HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5122

۵۱۲۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ قَسَمَ خَیْبَرَ بِکَمَالِہَا ، وَلٰـکِنَّہٗ قَسَمَ طَائِفَۃً مِنْہَا ، عَلٰی مَا احْتَجَّ بِہٖ عُمَرُ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، وَتَرَکَ طَائِفَۃً مِنْہَا فَلَمْ یَقْسِمْہَا ، عَلٰی مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ ، وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الْأُخَرِ .وَالَّذِیْ کَانَ قُسِمَ مِنْہَا ہُوَ الشِّقُّ وَالْبِطَاہٗ، وَتُرِکَ سَائِرُہَا ، فَعَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّہٗ قَسَمَ ، وَلَہٗ أَنْ یَقْسِمَ ، وَتَرَکَ ، وَلَہٗ أَنْ یَتْرُکَ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ ہٰکَذَا حُکْمُ الْأَرْضِیْنَ الْمُفْتَتَحَۃِ لِلْاِمَامِ ، فَیَقْسِمُہَا اِنْ رَأَیْ ذٰلِکَ صَلَاحًا لِلْمُسْلِمِیْنَ ، کَمَا قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَسَمَ مِنْ خَیْبَرَ .وَلَہُ تَرْکُہَا اِنْ رَأَی فِیْ ذٰلِکَ صَلَاحًا لِلْمُسْلِمِیْنَ أَیْضًا ، کَمَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَرَکَ مِنْ خَیْبَرَ ، یَفْعَلُ ذٰلِکَ مَا رَأَی مِنْ ذٰلِکَ عَلَی التَّحْرِیْس مِنْہٗ، لِصَلَاحِ الْمُسْلِمِیْنَ .وَقَدْ فَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ أَرْضِ السَّوَادِ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا ، فَتَرَکَہَا لِلْمُسْلِمِیْنَ أَرْضَ خَرَاجٍ ، لِیَنْتَفِعَ بِہَا مَنْ یَجِیْئُ مِنْ بَعْدِہِ مِنْہُمْ ، کَمَا یَنْتَفِعُ بِہَا مَنْ کَانَ فِیْ عَصْرِہِ مِن الْمُسْلِمِیْنَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، لَمْ یَفْعَلْ فِی السَّوَادِ مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ ، مِنْ جِہَۃِ مَا قُلْتُمْ ، وَلٰـکِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ ، جَمِیْعًا رَضُوْا بِذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا رَضُوْا بِذٰلِکَ ، أَنَّہٗ جَعَلَ الْجِزْیَۃَ عَلٰی رِقَابِہِمْ ، فَلَمْ یَخْلُ ذٰلِکَ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ .اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ جَعَلَہَا عَلَیْہِمْ ضَرِیْبَۃً لِلْمُسْلِمِیْنَ ، لِأَنَّہُمْ عَبِیْدٌ لَہُمْ .أَوْ یَکُوْنُ جَعَلَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ ، کَمَا یَجْعَلُ الْجِزْیَۃَ عَلَی الْأَحْرَارِ ، لِیَحْقِنَ بِذٰلِکَ دِمَائَ ہُمْ .فَرَأَیْنَا قَدْ أُہْمِلَ نِسَاؤُہُمْ وَمَشَائِخُہُمْ ، وَأَہْلُ الزَّمَانَۃِ مِنْہُمْ ، وَصِبْیَانُہُمْ ، وَاِنْ کَانُوْا قَادِرِیْنَ عَلَی الِاکْتِسَابِ ، أَکْثَرَ مِمَّا یَقْدِرُ عَلَیْہِ بَعْضُ الْبَالِغِیْنَ .ؓفَلَمْ یَجْعَلْ عَلٰی أَحَدٍ مِمَّنْ ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ، فَدَلَّ مَا بَقِیَ مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ مَا أَوْجَبَ لَیْسَ لِعِلَّۃِ الْمِلْکِ ، وَلٰـکِنَّہٗ .لِعِلَّۃِ الذِّمَّۃِ وَقَبْلَ ذٰلِکَ جَمِیْعُ مَا اُفْتُتِحَ مِنْ تِلْکَ الْأَرْضِ أَخْذُہُمْ ذٰلِکَ مِنْہُمْ دَلِیْلٌ عَلَی اِجَارَتِہِمْ لَمَّا کَانَ عُمَرُ فَعَلَ ذٰلِکَ .