HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5964

۵۹۶۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ السُّدِّیِّ عَنْ عِکْرَمَۃَ فَاِنْ جَائُوْک فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْہُمْ قَالَ : نَسَخَتْہَا ہٰذِہِ الْآیَۃُ وَأَنْ اُحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَائَ ہُمْ .وَقَالَ الْآخَرُوْنَ : تَأْوِیْلُہَا وَأَنْ اُحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ اِنْ حَکَمْت فَلَمَّا اُخْتُلِفَ فِیْ تَأْوِیْلِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ وَکَانَتِ الْآثَارُ قَدْ دَلَّتْ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ثَبَتَ الْحَکَمُ عَلَیْہِمْ عَلَی اِمَامِ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ تَرْکُہُ لِأَنَّ فِیْ حُکْمِہِ النَّجَاۃَ فِی قَوْلِہِمْ جَمِیْعًا لِأَنَّ مَنْ یَقُوْلُ : عَلَیْہِ أَنْ یَحْکُمَ یَقُوْلُ قَدْ تَرَکَ مَا کَانَ عَلَیْہِ أَنْ یَفْعَلَہٗ۔وَمَنْ یَقُوْلُ : لَہٗ أَنْ لَا یَحْکُمَ یَقُوْلُ : قَدْ تَرَکَ مَا کَانَ لَہٗ تَرْکُہُ فَاِذَا حَکَمَ یَشْہَدُ لَہُ الْفَرِیْقَانِ جَمِیْعًا بِالنَّجَاۃِ وَاِذَا لَمْ یَحْکُمْ لَمْ یَشْہَدَا لَہٗ بِذٰلِکَ .فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا أَنْ نَفْعَلَ مَا فِیْہِ النَّجَاۃُ بِالْاِتِّفَاقِ دُوْنَ مَا فِیْہِ ضِدَّ النَّجَاۃِ بِالْاِخْتِلَافِ .وَہٰذَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَا مِنْ وُجُوْبِ الْحُکْمِ عَلَیْہِمْ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتُمْ لَا تَرْجُمُوْنَ الْیَہُوْدَ اِذَا زَنَوْا فَقَدْ تَرَکْتُمْ بَعْضَ مَا فِی الْحَدِیْثِ الَّذِی بِہٖ احْتَجَجْتُمْ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّ الْحَکَمَ کَانَ فِی الزُّنَاۃِ فِیْ عَہْدِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ ہُوَ الرَّجْمُ عَلَی الْمُحْصَنِ وَغَیْرِ الْمُحْصَنِ .وَکَذٰلِکَ کَانَ جَوَابُ الْیَہُوْدِیِّ الَّذِیْ سَأَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَدِّ الزَّانِیْ فِیْ کِتَابِہِمْ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اتِّبَاعُ ذٰلِکَ وَالْعَمَلُ بِہٖ لِأَنَّ عَلَی کُلِّ نَبِی اتِّبَاعُ شَرِیْعَۃِ النَّبِیِّ الَّذِیْ کَانَ قَبْلَہٗ حَتّٰی یُحْدِثَ اللّٰہُ شَرِیْعَۃً تَنْسَخُ شَرِیْعَتَہُ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمْ اقْتَدِہِ فَرَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْیَہُوْدِیَّیْنِ عَلٰی ذٰلِکَ الْحُکْمِ وَلَا فَرْقَ حِیْنَئِذٍ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ الْمُحْصَنِ وَغَیْرِ الْمُحْصَنِ .ثُمَّ أَحْدَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَرِیْعَۃً فَنَسَخَتْ ہٰذِہِ الشَّرِیْعَۃَ فَقَالَ وَاللَّاتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَۃً مِنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا .وَکَانَ ہٰذَا نَاسِخًا لِمَا کَانَ قَبْلَہٗ وَلَمْ یُفَرِّقْ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ الْمُحْصَنِ وَغَیْرِ الْمُحْصَنِ .