HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5480

۵۴۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : ثُمَّ قَالَ الْوَسْقِ وَالْوَسْقَیْنِ وَالثَّلَاثَۃِ وَالْأَرْبَعَۃِ وَلَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہُ فِیْ کُلِّ عَشَرَۃٍ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَقَدْ جَائَ تْ ہٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَوَاتَرَتْ فِی الرُّخْصَۃِ فِیْ بَیْعِ الْعَرَایَا وَقَبِلَہَا أَہْلُ الْعِلْمِ جَمِیْعًا ، وَلَمْ یَخْتَلِفُوْا فِیْ صِحَّۃِ مَجِیْئِہَا ، وَتَنَازَعُوْا فِیْ تَأْوِیْلِہَا .فَقَالَ قَوْمٌ : الْعَرَایَا أَنَّ الرَّجُلَ یَکُوْنُ لَہُ النَّخْلَۃُ وَالنَّخْلَتَانِ ، فِیْ وَسَطِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ ، لِرَجُلٍ آخَرَ .قَالُوْا : وَقَدْ کَانَ أَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ ، اِذَا کَانَ وَقْتُ الثِّمَارِ ، خَرَجُوْا بِأَہْلِیْہِمْ اِلَیْ حَوَائِطِہِمْ ، فَیَجِیْئُ صَاحِبُ النَّخْلَۃِ أَوْ النَّخْلَتَیْنِ بِأَہْلِہٖ ، فَیَضُرُّ ذٰلِکَ بِأَہْلِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ .فَرَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ أَنْ یُعْطِیَ صَاحِبَ النَّخْلَۃِ أَوْ النَّخْلَتَیْنِ خَرْصَ مَا لَہٗ مِنْ ذٰلِکَ ، تَمْرًا ، لِیَنْصَرِفَ ہُوَ وَأَہْلُہٗ عَنْہُ، وَیَخْلُصَ تَمْرُ الْحَائِطِ کُلُّہُ لِصَاحِبِ النَّخْلِ الْکَثِیْرِ ، فَیَکُوْنُ فِیْہِ ہُوَ وَأَہْلُہُ .وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْقَوْلُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَکَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ - رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ - فِیْمَا سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ ، یَذْکُرُ أَنَّہٗ سَمِعَہُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِمَاعَۃَ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ قَالَ - مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَنَا - أَنَّ یُعْرِیَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ ثَمَرَ نَخْلَۃٍ مِنْ نَخْلِہِ فَلَا یُسْلِمُ ذٰلِکَ اِلَیْہِ حَتّٰی یَبْدُوَ لَہٗ، فَرَخَّصَ لَہٗ أَنْ یَحْبِسَ ذٰلِکَ ، وَیُعْطِیَہُ مَکَانَہٗ، خَرْصَہُ تَمْرًا .وَکَانَ ہَذَا التَّأْوِیْلُ أَشْبَہَ وَأَوْلَی ، مِمَّا قَالَ مَالِکٌ ، لِأَنَّ الْعَرِیَّۃَ اِنَّمَا ہِیَ الْعَطِیَّۃُ .أَلَا یَرَیْ اِلَی الَّذِیْ مَدَحَ الْأَنْصَارَ کَیْفَ مَدَحَہُمْ ، اِذْ یَقُوْلُ : لَیْسَتْ بِسَنْہَائٍ وَلَا رُجَّبِیَّۃٍ وَلٰـکِنْ عَرَایَا فِی السِّنِیْنَ الْجَوَائِحِ أَیْ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُعْرُوْنَہَا فِی السِّنِیْنَ الْجَوَائِحِ .فَلَوْ کَانَتِ الْعَرِیَّۃُ کَمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مَالِکٌ ، اِذًا لَمَا کَانُوْا مَمْدُوْحِیْنَ بِہَا ، اِذْ کَانُوْا یُعْطُوْنَ کَمَا یُعْطُوْنَ ، وَلَکِنِ الْعَرِیَّۃُ بِخِلَافِ مَا قَالَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ ذَکَرْتُ فِیْ حَدِیْثِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ ، وَرَخَّصَ فِی الْعَرَایَا ، فَصَارَتِ الْعَرَایَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا ہِیَ بَیْعُ ثَمَرٍ بِتَمْرٍ ، قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ فِی الْحَدِیْثِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ ، اِنَّمَا فِیْہِ ذِکْرُ الرُّخْصَۃِ فِی الْعَرَایَا ، مَعَ ذِکْرِ النَّہْیِ عَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ ، وَقَدْ یُقْرَنُ الشَّیْئُ بِالشَّیْئِ وَحُکْمُہُمَا مُخْتَلِفٌ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ ذَکَرَ التَّوْقِیْفَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَلَی خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، وَفِی ذِکْرِہِ ذٰلِکَ ، مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ حُکْمُ مَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ ، کَحُکْمِہٖ۔ قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْہِ مَا یَنْفِیْ شَیْئًا مِمَّا ذَکَرْتُ ، وَاِنَّمَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، لَوْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَکُوْنُ الْعَرِیَّۃُ اِلَّا فِیْ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، أَوْ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ .فَاِذَا کَانَ الْحَدِیْثُ اِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرَایَا فِیْ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، أَوْ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ ، فَذٰلِکَ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیْہِ لِقَوْمٍ فِیْ عَرِیَّۃٍ لَہُمْ ہَذَا مِقْدَارُہَا .فَنَقَلَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ذٰلِکَ ، وَأَخْبَرَ بِالرُّخْصَۃِ فِیْمَا کَانَتْ ، وَلَا یَنْفِیْ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ تِلْکَ الرُّخْصَۃُ جَارِیَۃً فِیْمَا ہُوَ أَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ حَدِیْثِ عُمَرَ وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِلَّا أَنَّہٗ رَخَّصَ فِی الْعَرَایَا فَصَارَ ذٰلِکَ مُسْتَثْنًی مِنْ بَیْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ بَیْعُ ثَمَرٍ بِتَمْرٍ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَصَدَ بِذٰلِکَ اِلَی الْمُعْرَی لَہٗ فَرَخَّصَ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ تَمْرًا ، بَدَلًا مِنْ تَمْرٍ فِیْ رُئُوْسِ النَّخْلِ ؛ لِأَنَّہٗ یَکُوْنُ بِذٰلِکَ ، فِیْ مَعْنَی الْبَائِعِ ، وَذٰلِکَ لَہُ حَلَالٌ ، فَیَکُوْنُ الْاِسْتِثْنَائُ لِہٰذِہِ الْعِلَّۃِ .وَفِیْ حَدِیْثِ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ اِلَّا أَنَّہٗ رَخَّصَ فِیْ بَیْعِ الْعَرِیَّۃِ ، بِخَرْصِہَا تَمْرًا یَأْکُلُہَا أَہْلُہَا رُطَبًا فَقَدْ ذَکَرَ لِلْعَرِیَّۃِ أَہْلًا ، وَجَعَلَہُمْ یَأْکُلُوْنَہَا رُطَبًا ، وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ اِلَّا وَمَلَکَہَا الَّذِیْنَ عَادَتْ اِلَیْہِمْ بِالْبَدَلِ الَّذِی أُخِذَ مِنْہُمْ ، فَذٰلِکَ یُثْبِتُ قَوْلَ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : لَوْ کَانَ تَأْوِیْلُ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ لَمَا کَانَ لِذِکْرِ الرُّخْصَۃِ فِیْہَا مَعْنًی .قِیْلَ لَہٗ : بَلْ لَہُ مَعْنًی صَحِیْحٌ ، وَلٰـکِنْ قَدْ اخْتَلَفَ فِیْہِ مَا ہُوَ .فَقَالَ عِیْسَی بْنُ أَبَانَ : مَعْنَی الرُّخْصَۃِ فِیْ ذٰلِکَ ، أَنَّ الْأَمْوَالَ کُلَّہَا ، لَا یَمْلِکُ بِہَا اِبْدَالًا ، اِلَّا مَنْ کَانَ مَالِکَہَا ، لَا یَبِیْعُ رَجُلٌ مَا لَا یَمْلِکُ بِبَدَلِہٖ ، فَیَمْلِکُ ذٰلِکَ الْبَدَلَ .وَاِنَّمَا یَمْلِکُ ذٰلِکَ الْبَدَلَ اِذَا مَلَکَہٗ، بِصِحَّۃِ مِلْکِہِ لِلشَّیْئِ الَّذِیْ ہُوَ بَدَلٌ مِنْہُ .