HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5413

۵۴۱۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، وَیَأْخُذُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مَا رَضِیَ مِنَ الْبَیْعِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَاخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ تَأْوِیْلِ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا .فَقَالَ قَوْمٌ : ہَذَا عَلَی الِافْتِرَاقِ بِأَقْوَالٍ ، فَاِذَا قَالَ الْبَائِعُ قَدْ بِعْتُ مِنْکَ قَالَ الْمُشْتَرِی قَدْ قَبِلْت فَقَدْ تَفَرَّقَا وَانْقَطَعَ خِیَارُہُمَا .وَقَالُوْا : الَّذِیْ کَانَ لَہُمَا مِنَ الْخِیَارِ ، ہُوَ مَا کَانَ لِلْبَائِعِ أَنْ یُبْطِلَ قَوْلَہُ لِلْمُشْتَرِی قَدْ بِعْتُکَ ہٰذَا الْعَبْدَ بِأَلْفِ دِرْہَمٍ قَبْلَ قَبُوْلِ الْمُشْتَرِی .فَاِذَا قِبَلَ الْمُشْتَرِی ، فَقَدْ تَفَرَّقَ ہُوَ وَالْبَائِعُ ، وَانْقَطَعَ الْخِیَارُ .وَقَالُوْا : ہَذَا کَمَا ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الطَّلَاقِ فَقَالَ وَاِنْ یَتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلًّا مِنْ سَعَتِہِ .فَکَانَ الزَّوْجُ اِذَا قَالَ لِلْمَرْأَۃِ قَدْ طَلَّقْتُکِ عَلٰی کَذَا وَکَذَا فَقَالَتِ الْمَرْأَۃُ قَدْ قَبِلْت فَقَدْ بَانَتْ ، وَتَفَرَّقَا بِذٰلِکَ الْقَوْلِ ، وَاِنْ لَمْ یَتَفَرَّقَا بِأَبْدَانِہِمَا .قَالُوْا : فَکَذٰلِکَ اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ قَدْ بِعْتُک عَبْدِیْ ہٰذَا، بِأَلْفِ دِرْہَمٍ فَقَالَ الْمُشْتَرِی قَدْ قَبِلْتُ فَقَدْ تَفَرَّقَا بِذٰلِکَ الْقَوْلِ ، وَاِنْ لَمْ یَتَفَرَّقَا بِأَبْدَانِہِمَا .وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ ، وَفَسَّرَ ہَذَا التَّفْسِیْرَ ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَقَالَ عِیْسَی بْنُ أَبَانَ : الْفُرْقَۃُ الَّتِیْ تَقْطَعُ الْخِیَارَ الْمَذْکُوْرَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، ہِیَ الْفُرْقَۃُ بِالْأَبْدَانِ ، وَذٰلِکَ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا قَالَ لِلرَّجُلِ قَدْ بِعْتُکَ عَبْدِیْ ہَذَا بِأَلْفِ دِرْہَمٍ فَلِلْمُخَاطَبِ بِذٰلِکَ الْقَوْلِ ، أَنْ یَقْبَلَ ، مَا لَمْ یُفَارِقْ صَاحِبَہٗ، فَاِذَا افْتَرَقَا ، لَمْ یَکُنْ لَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَنْ یَقْبَلَ .قَالَ : وَلَوْلَا أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ جَائَ ، مَا عَلِمْنَا ، مَا یَقْطَعُ مَا لِلْمُخَاطَبِ ، مِنْ قَبُوْلِ الْمُخَاطَبَۃِ الَّتِی خَاطَبَہٗ بِہَا صَاحِبُہٗ، وَأَوْجَبَ لَہُ بِہَا الْبَیْعَ .فَلَمَّا جَائَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، عَلِمْنَا أَنَّ افْتِرَاقَ أَبْدَانِہِمَا بَعْدَ الْمُخَاطَبَۃِ بِالْبَیْعِ ، یَقْطَعُ قَبُوْلَ تِلْکَ الْمُخَاطَبَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ ہَذَا التَّفْسِیْرُ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .قَالَ عِیْسَی : وَہٰذَا أَوْلَی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ تَفْسِیْرُ تَأْوِیْلِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لِأَنَّا رَأَیْنَا الْفُرْقَۃَ الَّتِیْ لَہَا حُکْمٌ فِیْمَا اتَّفَقُوْا عَلَیْہِ، ہِیَ الْفُرْقَۃُ فِی الصَّرْفِ ، فَکَانَتْ تِلْکَ الْفُرْقَۃُ اِنَّمَا یَجِبُ بِہَا فَسَادُ عَقْدٍ مُتَقَدِّمٍ ، وَلَا یَجِبُ بِہَا صَلَاحُہُ .فَکَانَتْ ہٰذِہِ الْفُرْقَۃُ الْمَرْوِیَّۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ خِیَارِ الْمُتَبَایِعَیْنِ ، اِذَا جَعَلْنَاہَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، فَسَدَ بِہَا مَا کَانَ تَقَدَّمَ مِنْ عَقْدِ الْمُخَاطَبِ .وَاِنْ جَعَلْنَاہَا عَلٰی مَا قَالَ الَّذِیْنَ جَعَلُوْا الْفُرْقَۃَ بِالْأَبْدَانِ یَتِمَُ بِہَا الْبَیْعُ ، کَانَتْ بِخِلَافِ فُرْقَۃِ الصَّرْفِ وَلَمْ یَکُنْ لَہَا أَصْلٌ فِیْمَا اتَّفَقُوْا عَلَیْہِ، لِأَنَّ الْفُرْقَۃَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہَا ، اِنَّمَا یَفْسُدُ بِہَا مَا تَقَدَّمَہَا ، اِذَا لَمْ یَکُنْ تَمَّ ، حَتّٰی کَانَتْ .فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَجْعَلَ ہٰذِہِ الْفُرْقَۃَ الْمُخْتَلَفَ فِیْہَا ، کَالْفُرْقَۃِ الْمُتَّفَقِ عَلَیْہَا ، فَیُجْبَرُ بِہَا فَسَادُ مَا قَدْ تَقَدَّمَہَا ، مِمَّا لَمْ یَکُنْ تَمَّ ، حَتّٰی کَانَتْ ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، مَا ذَکَرْنَا .وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہٰذِہِ الْفُرْقَۃُ الْمَذْکُوْرَۃُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ہِیَ عَلَی الْفُرْقَۃِ بِالْأَبْدَانِ ، فَلَا یَتِمُّ الْبَیْعُ ، حَتّٰی تَکُوْنَ ، فَاِذَا کَانَتْ ، تَمَّ الْبَیْعُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِأَنَّ الْخَبَرَ ، أَطْلَقَ ذِکْرَ الْمُتَبَایِعَیْنِ فَقَالَ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا . قَالُوْا : فَہُمَا قَبْلَ الْبَیْعِ مُتَسَاوِمَانِ ، فَاِذَا تَبَایَعَا ، صَارَا مُتَبَایِعَیْنِ ، فَکَانَ اسْمُ الْبَائِعِ ، لَا یَجِبُ لَہُمَا اِلَّا بَعْدَ الْعَقْدِ فَلَمْ یَجِبْ لَہُمَا الْخِیَارُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، بِمَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ اِذَا بَایَعَ رَجُلًا شَیْئًا ، فَأَرَادَ أَنْ لَا یَقْبَلَہٗ، قَامَ فَمَشٰی ، ثُمَّ رَجَعَ .قَالُوْا : وَہُوَ قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلَہُ الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا فَکَانَ ذٰلِکَ - عِنْدَہُ - عَلَی التَّفَرُّقِ بِالْأَبْدَانِ ، وَعَلٰی أَنَّ الْبَیْعَ یَتِمُّ بِذٰلِکَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا ، عَلٰی أَنَّ مُرَادَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِحَدِیْثِ أَبِیْ بَرْزَۃَ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ، فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، وَبِقَوْلِہٖ لِلرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ اخْتَصَمَا اِلَیْہِ مَا أَرَاکُمَا تَفَرَّقْتُمَا فَکَانَ ذٰلِکَ التَّفَرُّقُ عِنْدَہُ ہُوَ التَّفَرُّقَ بِالْأَبْدَانِ ، وَلَمْ یَتِمَّ الْبَیْعُ عِنْدَہٗ، قَبْلَ ذٰلِکَ التَّفَرُّقِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ - عِنْدَنَا - عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، لِأَہْلِ الْمَقَالَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ ، أَنَّ مَا ذَکَرُوْا مِنْ قَوْلِہِمْ لَا یَکُوْنَانِ مُتَبَایِعَیْنِ اِلَّا بَعْدَ أَنْ یَتَعَاقَدَا الْبَیْعَ ، وَہُمَا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتَسَاوِمَانِ غَیْرُ مُتَبَایِعَیْنِ فَذٰلِکَ اِغْفَالٌ مِنْہُمْ لِسَعَۃِ اللُّغَۃِ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَا سُمِّیَا مُتَبَایِعَیْنِ ، لِقُرْبِہِمَا مِنَ التَّبَایُعِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا تَبَایَعَا ، وَہٰذَا مَوْجُوْدٌ فِی اللُّغَۃِ قَدْ سُمِّیَ اِسْحَاقُ أَوْ اِسْمَاعِیْلُ عَلَیْہِمَا السَّلَامُ ، ذَبِیْحًا لِقُرْبِہٖ مِنَ الذَّبْحِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ ذُبِحَ .فَکَذٰلِکَ یُطْلَقُ عَلَی الْمُتَسَاوِمَیْنِ ، اسْمُ الْمُتَبَایِعَیْنِ ، اِذَا قَرُبَا مِنَ الْبَیْعِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا تَبَایَعَا .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَسُوْمُ الرَّجُلُ عَلٰی سَوْمِ أَخِیْہِ وَقَالَ لَا یَبِیْعُ الرَّجُلُ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ وَمَعْنَاہُمَا وَاحِدٌ .فَلَمَّا سَمَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الْمُسَاوِمَ الَّذِیْ قَدْ قَرُبَ مِنَ الْبَیْعِ ، مُتَبَایِعًا ، وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ قَبْلَ عَقْدِہِ الْبَیْعَ ، احْتَمَلَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ الْمُتَسَاوِمَانِ ، سَمَّاہُمَا مُتَبَایِعَیْنِ ، لِقُرْبِہِمَا مِنَ الْبَیْعِ ، وَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا عَقَدَا عُقْدَۃَ الْبَیْعِ ، فَہٰذِہِ مُعَارَضَۃٌ صَحِیْحَۃٌ .وَأَمَّا مَا ذَکَرُوْا ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، مِنْ فِعْلِہِ الَّذِی اسْتَدَلُّوْا بِہٖ ، عَلَی مُرَادِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْفُرْقَۃِ ، فَاِنَّ ذٰلِکَ قَدْ یَحْتَمِلُ - عِنْدَنَا - مَا قَالُوْا ، وَیَحْتَمِلُ غَیْرَ ذٰلِکَ .قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، أَشْکَلَتْ عَلَیْہِ تِلْکَ الْفُرْقَۃُ ، الَّتِیْ سَمِعَہَا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا ہِیَ ؟ فَاحْتَمَلَتْ - عِنْدَہُ - الْفُرْقَۃَ بِالْأَبْدَانِ ، عَلٰی مَا ذَکَرَہُ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ .وَاحْتَمَلَتْ - عِنْدَہُ - الْفُرْقَۃَ بِالْأَبْدَانِ عَلٰی مَا ذَکَرَہُ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، الَّتِیْ ذٰہَبَ اِلَیْہَا عِیْسَی .وَاحْتَمَلَتْ - عِنْدَہُ - الْفُرْقَۃَ بِالْأَقْوَالِ ، عَلٰی مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ الْآخَرُوْنَ ، وَلَمْ یَحْضُرْہُ دَلِیْلٌ یَدُلُّہُ أَنَّہٗ بِأَحَدِہَا أَوْلَی مِنْہُ بِمَا سِوَاہُ مِنْہَا ، فَفَارَقَ بَائِعَہُ بِبَدَنِہٖ، احْتِیَاطًا .وَیُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ فَعَلَ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ بَعْضَ النَّاسِ ، یَرَی أَنَّ الْبَیْعَ لَا یَتِمُّ اِلَّا بِذٰلِکَ ، وَہُوَ یَرَی أَنَّ الْبَیْعَ یَتِمُّ بِغَیْرِہٖ۔ فَأَرَادَ أَنْ یَتِمَّ الْبَیْعُ فِیْ قَوْلِہٖ وَقَوْلِ مُخَالِفِہٖ، حَتّٰی لَا یَکُوْنَ لِبَائِعِہِ نَقْضُ الْبَیْعِ عَلَیْہِ، فِیْ قَوْلِہٖ ، وَلَا فِیْ قَوْلِ مُخَالِفِہٖ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ، مَا یَدُلُّ أَنَّ رَأْیَہٗ فِی الْفُرْقَۃِ ، کَانَ بِخِلَافِ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مَنْ ذَہَبَ ، اِلٰی أَنَّ الْبَیْعَ یَتِمُّ بِہَا .
٥٤١٢: حسن نے سمرہ بن جندب (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ وہ دونوں جدا نہ ہوں اور ہر ایک ان میں سے اس بیع کو اختیار کرے جس کو وہ پسند کرتا ہو۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : لوگوں نے البیعان بالخیار مالم یتفرقا کی تاویل میں اختلاف کیا ہے۔ اس سے مراد اقوال میں جدائی ہے جب مالک نے کہا میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی خریدار نے کہا میں نے قبول کرلی اب گویا دونوں جدا ہوگئے اور ان کا اختیار جاتا رہا۔ چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں ان کو جو اختیار حاصل تھا وہ یہی تھا جو بائع کے لیے ہوتا ہے کہ وہ مشتری کو کہتا ہے میں نے تمہیں یہ غلام ایک ہزار کے بدلے فروخت کیا یہ بات مشتری کے قبول کرنے سے پہلے تک ہوتی ہے اگر خریدار نے قبول کرلیا تو گویا اس میں اور فروخت کرنے والے میں جدائی ہوگئی اور خیار جاتا رہا۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعتہ (النساء ١٣٠) کہ اگر میاں بیوی علیحدگی اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دوسرے سے اپنی وسعت کے ساتھ مستغنی کر دے گا۔ تو خاوند نے جب عورت کو کہہ دیا قد طلقتک علی کذا وکذا عورت نے اس کے جواب میں قد قبلت کہہ دیا تو وہ عورت بائنہ ہوگئی اس بات کے کرتے ہی وہ جدا ہوجائیں گے اگرچہ وہ ابدان سے الگ نہ بھی ہوئے ہوں۔ اسی طرح جب ایک آدمی دوسرے کو کہتا ہے قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم اس کے جواب میں خریدار نے کہا قد قبلت مجھے قبول ہے تو یہ بات کہتے ہی وہ جدا ہوگئے (کیونکہ ان کی بات سابقہ مکمل ہو کر ختم ہوگئی) اگرچہ وہ ابدان کے لحاظ سے الگ نہ ہوئے ہوں۔ یہ امام محمد (رح) کا قول ہے۔ انھوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے۔ عیسیٰ بن ابان کا کہنا ہے کہ اس اثر میں جدائی سے مراد ابدان کا جدا ہونا ہے جیسے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو کہا قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم “ اب خریدار کو اپنے ساتھی سے جدا ہونے سے پہلے تک قبول و عدم قبول کا اختیا رہے جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تو پھر وہ قبولیت معتبر شمار نہ ہوگی۔ دلیل یہ ہے کہ اگر یہ ارشاد نبوت وارد نہ ہوتا تو ہمیں معلوم نہ ہوسکتا کہ مخاطب کو جو بات کہی گئی ہے وہ کب منقطع ہوئی اور بیع کب لازم ہوئی۔ جب یہ روایت آگئی تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ خطاب بیع کے بعد جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تو خطاب کی قبولیت منقطع ہوگئی (بعد میں ہاں نہ معتبر نہیں) یہی تفسیر امام ابو یوسف (رح) سے بھی مروی ہے۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ اس روایت کی جتنی تفاسیر کی گئی ہیں ان میں سب سے بہتر یہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس جدائی پر سب کا اتفاق ہے وہ بیع صرف کی صورت میں (قبضہ کرلینے کے بغیر ) جدا ہوجانا ہے اس جدائی سے وہ عقد (سودا) فاسد ہوجاتا ہے جو کہ پہلے سے موجود تھا اس سے عقد کی درستگی لازم نہیں آتی۔ (بیع صرف سونے چاندی کی بیع کو کہتے ہیں) حاصل یہ ہے کہ یہ جدائی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بائع و مشتری کے خیار کے سلسلہ میں مروی ہے۔ جب ہم نے اس کو اس معنی پر محمول کیا تو اس سے مخاطب کا سابقہ معاہدہ فاسد ہوگیا اور اگر ہم امام ابو یوسف (رح) والے قول کے مطابق ابدان میں جدائی کو لازم قرار دیں تو یہ بیع مکمل ہوگئی مگر یہ بیع صرف کی جدائی کے مخالف ٹھہری اور جس پر ان کا اتفاق ہے اس میں اس کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی اس کی دلیل یہ ہے کہ متفق علیہ جدائی یہ ہے کہ وہ بیع کی تکمیل سے پہلے ہوتی ہے یعنی ابھی سے بیع مکمل نہیں ہوتی بلکہ وہ جدا ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔ پس زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ہم اس اختلافی جدائی کو متفق علیہ جدائی کی طرح قرار دیں۔ اس سے اس فساد کا ازالہ ہوجائے اور وہ بیع کا فساد ہے۔ جو کہ ابھی پوری نہ ہوئی تھی یہاں تک کہ جدائی ہوئی اس سے ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی۔” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ اس روایت میں جس فرقت کا تذکرہ ہے اس سے جسمانی علیحدگی مراد ہے پس جب تک یہ وقوع میں نہ آئے اس وقت تک سودا مکمل نہ ہوگا جب یہ پائی جائے گی تو بیع مکمل ہوجائے گی۔ اس روایت میں بائع و مشتری کا مطلق ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والے کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ تو سودا کرنے سے پہلے تو وہ بھاؤ لگانے والے تھے جب سودا کرلیتے ہیں تب بائع و مشتری بنتے ہیں پس ان پر بائع و مشتری کا لفظ عقد کے بعد بولا جاتا ہے پس ان کے لیے خیار لازم نہ ہوا۔ (کیونکہ وہ بھی بائع و مشتری نہیں بنے) اس کی دلیل حضرت ابن عمر (رض) کی یہ روایت ہے کہ جب آپ کسی سے سودا کرتے اور واپس کرنا نہ چاہتے تو کھڑے ہوجاتے کچھ دور جاتے اور پھر واپس لوٹ آئے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول سن رکھا تھا ” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ پس ان کے ہاں اس کا مطلب جسمانی جدائی تھا اور وہ اس سے بیع کو مکمل سمجھتے تھے پس ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد جسمانی جدائی ہے۔ دوسری دلیل حضرت ابو برزہ (رض) کی روایت ہے جو شروع باب میں مذکور ہوئی کہ دونوں مقدمہ لانے والوں کو آنے فرمایا میرے خیال میں تم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہو۔ (پس آپ نے فیصلہ بائع کے حق میں کردیا) اس سے ثابت ہوا کہ ان کے ہاں بھی جسمانی جدائی مراد ہے اور اس جدائی کے عدم وقوع کی صورت میں بیع تام نہ ہوگی۔ یہ کہنا کہ عقد بیع کے بعد وہ بائع و مشتری بنتے ہیں۔۔۔ ان کو بائع و مشتری کہنا لغت کے توسع کے اعتبار سے ہے اور یہ اطلاق فروخت و خرید کے قریب والوں پر بولا جاسکتا ہے خواہ سودا نہ کیا ہو مثلاً اسحاق یا اسماعیل کو ذبیح کہنا قرب کی وجہ سے ہے اگرچہ وہ ذبح نہ ہوئے تھے بالکل اسی طرح بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری کہہ دینا جبکہ وہ بیع کے قریب ہوں اگرچہ بیع نہ کی ہو درست ہے۔ (حدیث میں یہ اطلاق ملاحظہ ہو) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ لگائے اور نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں لایسوم ‘ لایبیع۔ اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودا کرنے والے کو سودے کے قرب کی وجہ سے خریدو فروخت کرنے والا قرار دیا اگرچہ یہ بات عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری قرار دیا گیا ہو۔ اگرچہ اس نے عقد بیع نہ کیا ہو۔ یہ خوب جواب ہے۔ روایت ابن عمر (رض) میں جہاں تمہارا احتمال ہے تو ایک اور احتمال بھی موجود ہے وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ابن عمر (رض) پر جدائی کا مفہوم مشتبہہ ہوگیا ہو جس کو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وہ جسمانی فرقت مراد ہو جو قول ثانی میں عیسیٰ بن ابان نے مراد لی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گفتگو سے جدائی مراد لیتے ہوں جیسا کہ قول اوّل کے قائلین کہتے ہیں اور ان تمام احتمالات میں عدم تعیین کی وجہ سے انھوں نے جسمانی فرقت کو احتیاطاً اختیار فرما لیا ہو اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے یہ عمل اس لیے کیا ہو کہ مخاطب اس کا قائل ہو۔ تو اس کے نزدیک بھی عقد کی تکمیل کرنے کے لیے قولی انقطاع اور جسمانی فرقت کو اختیار کیا ہو۔ تاکہ کسی کے مطابق توڑنے کا حق باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے ایسی روایت پائی جاتی ہے جو فرقت کے سلسلہ میں آپ کی رائے کو ظاہر کرتی ہے اور وہ فرقت جسمانی سے بیع کی تکمیل کے قائلین کے خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : لوگوں نے البیعان بالخیار مالک یتفرقا کی تاویل میں اختلاف کیا ہے۔
امام محمد (رح) کا قول : اس سے مراد اقوال میں جدائی ہے جب مالک نے کہا میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی خریدار نے کہا میں نے قبول کرلی اب گویا دونوں جدا ہوگئے اور ان کا اختیار جاتا رہا۔
دلیل
نمبر 1: وہ یہ کہتے ہیں ان کو جو اختیار حاصل تھا وہ یہی تھا جو بائع کے لیے ہوتا ہے کہ وہ مشتری کو کہتا ہے میں نے تمہیں یہ غلام ایک ہزار کے بدلے فروخت کیا یہ بات مشتری کے قبول کرنے سے پہلے تک ہوتی ہے اگر خریدار نے قبول کرلیا تو گویا اس میں اور فروخت کرنے والے میں جدائی ہوتی ہے اگر خریدار نے قبول کرلیا تو گویا اس میں اور فروخت کرنے والے میں جدائی ہوگئی اور خیار جاتا رہا۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ان یتفرقا یغن اللہ کلا من سبعتہ (النساء ١٣٠) کہ اگر میاں بیوی علیحدگی اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک دوسرے سے اپنی وسعت کے ساتھ مستغنی کر دے گا۔
تو خاوند نے جب عورت کو کہہ دیا قد طلقتک علی کذا وکذا عورت نے اس کے جواب میں قد قبلت کہہ دیا تو وہ عورت بائنہ ہوگئی اس بات کے کرتے ہی وہ جدا ہوجائیں گے اگرچہ وہ ابدان سے الگ نہ بھی ہوئے ہوں۔
دلیل
