HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5538

۵۵۳۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا یُوْنُسُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَشْتَرِیَ الرَّجُلُ الْأَمَۃَ ، عَلٰی أَنْ لَا یَبِیْعَ وَلَا یَہَبَ .فَقَدْ أَبْطَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، بَیْعَ عَبْدِ اللّٰہِ، وَتَابَعَہُ عَبْدُ اللّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَلَمْ یُخَالِفْہُ فِیْہِ .وَقَدْ کَانَ لَہُ خِلَافُہٗ، أَنْ لَوْ کَانَ یَرَی خِلَافَ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ مَا کَانَ مِنْ عُمَرَ ، لَمْ یَکُنْ عَلَی جِہَۃِ الْحُکْمِ ، وَاِنَّمَا کَانَ عَلَی جِہَۃِ الْفُتْیَا .وَتَابَعَتْہُمَا زَیْنَبُ ، امْرَأَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَلَہَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صُحْبَۃٌ .وَتَابَعَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ ، عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، وَقَدْ عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا کَانَ مِنْ قَوْلِہٖ لِعَائِشَۃَ فِیْ أَمْرِ بَرِیْرَۃَ ، عَلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَعْنَاہٗ، کَانَ عِنْدَہٗ، عَلٰی خِلَافِ مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ الَّذِیْنَ احْتَجُّوْا بِحَدِیْثِہٖ، وَلَمْ نَعْلَمْ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَنْ ذَکَرْنَا ، ذَہَبَ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی غَیْرِ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ عُمَرُ ، وَمَنْ تَابَعَہُ عَلٰی ذٰلِکَ ، مِمَّنْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ .فَکَانَ یَنْبَغِی أَنْ یَجْعَلَ ہَذَا أَصْلًا وَاِجْمَاعًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَضِیَ عَنْہُمْ ، وَلَا یُخَالِفُ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ، أَنَّ شُرُوْطًا صِحَاحًا ، قَدْ تُعْقَدُ فِی الشَّیْئِ الْمَبِیْعِ ، مِثْلُ الْخِیَارِ اِلٰی أَجَلٍ مَعْلُوْمٍ ، لِلْبَائِعِ وَلِلْمُبْتَاعِ ، فَیَکُوْنُ الْبَیْعُ عَلٰی ذٰلِکَ جَائِزًا .وَکَذٰلِکَ الْأَثْمَانُ ، قَدْ تُعْقَدُ فِیْہَا آجَالٌ یَشْتَرِطُہَا الْمُبْتَاعُ ، فَتَکُوْنُ لَازِمَۃً اِذَا کَانَتْ مَعْلُوْمَۃً وَیَکُوْنُ الْبَیْعُ بِہَا مُضَمَّنًا .وَرَأَیْنَا ذٰلِکَ الْأَجَلَ ، لَوْ کَانَ فَاسِدًا ، فَسَدَ بِفَسَادِہِ الْبَیْعُ ، وَلَمْ یَثْبُتِ الْبَیْعُ ، وَیَنْتَفِیْ ہُوَ اِذَا کَانَ مَعْقُوْدًا فِیْہِ .فَلَمَّا جُعِلَ الْبَیْعُ مُضَمَّنًا بِہٰذِہِ الشَّرَائِطِ الْمَشْرُوْطَۃِ فِیْ ثَمَنِہٖ، فِیْ صِحَّتِہَا وَفَسَادِہَا ، فَجُعِلَ جَائِزًا بِجَوَازِہَا ، وَفَاسِدًا بِفَسَادِہَا ، ثُمَّ کَانَ الْبَیْعُ اِذَا وَقَعَ عَلَی الْمَبِیْعِ ، وَکَانَ عَبْدًا ، عَلٰی أَنْ یَخْدُمَ الْبَائِعَ شَہْرًا ، فَقَدْ مَلَّکَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِیَ عَبْدَہُ عَلٰی أَنْ مَلَّکَہُ الْمُشْتَرِی أَلْفَ دِرْہَمٍ وَخِدْمَۃَ الْعَبْدِ شَہْرًا وَالْمُشْتَرِی حِیْنَئِذٍ ، غَیْرُ مَالِکٍ لِلْخِدْمَۃِ ، وَلَا لِلْعَبْدِ ، لِأَنَّ مِلْکَہُ لِلْعَبْدِ اِنَّمَا یَکُوْنُ بَعْدَ تَمَامِ الْبَیْعِ ، فَصَارَ الْبَیْعُ وَاقِعًا بِمَالٍ وَبِخِدْمَۃِ عَبْدٍ ، لَا یَمْلِکُہُ الْمُشْتَرِی فِیْ وَقْتِ ابْتِیَاعِہِ بِالْمَالِ ، وَبِخِدْمَتِہٖ، وَقَدْ رَأَیْنَاہُ لَوْ ابْتَاعَ عَبْدًا لِخِدْمَۃِ أَمَۃٍ ، لَا یَمْلِکُہَا ، کَانَ الْبَیْعُ فَاسِدًا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ الْبَیْعُ أَیْضًا کَذٰلِکَ اِذَا عَقَدَ لِخِدْمَۃِ مَنْ لَمْ یَکُنْ تَقَدَّمَ مِلْکُہُ لَہُ قَبْلَ ذٰلِکَ الْعَقْدِ ، لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ نَہٰی عَنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَک .وَلَمَّا کَانَتِ الْأَثْمَانُ مُضَمَّنَۃً بِالْآجَالِ الصَّحِیْحَۃِ وَالْفَاسِدَۃِ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا ، کَانَ کَذٰلِکَ ، الْأَشْیَائُ الْمَثْمُوْنَۃُ ، أَیْضًا الْمُضَمَّنَۃُ بِالشَّرَائِطِ الْفَاسِدَۃِ وَالصَّحِیْحَۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْبَیْعَ ، لَوْ وَقَعَ وَاشْتُرِطَ فِیْہِ شَرْطٌ مَجْہُوْلٌ ، أَنَّ الْبَیْعَ یَفْسُدُ بِفَسَادِ ذٰلِکَ الشَّرْطِ عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا .فَقَدِ انْتَفَی قَوْلُ مَنْ قَالَ یَجُوْزُ الْبَیْعُ وَیَبْطُلُ الشَّرْطُ وَقَوْلُ مَنْ قَالَ یَجُوْزُ الْبَیْعُ ، وَیَثْبُتُ الشَّرْطُ .وَلَمْ یَکُنْ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ قَوْلٌ غَیْرُ ہٰذَیْنِ الْقَوْلَیْنِ ، وَغَیْرُ الْقَوْلِ الْآخَرِ أَنَّ الْبَیْعَ یَبْطُلُ اِذَا اُشْتُرِطَ فِیْہِ مَا لَیْسَ مِنْہُ .فَلَمَّا انْتَفَی الْقَوْلَانِ الْأَوَّلَانِ ، ثَبَتَ ہٰذَا الْقَوْلُ الْآخَرُ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٥٥٣٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی کوئی لونڈی اس شرط پر خریدے کہ وہ نہ اس کو فروخت کرے گا اور نہ ہبہ کرے گا۔ حضرت عمر (رض) نے عبداللہ کی بیع کو باطل کردیا اور عبداللہ نے ان کی بات مان کر مخالفت نہیں کی اور وہ اس کی مخالفت کرسکتے تھے اگر ان کی رائے اس کے خلاف ہوتی کیونکہ عمر (رض) نے یہ بات بطور حکم نہیں فرمائی بلکہ بطور فتویٰ بات فرمائی اور پھر حضرت زینب (رض) نے ان کی اتباع کی اور وہ بھی صحابیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ابن عمر (رض) نے بھی ان کی اتباع کی ہے حالانکہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد جو آپ نے حضرت عائشہ (رض) کو حضرت بریرہ (رض) کے سلسلہ میں فرمایا تھا ان کو معلوم تھا اور انہی کی روایت سے ہم نے باب میں ذکر کیا ہے۔ تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو اس حدیث سے استدلال کرنے والوں نے اپنایا ہے اور ان مذکورہ بالا صحابہ کرام کے علاوہ کوئی ایسا صحابی ہمارے علم میں نہیں ہے جس نے اس سلسلہ میں حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے متبعین جن کا ان روایات میں ذکر ہوا کہ انھوں نے ان کے خلاف مذہب اختیار کیا ہو۔ فلہذا اس بات کو اصل اور صحابہ کرام کا اجماع قرار دیا جائے اور اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ روایات کے طریقہ سے اس باب کا بیان یہی ہے۔ اس اصل پر سب کا اتفاق ہے کہ فروخت کی جانے والی اشیاء میں صحیح شرائط رکھی جاتی ہیں مثلاً بائع یا مشتری کو ایک معلوم وقت تک خیار حاصل ہوتا ہے اس شرط پر بیع جائز ہوتی ہے اسی طرح قیمت کی ادائیگی کے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے اور یہ خریدنے والے کی طرف سے شرط ہوتی ہے اور یہ لازم ہوجاتی ہے جبکہ معلوم ہو اور ان کے ساتھ بیع مشروط ہوجاتی ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر یہ میعاد فاسدہو تو اس سے بیع بھی فاسد ہوجاتی ہے اور وہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نفی ہوتی ہے جبکہ اس کو عقد میں ذکر کیا جائے۔ تو جب سودے کی صحت و فساد قیمت میں رکھی جانے والی ان شرائط سے مشروط ہے تو ان کے جائز ہونے سے سودا جائز ہوگا اور ان کے فساد سے بیع بھی فاسد ہوگی پھر جب غلام کی بیع اس شرط پر کی جائے کہ وہ ایک ماہ فروخت کرنے والے کی خدمت کرے گا تو بلاشبہ بائع نے خرید والے کو اپنے غلام کا اس طرح مالک بنایا کہ وہ اسے ہزار درہم اور ایک مہینہ تک غلام کے اس کی خدمت کرنے کا مالک بنائے اور خریدنے والا اس وقت خدمت کا مالک نہیں اور نہ ہی غلام کا مالک ہے۔ کیونکہ اسے بیع کے مکمل ہونے کے بعد ملکیت حاصل ہوگی تو (اس طرح) یہ سودا مال اور غلام کے خدمت کرنے پر واقع ہوا اور مشتری مال اور خدمت کے بدلے اسے خریدنے وقت اس غلام کا مالک ہی نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ غلام کو اکسی ایسی لونڈی کی خدمت کے لیے خریدے۔ جس کا وہ مالک نہیں ہوا تو یہ بیع فاسد ہوتی ہے۔ تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا وہ اس عقد سے پہلے مالک نہیں ہوا اس کے خدمت کرنے کی شرط پر بیع کا حکم بھی یہی ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کے سودے سے منع فرمایا۔ جو تمہارے پاس نہ ہو۔ تو جب قیمتیں صحیح اور فاسد میعاد کے ساتھ مشروط ہوجاتی ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے تو اس طرح وہ اشیاء جن کی وہ قیمتیں ہیں وہ بھی شرائط فاسدہ اور صحیحہ کے ساتھ مشروط ہوں گی۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر سودا اس طرح واقع ہو کہ اس میں مجہول شرط رکھی جائے اس کے فساد سے بیع فاسد ہوگی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ تو اس طرح ان لوگوں کے قول کی نفی ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط باطل ہوجائے گی اور جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط ثابت ہوگی اس باب میں ان دو قولوں اور اس قول کے سوا کوئی اور قول نہیں کہ جب بیع میں ایسی شرط لگائی جائے جو اس سے نہیں تو وہ بیع باطل ہوجاتی ہے۔ پس دو قول باطل ہوگئے تو یہ تیسرا قول ثابت ہوگیا امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو اس حدیث سے استدلال کرنے والوں نے اپنایا ہے اور ان مذکورہ بالا صحابہ کرام کے علاوہ کوئی ایسا صحابی ہمارے علم میں نہیں ہے جس نے اس سلسلہ میں حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے متبعین جن کا ان روایات میں ذکر ہوا کہ انھوں نے ان کے خلاف مذہب اختیار کیا ہو۔ فلہذا اس بات کو اصل اور صحابہ کرام کا اجماع قرار دیا جائے اور اس کی مخالفت نہ کی جائے۔
