HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5619

۵۶۱۸: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَکَانَ ہَذَا نَاسِخًا لِمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اِجَازَۃِ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً فَدَخَلَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا اسْتِقْرَاضُ الْحَیَوَانِ .فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : ہَذَا لَا یَلْزَمُنَا ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْحِنْطَۃَ لَا یُبَاعُ بَعْضُہَا بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، وَقَرْضُہَا جَائِزٌ .فَکَذٰلِکَ الْحَیَوَانُ لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، وَقَرْضُہُ جَائِزٌ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ فِیْ تَثْبِیتِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ نَہْیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً ، یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ لِعَدَمِ الْوُقُوْفِ مِنْہُ عَلَی الْمِثْلِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ مِنْ قَبْلِ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِی الْحِنْطَۃِ فِی الْبَیْعِ وَالْقَرْضِ .فَاِنْ کَانَ اِنَّمَا نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ عَدَمِ وُجُوْدِ الْمِثْلِ ، ثَبَتَ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ ، وَاِنْ کَانَ مِنْ قِبَلِ أَنَّہُمَا نَوْعٌ وَاحِدٌ لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، لَمْ یَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الْأَشْیَائَ الْمَکِیْلَاتِ ، لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً وَلَا بَأْسَ بِقَرْضِہَا .وَرَأَیْنَا الْمَوْزُوْنَاتِ حُکْمُہَا فِیْ ذٰلِکَ کَحُکْمِ الْمَکِیْلَاتِ سَوَاء ٌ ، خَلَا الذَّہَبِ وَالْوَرِقِ .وَرَأَیْنَا مَا کَانَ مِنْ غَیْرِ الْمَکِیْلَاتِ وَالْمَوْزُوْنَاتِ ، مِثْلَ الثِّیَابِ ؛ وَمَا أَشْبَہَہَا ، فَلَا بَأْسَ بِبَیْعِ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ ، وَاِنْ کَانَتْ مُتَفَاضِلَۃً ، وَبِیْعَ بَعْضُہَا بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، فِیْہِ اخْتِلَافٌ بَیْنَ النَّاسِ .فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ : مَا کَانَ مِنْہَا مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ ، فَلَا یَصْلُحُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً .وَمَا کَانَ مِنْہَا مِنْ نَوْعَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ ؛ فَلَا بَأْسَ بِبَیْعِ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً .وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ .وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ : لَا بَأْسَ بِبَیْعِ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ ، یَدًا بِیَدٍ وَنَسِیْئَۃً ، وَسَوَاء ٌ عِنْدَہُ کَانَتْ مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ أَوْ مِنْ نَوْعَیْنِ .فَہٰذِہِ أَحْکَامُ الْأَشْیَائِ الْمَکِیْلَاتِ وَالْمَوْزُوْنَاتِ وَالْمَعْدُوْدَاتِ ، غَیْرِ الْحَیَوَانِ ، عَلٰی مَا نَشَرْنَا .