HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5300

۵۲۹۹ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ ، قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَہٗ قَالَ : اجْتَمَعَ رَبِیْعُہُ بْنُ الْحَارِثِ وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَا لَوْ بَعَثْنَا ہٰذَیْنِ الْغُلَامَیْنِ لِیْ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ عَلَی الصَّدَقَۃِ فَأَدَّیَا مَا یُؤَدِّی النَّاسُ وَأَصَابَا مَا یُصِیْبُ النَّاسُ .قَالَ : فَبَیْنَا ہُمَا فِیْ ذٰلِکَ ، جَائَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ وَوَقَفَ عَلَیْہِمَا ، فَذُکِرَ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ عَلِیٌّ لَا تَفْعَلَا ، فَوَاللّٰہِ مَا ہُوَ بِفَاعِلٍ .فَقَالَا : مَا یَمْنَعُک ہَذَا اِلَّا نَفَاسَۃٌ عَلَیْنَا ، فَوَاللّٰہِ لَقَدْ نِلْت صِہْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا نَفِسْنَا عَلَیْکَ .فَقَالَ عَلِیٌّ أَنَا أَبُوْ حَسَنٍ ، أَرْسِلَاہُمَا فَانْطَلَقَا وَاضْطَجَعَ ، فَلَمَّا صَلَّی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ ، سَبَقْنَاہُ اِلَی الْحُجْرَۃِ فَقُمْنَا عِنْدَہَا حَتّٰیْ جَائَ فَأَخَذَ بِآذَانِنَا فَقَالَ أَخْرِجَا مَا تُضْمِرَانِ ثُمَّ دَخَلَ وَدَخَلْنَا عَلَیْہِ، وَہُوَ یَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَیْنَبَ ابْنَۃِ جَحْشٍ فَتَوَاکَلْنَا الْکَلَامَ .ثُمَّ تَکَلَّمَ أَحَدُنَا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَنْتَ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُ النَّاسِ وَبَلَغْنَا النِّکَاحَ ، وَقَدْ جِئْنَاک لِتُؤَمِّرَنَا عَلَی بَعْضِ الصَّدَقَاتِ فَنُؤَدِّیَ اِلَیْکَ کَمَا یُؤَدُّوْنَ ، وَنُصِیْبَ کَمَا یُصِیْبُوْنَ فَسَکَتَ حَتّٰی أَرَدْنَا أَنْ نُکَلِّمَہٗ، وَجَعَلَتْ زَیْنَبُ تَلْمَعُ اِلَیْنَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ : أَنْ لَا تُکَلِّمَاہٗ، فَقَالَ اِنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَنْبَغِیْ لِآلِ مُحَمَّدٍ اِنَّمَا ہِیَ أَوْسَاخُ النَّاسِ ، اُدْعُ اِلَیَّ مَحْمِیَّۃَ - وَکَانَ عَلَی الْخُمُسِ - وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَجَائَ اہُ .فَقَالَ لِمَحْمِیَّۃَ أَنْکِحْ ہٰذَا الْغُلَامَ ابْنَتَک لِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ، فَأَنْکَحَہُ .وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ أَنْکِحْ ہٰذَا الْغُلَامَ فَأَنْکَحَنِی .فَقَالَ لِمَحْمِیَّۃَ أَصْدِقْ عَنْہُمَا مِنَ الْخُمُسِ کَذَا وَکَذَا .أَفَلَا یَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ مَحْمِیَّۃَ أَنْ یُصْدِقَ عَنْہُمَا مِنَ الْخُمُسِ ، وَلَمْ یَقْسِمُ الْخُمُسَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَنْ عَدَدِ بَنِیْ ہَاشِمٍ ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، فَیُعْلَمُ مِقْدَارُ مَا لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ . فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ أَتَی مَا سَمَّی اللّٰہُ لِذَوِی الْقُرْبَی فِی الْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ ذَکَرْنَاہُمَا ، فِیْ صَدْرِ کِتَابِنَا ہٰذَا، لَیْسَ لِقَوْمٍ بِأَعْیَانِہِمْ لِقَرَابَتِہِمْ .لَوْ کَانَ ذٰلِکَ اِذًا ، لَوَجَبَ التَّسْوِیَۃُ فِیْہِ بَیْنَہُمْ ، وَاِذًا لَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْبِسُہٗ فِیْ یَدِ مَحْمِیَّۃَ دُوْنَ أَہْلِہِ حَتّٰی یَضَعَہُ فِیْہِمْ ، کَمَا لَمْ یَحْبِسْ أَرْبَعَۃَ أَخْمَاسِ الْغَنَائِمِ عَنْ أَہْلِہَا وَلَمْ یُوَلِّ عَلَیْہَا حَافِظًا دُوْنَ أَہْلِہَا .