روایات کے طریقہ سے اس باب کا بیان یہی ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اس اصل پر سب کا اتفاق ہے کہ فروخت کی جانے والی اشیاء میں صحیح شرائط رکھی جاتی ہیں مثلاً بائع یا مشتری کو ایک معلوم وقت تک خیار حاصل ہوتا ہے اس شرط پر بیع جائز ہوتی ہے اسی طرح قیمت کی ادائیگی کے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے اور یہ خریدنے والے کی طرف سے شرط ہوتی ہے اور یہ لازم ہوجاتی ہے جبکہ معلوم ہو اور ان کے ساتھ بیع مشروط ہوجاتی ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر یہ میعاد فاسدہو تو اس سے بیع بھی فاسد ہوجاتی ہے اور وہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نفی ہوتی ہے جبکہ اس کو عقد میں ذکر کیا جائے۔
تو جب سودے کی صحت و فساد قیمت میں رکھی جانے والی ان شرائط سے مشروط ہے تو ان کے جائز ہونے سے سودا جائز ہوگا اور ان کے فساد سے بیع بھی فاسد ہوگی پھر جب غلام کی بیع اس شرط پر کی جائے کہ وہ ایک ماہ فروخت کرنے والے کی خدمت کرے گا تو بلاشبہ بائع نے خرید والے کو اپنے غلام کا اس طرح مالک بنایا کہ وہ اسے ہزار درہم اور ایک مہینہ تک غلام کے اس کی خدمت کرنے کا مالک بنائے اور خریدنے والا اس وقت خدمت کا مالک نہیں اور نہ ہی غلام کا مالک ہے۔ کیونکہ اسے بیع کے مکمل ہونے کے بعد ملکیت حاصل ہوگی تو (اس طرح) یہ سودا مال اور غلام کے خدمت کرنے پر واقع ہوا اور مشتری مال اور خدمت کے بدلے اسے خریدنے وقت اس غلام کا مالک ہی نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ غلام کو اکسی ایسی لونڈی کی خدمت کے لیے خریدے۔ جس کا وہ مالک نہیں ہوا تو یہ بیع فاسد ہوتی ہے۔
تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا وہ اس عقد سے پہلے مالک نہیں ہوا اس کی خدمت کرنے کی شرط پر بیع کا حکم بھی یہی ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کے سودے سے منع فرمایا۔ جو تمہارے پاس نہ ہو۔
تو جب قیمتیں صحیح اور فاسد میعاد کے ساتھ مشروط ہوجاتی ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے تو اس طرح وہ اشیاء جن کی وہ قیمتیں ہیں وہ بھی شرائط فاسدہ اور صحیحہ کے ساتھ مشروط ہوں گی۔
: پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر سودا اس طرح واقع ہو کہ اس میں مجہول شرط رکھی جائے اس کے فساد سے بیع فاسد ہوگی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ تو اس طرح ان لوگوں کے قول کی نفی ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط باطل ہوجائے گی اور جو کہتے ہیں کہ بیع جائز اور شرط ثابت ہوگی اس باب میں ان دو قولوں اور اس قول کے سوا کوئی اور قول نہیں کہ جب بیع میں ایسی شرط لگائی جائے جو اس سے نہیں تو وہ بیع باطل ہوجاتی ہے۔
پس دو قول باطل ہوگئے تو یہ تیسرا قول ثابت ہوگیا امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
حاصل کلام : امام طحاوی (رح) نے شرط فاسد سے بیع کے باطل ہونے کو ترجیح دی اور دلائل و نظر سے ثابت کیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