ثُمَّ رَأَیْنَا وَضَعَ عَلَی الْأَرْضِ شَیْئًا مُخْتَلِفًا ، فَوَضَعَ عَلٰیْ جَرِیْبِ الْکَرْمِ شَیْئًا مَعْلُوْمًا ، وَوَضَعَ عَلٰیْ جَرِیْبِ الْحِنْطَۃِ شَیْئًا مَعْلُوْمًا ، وَأَہْمَلَ النَّخْلَ فَلَمْ یَأْخُذْ مِنْہَا شَیْئًا .فَلَمْ یَخْلُ مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ ، اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ مَلَکَ بِہٖ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ قَدْ ثَبَتَ حُرْمَتُہُمْ بِثِمَارِ أَرْضِیہِمْ ، وَالْأَرْضُ مِلْکٌ لِلْمُسْلِمِیْنَ .أَوْ یَکُوْنَ جَعَلَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ ، کَمَا جَعَلَ الْخَرَاجَ عَلٰی رِقَابِہِمْ ، وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْخَرَاجُ یَجِبُ اِلَّا فِیْمَا مَلَکَہُ لِغَیْرِ أَخْذِ الْخَرَاجِ .فَاِنْ حَمَلْنَا ذٰلِکَ عَلَی التَّمْلِیکِ ، مِنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِیَّاہُمْ ثَمَرَ النَّخْلِ وَالْکَرْمِ ، بِمَا جَعَلَ عَلَیْہِمْ مِمَّا ذَکَرْنَا ، جَعَلَ فِعْلَہُ ذٰلِکَ قَدْ دَخَلَ فِیْمَا قَدْ نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ ، وَمِنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَک ، فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ الْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ .وَلٰـکِنَّ الْأَمْرَ عِنْدَنَا عَلٰی أَنَّ تَمْلِیْکَہُ لَہُمُ الْأَرْضَ الَّتِیْ أَوْجَبَ ہَذَا عَلَیْہِمْ فِیْمَا قَدْ تَقَدَّمَ ، عَلٰی أَنْ یَکُوْنَ مِلْکُہُمْ ذٰلِکَ ، مِلْکَ خَرَاجِی .فَہٰذَا حُکْمُہٗ فِیْمَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ فِیْہِ، وَقَبِلَ النَّاسُ جَمِیْعًا مِنْہُ ذٰلِکَ ، وَأَخَذُوْا مِنْہُ مَا أَعْطَاہُمْ مِمَّا أَخَذَ مِنْہُمْ .فَکَانَ قَبُوْلُہُمْ لِذٰلِکَ اِجَازَۃً مِنْہُمْ لِفِعْلِہٖ .قَالُوْا فَلِہٰذَا جَعَلْنَا أَہْلَ السَّوَادِ مَالِکِیْنَ لِأَرْضِہِمْ ، وَجَعَلْنَاہُمْ أَحْرَارًا بِالْعِلَّۃِ الْمُتَقَدِّمَۃِ ، وَکُلُّ ہَذَا اِنَّمَا کَانَ بِاِجَازَۃِ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ غَنِمُوْا تِلْکَ الْأَرْضَ ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا جَازَ ، وَلَکَانُوْا عَلَی مِلْکِہِمْ .قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ : کُلُّ أَرْضٍ مُفْتَتَحَۃٍ عَنْوَۃً ، فَحُکْمُہَا أَنْ تُقْسَمَ کَمَا تُقْسَمُ الْأَمْوَالُ ، خُمُسُہَا لِلّٰہٖ، وَأَرْبَعَۃُ أَخْمَاسِہَا لِلَّذِیْنَ افْتَتَحُوْہَا ، لَیْسَ لِلْاِمَامِ مَنْعُہُمْ مِنْ ذٰلِکَ ، اِلَّا أَنْ تَطِیْبَ أَنْفُسُ الْقَوْمِ بِتَرْکِہَا ، کَمَا طَابَتْ أَنْفُسُ الَّذِیْنَ افْتَتَحُوْا السَّوَادَ لِعُمَرَ بِمَا ذَکَرْنَا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ : أَنَّا نَعْلَمُ أَنَّ أَرْضَ السَّوَادِ لَوْ کَانَتْ کَمَا ذَکَرَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، لَکَانَ قَدْ وَجَبَ فِیْہَا خُمُسُ اللّٰہِ بَیْنَ أَہْلِہِ الَّذِیْنَ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَہُمْ ، وَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ لِلْاِمَامِ أَنْ یَجْعَلَ ذٰلِکَ الْخُمُسَ وَلَا شَیْئًا مِنْہُ لِأَہْلِ الذِّمَّۃِ .