ثُمَّ نَسَخَ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ فَجَعَلَ الْحَدَّ ہُوَ الْاِیذَائَ بِالْآیَۃِ الَّتِیْ بَعْدَہَا وَلَمْ یُفَرِّقْ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بَیْنَ الْمُحْصَنِ وَغَیْرِہٖ۔ ثُمَّ جَعَلَ لَہُنَّ سَبِیْلًا الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَعْذِیْبُ عَامٍ وَالثَّیِّبُ جَلْدُ مِائَۃٍ وَالرَّجْمُ .فَرَّقَ حِیْنَئِذٍ بَیْنَ حَدِّ الْمُحْصَنِ وَحَدِّ غَیْرِ الْمُحْصَنِ الْجَلْدُ ثُمَّ اخْتَلَفَ النَّاسُ مِنْ بَعْدُ فِی الْاِحْصَانِ .فَقَالَ قَوْمٌ : لَا یَکُوْنُ الرَّجُلُ مُحْصَنًا بِامْرَأَتِہٖ وَلَا الْمَرْأَۃُ مُحْصَنَۃً بِزَوْجِہَا حَتّٰی یَکُوْنَا حُرَّیْنِ مُسْلِمَیْنِ بَالِغَیْنِ قَدْ جَامَعَہَا وَہُمَا بَالِغَانِ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَالَ آخَرُوْنَ : یُحْصِنُ أَہْلُ الْکِتَابِ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَیُحْصِنُ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِیَّۃَ وَلَا تُحْصِنُ النَّصْرَانِیَّۃُ الْمُسْلِمَ وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ فِی الْاِمْلَائِ فِیْمَا حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَا.فَاحْتَمَلَ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ الرَّجْمُ أَنْ یَکُوْنَ ہٰذَا عَلَی کُلِّ ثَیِّبٍ وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ عَلَی خَاص مِنْ الثَّیِّبِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَوَجَدْنَاہُمْ مُجْتَمِعِیْنَ أَنَّ الْعَبِیْدَ غَیْرُ دَاخِلِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ وَأَنَّ الْعَبْدَ لَا یَکُوْنُ مُحْصَنًا ثَیِّبًا کَانَ أَوْ بِکْرًا وَلَا یُحْصِنُ زَوْجَتَہُ حَرَّۃً کَانَتْ أَوْ أَمَۃً .وَکَذٰلِکَ الْأَمَۃُ لَا تَکُوْنُ مُحْصَنَۃً بِزَوْجِہَا حُرًّا کَانَ أَوْ عَبْدًا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ الرَّجْمُ اِنَّمَا وَقَعَ عَلَی خَاص مِنْ الثَّیِّبِ لَا عَلَی کُلِّ الثَّیِّبِ .فَلَمْ یَدْخُلْ فِیْمَا أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ وَقَعَ عَلَی خَاص اِلَّا مَا قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ فِیْہِ دَاخِلٌ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْحُرَّیْنِ الْمُسْلِمَیْنِ الْبَالِغَیْنِ الزَّوْجَیْنِ اللَّذَیْنِ قَدْ کَانَ مِنْہُمَا الْجِمَاعُ مُحْصَنَیْنِ وَاخْتَلَفُوْا فِیْمَنْ سِوَاہُمْ .فَقَدْ أَحَاطَ عِلْمُنَا أَنَّ ذٰلِکَ قَدْ دَخَلَ فِی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ الرَّجْمُ .فَأَدْخَلْنَا فِیْہِ وَلَمْ یُحِطْ عِلْمُنَا بِمَا سِوٰی ذٰلِکَ فَأَخْرَجْنَاہُ مِنْہُ .وَقَدْ کَانَ یَجِیْئُ فِی الْقِیَاسِ - لَمَّا کَانَتِ الْأَمَۃُ لَا تُحْصِنُ الْحُرَّ وَلَا یُحْصِنُہَا الْحُرُّ وَکَانَتْ ہِیَ فِیْ عَدَمِ اِحْصَانِہَا اِیَّاہُ کَہُوَ فِیْ عَدَمِ اِحْصَانِہِ اِیَّاہَا - أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ النَّصْرَانِیَّۃُ فَکَمَا ہِیَ لَا تُحْصِنُ زَوْجَہَا الْمُسْلِمَ کَانَ ہُوَ أَیْضًا کَذٰلِکَ لَا یُحْصِنُہَا .وَقَدْ رَأَیْنَا الْأَمَۃَ أَیْضًا - لَمَّا بَطَلَ أَنْ تُحْصِنَ الْمُسْلِمَ - بَطَلَ أَنْ یُحْصِنَ الْکَافِرَ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ .
٥٩٦٣: عکرمہ نے روایت کی ہے کہ ” فان جاؤک فاحکم بینہم او اعرض عنہن الایہ “ یہ اس آیت سے منسوخ ہے ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواء ہم الایۃ “ آیت { وان احکم ۔۔} کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ان کے مابین فیصلہ فرمائیں تو اس چیز کے ساتھ فیصلہ فرمائیں جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ جب اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہوا اور روایات کی دلالت مذکورہ گفتگو کی موافقت کرتی ہے۔ تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کا حاکم ان کے مابین فیصلہ کرے گا اور وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ تمام کے قول کے مطابق اس فیصلے میں نجات ہے۔ کیونکہ جو لوگ فیصلے کے حق میں ہیں وہ فرماتے ہیں اس نے اس عمل کو چھوڑ دیا جو اس پر لازم تھا۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ نہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس عمل کو چھوڑا ہے جس کے چھوڑنے کا اسے اختیار تھا اور جب وہ فیصلہ کرے گا تو دونوں فریق اس کے لیے نجات کی گواہی دیں گے اور جب وہ فیصلہ نہیں کرے گا تو وہ نجات کی گواہی نہ دیں گے تو جس کام میں بالاتفاق نجات ہو اس کا کرنا اولیٰ ہے بجائے اس کام کے جس میں نجات کے خلاف بات اختلاف کے ساتھ ثابت ہو۔ یہ فیصلہ کرنے کا وجوب جو کہ مذکور ہوا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ آپ زانی یہودی کے متعلق رجم کے قائل نہیں پس تم نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا۔ تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے اگر زمانہ موسیٰ (علیہ السلام) میں زنا کرنے والوں کی سزا رجم تھی خواہ وہ محصن ہوں یا غیر محصن۔ اسی طرح جس یہودی سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا تھا کہ تمہاری کتاب میں زانی کی سزا کیا ہے تو اس نے بھی یہی جواب دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انکار نہیں فرمایا۔ آپ پر اس حکم کی اتباع لازم تھی اور ہر پیغمبر (علیہ السلام) کو یہی حکم ہوتا ہے کہ وہ پہلے پیغمبر (علیہ السلام) کی شریعت پر چلے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو نئی شریعت دے کر اس حکم کو منسوخ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” اولئک الذین ہدی اللہ فبہدہم اقتدہ “ (الانعام : ٩٠) پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حکم سے دو یہودیوں کو سنگسار فرمایا۔ اس حکم میں محصن و غیر محصن کا فرق نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی شریعت اتار کر یہ حکم منسوخ کردیا فرمایا ” والٰتی یأتین الفاحشۃ من نساء کم “ (النسائ۔ ١٥) کہ وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں سے بےحیائی کا ارتکاب کریں ان پر چار گواہ بنا لو۔ اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں موت تک روکے رکھو یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راہ پیدا کر دے۔ یہ حکم ماقبل کے لیے ناسخ تھا اور اس میں بھی محصن اور غیر محصن کی تفریق نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرمایا اور ایذاء کو حد قرار دیا گیا اور اس میں بھی محصن و غیر محصن میں فرق نہ رکھا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل مقرر فرمایا ” البکر بالبکر جلدمائۃ و تغریب عام والثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم “ (ابن ماجہ فی الحدود باب ٧) کہ کنواری اور کنوارے کے زنا پر سو کوڑے اور ایک سال جالوطنی اور شادی شدہ کو شادی کے ساتھ زنا کی وجہ سے سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے۔ چنانچہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی حد میں فرق کردیا گیا۔ پھر علماء کا احصان کے متعلق اختلاف ہوا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اپنی بیوی کی وجہ سے محصن نہ بنے گا اور نہ عورت اپنے خاوند سے محصنہ بن جائے گی جب تک کہ وہ دونوں مسلمان بالغ ہوں اور اس نے اپنی بیوی کے ساتھ بلوغت کی عمر میں جماع کیا ہو۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ دوسری جماع کے ہاں اہل کتاب بھی کتابیہ سے محصن ہوگا اور مسلمان مسلمہ اور نصرانیہ سے محصن ہوجائے گا البتہ نصرانیہ مسلم سے محصنہ نہ بنے گی امالی میں امام ابو یوسف (رح) کا یہی قول ہے جیسا کہ سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے بیان کیا ہے۔ اب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ثیب ثیبہ سے زنا کرے تو سنگسار کرنا ہے اس میں ہر ثیب کا احتمال ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خاص ثیب مراد ہو۔ ہم نے ان دونوں باتوں کو جمع ہوتے پایا۔ نمبر ١ غلام اس میں داخل نہیں اور غلام محصن نہیں ہوتا خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور اس کی بیوی بھی محصنہ نہ بنے گی خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد اسی طرح لونڈی اپنے خاوند کی وجہ سے محصنہ نہ کہلائے گی۔ خواہ اس کا خاوند آزاد ہو یا غلام۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو رجم ہے۔ اس سے خاص قسم کا ثیب مراد ہے ہر ثیب مراد نہیں۔ تو جس پر اجماع ہے کہ خاص ثیب مراد ہے اس میں صرف وہی داخل ہوگا جس کے داخل ہونے پر اجماع ہو اور ان حضرات کا اتفاق ہے کہ دو آزاد مسلمان بالغ میاں بیوی جو (کم از کم ایک بار) جماع کرچکے ہوں وہ محصن ہوں گے اس کے علاوہ میں اختلاف ہے تو ہمارے علم کے مطابق یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول ” الثیب بالثیب الرجم “ اس میں داخل ہے اور ہم نے اس کو داخل قرار دیا اس کے علاوہ کے متعلق ہمارے علم میں بات نہیں آسکی اس لیے ان کو اس حکم سے خارج کیا ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب لونڈی آزاد آدمی کو محصن نہیں بنا سکتی اور نہ ہی آزاد لونڈی کو محصنہ بنا سکتا ہے اور وہ مرد کو محصن نہ بنانے میں اس طرح ہے جس طرح وہ اس کو محصن نہ بنانے میں نصرانی عورت کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ جب وہ اپنے مسلمان خاوند کو محصن نہیں بنا سکتی تو وہ بھی اس کو محصنہ بنہ بنا سکے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لونڈی کا مسلمان کو محصن بنانا جب باطل ٹھہرا تو کافر کو محصن بنانا بھی باطل ہوگیا جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
فریق ثانی کہتا ہے : آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ان کے مابین فیصلہ فرمائیں تو اس چیز کے ساتھ فیصلہ فرمائیں جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ جب اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہوا اور روایات کی دلالت مذکورہ گفتگو کی موافقت کرتی ہے۔ تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کا حاکم ان کے مابین فیصلہ کرے گا اور وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ تمام کے قول کے مطابق اس فیصلے میں نجات ہے۔
نمبر 1: کیونکہ جو لوگ فیصلے کے حق میں ہیں وہ فرماتے ہیں اس نے اس عمل کو چھوڑ دیا جو اس پر لازم تھا۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ نہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس عمل کو چھوڑا ہے جس کے چھوڑنے کا اسے اختیار تھا اور جب وہ فیصلہ کرے گا تو دونوں فریق اس کے لیے نجات کی گواہی دیں گے اور جب وہ فیصلہ نہیں کرے گا تو وہ نجات کی گواہی نہ دیں گے تو جس کام میں بالاتفاق نجات ہو اس کا کرنا اولیٰ ہے بجائے اس کام کے جس میں نجات کے خلاف بات اختلاف کے ساتھ ثابت ہو۔ یہ فیصلہ کرنے کا وجوب جو کہ مذکور ہوا یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
سوال : آپ زانی یہودی کے متعلق رجم کے قائل نہیں پس تم جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا۔
جواب : اگر زمانہ موسیٰ (علیہ السلام) میں زنا کرنے والوں کی سزا رجم تھی خواہ وہ محصن ہوں یا غیر محصن۔ اسی طرح جس یہودی سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا تھا کہ تمہاری کتاب میں زانی کی سزا کیا ہے تو اس نے بھی یہی جواب دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انکار نہیں فرمایا۔ آپ پر اس حکم کی اتباع لازم تھی اور ہر پیغمبر (علیہ السلام) کو یہی حکم ہوتا ہے کہ وہ پہلے پیغمبر (علیہ السلام) کی شریعت پر چلے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو نئی شریعت دے کر اس حکم کو منسوخ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” اولئک الذین ہدی اللہ فبہدہم اقتدہ “ (الانعام۔ ٩٠)
پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حکم سے دو یہودیوں کو سنگسار فرمایا۔ اس حکم میں محصن و غیر محصن کا فرق نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی شریعت اتار کر یہ حکم منسوخ کردیا فرمایا ” والٰتی یأتین الفاحشۃ من نساء کم “ (النسائ۔ ١٥) کہ وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں سے بےحیائی کا ارتکاب کریں ان پر چار گواہ بنا لو۔ اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں موت تک روکے رکھو یا پھر اللہ تعالیٰ کا ان کے لیے کوئی راہ پیدا کر دے۔ یہ حکم ماقبل کے لیے ناسخ تھا اور اس میں بھی محصن اور غیر محصن کی تفریق نہ تھی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرمایا اور ایذاء کو حد قرار دیا گیا اور اس میں بھی محصن و غیر محصن میں فرق نہ رکھا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل مقرر فرمایا ” البکر بالبکر جلدمائۃ و تغریب عام والثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم “ (ابن ماجہ فی الحدود باب ٧) کہ کنواری اور کنوارے کے زنا پر سو کوڑے اور ایک سال جالوطنی اور شادی شدہ کو شادی کے ساتھ زنا کی وجہ سے سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے۔ چنانچہ شادی اور غری شادی شدہ کی حد میں فرق کردیا گیا۔
احصان : پھر علماء کا احصان کے متعلق اختلاف ہوا۔
ایک جماعت : کچھ لوگوں نے کہا کہ اپنی بیوی کی وجہ سے محصن نہ بنے گا اور نہ عورت اپنے خاوند سے محصنہ بن جائے گی جب تک کہ وہ دونوں مسلمان بالغ ہوں اور اس نے اپنی بیوی کے ساتھ بلوغت کی عمر میں زنا کیا ہو۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
دوسری جماعت : اہل کتاب بھی کتابیہ سے محصن ہوگا اور مسلمان مسلمہ اور نصرانیہ سے محصن ہوجائے گا البتہ نصرانیہ مسلم سے محصنہ نہ بنے گی امالی میں امام ابو یوسف (رح) کا یہی قول ہے جیسا کہ سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے بیان کیا ہے۔
اب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ثیب ثیبہ سے زنا کرے تو سنگسار کرنا ہے اس میں ہر ثیب کا احتمال ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خاص ثیب مراد ہو۔
نظر طحاویسوال :
ہم نے ان دونوں باتوں کو جمع ہوتے پایا۔ نمبر ١ غلام اس میں داخل نہیں اور غلام محصن نہیں ہوتا خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور اس کی بیوی بھی محصنہ نہ بنے گی خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد اسی طرح لونڈی اپنے خاوند کی وجہ سے محصنہ نہ کہلائے گی۔ خواہ اس کا خاوند آزاد ہو یا غلام۔
پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو رجم ہے۔ اس سے خاص قسم کا ثیب مراد ہے ہر ثیب مراد نہیں۔ تو جس پر اجماع ہے کہ خاص ثیب مراد ہے اس میں صرف وہی داخل ہوگا جس کے داخل ہونے پر اجماع ہو اور ان حضرات کا اتفاق ہے کہ دو آزاد مسلمان بالغ میاں بیوی جو (کم از کم ایک بار) جماع کرچکے ہوں وہ محصن ہوں گے اس کے علاوہ میں اختلاف ہے تو ہمارے علم کے مطابق یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول ” الثیب بالثیب الرجم “ اس میں داخل ہے اور ہم نے اس کو داخل قرار دیا اس کے علاوہ کے متعلق ہمارے علم میں بات نہیں آسکی اس لیے ان کو اس حکم سے خارج کیا ہے۔
اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب لونڈی آزاد آدمی کو محصن نہیں بنا سکتی اور نہ ہی آزاد لونڈی کو محصنہ بنا سکتا ہے اور وہ مرد کو محصن نہ بنانے میں اس طرح ہے جس طرح وہ اس کو محصن نہ بنانے میں نصرانی عورت کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ جب وہ اپنے مسلمان خاوند کو محصن نہیں بنا سکتی تو وہ بھی اس کو محصنہ بنہ بنا سکے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لونڈی کا مسلمان کو محصن بنانا جب باطل ٹھہرا تو کافر کو محصن بنانا بھی باطل ہوگیا جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
` بَابُ الْقَضَائِ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ `
ایک گواہی کے ساتھ قسم سے فیصلہ
اموال میں قضا بالیمین مع شاہد کے متعلق دو قول ہیں۔
نمبر 1: امام مالک ‘ شافعی ‘ احمد رحمہم اللہ کے ہاں اگر ایک گواہ کے علاوہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہو تو دوسرے گواہ کی جگہ اس سے قسم لے کر قاضی فیصلہ کر دے گا۔ فریق ثانی کا مؤقف یہ ہے کہ اموال میں بھی حکم دوسرے معاملات کی طرح ہے ان میں دو گواہ ضروری ہیں اور قسم تو مدعیٰ علیہ پر ہے۔
تخریج : المرقات ج ٧‘ ٢٥٣‘ التعلیق ج ٤‘ ص ١٢٨۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