HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5753

۵۷۵۲: حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَا : قَالَ لَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ہٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ وَبِہٖ أَقُوْلُ .قَالَ رَوْحٌ : قَالَ لِی أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَقَدْ حَدَّثَنِیْہِ الدِّمَشْقِیُّ یَعْنِی : عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ یُوْسُفَ عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ .فَأَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ الْأَحْبَاسَ مَنْہِیٌّ عَنْہَا غَیْرُ جَائِزَۃٍ وَأَنَّہَا قَدْ کَانَتْ قَبْلَ نُزُوْلِ الْفَرَائِضِ بِخِلَافِ مَا صَارَتْ عَلَیْہِ بَعْدَ نُزُوْلِ الْفَرَائِضِ فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَاِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ وَأَبَا یُوْسُفَ وَزُفَرَ وَمُحَمَّدًا رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وَجَمِیْعَ الْمُخَالِفِیْنَ لَہُمْ وَالْمُوَافِقِیْنَ قَدْ اتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا وَقَفَ دَارِہِ فِیْ مَرَضِہِ عَلَی الْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِینِ ثُمَّ تُوُفِّیَ فِیْ مَرَضِہِ ذٰلِکَ جَائِزٌ مِنْ ثُلُثِہِ وَأَنَّہَا غَیْرُ مَوْرُوْثَۃٍ عَنْہٗ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ ہَلْ یَدُلُّ عَلٰی أَحَدِ الْقَوْلَیْنِ ؟ فَکَانَ الرَّجُلُ اِذَا جَعَلَ شَیْئًا مِنْ مَالِہِ مِنْ دَنَانِیْرَ أَوْ دَرَاہِمَ صَدَقَۃً فَلَمْ یَنْفُذْ ذٰلِکَ حَتّٰی مَاتَ أَنَّہٗ مِیْرَاثٌ وَسَوَائٌ جَعَلَ ذٰلِکَ فِیْ مَرَضِہِ أَوْ فِیْ صِحَّتِہِ اِلَّا أَنْ یَجْعَلَ ذٰلِکَ وَصِیَّۃً بَعْدَ مَوْتِہِ فَیَنْفُذُ ذٰلِکَ بَعْدَ مَوْتِہِ مِنْ ثُلُثِ مَالِہِ کَمَا یَنْفُذُ الْوَصَایَا .فَأَمَّا اِذَا جَعَلَہٗ فِیْ مَرَضِہِ وَلَمْ یُنْفِذْہُ لِلْمَسَاکِینِ بِدَفْعِہِ اِیَّاہُ اِلَیْہِمْ فَہُوَ کَمَا جَعَلَہٗ فِیْ صِحَّتِہٖ وَکَانَ جَمِیْعُ مَالِہِ یَفْعَلُہُ فِیْ صِحَّتِہِ فَیَنْفُذُ مِنْ جَمِیْعِ مَالِہِ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ مِلْکٌ مِثْلُ الْعَتَاقِ وَالْہِبَاتِ وَالصَّدَقَاتِ ہُوَ الَّذِیْ یَنْفُذُ اِذَا فَعَلَہٗ فِیْ مَرَضِہِ مِنْ ثُلُثِ مَالِہِ وَکَانَ الْوَاقِفُ اِذَا وَقَفَ فِیْ مَرَضِہِ دَارِہِ أَوْ أَرْضَہُ وَجَعَلَ آخِرَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَانَ ذٰلِکَ جَائِزًا بِاتِّفَاقِہِمْ مِنْ ثُلُثِ مَالِہِ بَعْدَ وَفَاتِہِ لَا سَبِیْلَ لِوَارِثِہِ عَلَیْہِ .وَلَیْسَ ذٰلِکَ بِدَاخِلٍ فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حَبْسَ عَلَی فَرَائِضِ اللّٰہِ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ سَبِیْلُہُ اِذَا وَقَفَ فِی الصِّحَّۃِ فَیَکُوْنُ نَافِذًا مِنْ جَمِیْعِ الْمَالِ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ عَلَیْہِ سَبِیْلٌ بَعْدَ ذٰلِکَ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَاِلَی ہٰذَا أَذْہَبُ وَبِہٖ أَقُوْلُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ لَا مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ لِأَنَّ الْآثَارَ فِیْ ذٰلِکَ قَدْ تَقَدَّمَ وَصْفِیْ لَہَا وَبَیَانُ مَعَانِیْہَا وَکَشْفُ وُجُوْہِہَا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَفَتَخْرَجُ الْأَرْضُ بِالْوُقُوْفِ مِنْ مِلْکِ رَبِّہَا بِوَقْفِہِ اِیَّاہَا لَا اِلَی مِلْکِ مَالِکٍ ؟ قِیْلَ لَہٗ : وَمَا تُنْکِرُ مِنْ ہٰذَا وَقَدْ اتَّفَقْتُ أَنْتَ وَخَصْمُک عَلَی الْأَرْضِ یَجْعَلُہَا صَاحِبُہَا مَسْجِدًا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَیُخَلِّیْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہَا أَنَّہَا قَدْ خَرَجَتْ بِذٰلِکَ مِنْ مِلْکِہِ لَا اِلَی مِلْکِ مَالِکٍ وَلٰـکِنْ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَاَلَّذِیْ یَلْزَمُ مُحَالِفَک فِیْمَا احْتَجَجْتُ عَلَیْہِ بِمَا وَصَفْنَا یَلْزَمُک فِیْ ہٰذَا مِثْلُہٗ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنَیْ نَہْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَبْسِ الَّذِیْ رَوَیْتُہٗ عَنْہٗ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ؟ قِیْلَ لَہٗ : قَدْ قَالَ النَّاسُ فِیْ ذٰلِکَ قَوْلَیْنِ : أَحَدَہُمَا الْقَوْلُ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عِنْدَ رِوَایَتِنَا اِیَّاہُ .وَالْآخَرُ أَنَّ ذٰلِکَ أُرِیْدَ بِہٖ مَا کَانَ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَفْعَلُوْنَہُ مِنَ الْبُحَیْرَۃِ وَالسَّائِبَۃِ وَالْوَصِیْلَۃِ وَالْحَامِ .فَکَانُوْا یَحْبِسُوْنَ مَا یَجْعَلُوْنَہُ کَذٰلِکَ فَلَا یُوَرِّثُوْنَہُ أَحَدًا فَلَمَّا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃُ الْفَرَائِضِ وَبَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْہَا الْمَوَارِیْثَ وَقَسَمَ الْأَمْوَالَ عَلَیْہَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حَبْسَ .ثُمَّ تَکَلَّمَ الَّذِیْنَ أَجَازُوا الصَّدَقَاتِ الْمَوْقُوْفَاتِ فِیْہَا بَعْدَ تَثْبِیتِہِمْ اِیَّاہَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ : ہِیَ جَائِزَۃٌ قُبِضَتْ مِنَ الْمُصَدِّقِ بِہَا أَوْ لَمْ تُقْبَضْ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَا یُنْفِذُہَا حَتّٰی یُخْرِجَہَا مِنْ یَدِہِ وَیَقْبِضَہَا مِنْہُ غَیْرُہُ وَمِمَّنْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ ابْنُ أَبِیْ لَیْلَی وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .فَاحْتَجْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ قَوْلًا صَحِیْحًا فَرَأَیْنَا أَشْیَائَ یَفْعَلُہَا الْعِبَادُ عَلَی ضُرُوْبٍ .فَمِنْہَا الْعَتَاقُ یَنْفُذُ بِالْقَوْلِ لِأَنَّ الْعَبْدَ اِنَّمَا یَزُوْلُ مِلْکُ مَوْلَاہُ عَنْہٗ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .وَمِنْہَا الْہِبَاتُ وَالصَّدَقَاتُ لَا تَنْفُذُ بِالْقَوْلِ حَتّٰی یَکُوْنَ مَعَہُ الْقَبْضُ مِنْ الَّذِیْ مَلَّکَہَا لَہٗ۔فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ حُکْمَ الْأَوْقَافِ بِأَیِّہَا ہِیَ أَشْبَہُ فَنَعْطِفَہُ عَلَیْہِ .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا وَقَفَ أَرْضَہُ أَوْ دَارِہِ فَاِنَّمَا یَمْلِکُ الَّذِی أَوْقَفَہَا عَلَیْہِ مَنَافِعَہَا وَلَمْ یَمْلِکْ مِنْ رَقَبَتِہَا شَیْئًا اِنَّمَا أَخْرَجَہَا مِنْ مِلْکِ نَفْسِہِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ نَظِیْرُ مَا أَخْرَجَہٗ مِنْ مِلْکِہِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَکَمَا کَانَ ذٰلِکَ لَا یَحْتَاجُ فِیْہِ اِلَی قَبْضٍ مَعَ الْقَوْلِ کَانَ کَذٰلِکَ الْوُقُوْفُ لَا یَحْتَاجُ فِیْہَا اِلَی قَبْضٍ مَعَ الْقَوْلِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی : أَنَّ الْقَبْضَ لَوْ أَوْجَبْنَاہُ فَاِنَّمَا کَانَ الْقَابِضُ یَقْبِضُ مَا لَمْ یَمْلِکْ بِالْوَقْفِ فَقَبْضُہُ اِیَّاہُ وَغَیْرُ قَبْضِہِ اِیَّاہُ سَوَائٌ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .
٥٧٥٢: روح اور محمد بن خزیمہ دونوں نے کہا احمد بن صالح (رح) نے کہا یہ حدیث صحیح ہے اور میں بھی یہی کہتا ہوں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے بتلایا کہ احب اس ممنوع ہے اور بدنا جائز ہے اور ہبہ فرائض کے احکام اترنے سے پہلے کی بات ہے نزول فرائض کے بعد اس کا حکم تبدیل ہوگیا۔ آثار کے پیش نظر اس باب کا حکم یہی ہے۔ اب نظر سے ملاحظہ ہو کہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ زفر و محمد رحمہم اللہ اور تمام مخالف و موافق اس بات پر متفق ہیں کہ جب کسی آدمی نے اپنا گھر اپنے ایام مرض میں فقراء و مساکین کے لیے وقف کیا پھر وہ اپنی اسی بیماری میں مرگیا تو اس کا یہ وقف اس کے ثلث مال میں جائز قرار دیا جائے گا اور یہ ثلث اس کی طرف سے وراثت نہ بنے گا اب ہم نے دیکھا کہ آیا یہ بات کسی ایک قول کی دلیل بنتی ہے تو غور و فکر سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص جب اپنا مال جو دراہم و دنانیر کی صورت میں ہے اس میں سے کچھ صدقہ کرتا ہے مگر اس کے اجراء سے پہلے وہ مرجاتا ہے تو اس کا یہ تمام مال وراثت ہوگا خواہ اس کو اس نے بیماری کی حالت میں صدقہ کیا تھا یا صحت کی حالت میں۔ البتہ اگر اس بات کو اس کی موت کے بعد والی وصیت قرار دیا جائے تو وہ تہائی مال میں سے نافذ ہوجائے گی جس طرح کہ باقی وصایا نافذ ہوتی ہیں اگر وہ بیماری میں ایسا کرے لیکن ابھی مساکین کو نہ دیا ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو حالت صحت میں ایسا کرنے کا ہوتا ہے اور حالت صحت میں جو کچھ کرے گا وہ تمام مال میں سے نافذ ہوگا اور وہ اس کے بعد اس کا مالک نہ رہے گا جس طرح کہ آزاد کرنا ‘ ہبہ کرنا ‘ صدقہ دینا وغیرہ اور جب ان کو بیماری کی حالت میں کرے گا تو مال کے تہائی حصے سے نافذ ہوں گی اور مرض کی حالت میں اپنا مکان یا زمین وقف کرے اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کرے تو اس کی موت کے بعد تہائی مال سے یہ جائز ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے اس پر ورثا کا کوئی حق نہ ہوگا اور یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول میں داخل نہ ہوگا کہ ” لاحبس علی فرائض اللہ “ کہ فرائض اللہ میں وقف نہیں یعنی ورثاء کے لیے وقف نہیں۔ پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ صحت کی حالت میں وقف کرنے کا بھی یہی حکم ہو وہ تمام مال سے نافذ ہوگا اور اس کے بعد اس کا کوئی اختیار نہ ہوگا یہ تقاضا نظر ہے۔ ” والی ہذا اذہب وبہ اقول من طریق النظر من طریق الآثار “ میرا رجحان اور قول بھی بطری ققیاس یہی ہے البتہ بطریق آثار ان کے معانی کی وضاحت میں اور بیان وجوہ میں اپنا رجحان ذکر کردیا گیا۔ اگر کوئی معترض کہے کہ تم وقف کی وجہ سے زمین کو اس کے مالک کی ملکیت سے نکالتے ہو لیکن کسی کی ملکیت میں دینے کو تیار نہیں۔ ان کو جواب میں کہے کہ تم اس بات کا کیوں کر انکار کرسکتے ہو جبکہ تم اور تمہارے مخالفین سب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین کو مسجد بناتا ہے اور جو مسلمانوں اور زمین کے درمیان سے ہٹ جاتا ہے تو اس سے وہ زمین اس کی ملکیت سے نکل جاتی ہے مگر کسی دوسرے کی ملکیت میں بھی داخل نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی ملک میں آجاتی ہے تو تمہاری اس دلیل سے جو الزام تمہارے مخالفین پر ہوتا ہے وہی تم پر بھی لازم ہوتا ہے۔ (فما ہو جوابکم فہو جوابنا) اگر کوئی معترض کہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں ممانعت حبس کا کیا معنی ہے۔ ان کو جواب میں کہے کہ محدثین کے اس سلسلہ میں دو قول ہیں۔ نمبر ١ اس روایت کے تذکرہ میں ہم نے ذکر کیا ہے روایت ٥٧٤٩۔ نمبر اس سے اہل جاہلیت کا عمل مراد ہے یعنی بحیرہ سائبہ ‘ ووصیلہ ‘ حام وغیرہ مراد ہیں وہ اپنے ان اعمال کو وقف خیال کرتے تھے اور کسی کو اس کا وارث قرار نہ دیتے تھے جب احکام وراثت والی سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے وراثت و اموال کے احکام بیان فرمائے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وقف نہیں۔ جنہوں نے صدقات موقوفہ کی اس ہمارے بیان کردہ طریقے کے مطابق اجازت دی انھوں نے اس سلسلے میں اختلاف کیا۔ نمبر ١ امام ابو یوسف (رح) وغیرہ انھوں نے اس کو جائز قرار دیا جس کو صدقہ کردیا گیا خواہ اس پر قبضہ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ ! امام مالک ابن ابی لیلیٰ ‘ محمد بن حسن رحمہم اللہ نے فرمایا جب تک وہ چیز اس کے قبضہ سے فار غ نہ ہو اور دوسرا آدمی اس پر قبضہ نہ کرے یہ جائز نہیں ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ہم نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ ان اقوال میں غور کر کے صحیح قول کو نکالا جائے۔ میں نے غور کیا کہ بندوں کے تصرفات کئی قسم کے ہیں۔ آزاد کرنا اور یہ صرف کہنے سے نافذ ہوجاتا ہے اور مالک کی ملک سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملک میں داخل ہوجاتا ہے۔ ہبہ اور صدقہ کرنا وہ صرف قول سے نافذ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے ساتھ اس آدمی کی طرف سے قبضہ کروانا ثابت نہ ہوجائے جس نے اس کو ہبہ کیا ہے معطی موہوب لہ کو اس کا مالک بنا دے۔ اب قابل غور یہ ہے کہ وقف کا حکم کس سے مشابہت رکھتا ہے تاکہ اس کی طرف مائل کردیا جائے تو ہم نے دیکھا کہ جب کوئی شخص اپنی زمین اور مکان کو وقف کرتا ہے تو وہ جس پر وقف کرتا ہے وہ اس کے منافع کا مالک بنتا ہے اس مال کی ذات کا مالک نہیں بنتا کیونکہ وہ واقف اس چیز کو اپنی ذاتی ملک سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی ملک میں دیتا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اس چیز کی مثل ہے جس کو اپنی ملکیت سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی ملک میں دے دیا۔ تو جس طرح کہ عتاق کا تعلق صرف قول سے ہے قبضہ کا محتاج نہیں بالکل اسی طرح وقف میں بھی قول کے ساتھ قبضہ کی چنداں ضرورت نہیں کہ اگر ہم قبضہ کو لازم قرار دیں تو قبضہ کرنے والا اس چیز پر قبضہ کرے گا جس کا وقف کی وجہ سے وہ مالک نہیں ہوا۔ فلہذا اس کا قبضہ کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہوئے پس ان دونوں دلیلوں سے امام ابو یوسف (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔
امام طحاوی (رح) نے پہلی مرتبہ : الی ہذا اذہب وبہ اقول من طریق النظر لاطریق الاثارہ فرمایا ورنہ اب تک اپنا رجحان اس انداز سے کہیں ظاہر نہیں فرمایا۔ بطریق اثر تو اس کو ترجیح دی کہ صاحب میراث کے لیے یہ وقف جائز نہیں دوسری میراث کی طرح تقسیم ہوگا البتہ بطریق نظر درست ہے یہ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ (مترجم)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