وَقَدْ کَانَ أَہْلُ السَّوَادِ الَّذِیْنَ أَقَرَّہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَارُوْا أَہْلَ الذِّمَّۃِ ، وَقَدْ کَانَ السَّوَادُ بِأَسْرِہِ فِیْ أَیْدِیْہِمْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا فَعَلَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ ، کَانَ مِنْ جِہَۃٍ غَیْرِ الْجِہَۃِ الَّتِیْ ذٰکَرُوْا ، وَہُوَ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ وَجَبَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ ذٰلِکَ خُمُسٌ .کَذٰلِکَ مَا فَعَلَ فِیْ رِقَابِہِمْ ، فَمَنَّ عَلَیْہِمْ بِأَنْ أَقَرَّہُمْ فِیْ أَرْضِیہِمْ ، وَنَفَی الرِّقَّ مِنْہُمْ ، وَأَوْجَبَ الْخَرَاجَ عَلَیْہِمْ فِیْ رِقَابِہِمْ وَأَرْضِیہِمْ ، فَمَلَکُوْا بِذٰلِکَ أَرْضِیہِمْ ، وَانْتَفَی الرِّقُّ عَنْ رِقَابِہِمْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ لِلْاِمَامِ أَنْ یَفْعَلَ ہَذَا بِمَا اُفْتُتِحَ عَنْوَۃً ، فَنَفَیْ عَنْ أَہْلِہَا رَقَّ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَعَنْ أَرْضِیہِمْ مِلْکَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَیُوْجِبُ ذٰلِکَ لِأَہْلِہَا ، وَیَضَعُ عَلَیْہِمْ مَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ وَضْعُہٗ، مِنَ الْخَرَاجِ ، کَمَا فَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَاحْتَجَّ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ .ثُمَّ قَالَ لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ فَأَدْخَلَہُمْ مَعَہُمْ ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُوْا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُرِیْدُ بِذٰلِکَ الْأَنْصَارَ ، فَأَدْخَلَہُمْ مَعَہُمْ .ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِیْنَ جَائُوْا مِنْ بَعْدِہِمْ فَأَدْخَلَ فِیْہَا جَمِیْعَ مَنْ یَجِیْئُ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ ، فَلِلْاِمَامِ أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ ، وَیَضَعَہُ حَیْثُ رَأَی وَضْعَہٗ، فِیْمَا سَمَّی اللّٰہُ فِیْ ہٰذِہِ السُّوْرَۃِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَسُفْیَانُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .فَاِنِ احْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ مُحْتَجٌّ ۔
٥١٢١: محمد بن سابق نے ابراہیم بن طھمان سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو مکمل طور پر تقسیم نہ فرمایا تھا۔ بلکہ اس میں سے کچھ حصہ تقسیم فرمایا۔ جیسا کہ حضرت عمر (رض) والی روایت سے معلوم ہوتا ہے اور کچھ حصہ بلا تقسیم چھوڑ دیا۔ جیسا کہ ابن عباس ‘ ابن عمر ‘ اور جابر (رض) کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شق اور بطاۃ نامی قلعوں اور ان کی زمینوں کو تقسیم کردیا اور بقیہ کو چھوڑ دیا اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ آپ نے تقسیم کیا اس لیے کہ آپ کو تقسیم کا حق حاصل تھا اور کچھ حصہ چھوڑ دیا تو آپ کو چھوڑ دینے کا بھی اختیار تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مفتوحہ زمینوں کا حکم امام کے لیے یہی ہے۔ کہ اگر مسلمانوں کی مصلحت خیال کرے تو ان کو تقسیم کر دے۔ جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا کچھ تقسیم فرمایا اور اگر مسلمانوں کی مصلحت تقسیم نہ کرنے میں ہو تو نہ تقسیم کرے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا کچھ حصہ تقسیم نہ فرمایا۔ مسلمانوں کی بھلائی کے لیے جس کام میں خیر ہو وہ کرے۔ حضرت عمر (رض) نے عراق کی زمین کے ساتھ اسی طرح کیا اس زمین کو مسلمانوں کے لیے خراجی زمین کے طور پر چھوڑ دیا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی اس سے اسی طرح فائدہ حاصل کریں جس طرح اس دور کے مسلمانوں نے نفع اٹھایا۔ یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے عراق کی سرزمین میں یہ تقسیم والا عمل اس وجہ سے اختیار نہ کیا ہو جو تم نے بیان کیا بلکہ اس زمانے کے مسلمانوں نے اس پر رضامندی ظاہر کی ہو اور اسی رضا کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے ان پر جزیہ مقرر فرمایا اور یہ جزیہ د وحال سے خالی نہیں۔ نمبر ایک اس لیے مقرر فرمایا کہ وہ لوگ ان کے غلام تھے۔ نمبردو اس لیے مقرر فرمایا جس طرح آزاد لوگوں پر مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان کی جانوں کی حفاظت کی جائے جب ہم غور کرتے ہیں بچے بوڑھے اور عورتیں اس سے مستثنیٰ نظر آتی ہیں۔ خواہ وہ بعض بالغوں سے زیادہ کمائی کرنے پر قدرت رکھتے تھے لیکن مذکورہ افراد میں سے کسی پر کچھ بھی مقرر نہیں کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ باقی لوگوں پر جو لازم کیا گیا وہ ان کی ملکیت کی بناء پر نہ تھا۔ بلکہ ذمی ہونے کی بناء پر تھا۔ اس سے پہلے جتنے مفتوحہ مقبوضات سے وصول کرنا ان کے اجارہ کی دلیل ہے۔ کیونکہ حضرت عمر (رض) نے اسی طرح کیا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے زمین پر مختلف چیزیں مقرر کیں مگر انگور والی زمین پر ایک معین و مخصوص مقدار مقرر فرمائی اسی طرح گندم والی زمین پر بھی ایک مقررہ مقدار متعین کی لیکن کھجور کو چھوڑ دیا اور اس سے کچھ بھی نہ لیا اب یہ دو حال سے خالی نہیں۔ نمبر ایک ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کی حرمت ان کی زمین کے پھلوں کے سبب ثابت ہو اور زمین مسلمانوں کی ملکیت ہی رہے گی۔ نمبردو یہ ان پر اسی طرح لگایا گیا جیسا کہ ان کی گردنوں پر خراج مقرر کیا گیا اور جب تک خراج لیے بغیر مالک نہ ہوگا اس وقت تک خراج واجب ہی نہ ہوگا اور اگر ہم اس کو اس بات پر محمول کریں کہ حضرت عمر (رض) نے محصول کے بدلے ان کو کھجوروں اور انگور کے پھل کا مالک بنایا۔ پھر اگر ہم اس کو تملیک پر محمول کریں کہ حضرت عمر (رض) نے ان کو کھجور اور انگور کے پھل کا مالک بنادیا تھا اس محصول کے بدلے جو ان پر لگایا تھا۔ تو اس طرح یہ فعل اس نہی میں داخل ہوجائے گا۔ یعنی کئی سالوں کی بیع اور اس چیز کی بیع جو پاس نہ ہو۔ مگر اس بات کا اس طرح ہونا ناممکن ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ معاملہ اس طرح ہے کہ آپ نے ان کو اس زمین کا مالک بنایا تھا جو پہلے ان کو اجرت پر دی تھی کہ اب یہی زمین ان کی خراجی ملکیت ہوگی (یعنی اس کا خراج ادا کریں گے) اور جو کچھ ان پر واجب ہوا اس کا یہی حکم ہے اور تمام لوگوں نے آپ کے اس فیصلے کو قبول کیا اور آپ نے ان سے جو کچھ لیا تھا اس میں سے جو کچھ آپ نے ان کو واپس دیا وہ انھوں نے قبول کرلیا فلہذا ان کا اس بات کو قبول کرنا ان کی طرف سے آپ کے اس عمل کی اجازت تھی۔ وہ حضرات فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم نے اہل سواد کو ان کی زمینوں کا مالک قرار دیا اور پہلی علت کے مطابق ہم نے ان کو آزاد قرار دیا اور یہ تمام باتیں ان لوگوں کی اجازت سے تھیں جنہوں نے اس زمین کو بطور غنیمت لیا تھا اگر ان کی اجازت نہ ہوتی تو یہ جائز نہ ہوتا اور یہ زمین ان کی ملک رہتی۔ وہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ جو زمین لڑائی کے بغیر فتح کی جائے اس کا حکم یہ ہے کہ اسے بھی دیگر اموال کی طرح تقسیم کیا جائے۔ کہ پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ اور چار حصے فتح کرنے والوں کے ہوں گے۔ امام ان کو روک نہیں سکتا۔ البتہ یہ قوم خوشی سے اس کے چھوڑنے پر رضامند ہوجائیں جیسا کہ سواد کی زمین فتح کرنے والوں نے اس زمین کو فاروق اعظم (رض) کے لیے چھوڑ دیا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ دوسرے لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ اس بات کو ہم جانتے ہیں کہ اگر سواد کی زمین اس طرح ہوتی جس طرح فریق اوّل نے کہا ہے تو اس میں خمس لازم ہوتا۔ جو اللہ تعالیٰ اور ان لوگوں کے درمیان ہوتا جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے قرار دیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ امام کے لیے پانچواں حصہ یا اس میں سے کوئی چیز ذمی لوگوں کو دینا جائز نہیں اور سواد کے جن لوگوں کو حضرت عمر (رض) نے برقرار رکھا وہ ذمی بن چکے تھے اور سواد کا تمام علاقہ ان کے قبضہ میں تھا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عمر (رض) کا یہ عمل اس وجہ سے نہ تھا کہ جو ان حضرات نے ذکر کی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے خمس واجب نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح جو کچھ ان کی گردنوں کے سلسلہ میں کیا تو آپ نے ان پر احسان فرمایا۔ کہ ان کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا اور ان سے غلامی کو اٹھا دیا اور ان کی گردنوں اور زمینوں پر خراج لازم کیا۔ اس طرح وہ اپنی زمینوں کے مالک بن گئے اور ان کی گردنوں سے غلامی کو دور کیا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس زمین کو امام نے لڑائی کے ذریعے فتح کیا وہ اس میں یہ عمل اختیار کرسکتا ہے وہ ان کو مسلمانوں کے غلام ہونے اور ان کی زمینوں کو مسلمانوں کی ملکیت ہونے سے بچا کر ان پر خراج مقرر کرسکتا ہے۔ جس طرح حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں ایسا کیا۔ اس سلسلے میں حضرت عمر (رض) نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے۔ ماافاء اللہ علی رسولہ من اہل القری فللّٰہ وللرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل “ (الحشر۔ ٧) پھر فرمایا ” للفقراء المہاجرین “ (الحشر۔ ٨) پس ان کے ساتھ ان کو داخل کیا پھر فرمایا ” والذین تبوؤ الدار والایمان من قبلہم “ (الحشر۔ ٩) اس سے مراد انصار ہیں پس ان کو ان کے ساتھ داخل کیا۔ پھر فرمایا ” والذین جاؤ من بعدہم “ (الحشر۔ ١٠) اسی طرح ان کے بعد آنے والے تمام مؤمنوں کو بھی اس میں شامل کیا۔ تو امام کو اس بات کا حق ہے اور وہ ان لوگوں کو جن کا اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ذکر فرمایا مناسب خیال کرے ان کو دے۔ جو ہم نے ذکر کیا اس سے امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ثوری (رح) کا قول ثابت ہوگیا اور اسی کو امام ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