فَکَانَ غَیْرُ الْمَکِیلِ وَالْمَوْزُوْنِ ، لَا بَأْسَ بِبَیْعِہٖ، بِمَا ہُوَ مِنْ خِلَافِ نَوْعِہٖ، نَسِیْئَۃً ، وَاِنْ کَانَ الْمَبِیْعُ وَالْمُبْتَاعُ بِہٖ ثِیَابًا کُلَّہَا ، وَکَانَ الْحَیَوَانُ لَا یَجُوْزُ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، وَاِنْ اخْتَلَفَتْ أَجْنَاسُہٗ، لَا یَجُوْزُ بَیْعُ عَبْدٍ بِبَعِیْرٍ ، وَلَا بِبَقَرَۃٍ وَلَا بِشَاۃٍ ، نَسِیْئَۃً .وَلَوْ کَانَ النَّہْیُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً ، اِنَّمَا کَانَ لِاتِّفَاقِ النَّوْعَیْنِ ، لَجَازَ بَیْعُ الْعَبْدِ بِالْبَقَرَۃِ نَسِیْئَۃً ، لِأَنَّہَا مِنْ غَیْرِ نَوْعِہٖ، کَمَا جَازَ بَیْعُ الثَّوْبِ الْکَتَّانِ ، بِالثَّوْبِ الْقُطْنِ الْمَوْصُوْفِ ، نَسِیْئَۃً .فَلَمَّا بَطَلَ ذٰلِکَ فِیْ نَوْعِہٖ، وَفِیْ غَیْرِ نَوْعِہِ ثَبَتَ أَنَّ النَّہْیَ فِیْ ذٰلِکَ ، اِنَّمَا کَانَ لِعَدَمِ وُجُوْدِ مِثْلِہٖ ، وَلِأَنَّہٗ غَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَیْہِ .وَاِذَا کَانَ اِنَّمَا بَطَلَ بَیْعُ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، لِأَنَّہٗ غَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَیْہِ، بَطَلَ قَرْضُہُ أَیْضًا لِأَنَّہٗ غَیْرُ مَوْقُوْفٍ عَلَیْہِ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا ، مَا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ فِی اسْتِقْرَاضِ الْاِمَائِ ، أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ ، رَہْنُ حَیَوَانٍ .فَاسْتِقْرَاضُ سَائِرِ الْحَیَوَانِ فِی النَّظَرِ أَیْضًا ، کَذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّا رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حَکَمَ فِی الْجَنِیْنِ بِغُرَّۃِ عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ وَحَکَمَ فِی الدِّیَۃِ بِمِائَۃٍ مِنَ الْاِبِلِ ، وَفِیْ أُرُوْشِ الْأَعْضَائِ ، بِمَا قَدْ حَکَمَ بِہٖ ، مِمَّا قَدْ جَعَلَہُ فِی الْاِبِلِ ، وَکَانَ ذٰلِکَ حَیَوَانًا کُلَّہٗ یَجِبُ فِی الذِّمَّۃِ فَلِمَ لَا کَانَ کُلُّ الْحَیَوَانِ أَیْضًا کَذٰلِکَ ؟ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ حَکَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الدِّیَۃِ وَالْجَنِیْنِ بِمَا ذَکَرْتُ مِنَ الْحَیَوَانِ ، وَمَنَعَ مِنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ بَعْضِہِ بِبَعْضٍ نَسِیْئَۃً ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا وَشَرَحْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .فَثَبَتَ النَّہْیُ فِیْ وُجُوْبِ الْحَیَوَانِ فِی الذِّمَّۃِ بِأَمْوَالٍ ، وَأُبِیْحَ وُجُوْبُ الْحَیَوَانِ فِی الذِّمَّۃِ بِغَیْرِ أَمْوَالٍ .فَہَذَانِ أَصْلَانِ مُخْتَلِفَانِ نُصَحِّحُہُمَا ، وَنَرُدُّ اِلَیْہِمَا سَائِرَ الْفُرُوْعِ .فَنَجْعَلُ مَا کَانَ بَدَلًا مِنْ مَالٍ ، حُکْمَہُ حُکْمَ الْقَرْضِ الَّذِی وَصَفْنَا ، وَمَا کَانَ بَدَلًا مِنْ غَیْرِ مَالٍ ، فَحُکْمُہٗ حُکْمُ الدِّیَاتِ .وَالْغُرَّۃُ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ ، التَّزْوِیْجِ عَلٰی أَمَۃٍ وَسَطٍ ، أَوْ عَلَی عَبْدٍ وَسَطٍ ، وَالْخُلْعَ ، عَلٰی أَمَۃٍ وَسَطٍ ، أَوْ عَلَی عَبْدٍ وَسَطٍ .وَالدَّلِیْلُ عَلَیْ صِحَّۃِ مَا وَصَفْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَعَلَ فِیْ جَنِیْنِ الْحُرَّۃِ ، غُرَّۃً عَبْدًا ، أَوْ أَمَۃً .وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ ذٰلِکَ لَا یَجِبُ فِیْ جَنِیْنِ الْأَمَۃِ ، وَأَنَّ الْوَاجِبَ فِیْہِ دَرَاہِمُ أَوْ دَنَانِیرُ ، عَلٰی مَا اخْتَلَفُوْا .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : عُشْرُ قِیْمَۃِ الْجَنِیْنِ ، اِنْ کَانَ أُنْثَی ، وَنِصْفُ عُشْرِ قِیْمَتِہٖ، اِنْ کَانَ ذَکَرًا .وَمِمَّنْ قَالَ ذٰلِکَ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : نِصْفُ عُشْرِ قِیْمَۃِ أُمِّ الْجَنِیْنِ ، وَأَجْمَعُوْا فِیْ جَنِیْنِ الْبَہَائِمِ أَنَّ فِیْہِ مَا نَقَصَ أُمُّ الْجَنِیْنِ .وَکَانَتِ الدِّیَاتُ الْوَاجِبَۃُ مِنَ الْاِبِلِ ، عَلٰی مَا أَوْجَبَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَجِبُ فِیْ أَنْفُسِ الْأَحْرَارِ ، وَلَا یَجِبُ فِیْ أَنْفُسِ الْعَبِیْدِ .فَکَانَ مَا حَکَمَ فِیْہِ بِالْحَیَوَانِ الْمَجْعُوْلِ فِی الذِّمَمِ ، ہُوَ مَا لَیْسَ بِبَدَلٍ مِنْ مَالٍ ، وَمَنَعَ مِنْ ذٰلِکَ فِی الْأَبْدَالِ مِنَ الْأَمْوَالِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْقَرْضَ الَّذِیْ ہُوَ بَدَلٌ مِنْ مَالٍ ، لَا یَجِبُ فِیْہِ حَیَوَانٌ فِی الذِّمَمِ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ نَفَرٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٥٦١٨: حسن نے حضرت سمرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : یہ روایات جن میں حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار جائز قرار دی گئی تھی اس کی ناسخ بن جائیں گی اور حیوان کو کرایہ پر لینا بھی اسی میں داخل ہونے کی وجہ سے سے ناجائز ٹھہرے گا۔ فریق اوّل والے کہتے ہیں کہ یہ الزام ہم پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گندم گندم کے بدلے ادھار فروخت نہیں کرسکتے مگر اس کو قرض پر لینا جائز ہے بالکل اسی طرح حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار تو جائز نہیں مگر حیوان کو قرض پر لینا جائز ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا تو اس میں احتمال یہ ہے کہ ان حیوانات میں مماثلت معلوم نہیں ہوسکتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ وہی ہو جو فریق اوّل نے گندم پر قیاس کرتے ہوئے کہی ہے اگر عدم مماثلت ثابت ہوتی ہو تو اس سے دوسرے قول کا ثبوت ملتا ہے اور اگر ان کو ایک نوع تسلیم کیا جائے تو ان کو بطور ادھار ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں تو اس صورت میں دوسرے قول والوں کے لیے پہلے قول والوں کے خلاف دلیل نہ بن سکے گی۔ اب ہم اس کو جانچتے ہیں (مکیلی) ماپ کردی جانے والی اشیاء سے موازنہ کیا تو دیکھا کہ ماپی جانے والی اشیاء کی فروخت ادھار درست نہیں البتہ میں قرض جائز ہے اور دوسری طرف موزونی (وزن کی جانے والی) اشیاء کو دیکھا تو سونے چاندی کے علاوہ کا وہی حکم ہے جو مکیلی اشیاء کا ہے۔ اب ہم نے مکیلی اور موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو دیکھا مثلاً کپڑا وغیرہ تو ان کو ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہ پایا۔ خواہ وہ مقدار میں کم یا زیادہ ہو۔ مگر ان کو ایک دوسرے کے بدلے ادھار فروخت کرنے میں فقہاء اسلام کا اختلاف ہے۔ ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جو ایک قسم سے تعلق رکھتی ہے ان کو تو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنا درست نہیں ہے اور جن کی اقسام مختلف ہیں انھیں ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔ دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ ان کو ایک دوسرے کے بدلے نقد و ادھار دونوں طرح فروخت کرنا درست ہے خواہ ان کی نوع ایک ہو یا الگ الگ یہ تفصیل مکیلی ‘ موزونی ‘ عددی اشیاء کے حکم کی کردی ہے۔ یہ حیوان کے علاوہ ہیں۔ پس مکیلی موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو جبکہ انواع الگ ہوں تو ادھار فروخت میں کوئی حرج نہیں۔ خواہ فروخت شدہ شئی اور اس کا بدل دونوں کپڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگر ان کی جنس مختلف ہو تب بھی ان کی بیع درست نہیں ہے مثلاً اونٹ گائے اور بکری کے بدلے غلام کو بطور ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حیوان ‘ حیوان کے بدلے ادھار فروخت کی ممانعت ان کے ایک نوع ہونے کی وجہ سے ہوتی تو گائے کے بدلے غلام کی فروخت تو جائز ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ ان میں تو نوع مختلف ہیں جیسا کہ ریشمی کپڑے کو سوتی کپڑے کے بدلے فروخت کرنا جائز ہے۔ پس جب یہ حکم نوع اور غیر نوع دونوں میں باطل ٹھہرا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ممانعت کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اس کی مثل نہیں اور اس لیے بھی کہ اس کی موقوف علیہ نہیں تو جب ان میں ایک دوسرے کی آپس میں ادھار بیع باطل ہے کیونکہ اس پر اس کا دارومدار نہیں تو اس کو قرض پر لینا بھی باطل ہے کیونکہ اس کی مثل پر اطلاع نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلہ میں نظر کا تقاضا یہی ہے اور جو چیز کی مزید مؤید ہے وہ یہ ہے کہ لونڈیوں کو قرض پر لینا سب کے نزدیک ناجائز ہے اور وہ بھی حیوان کی جنس میں شامل ہیں پس قیاس کے طور پر تمام حیوانات کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناتمام بچے کو گرانے میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا حکم فرمایا ہے اور دیت کے طور پر سو اونٹ کا حکم ہے اسی طرح اعضاء کی دیت کا حکم تو وہ فقط اونٹوں میں مقرر فرمایا دیگر حیوانات میں نہیں حالانکہ ذمہ میں واجب ہونے والے تو سبھی حیوانات ہیں۔ ان کا حکم یکساں کیوں نہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت اور ناتمام بچوں کے تاوان میں وہ حیوان دینے کا حکم فرمایا جس کا تم نے ذکر کیا ہے اور حیوانات کو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع میں وضاحت سے ذکر کردیا ہے تو کسی کے ذمہ حیوان کے ثابت کرنے کی نفی ثابت ہوگئی اور غیر مال کے بدلے حیوان کا وجوب جائز قرار پایا۔ یہ دونوں الگ الگ قاعدے ہیں ان دونوں کو ہم درست قرار دے کر ان کے فروعات کو ان کی طرف لوٹاتے ہیں۔ جو چیز مال کے بدلے میں ہو اس کو ہم اس قرض کا حکم دیتے ہیں جو ہم نے بیان کیا اور جو چیز غیر مال کا بدل ہو اس کا حکم دیت اور غرہ (ناتمام بچے کا بدل) کا حکم قرار دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کردیا اور اسی قسم میں درمیانے قسم کی لونڈی یا غلام کے عوض نکاح کرنے کا مسئلہ ہے اسی طرح درمیانی قسم کی لونڈی یا غلام کے بدلے خلع کرنا ہے۔ اس کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد عورت کے جنین میں ایک غلام یا لونڈی مقرر فرمائی ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ لونڈی کے ناتمام بچے میں لونڈی لازم نہیں بلکہ اس میں دینارودرہم لازم ہیں جیسا کہ اس میں اختلاف ہے بعض نے اگر لڑکی ہو تو جنین کی قیمت کا دسواں حصہ اور لڑکا ہو تو اس کی قیمت کا بیسواں حصہ ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ علماء کا دوسرا گروہ فرماتا ہے جنین کی ماں کی جو قیمت ہے اس کا بیسواں حصہ ہے مگر جانوروں کے جنین کے سلسلہ میں اتفاق ہے کہ جنین کی ماں کی قیمت میں جتنا نقصان ہوا وہ واجب ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں نے اونٹوں کے ذریعہ جو دیت لازم فرمائی ہے وہ آزاد نفوس کے سلسلہ میں لازم ہے غلاموں میں نہیں۔ پس جن کے بدلے حیوانات کو رکھا گیا وہ اموال نہیں جبکہ اموال کے بدلے اس کی ممانعت کی گئی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرض جو کہ مال کا بدل ہے اس میں کسی کے ذمہ حیوان واجب نہ ہوں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : یہ روایات جن میں حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار جائز قرار دی گئی تھی اس کی ناسخ بن جائیں گی اور حیوان کو کرایہ پر لینا بھی اسی میں داخل ہونے کی وجہ سے سے ناجائز ٹھہرے گا۔
ایک اعتراض :
فریق اوّل والے کہتے ہیں کہ یہ الزام ہم پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گندم گندم کے بدلے ادھار فروخت نہیں کرسکتے مگر اس کو قرض پر لینا جائز ہے بالکل اسی طرح حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار تو جائز نہیں مگر حیوان کو قرض پر لینا جائز ہے۔
الجواب و نظر طحاوی (رح) :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا تو اس میں احتمال یہ ہے کہ ان حیوانات میں مماثلت معلوم نہیں ہو سکت اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ وہی ہو جو فریق اوّل نے گندم پر قیاس کرتے ہوئے کہی ہے اگر عدم مماثلت ثابت ہوتی ہو تو اس سے دوسرے قول کا ثبوت ملتا ہے اور اگر ان کو ایک نوع تسلیم کیا جائے تو ان کو بطور ادھار ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں تو اس صورت میں دوسرے قول والوں کے لیے پہلے قول والوں خلاف دلیل نہ بن سکے گی۔ اب ہم اس کو جانچتے ہیں (مکیلی) ماپ کردی جانے والی اشیاء سے موازنہ کیا تو دیکھا کہ ماپی جانے والی اشیاء کی فروخت ادھار درست نہیں البتہ میں قرض جائز ہے اور دوسری طرف موزونی (وزن کی جانے والی) اشیاء کو دیکھا تو سونے چاندی کے علاوہ کا وہی حکم ہے جو مکیلی اشیاء کا ہے۔
اب ہم نے مکیلی اور موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو دیکھا مثلاً کپڑا وغیرہ تو ان کو ایک دوسرے کے بدلے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہ پایا۔ خواہ وہ مقدار میں کم یا زیادہ ہو۔ مگر ان کو ایک دوسرے کے بدلے ادھار فروخت کرنے میں فقہاء اسلام کا اختلاف ہے۔
ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جو ایک قسم سے تعلق رکھتی ہے ان کو تو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنا درست نہیں ہے اور جن کی اقسام مختلف ہیں انھیں ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے۔
دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ ان کو ایک دوسرے کے بدلے نقد و ادھار دونوں طرح فروخت کرنا درست ہے خواہ ان کی نوع ایک ہو یا الگ الگ یہ تفصیل مکیلی ‘ موزونی ‘ عددی اشیاء کے حکم کی کردی ہے۔ یہ حیوان کے علاوہ ہیں۔ پس مکیلی موزونی اشیاء کے علاوہ اشیاء کو جبکہ انواع الگ ہوں تو ادھار فروخت میں کوئی حرج نہیں۔ خواہ فروخت شدہ شئی اور اس کا بدن دونوں کپڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگر ان کی جنس مختلف ہو تب بھی ان کی بیع درست نہیں ہے مثلاً اونٹ گائے اور بکری کے بدلے غلام کو بطور ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حیوان کی حیوان نہیں ہے۔ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار فروخت کی ممانعت ان کے ایک نوع ہونے کی وجہ سے ہوتی تو گائے کے بدلے غلام کی فروخت تو جائز ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ ان میں تو نوع مختلف ہیں جیسا کہ ریشمی کپڑے کو سوتی کپڑے کے بدلے فروخت کرنا جائز ہے۔