قَالَ : فَالْمُعْرَی ، لَمْ یَکُنْ مَلَکَ الْعَرِیَّۃَ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ قَبَضَہَا ، وَالتَّمْرُ الَّذِیْ یَأْخُذُہُ بَدَلًا مِنْہَا ، قَدْ جُعِلَ طَیِّبًا لَہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَہُوَ بَدَلٌ مِنْ رُطَبٍ لَمْ یَکُنْ مَلَکَہُ .قَالَ : فَہٰذَا ہُوَ الَّذِیْ قَصَدَ بِالرُّخْصَۃِ اِلَیْہِ .وَقَالَ غَیْرُہٗ، الرُّخْصَۃُ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أَعْرَی الرَّجُلَ الشَّیْئَ مِنْ ثَمَرِہٖ، وَقَدْ وَعَدَہُ أَنْ یُسَلِّمَہُ اِلَیْہِ لِیَمْلِکَہُ الْمُسَلَّمُ اِلَیْہِ بِقَبْضِہِ اِیَّاہٗ، وَعَلَی الرَّجُلِ فِیْ دِیْنِہِ أَنْ یَفِیَ بِوَعْدِہٖ، وَاِنْ کَانَ غَیْرَ مَأْخُوْذٍ بِہٖ فِی الْحُکْمِ ، فَرَخَّصَ لِلْمُعْرِی أَنْ یَحْتَبِسَ مَا أَعْرَی ، بِأَنْ یُعْطِیَ الْمُعْرَی خَرْصَہُ تَمْرًا ، بَدَلًا مِنْہٗ، مِنْ غَیْر أَنْ یَکُوْنَ آثِمًا ، وَلَا فِیْ حُکْم مِنْ اخْتَلَفَ مَوْعِدًا ، فَہٰذَا مَوْضِع الرُّخْصَۃ .وَہٰذَا التَّأْوِیْل الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃ ، رَحْمَۃ اللّٰہ عَلَیْہِ، أَوْلَی مِمَّا حُمِلَ عَلَیْہِ وَجْہُ ہٰذَا الْحَدِیْث ، لِأَنَّ الْآثَار قَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرَۃ ، بِالنَّہْیِ عَنْ بَیْع الثَّمَر بِالتَّمْرِ .فَمِنْہَا مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّل ہَذَا .وَمِنْہَا
٥٤٧٩ : ابن اسحق نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ‘ البتہ اس نے یہ لفظ نقل کیے ہیں : ” الوسق والوسقین والثلاثہ والاربعۃ “ اس نے ” فی کل عشر “ ذکر نہیں کیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بیع عرایا کی اجازت کے سلسلہ میں متواتر آثار وارد ہیں تمام اہل علم نے ان کو قبول کیا ہے ان کی صحت میں کسی کو کلام نہیں البتہ عرایا کی تعریف میں اختلاف ہے۔ عرایا یہ ہے کہ کسی کے نخلستان کے درمیان دو یا ایک کھجور ہو ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اہل مدینہ پھلوں کے موسم میں اپنے گھر والوں کو باغات میں لے جاتے ایک یا دو درختوں کا مالک اپنے گھر والوں کے ساتھ آتا اس طرح زیادہ درختوں کے مالک کو تکلیف پہنچتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیادہ درختوں والے کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ ایک یا دو درختوں کے مالک کو اس کی کھجوروں کے اندازے پر خشک کھجوریں دے دے تاکہ اس کے اہل خانہ واپس لوٹ جائیں اور باغ کی تمام کھجوریں زیادہ کھجوروں کے مالک کے لیے خاص ہوجائیں اور اب ان میں صرف اس کا اور اس کے اہل خانہ کا حق رہ جائے۔ یہ قول امام مالک بن انس (رح) کا ہے۔ امام ابو یوسف (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کیا کہ ہمارے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو اپنے درخت کا پھل بطور عطیہ دے اور پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس کے حوالے نہ کرے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ اس عطیہ کو روک کر اس کی جگہ اندازہ کر کے کھجوریں دے دے یہ قول امام مالک (رح) کے قول سے زیادہ عمدہ اور بہتر ہے کیونکہ عریہ کی حقیقت عطیہ ہے۔ ذرا توجہ تو فرمائیں کہ جس نے انصار کی تعریف کی ہے تو وہ کس طرح کی ہے۔ (شعر کا ترجمہ) ان کا عطیہ ان درختوں کی صورت میں نہیں ہوتا جو ایک سال میں ایک مرتبہ پھل دیتے ہیں اور دوسرے سال پھل نہیں دیتے اور نہ ایسے درخت ہیں کہ جن کو سہارے کے لیے ستون دیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ قحط کے سالوں میں عطیات دیتے ہیں۔ اگر عرایا کا وہ مفہوم لیا جائے جو امام مالک (رح) (فریق اول) کے ہاں ہے تو اس صورت میں ان کا فعل قابل مدح و ستائش نہیں۔ وہ تو عام اور ہر ایک کا فعل ہے مگر عرایا کا مفہوم اس کے خلاف ہے (یہ گویا قحط کے اوقات میں غرباء کو دیئے جانے والے عطیات ہیں) اگر کوئی معترض کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت زید بن ثابت (رض) میں ذکر فرمایا کہ تازہ کھجور کی بیع خشک کھجور کے بدلے جائز نہیں ہے تو اس روایت میں بھی عرایا سے خشک کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع مراد ہے۔ تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں حدیث میں تو ایسی بات نہیں ہے روایت میں صرف عرایا کی اجازت کا تذکرہ ہے اور اس کے ساتھ خشک کھجور کے بدلے تازہ کھجوروں کی ممانعت بھی مذکور ہے اور کبھی ایک چیز کو دوسری سے ملا کرلے آتے ہیں مگر ان کا حکم مختلف ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں تو عرایا کی پانچ وسق تک اجازت ثابت ہوتی ہے اس سے زائد کی نفی ظاہر ہے۔ نفی کی بات تو روایات میں موجود نہیں ہے یہ تو اس صورت میں ہے جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح فرماتے کہ عطیہ صرف پانچ وسق میں ہے یا اس سے کم میں ہے۔ بلکہ روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی اجازت پانچ وسق یا اس سے کم میں دی تو ان کی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ آپ نے جس خاص قوم کو عطیہ کی یہ اجازت دی ان کے عطیہ کی مقدار اتنی تھی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے اسی کو نقل کردیا اور جو اجازت دی گئی تھی اس کی اطلاع دے دی لیکن اس سے زائد میں عرایا کی نفی ہوتی۔ حضرت ابن عمر (رض) اور جابر (رض) کی روایات میں ہے ” الا انہ رخص فی العرایا “ تو خشک کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سے استثناء ہے اس سے تو معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بھی تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور کی بیع ہے (جو کہ ممنوع ہے) تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں ممکن ہے کہ آپ کا مقصود وہ آدمی ہو جس کو عرایا دیا گیا ہے تو اس کو اجازت دی گئی کہ درخت کے اوپر والی کھجوروں کے بدلے اتاری ہوئی کھجوریں لے لے کیونکہ اس طرح وہ معنوی اعتبار سے بائع کہلائے گا اور یہ اس کے لیے درست ہے پس اس علت کی بناء یہ استثناء ہے اور حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) کی روایت میں ہے : ” الا انہ رخص فی بیع العریہ بخرصھا تمرا “ کہ اندازے والی خشک کھجور کے بدلے عریہ فروخت کرنے کی اجازت ہے تاکہ مالک تازہ کھجوریں استعمال کرلے اور یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ وہ لوگ جن کے پاس یہ کھجوریں آہ ی ہیں عوض دے کر مالک بن جائیں اور یہ بات تو امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو ثابت کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اگر ان روایات کا وہ مفہوم ہو جو امام ابوحنیفہ (رح) نے لیا ہے تو اس کی اجازت کا کوئی معنی ہی نہیں (عطیہ تو خود اجازت ہے) عرایا کا یہ ایک درست معنی ہے جس کو امام صاحب نے اختیار کیا ہے البتہ دیگر حضرات نے اس کا دوسرا معنی بتلایا ہے۔ عیسیٰ بن ابان (رح) کا قول : عرایا کی اجازت کا مطلب یہ ہے بدل کے طور پر مالک کا مالک وہی شخص ہوسکتا ہے جو اس عطیہ کا مالک ہوجائے اور جو شخص کسی چیز کا بدل کی وجہ سے مالک ہوتا ہے وہ اس کو فروخت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ بدل کی وجہ سے مالک ہوا اسی طرح تو وہ اس بدل کا مالک ہوجائے گا وہ اس بدل کا مالک اسی صورت میں ہوتا جب بدلے میں دی جانے والی چیز کا صحیح طور پر وہ مالک ہو۔ پس جس کو عطیہ دیا گیا وہ اس عطیہ کا مالک نہیں کیونکہ اس نے اس پر قبضہ نہیں کیا اور جو کھجوریں وہ اس کے عوض میں لیتا ہے حدیث کے مطابق وہ اس کے لیے درست قرار دی گئیں ہیں اور وہ ان تازہ کھجوروں کا عوض ہے جن کا وہ مالک نہیں ہوا۔ ان کے ہاں رخصت کا یہی مطلب ہے۔ دیگر علماء کا کہنا ہے کہ اجازت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص جب کسی دوسرے آدمی کو اپنا کچھ پھل عرایا کے طور پر دیتا ہے اور اس سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسے اس کے حوالے کر دے گا۔ تاکہ وہ شخص جس کو دیا گیا ہے قبضہ کر کے اس کا مالک بن جائے اور قرض کے معاملے میں وعدے کو پورا کرنا آدمی پر لازم ہوتا ہے اگر اس کے حکم پر اس سے مواخذہ نہیں ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطیہ دینے والے کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اس چیز کو روک رکھے جو اس نے عطیہ دیا ہے اور اس کے بدلے میں اندازے سے کھجوریں دے دے اس میں وہ گناہ گار نہیں ہوگا اور نہ وہ وعدہ خلافی کرنے والوں میں شمار ہوگا تو رخصت کا یہ موقع ہے۔ اس روایت کی تمام توجیہات میں وہ توجیہ جس کو امام ابوحنیفہ (رح) نے اختیار کیا وہ سب سے بہتر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد روایات میں وارد ہے کہ خشک کھجوروں کی بیع تازہ کھجوروں کے بدلے درست نہیں ہے۔ ان میں سے چند روایات ہم شروع باب میں ذکر کر آئے ہیں اور بعض یہ ہیں :
لغات : قنو۔ گچھا جس میں تازہ کھجوریں لگی ہوں۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بیع عرایا کی اجازت کے سلسلہ میں متواتر آثار وارد ہیں تمام اہل علم نے ان کو قبول کیا ہے ان کی صحت میں کسی کو کلام نہیں البتہ عرایا کی تعریف میں اختلاف ہے۔
فریق اوّل : عرایا یہ ہے کہ کسی کے نخلستان کے درمیان کسی کی دو یا ایک کھجور ہو ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اہل مدینہ پھلوں کے موسم میں اپنے گھر والوں کو باغات میں لے جاتے ایک یا دو درختوں کا مالک اپنے گھر والوں کے ساتھ آتا اس طرح زیادہ درختوں کے مالک کو تکلیف پہنچتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیادہ درختوں والے کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ ایک یا دو درختوں کے مالک کو اس کی کھجوروں کے اندازے پر خشک کھجوریں دے دے تاکہ اس کے اہل خانہ واپس لوٹ جائیں اور باغ کی تمام کھجوریں زیادہ کھجوروں کے مالک کے لیے خاص ہوجائیں اور اب ان میں صرف اس کا اور اس کے اہل خانہ کا حق رہ جائے۔ یہ قول امام مالک بن انس (رح) کا ہے۔
فریق دوم : امام ابوحنیفہ (رح) کا قول : امام ابو یوسف (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کیا کہ ہمارے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو اپنے درخت کا پھل بطور عطیہ دے اور پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس کے حوالے نہ کرے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ اس عطیہ کو روک کر اس کی جگہ اندازہ کر کے کھجوریں دے دے یہ قول امام مالک (رح) کے قول سے زیادہ عمدہ اور بہتر ہے کیونکہ عریہ کی حقیقت عطیہ ہے۔ ذرا توجہ تو فرمائیں کہ جس شخص نے انصار کی تعریف کی ہے تو وہ اس طرح کی ہے۔ (شعر کا ترجمہ)
” ان کا عطیہ ان درختوں کی صورت میں نہیں ہوتا جو ایک سال میں ایک مرتبہ پھل دیتے ہیں اور دوسرے سال پھل نہیں دیتے اور نہ ایسے درخت ہیں کہ جن کو سہارے کے لیے ستون دیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ قحط کے سالوں میں عطیات دیتے ہیں۔ “
