھنے سے مرتد ہوگیا۔
پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ساتھ مرتد والا معاملہ فرمایا اور روایت میں کو ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو امام ابوحنیفہ (رح) کی تاویل کے خلاف ہو اور ان کے خلاف حجت بن سکے اور رہی فریق اوّل کی تاویل تو وہ اس تاویل سے اولیٰ نہیں۔
روایت کی پڑتال : اس روایت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ” عقد لابی بردۃ الرایۃ “ حالانکہ جھنڈے تو کفار سے محاربہ کے لیے باندھے جاتے تھے اور زانی کو حد لگانے کے لیے جو شخص جائے وہ محاربہ کے لیے تو نہیں جاتا۔
نمبر 2: اس روایت میں یہ ہے کہ اس نے والد کی بیوی سے شادی کی ہے اس میں جماع کا تذکرہ نہیں۔ جب یہ سزائے قتل محرم سے فقط شادی کرنے والے کے لیے ہے تو یہ اس بات کی واضح دلالت ہے کہ یہ بطور عقوبت ہے جو نفس عقد سے لازم ہوجاتی ہے دخول سے متعلق نہیں اور یہ اتنی بڑی سزا تبھی ہوسکتی ہے جبکہ عقد کرنے والا اس کو حلال سمجھ کر کرے۔
سوال : فریق ثانی کے ہاں یہ شادی کرنے اور اس سے جماع کرنے پر موقوف ہے۔
جواب : یہ بات بلاشبہ ہمارے ہاں ہے مگر اس صورت میں جبکہ وہ اس کو حلال سمجھ کر کرنے والا ہو۔
سوال : جناب حدیث میں تو حلال قرار دینے کا تذکرہ نہیں ملتا۔
جوابحدیث میں جس طرح دخول کا تذکرہ نہیں اسی طرح حلال قرار دینے کا بھی تذکرہ نہیں۔ پس اگر حدیث کے معنی میں دخول غیر مذکور ہونے کے باوجود مرد لینا درست ہے۔ تو فریق ثانی کو حلال قرار دینے کا معنی غیر مذکور ہونے کی وجہ سے مراد لینا کیونکر درست نہیں۔ اس روایت میں دیگر روات سے مزید الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