پس جب یہ حکم نوع اور غیر نوع دونوں میں باطل ٹھہرا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ممانعت کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اس کی مثل نہیں اور اس لیے بھی کہ اس کی موقوف علیہ نہیں تو جب ان میں ایک دوسرے کی آپس میں ادھار بیع باطل ہے کیونکہ اس پر اس کا دارومدار نہیں تو اس کو قرض پر لینا بھی باطل ہو کیونکہ اس کی مثل پر اطلاع نہیں ہوسکتی۔
اس سلسلہ میں نظر کا تقاضا یہی ہے اور جو چیز کی مزید مؤید ہے وہ یہ ہے کہ لونڈیوں کو قرض پر لینا سب کے نزدیک ناجائز ہے اور وہ بھی حیوان کی جنس میں شامل ہیں پس قیاس کے طور پر تمام حیوانات کا یہی حکم ہونا چاہیے۔
سوال : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناتمام بچے کو گرانے میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا حکم فرمایا ہے اور دیت کے طور پر سو اونٹ کا حکم ہے اسی طرح اعضاء کی دیت کا حکم تو وہ فقط اونٹوں میں مقرر فرمایا دیگر حیوانات میں نہیں حالانکہ ذمہ میں واجب ہونے والے تو سبھی حیوانات ہیں۔ ان کا حکم یکساں کیوں نہیں۔
الجواب اور دو قاعدے :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت اور ناتمام بچوں کے تاوان میں وہ حیوان دینے کا حکم فرمایا جس کا تم نے ذکر کیا ہے اور حیوانات کو ایک دوسرے کے بدلے بطور ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع میں وضاحت سے ذکر کردیا ہے تو کسی کے ذمہ حیوان کے ثابت کرنے کی نفی ثابت ہوگئی اور غیر مال کے بدلے حیوان کا وجوب جائز قرار پایا۔ یہ دونوں الگ الگ قاعدے ہیں ان دونوں کو ہم درست قرار دے کر ان کے فروعات کو ان کی طرف لوٹاتے ہیں۔
جو چیز مال کے بدلے میں ہو اس کو ہم اس قرض کا حکم دیتے ہیں جو ہم نے بیان کیا اور جو چیز غیر مال کا بدل ہو اس کا حکم دیت اور غرہ (ناتمام بچے کا بدل) کا حکم قرار دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کردیا اور اسی قسم میں درمیانے قسم کی لونڈی یا غلام کے عوض نکاح کرنے کا مسئلہ ہے اسی طرح درمیانی قسم کی لونڈی یا غلام کے بدلے خلع کرنا ہے۔
اس کی دلیل : اس کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد عورت کے جنین میں ایک غلام یا لونڈی مقرر فرمائی ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ لونڈی کے ناتمام بچے میں لونڈی لازم نہیں بلکہ اس میں دینارودرہم لازم ہیں جیسا کہ اس میں اختلاف ہے بعض نے اگر لڑکی ہو تو جنین کی قیمت کا دسواں حصہ اور لڑکا ہو تو اس کی قیمت کا بیسواں حصہ ہے۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
علماء کا دوسرا گروہ : جنین کی ماں کی جو قیمت ہے اس کا بیسواں حصہ ہے مگر جانوروں کے جنین کے سلسلہ میں اتفاق ہے کہ جنین کی ماں کی قیمت میں جتنا نقصان ہوا وہ واجب ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے ذریعہ جو دیت لازم فرمائی ہے وہ آزاد نفوس کے سلسلہ میں لازم ہے غلاموں میں نہیں۔
پس جن کے بدلے حیوانات کو رکھا گیا وہ اموال نہیں جبکہ اموال کے بدلے اس کی ممانعت کی گئی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرض جو کہ مال کا بدل ہے اس میں کسی کے ذمہ حیوان واجب نہ ہوں گے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