نمبر 2: اسی طرح جب ایک آدمی دوسرے کو کہتا ہے قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم اس کے جواب میں خریدار نے کہا قد قبلت مجھے قبول ہے تو یہ بات کہتے ہی وہ جدا ہوگئے (کیونکہ ان کی بات سابقہ مکمل ہو کر ختم ہوگئی) اگرچہ وہ ابدان کے لحاظ سے الگ نہ ہوئے ہوں۔ یہ امام محمد (رح) کا قول ہے۔ انھوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے۔

نمبر 2: عیسیٰ بن ابان کا قول : اس اثر میں جدائی سے مراد ابدان کا جدا ہونا ہے جیسے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو کہا قد بعتک عبدی ہذا بالف درہم “ اب خریدار کو اپنے ساتھی سے جدا ہونے سے پہلے تک قبول و عدم قبول کا اختیا رہے جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تو پھر وہ قبولیت معتبر شمار نہ ہوگی۔
دلیل یہ ہے کہ اگر یہ ارشاد نبوت وارد نہ ہوتا تو ہمیں معلوم نہ ہوسکتا کہ مخاطب کو جو بات کہی گئی ہے وہ کب منقطع ہوئی اور بیع کب لازم ہوئی۔ جب یہ روایت آگئی تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ خطاب بیع کے بعد جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تو خطاب کی قبولیت منقطع ہوگئی (بعد میں ہاں نہ معتبر نہیں) یہی تفسیر امام ابو یوسف (رح) سے بھی مروی ہے۔
عیسیٰ کہتے ہیں کہ اس روایت کی جتنی تفاسیر کی گئی ہیں ان میں سب سے بہتر یہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس جدائی پر سب کا اتفاق ہے وہ بیع صرف کی صورت میں (قبضہ کرلینے کے بغیر ) جدا ہوجانا ہے اس جدائی سے وہ عقد (سودا) فاسد ہوجاتا ہے جو کہ پہلے سے موجود تھا اس سے عقد کی درستگی لازم نہیں آتی۔ (بیع صرف سونے چاندی کی بیع کو کہتے ہیں)
حاصل : یہ جدائی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بائع و مشتری کے خمار کے سلسلہ میں مروی ہے۔

نمبر 1: جب ہم نے اس کو اس معنی پر محمول کیا تو اس سے مخاطب کا سابقہ معاہدہ فاسد ہوگیا۔

نمبر 2: اور اگر ہم امام ابو یوسف (رح) والے قول کے مطابق ابدان میں جدائی کو لازم قرار دیں تو یہ بیع مکمل ہوگئی مگر یہ بیع صرف کی جدائی کے مخالف ٹھہری اور جس پر ان کا اتفاق ہے اس میں اس کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی اس کی دلیل یہ ہے کہ متفق علیہ جدائی یہ ہے کہ وہ بیع کی تکمیل سے پہلے ہوتی ہے یعنی ابھی سے بیع مکمل نہیں ہوتی بلکہ وہ جدا ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔
پس زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ہم اس اختلافی جدائی کو متفق علیہ جدائی کی طرح قرار دیں۔ اس سے اس فساد کا ازالہ ہوجائے اور وہ بیع کا فساد ہے۔ جو کہ ابھی پوری نہ ہوتی تھی یہاں تک کہ جدائی ہوئی اس سے ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی۔
بیع فرقت بالابدان کے قائلین اور ان کے دلائل :
” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ اس روایت میں جس فرقت کا تذکرہ ہے اس سے جسمانی علیحدگی مراد ہے پس جب تک یہ وقوع میں نہ آئے اس وقت تک سودا مکمل نہ ہوگا جب یہ پائی جائے گی تو بیع مکمل ہوجائے گی۔
دلیل
نمبر 1: اس روایت میں بائع و مشتری کا مطلق ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والے کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ تو سودا کرنے سے پہلے تو وہ بھاؤ لگانے والے تھے جب سودا کرلیتے ہیں تب بائع و مشتری بنتے ہیں پس ان پر بائع کا لفظ عقد کے بعد بولا جاتا ہے پس ان کے لیے خیار لازم نہ ہوا۔ (کیونکہ وہ ابھی بائع و مشتری نہیں بنے)
