HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5111

۵۱۱۰ : فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِہِ یُقَالُ لَہُ بِشْرُ بْنُ عَلْقَمَۃَ قَالَ : بَارَزْتُ رَجُلًا یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ فَقَتَلْتُہٗ ، فَبَلَغَ سَلَبُہُ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا ، فَنَفَّلَنِیْہِ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ سَعْدٌ نَفَّلَہُ ذٰلِکَ ، وَالْقِتَالُ لَمْ یَرْتَفِعْ ، فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، فَہٰذَا قَوْلُنَا أَیْضًا وَاِنْ کَانَ اِنَّمَا نَفَّلَہُ بَعْدَ ارْتِفَاعِ الْقِتَالِ ، فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ جَعَلَ ذٰلِکَ مِنَ الْخُمُسِ فَاِنْ کَانَ جَعَلَہٗ مِنْ غَیْرِ الْخُمُسِ ، فَہٰذَا فِیْہِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا مِنْ الِاخْتِلَافِ ، فَلَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ حُجَّۃٌ ، اِذْ کَانَ قَدْ یُحْتَمَلُ مَا قَدْ صَرَفَہُ اِلَیْہِ مُخَالِفُہُ وَوَجَبَ بَعْدَ ذٰلِکَ أَنْ یُکْشَفَ وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ ، لِنَعْلَمَ کَیْفَ حُکْمُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَکَانَ الْأَصْلُ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ الْاِمَامَ اِذَا قَالَ فِیْ حَالِ الْقِتَالِ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ سَلَبُہُ أَنَّ ذٰلِکَ جَائِزٌ وَلَوْ قَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ کَذَا وَکَذَا دِرْہَمًا کَانَ ذٰلِکَ جَائِزًا أَیْضًا وَلَوْ قَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا ، فَلَہُ عُشْرُ مَا أَصَبْنَا لَمْ یَجُزْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ ہَذَا لَوْ جَازَ ، جَازَ أَنْ تَکُوْنَ الْغَنِیْمَۃُ کُلُّہَا لِلْمُقَاتِلِیْنَ ، فَیَبْطُلُ حَقُّ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْہَا مِنَ الْخُمُسِ فَکَانَ النَّفَلُ لَا یَکُوْنُ قَبْلَ الْقِتَالِ ، اِلَّا فِیْمَا أَصَابَہُ الْمُنَفَّلُ بِسَیْفِہٖ، وَلَا یَجُوْزُ فِیْمَا أَصَابَ غَیْرُہُ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ فِیْمَا حُکْمُہٗ حُکْمُ الْاِجَارَۃِ فَیَجُوْزُ ذٰلِکَ ، کَمَا تَجُوْزُ الْاِجَارَۃُ کَقَوْلِہٖ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہُ عَشَرَۃُ دَرَاہِمَ فَذٰلِکَ جَائِزٌ فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ، وَلَمْ یَجُزْ النَّفَلُ اِلَّا فِیْمَا أَصَابَہُ الْمُنَفَّلُ بِسَیْفِہٖ، أَوْ فِیْمَا جُعِلَ لَہُ لِعَمَلِہٖ ، وَلَمْ یَحُزْ أَنَّ یُنَفَّلَ مِمَّا أَصَابَہُ غَیْرُہٗ، کَانَ النَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ اِحْرَازِ الْغَنِیْمَۃِ أَحْرَی أَنْ لَا یَجُوْزَ أَنْ یُنَفَّلَ مِمَّا أَصَابَ غَیْرُہُ فَفَسَدَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ أَجَازَ النَّفَلَ بَعْدَ اِحْرَازِ الْغَنِیْمَۃِ ، وَرَجَعْنَا اِلَی حُکْمِ مَا أَصَابَہُ ہُوَ ، فَکَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یُنَفِّلَہُ الْاِمَامُ اِیَّاہٗ، قَدْ وَجَبَ حَقُّ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْ خُمُسِہٖ، وَحَقُّ الْمُقَاتِلَۃِ فِیْ أَرْبَعَۃِ أَخْمَاسِہِ فَلَوْ أَجَزْنَا النَّفَلَ اِذًا لَکَانَ حَقُّہُمْ قَدْ بَطَلَ بَعْدَ وُجُوْبِہٖ ، وَاِنَّمَا یَجُوْزُ النَّفَلُ فِیْمَا یَدْخُلُ فِیْ مِلْکِ الْمُنَفِّلِ ، مِنْ مِلْکِ الْعَدُوِّ وَأَمَّا مَا قَدْ زَالَ عَنْ مِلْکِ الْعَدُوِّ قَبْلَ ذٰلِکَ ، وَصَارَ فِیْ مِلْکِ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَلَا نَفْلَ فِیْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہٗ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنْ لَا نَفْلَ بَعْدَ اِحْرَازِ الْغَنِیْمَۃِ عَلٰی مَا قَدْ فَصَّلْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، وَبَیَّنَّا وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥١١٠: اسود بن قیس نے اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کیا جس کو بشر بن علقمہ کہا جاتا تھا۔ اس نے بتایا کہ میں نے قادسیہ کے دن ایک آدمی سے مقابلہ کر کے اس کو قتل کردیا تو اس کا سامان بارہ ہزار کی قیمت کو پہنچا۔ تو حضرت سعد (رض) نے وہ مجھے زائد عنایت فرمایا۔ یہ عین ممکن ہے کہ حضرت سعد (رض) نے لڑائی ختم ہونے سے پہلے ان کو دیا ہو۔ اگر یہ اسی طرح ہو تو ہمیں اس سے اختلاف نہیں اور اگر لڑائی کے بعد ہے تو پھر یہ احتمال ہے کہ یہ خمس میں سے دیا ہو اور بالفرض اگر انھوں نے خمس کے علاوہ مال سے دیا ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ اسی اختلاف کا ہم پہلے ذکر کر آئے۔ اس صورت میں یہ روایت کسی فریق کی دلیل نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ہر دو احتمالات کی طرف پھیرا جاسکتا ہے۔ اب ضروری ہوا کہ نظر و فکر سے غور کر کے مسئلہ کی اختلافی باڑ سے نکلیں۔ تاکہ نظر سے اس کا حکم معلوم ہو سکے۔ نظر کی راہ سے اس باب کا حکم معلوم کرنا ضروری ہوگیا۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ سپہ سالار اگر اعلان کر دے کہ جو شخص کسی (کافر) کو قتل کرے تو اسے مقتول کا سامان ملے گا۔ اس کا یہ اعلان جائز و درست ہے اور اگر کوئی کہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو اسے اتنے درہم ملیں گے تو یہ بھی درست ہے اور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کو مال غنیمت میں سے دسواں حصہ ملے گا تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا درست ہوتا تو پھر تمام مال مجاہدین ہی کے لیے ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا حق یعنی خمس باطل ہوجاتا۔ اسی وجہ سے لڑائی سے پہلے نفل اسی مال سے ہوگا جس کو نفل حاصل کرنے والا اپنی تلوار کے ذریعہ حاصل کرے یا اس کی کارگردگی کی وجہ سے اس کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ جو کچھ دوسروں کو حاصل ہوا وہ اس کے لیے قرار نہ دیا جائے گا البتہ ایک صورت ہے کہ جس کا حکم اجارہ والا ہو وہ جائز ہے۔ جیسا کہ امام کہے : ” من قتل قتیلا فلہ عشرہ دراہم “ تو یہ درست ہے۔ جب یہ بات اسی طرح ہے تو نفل اتنا ہی جائز ہے جتنا حاصل کرنے والا اپنی تلوار سے حاصل کرے یا وہ جو اس کے عمل پر مقرر کیا جائے۔ اس میں سے اس کو دینا جائز نہیں جو دوسروں سے پایا ہو۔ تو نظر کا تقاضا یہی ہے کہ مال غنیمت کے جمع ہونے کے بعد نفل (زائد) اس میں سے نہ دیا جائے جو کہ دوسروں نے جمع کیا ہو۔ اس سے ان لوگوں کا قول باطل ٹھہرا جو مال غنیمت کے جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) مجاہد کو دینے کے قائل ہیں۔ پس یہ حکم اس چیز کی طرف لوٹ گیا جو اس نے خود حاصل کی ہے۔ تو امام کے اسے نفل دینے سے پہلے خمس میں امام کا اور چار حصوں میں مجاہدین کا حق لازم تھا۔ اگر ہم اس کو دینا جائز قرار دیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حق لازم ہونے کے بعد باطل ہوگیا۔ بلاشبہ نفل صرف اس چیز میں ہوگا جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر مجاہد کی ملکیت میں آئی ہو۔ رہی وہ چیز جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر عامۃ المسلمین کی ملکیت میں داخل ہوچکی اس میں نفل جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مال غنیمت جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) دینا جائز نہیں جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر آئے۔ ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ جو امدادی دستے میدان جنگ سے نکلنے سے پہلے پہلے آ ملیں گے ان سب کو مال غنیمت سے حصہ دیا جائے گا۔ اس قول کو امام شعبی ‘ ثوری ‘ اوزاعی ائمہ احناف (رح) اجمعین نے اختیار کیا ہے اور اپنے مؤقف کے لیے دلائل پیش کئے ہیں۔ مال غنیمت سے ان لوگوں کو حصہ ملے گا جو واقعہ میں موجود ہوں گے۔ یہ شعبی ‘ اوزاعی ‘ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
تشریح یہ عین ممکن ہے کہ حضرت سعد (رض) نے لڑائی ختم ہونے سے پہلے ان کو دیا ہے۔ اگر یہ اسی طرح ہو تو ہمیں اس سے اختلاف نہیں۔
اور اگر لڑائی کے بعد ہے تو پھر یہ احتمال ہے کہ یہ خمس میں سے دیا ہو اور بالفرض اگر انھوں نے خمس کے علاوہ مال سے دیا ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ اسی اختلاف کا ہم پہلے ذکر کر آئے۔ اس صورت میں یہ روایت کسی فریق کی دلیل نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ہر دو احتمالات کی طرف پھیرا جاسکتا ہے۔ اب ضروری ہوا کہ نظر و فکر سے غور کر کے مسئلہ کی اختلافی باڑ سے نکلیں۔ تاکہ نظر سے اس کا حکم معلوم ہو سکے۔
نظر طحاوی (رح) :
نظر کی راہ سے اس باب کا حکم معلوم کرنا ضروری ہوگیا۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ سپہ سالار اگر اعلان کر دے کہ جو شخص کسی (کافر) کو قتل کرے تو اسے مقتول کا سامان ملے گا۔ اس کا یہ اعلان جائز و درست ہے اور اگر کوئی کہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو اسے اتنے درہم ملیں گے تو یہ بھی درست ہے اور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کو مال غنیمت میں سے دسواں حصہ ملے گا تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا درست ہوتا تو پھر تمام مال مجاہدین ہی کے لیے ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا حق یعنی خمس باطل ہوجاتا۔ اسی وجہ سے لڑائی سے پہلے نفل اسی مال سے ہوگا جس کو نفل حاصل کرنے والا اپنی تلوار کے ذریعہ حاصل کرے یا اس کی کارگردگی کی وجہ سے اس کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ جو کچھ دوسروں کو حاصل ہوا وہ اس کے لیے قرار نہ دیا جائے گا البتہ ایک صورت ہے کہ جس کا حکم اجارہ والا ہو وہ جائز ہے۔ جیسا کہ امام کہے ” من قتل قتیلا فلہ عشرہ دراہم “ تو یہ درست ہے۔
جب یہ بات اسی طرح ہے تو نفل اتنا ہی جائز ہے جتنا حاصل کرنے والا اپنی تلوار سے حاصل کرے یا وہ جو اس کے عمل پر مقرر کیا جائے۔ اس میں سے اس کو دینا جائز نہیں جو دوسروں سے پایا ہو۔ تو نظر کا تقاضا یہی ہے کہ مال غنیمت کے جمع ہونے کے بعد نفل (زائد) اس میں سے نہ دیا جائے جو کہ دوسروں نے جمع کیا ہو۔ اس سے ان لوگوں کا قول باطل ٹھہرا جو مال غنیمت کے جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) مجاہد کو دینے کے قائل ہیں۔ پس یہ حکم اس چیز کی طرف لوٹ گیا جو اس نے خود حاصل کی ہے۔
تو امام کے اسے نفل دینے سے پہلے خمس میں امام کا اور چار حصوں میں مجاہدین کا حق لازم تھا۔ اگر ہم اس کو دینا جائز قرار دیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حق لازم ہونے کے بعد باطل ہوگیا۔
بلاشبہ نفل صرف اس چیز میں ہوگا جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر مجاہد کی ملکیت میں آئی ہو۔ رہی وہ چیز جو دشمن کی ملکیت سے نکل کر عامۃ المسلمین کی ملکیت میں داخل ہوچکی اس میں نفل جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مال غنیمت جمع کرنے کے بعد نفل (زائد مال) دینا جائز نہیں جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر آئے۔
ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
لغات : نفل۔ زائد مال جو بطور انعام دیا جائے۔ خمس۔ غنیمت کا پانچواں حصہ۔ الخیط والمخیط۔ سوئی دھاگہ۔ الرجعۃ۔ جنگ سے لوٹنا یا دوسری لڑائی کی طرف لوٹنا۔
لغات : اس باب میں فریق اوّل کے قول کی تردید میں دلائل کے علاوہ اعتراضات کے جوابات اور قیاس و نظر سے بھی اپنے قول کی تائید پیش کی اور اپنے قول کی برتری ثابت کی کہ امام کو خمس غنیمت کے علاوہ غنیمت کے جمع ہونے کے بعد مزید لینے یا دینے کا اختیار نہیں۔ انعام بھی آواز غنیمت سے پہلے ہے اور مجاہد کی اپنی تلوار کے جوہر سے ہے۔ (مترجم)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