فَفِیْ تَوْلِیَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْخُمُسِ مِنَ الْغَنَائِمِ مَنْ یَحْفَظُہُ حَتّٰی یَضَعَہُ فِیْمَنْ یَأْمُرُہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضْعُہٗ، فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ حُکْمَہُ اِلَیْہِ فِیْمَنْ یَرَی فِیْ ذٰوِیْ قُرْبَاہُ وَلَوْ کَانَ لِذَوِی الْقُرْبَیْ حَقٌّ بِعَیْنِہٖ، لَا یَجُوْزُ أَنْ یُصْرَفَ سَہْمٌ عَنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ حَظُّہُ مِنْہُ اِلَی مَنْ سِوَاہٗ، وَاِنْ کَانُوْا أُوْلِیْ قُرْبٰی، لَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْبِسُ حَقًّا لِلْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَلَا لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ وَلَا عَنْ غَیْرِہِمَا ، حَتَّی یُؤَدِّیَ اِلَی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ حَقَّہٗ، وَلَمَا احْتَاجَ الْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَعَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِیْعَۃَ أَنْ یُصَدِّقَ عَنْہُمَا شَیْئًا قَدْ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَہُمَا بِالْآیَۃِ الَّتِیْ ذٰکَرَہُمْ فِیْہَا .فَفِی انْتِفَائِ مَا ذَکَرْنَا ، دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ وَحُجَّۃٌ قَائِمَۃٌ ، أَنَّ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَہُ فِیْ ذٰوِیْ قُرْبَاہُ الَّذِیْنَ جَعَلَہُ فِیْہِمْ ، وَمَا قَدْ کَانَ لَہُ صَرْفُہُ عَنْہُمْ اِلَی ذٰوِیْ قُرْبَاہُ مِثْلُہُمْ ، وَاِنَّ بَعْضَہُمْ لَمْ یَکُنْ أَوْلَی بِہٖ مِنْ بَعْضٍ ، اِلَّا مَنْ رَأَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضْعَہُ فِیْہِ مِنْہُمْ ، فَیَکُوْنُ بِذٰلِکَ أَوْلَی مِمَّنْ رَأَیْ یُحْظِیْہِ بِہٖ مِنْہُمْ .وَفِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا حُجَّۃٌ أُخْرَی وَہِیَ : أَنَّ فَہْدَ بْنَ۔
٥٢٩٩: عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث نے بیان کیا کہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب جمع ہوئے اور باہمی گفتگو کی کہ اگر ہم ان دو بچوں (عبدالمطلب اور فضل) کو صدقہ کی وصولی کے لیے بھیجیں تو جو کچھ لوگ دیتے ہیں یہ بھی دیں اور جو کچھ لوگ حاصل کرتے ہیں یہ بھی حاصل کریں۔ راوی کہتے ہیں وہ دونوں اسی حالت میں تھے کہ حضرت علی (رض) تشریف لے آئے اور ان دونوں کے پاس کھڑے ہوگئے انھوں نے آپ کے سامنے ذکر کیا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہ کریں گے۔ ان دونوں نے کہا تم ہمارے ساتھ حسد کی وجہ سے اس بات سے رک رہے ہو۔ اللہ کی قسم تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دامادی ملی ہم نے تو حسد نہیں کیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا میں ابو حسن ہوں (یعنی حسد نہیں کرتا) پس تم ان دونوں کو بھیج دو ۔ پھر وہ دونوں چلے گئے اور حضرت علی (رض) لیٹ گئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز ادا فرما چکے تو ہم آپ سے پہلے حجرہ مبارکہ میں پہنچ گئے اور وہاں کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے اور آپ نے (شفقت سے) ہم دونوں کے کان پکڑے اور فرمایا جو کچھ تمہارے دل میں ہے ظاہر کرو۔ پھر آپ اندر تشریف لے گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اندر گئے۔ آپ ان دنوں حضرت زینب بنت جحش (رض) کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو بات کرنے کا وکیل بنایا۔ پھر ہم میں سے ایک نے کلام کیا اور کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ نیکی کرنے والے اور سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے ہیں ہم دونوں نکاح کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ ہم آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں بعض صدقات (پر عامل) مقرر فرمائیں تاکہ ہم بھی دوسروں کی طرح آپ تک (وصول شدہ) مال پہنچائیں اور دوسروں کی طرح ہم بھی فائدہ حاصل کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاموشی اختیار فرمائی یہاں تک کہ ہم نے ارادہ کیا کہ آپ سے (دوسری مرتبہ) کلام کریں۔ مگر حضرت زینب (رض) پردہ کے پیچھے سے ہمیں گفتگو نہ کرنے کا اشارہ فرما رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا۔ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے صدقہ حلال نہیں یہ لوگوں کی میل کچیل ہے تم محمیہ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ یہ خمس پر نگران تھے اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بھی بلاؤ۔ جب وہ دونوں آگئے تو آپ نے حضرت محمیہ (رض) کو فرمایا اس لڑکے یعنی فضل بن عباس سے تم اپنی بیٹی کا نکاح کر دو ۔ چنانچہ انھوں نے نکاح کردیا اور نوفل بن حارث کو فرمایا اس لڑکے عبدالمطلب بن ربیعہ سے تم اپنی بیٹی کا نکاح کر دو ۔ تو انھوں نے میرے ساتھ نکاح کردیا۔ پھر حضرت محمیہ سے فرمایا کہ ان دونوں کی طرف سے خمس میں سے اتنا اتنا مہر ادا کر دو ۔ کیا معترض کو یہ معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت محمیہ (رض) کو خمس میں سے دونوں کا مہر ادا کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے بعد بنو ہاشم اور بنو مطلب کی تعداد کے مطابق خمس تقسیم نہیں فرمایا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے کتنی مقدار ہے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں جن کو ہم نے شروع باب میں ذکر کیا ہے۔ قرابتداروں کو جو حصہ بیان فرمایا ہے وہ قرابت کی وجہ سے کسی معین جماعت کے لیے نہیں اگر ایسا ہوتا تو اس صورت میں ان کے درمیان برابری ضروری ہوتی اور اس صورت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اہل بیت سے علیحدہ کر کے حضرت محمیہ (رض) کے پاس نہ رکھتے حتیٰ کہ وہ ان سب کو عطا فرماتے جیسا کہ آپ نے غنیمت کے چار حصے ان کے حقداروں سے نہیں روکے اور ان سے روک کر اس پر کوئی محافظ مقرر نہیں فرمایا۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غنیمت کے خمس پر کسی کو مقرر کرنا پھر آپ کے حکم سے اس کا کسی کو عطاء ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا اختیار آپ کو حاصل تھا کہ قرابت داروں میں سے جس کو مناسب سمجھیں عطاء فرمائیں۔ اگر قرابت داروں کا مقررہ حصہ ہوتا تو آپ کسی قرابت دار کا حصہ دوسرے کو عطاء نہ فرماتے خواہ وہ کتنا ہی قریبی ہو اور آپ یقیناً حضرت فضل بن عباس اور عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور ان کے علاوہ دوسروں کا حق نہ روکتے بلکہ ان میں سے ہر ایک کو اس کا حق دیتے اور اس صورت میں حضرت فضل بن عباس اور عبدالمطلب بن ربیعہ (رض) کو اس بات کی محتاجی نہ ہوتی کہ ان کی طرف سے کوئی چیز بطور مہر ادا کی جائے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ کے ذریعہ ان کا حق واجب قرار دیا۔ ہم نے جو کچھ ذکر کیا یہ اس بات کی نفی پر صحیح اور مضبوط دلیل ہے۔ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو عمل کیا کہ بعض کو عطا فرمایا اور دوسروں کو محروم کردیا حالانکہ ان میں سے بعض دوسروں سے زیادہ قریبی نہ تھے تو اس کی صاف وجہ یہی تھی کہ آپ کو اس بات کا اختیار تھا کہ ان میں سے جس کو چاہیں مقدم کریں اور حصہ عنایت فرمائیں۔ اس سلسلہ کی دوسری دلیل یہ ہے۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ ١٦٧‘ مسند احمد ٤؍١٦٦۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