لغات : السنہاء ‘ الشنہاء۔ وہ کھجور جو ایک سال پھل دے دوسرے سال نہ دے۔ الرجبیۃ۔ جس درخت کو سہارے سے کھڑا کریں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر عرایا کا وہ مفہوم لیا جائے جو امام مالک (رح) (فریق اول) کے ہاں ہے تو اس صورت میں ان کا فعل قابل مدح و ستائش نہیں۔ وہ تو عام اور ہر ایک کا فعل ہے مگر عرایا کا مفہوم اس کے خلاف ہے (یہ گویا قحط کے اوقات میں غرباء کو دیئے جانے والے عطیات ہیں)
سوال : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت زید بن ثابت (رض) میں ذکر فرمایا کہ تازہ کھجور کی بیع خشک کھجور کے بدلے جائز نہیں ہے تو اس روایت میں بھی عرایا سے خشک کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع مراد ہے۔
جواب : آپ جو بات کہہ رہے ہیں حدیث میں تو ایسی بات نہیں ہے روایت میں صرف عرایا کی اجازت کا تذکرہ ہے اور اس کے ساتھ خشک کھجور کے بدلے تازہ کھجوروں کی ممانعت بھی مذکور ہے اور کبھی ایک چیز کو دوسری سے ملا کرلے آتے ہیں مگر ان کا حکم مختلف ہوتا ہے۔
سوال : حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں تو عرایا کی پانچ وسق تک اجازت ثابت ہوتی ہے اس سے زائد کی نفی ظاہر ہے۔
جواب : نفی کی بات تو روایات میں موجود نہیں ہے یہ تو اس صورت میں ہے جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح فرماتے کہ عطیہ صرف پانچ وسق میں ہے یا اس سے کم میں ہے۔ بلکہ روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرایا کی اجازت پانچ وسق یا اس سے کم میں دی تو ان کی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ آپ نے جس خاص قوم کو عطیہ کی یہ اجازت دی ان کے عطیہ کی مقدار اتنی تھی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے اسی کو نقل کردیا اور جو اجازت دی گئی تھی اس کی اطلاع دے دی لیکن اس سے زائد میں عرایا کی نفی نہیں ہوتی۔
سوال : حضرت ابن عمر (رض) اور جابر (رض) کی روایات میں ہے ” الا انہ رخص فی العرایا “ تو خشک کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سے استثناء ہے اس سے تو معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بھی تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور کی بیع ہے (جو کہ ممنوع ہے)
جواب : اس میں ممکن ہے کہ آپ کا مقصود وہ آدمی ہو جس کو عرایا دیا گیا ہے تو اس کو اجازت دی گئی کہ درخت کے اوپر والی کھجوروں کے بدلے اتاری ہوئی کھجوریں لے لے کیونکہ اس طرح وہ معنوی اعتبار سے بائع کہلائے گا اور یہ اس کے لیے درست ہے پس اس علت کی بناء یہ استثناء ہے اور حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) کی روایت میں ہے۔ ” الا انہ رخص فی بیع العریہ بخرصھا تمرا “ کہ اندازے والی خشک کھجور کے بدلے عریہ فروخت کرنے کی اجازت ہے تاکہ مالک تازہ کھجوریں استعمال کرلے اور یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ وہ لوگ جن کے پاس یہ کھجوریں آ ہی ہیں عوض دے کر مالک بن جائیں اور یہ بات تو امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو ثابت کرتی ہے۔
ایک اعتراض :
اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اگر ان روایات کا وہ مفہوم ہو جو امام ابوحنیفہ (رح) نے لیا ہے تو اس کی اجازت کا کوئی معنی ہی نہیں (عطیہ تو خود اجازت ہے)
نوٹ : اس روایت کی تمام توجیہات میں وہ توجیہ جس کو امام ابوحنیفہ (رح) نے اختیار کیا وہ سب سے بہتر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد روایات میں وارد ہے کہ خشک کھجوروں کی بیع تازہ کھجوروں کے بدلے درست نہیں ہے۔ ان میں سے چند روایات ہم شروع باب میں ذکر کر آئے ہیں اور بعض یہ ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