اس کی دلیل حضرت ابن عمر (رض) کی یہ روایت ہے کہ جب آپ کسی سے سودا کرتے اور واپس کرنا نہ چاہتے تو کھڑے ہوجاتے کچھ دور جاتے اور پھر واپس لوٹ آتے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول سن رکھا تھا ” البیعان بالخیار مالم یتفرقا “ پس ان کے ہاں اس کا مطلب جسمانی جدائی تھا اور وہ اس سے بیع کو مکمل سمجھتے تھے پس ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد جسمانی جدائی ہے۔
دلیل
نمبر 2: دوسری دلیل حضرت ابو برزہ (رض) کی روایت ہے جو شروع باب میں مذکور ہوئی کہ دونوں مقدمہ لانے والوں کو انھوں نے فرمایا میرے خیال میں تم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہو۔ (پس آپ نے فیصلہ بائع کے حق میں کردیا) اس سے ثابت ہوا کہ ان کے ہاں بھی جسمانی جدائی مراد ہے اور اس جدائی کے عدم وقوع کی صورت میں بیع تام نہ ہوگی۔
پہلے دو اقوال کے قائلین کی طرف سے ان قول والوں کا جواب :

نمبر 1: یہ کہنا کہ عقد بیع کے بعد وہ بائع و مشتری بنتے ہیں۔۔۔ ان کو بائع و مشتری کہنا لغت کے توسع کے اعتبار سے ہے اور یہ اطلاق فروخت و خرید کے قریب والوں پر بولا جاسکتا ہے خواہ سودا نہ کیا ہو مثلاً اسحاق یا اسماعیل کو ذبیعح کہنا قرب کی وجہ سے ہے اگرچہ وہ ذبح نہ ہوئے تھے بالکل اسی طرح بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری کہہ دینا جبکہ وہ بیع کے قریب ہوں اگرچہ بیع نہ کی ہو درست ہے۔ (حدیث میں یہ اطلاق ملاحظہ ہو) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ لگائے اور نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں لایسوم ‘ لایبیع۔
حاصل : اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودا کرنے والے کو سودے کے قرب کی وجہ سے خریدو فروخت کرنے والا قرار دیا اگرچہ یہ بات عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ عقد بیع سے پہلے کی ہے تو اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ بھاؤ لگانے والے کو بائع و مشتری قرار دیا گیا ہو۔ اگرچہ اس نے عقد بیع نہ کیا ہو۔ یہ خوب جواب ہے۔
روایت ابن عمر (رض) کا جواب : روایت ابن عمر (رض) میں جہاں تمہارا احتمال ہے تو ایک اور احتمال بھی موجود ہے وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ابن عمر (رض) پر جدائی کا مفہوم مشتبہ ہوگیا ہو جس کو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وہ جسمانی فرقت مراد ہو جو قول ثانی میں عیسیٰ بن ابان نے مراد لی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گفتگو سے جدائی مراد لیتے ہوں جیسا کہ قول اوّل کے قائلین کہتے ہیں اور ان تمام احتمالات میں عدم تعیین کی وجہ سے انھوں نے جسمانی فرقت کو احتیاطاً اختیار فرما لیا ہو۔
اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے یہ عمل اس لیے کیا ہو کہ مخاطب اس کا قائل ہو۔ تو اس کے نزدیک بھی عقد کی تکمیل کرنے کے لیے قولی انقطاع اور جسمانی فرقت کو اختیار کیا ہو۔ تاکہ کسی کے مطابق توڑنے کا حق باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے ایسی روایت پائی جاتی ہے جو فرقت کے سلسلہ میں آپ کی رائے کو ظاہر کرتی ہے اور وہ فرقت جسمانی سے بیع کی تکمیل کے قائلین کے خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