HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

622

۶۲۲ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ وَعَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ فِرَاسٍ وَبَیَانٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَلَمَّا رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِہَا الَّذِیْ أَفْتَتْ بِہٖ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ مَا ذَکَرْنَا مِنْ حُکْمِ الْمُسْتَحَاضَۃِ أَنَّہَا تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَمَا ذَکَرْنَا أَنَّہَا تَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ، وَمَا ذَکَرْنَا أَنَّہَا تَدَعُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ کُلُّہُٗ عَنْہَا - ثَبَتَ بِجَوَابِہَا ذٰلِکَ، أَنَّ ذٰلِکَ الْحُکْمَ ہُوَ النَّاسِخُ لِلْحُکْمَیْنِ الْآخَرَیْنِ لِأَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ - عِنْدَنَا - عَلَیْہَا أَنْ تَدَعَ النَّاسِخَ، وَتُفْتِیَ بِالْمَنْسُوْخِ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ، لَسَقَطَتْ رِوَایَتُہَا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ ھٰذَا ہُوَ النَّاسِخُ لِمَا ذَکَرْنَا، وَجَبَ الْقَوْلُ بِہٖ، وَلَمْ یَجُزْ خِلَافُہَا .ھٰذَا وَجْہٌ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَعَانِی ھٰذِہِ الْآثَارِ عَلَیْہِ .وَقَدْ یَجُوْزُ فِیْ ھٰذَا وَجْہٌ آخَرُ، یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ فَاطِمَۃَ ابْنَۃِ أَبِیْ حُبَیْشٍ لَا یُخَالِفُ مَا رُوِیَ عَنْہُ، فِیْ أَمْرِ سَہْلَۃَ ابْنَۃِ سُہَیْلٍ لِأَنَّ فَاطِمَۃَ ابْنَۃَ أَبِیْ حُبَیْشٍ، کَانَتْ أَیَّامُہَا مَعْرُوْفَۃً، وَسَہْلَۃَ کَانَتْ أَیَّامُہَا مَجْہُوْلَۃً إِلَّا أَنَّ دَمَہَا یَنْقَطِعُ فِیْ أَوْقَاتٍ، وَیَعُوْدُ فِیْ أَوْقَاتٍ وَہِیَ قَدْ أَحَاطَ عِلْمُہَا أَنَّہَا لَمْ تَخْرُجْ مِنَ الْحَیْضِ بَعْدَ غُسْلِہَا إِلٰی أَنْ صَلَّتِ الصَّلَاتَیْنِ جَمِیْعًا .فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، فَإِنَّا نَقُوْلُ بِالْحَدِیْثَیْنِ جَمِیْعًا، فَنَجْعَلُ حُکْمَ حَدِیْثِ فَاطِمَۃَ عَلٰی مَا صَرَفْنَاہُ إِلَیْہِ، وَنَجْعَلُ حُکْمَ حَدِیْثِ سَہْلَۃَ، عَلٰی مَا صَرَفْنَاہُ أَیْضًا إِلَیْہِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، فَقَدْ رُوِیَ مُخْتَلِفًا .فَبَعْضُہُمْ یَذْکُرُ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِالْغُسْلِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ، وَلَمْ یَذْکُرْ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا) .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَمَرَہَا بِذٰلِکَ، لِیَکُوْنَ ذٰلِکَ الْمَائُ عِلَاجًا لَہَا، لِأَنَّہَا تُقَلِّصُ الدَّمَ فِی الرَّحِمِ، فَلَا یَسِیْلُ .وَبَعْضُہُمْ یَرْوِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا أَنْ تَدَعَ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ الْعِلَاجَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ مَا ذَکَرْنَا فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ھٰذَا، لِأَنَّ دَمَہَا سَائِلٌ دَائِمُ السَّیَلَانِ، فَلَیْسَتْ صَلَاۃٌ إِلَّا یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَ عِنْدَہَا طَاہِرًا مِنْ حَیْضٍ لَیْسَ لَہَا أَنْ تُصَلِّیَہَا إِلَّا بَعْدَ الْاِغْتِسَالِ، فَأَمَرَہَا بِالْغُسْلِ لِذٰلِکَ .فَإِنْ کَانَ ھٰذَا ہُوَ مَعْنٰی حَدِیْثِہَا، فَإِنَّا کَذٰلِکَ - نَقُوْلُ أَیْضًا فِیْمَنِ اسْتَمَرَّ بِہَا الدَّمُ، وَلَمْ تَعْرِفْ أَیَّامَہَا .فَلَمَّا احْتَمَلَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ مَا ذَکَرْنَا وَرَوَیْنَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ قَوْلِہَا بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا وَصَفْنَا ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ حُکْمُ الْمُسْتَحَاضَۃِ، الَّتِیْ لَا تَعْرِفُ أَیَّامَہَا، وَثَبَتَ أَنَّ مَا خَالَفَ ذٰلِکَ، مِمَّا رُوِیَ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مُسْتَحَاضَۃٍ، اسْتِحَاضَتُہَا، غَیْرُ اسْتِحَاضَۃِ ھٰذِہِ، أَوْ فِیْ مُسْتَحَاضَۃٍ، اسْتِحَاضَتُہَا مِثْلُ اسْتِحَاضَۃِ ھٰذِہِ .إِلَّا أَنَّ ذٰلِکَ - عَلٰی أَیِّ الْمَعَانِیْ کَانَ - فَمَا رُوِیَ فِیْ أَمْرِ فَاطِمَۃَ ابْنَۃِ أَبِیْ حُبَیْشٍ، أَوْلٰی لِأَنَّ مَعَہُ الْاِخْتِیَارَ مِنْ عَائِشَۃَ لَہٗ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ عَلِمَتْ مَا خَالَفَہُ، وَمَا وَافَقَہٗ مِنْ قَوْلِہٖ .وَکَذٰلِکَ أَیْضًا مَا رَوَیْنَاہُ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ أَنَّہَا تَغْتَسِلُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ وَمَا رَوَیْنَاہُ عَنْہُ أَنَّہَا تَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ وَمَا رَوَیْنَاہُ عَنْہُ أَنَّہَا تَدَعُ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ إِنَّمَا اخْتَلَفَتْ أَقْوَالُہٗ فِیْ ذٰلِکَ لِاخْتِلَافِ الْاِسْتِحَاضَۃِ الَّتِیْ أَفْتٰی فِیْہَا بِذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا رَوَوْا عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِی اغْتِسَالِہَا لِکُلِّ صَلَاۃٍ، فَوَجْہُ ذٰلِکَ عِنْدَنَا أَنَّہَا کَانَتْ تَتَعَالَجُ بِہٖ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ، وَہِیَ الَّتِیْ یُحْتَجُّ بِہَا فِیْہِ .ثُمَّ اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّہَا تَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ تَتَوَضَّأُ لِوَقْتِ کُلِّ صَلَاۃٍ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَزُفَرَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ تَتَوَضَّأُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، وَلَا یَعْرِفُوْنَ ذِکْرَ الْوَقْتِ فِیْ ذٰلِکَ .فَأَرَدْنَا نَحْنُ أَنْ نَسْتَخْرِجَ مِنَ الْقَوْلَیْنِ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَرَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہَا اِذَا تَوَضَّأَتْ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ، فَلَمْ تُصَلِّ حَتّٰی خَرَجَ الْوَقْتُ، فَأَرَادَتْ أَنْ تُصَلِّیَ بِذٰلِکَ الْوُضُوْئِ - أَنَّہٗ لَیْسَ ذٰلِکَ لَہَا حَتَّی تَتَوَضَّأَ وُضُوْئً ا جَدِیْدًا .وَرَأَیْنَاہَا لَوْ تَوَضَّأَتْ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ فَصَلَّتْ، ثُمَّ أَرَادَتْ أَنْ تَتَطَوَّعَ بِذٰلِکَ الْوُضُوْئِ کَانَ ذٰلِکَ لَہَا مَا دَامَتْ فِی الْوَقْتِ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ الَّذِیْ یَنْقُضُ تَطَہُّرَہَا ہُوَ خُرُوْجُ الْوَقْتِ، وَأَنَّ وُضُوْئَ ہَا یُوْجِبُہُ الْوَقْتُ لَا الصَّلَاۃُ، وَقَدْ رَأَیْنَاہَا لَوْ فَاتَتْہَا صَلَوَاتٌ، فَأَرَادَتْ أَنْ تَقْضِیَہُنَّ کَانَ لَہَا أَنْ تَجْمَعَہُنَّ فِیْ وَقْتِ صَلَاۃٍ وَاحِدَۃٍ بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ .فَلَوْ کَانَ الْوُضُوْئُ یَجِبُ عَلَیْہِمَا لِکُلِّ صَلَاۃٍ، لَکَانَ یَجِبُ أَنْ تَتَوَضَّأَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ الْفَائِتَاتِ .فَلَمَّا کَانَتْ تُصَلِّیْہِنَّ جَمِیْعًا بِوُضُوْئٍ وَاحِدٍ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوُضُوْئَ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَیْہَا، ہُوَ لِغَیْرِ الصَّلَاۃِ، وَہُوَ الْوَقْتُ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی، أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الطَّہَارَاتِ تَنْتَقِضُ بِأَحْدَاثٍ، مِنْہَا الْغَائِطُ، وَالْبَوْلُ .وَطَہَارَاتٍ تَنْتَقِضُ بِخُرُوْجِ أَوْقَاتٍ، وَہِیَ الطَّہَارَۃُ بِالْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ، یَنْقُضُہَا خُرُوْجُ وَقْتِ الْمُسَافِرِ وَخُرُوْجُ وَقْتِ الْمُقِیْمِ .وَھٰذِہِ الطَّہَارَاتُ الْمُتَّفَقُ عَلَیْہَا، لَمْ نَجِدْ فِیْمَا یَنْقُضُہَا صَلَاۃً، إِنَّمَا یَنْقُضُہَا حَدَثٌ، أَوْ خُرُوْجُ وَقْتٍ .وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ طَہَارَۃَ الْمُسْتَحَاضَۃِ، طَہَارَۃٌ یَنْقُضُہَا الْحَدَثُ وَغَیْرُ الْحَدَثِ .فَقَالَ قَوْمٌ : ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ غَیْرُ الْحَدَثِ، ہُوَ خُرُوْجُ الْوَقْتِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہُوَ فَرَاغٌ مِنْ صَلَاۃٍ، وَلَمْ نَجِدَ الْفَرَاغَ مِنَ الصَّلَاۃِ حَدَثًا فِیْ شَیْئٍ غَیْرَ ذٰلِکَ، وَقَدْ وَجَدْنَا خُرُوْجَ الْوَقْتِ حَدَثًا فِیْ غَیْرِہٖ .فَأَوْلَی الْأَشْیَائِ أَنْ نَرْجِعَ فِیْ ھٰذَا الْحَدَثِ الْمُخْتَلَفِ فِیْہِ، فَنَجْعَلَہٗ کَالْحَدَثِ الَّذِیْ قَدْ أُجْمِعَ عَلَیْہِ وَوُجِدَ لَہٗ أَصْلٌ وَلَا نَجْعَلَہُ کَمَا لَمْ یُجْمَعْ عَلَیْہِ، وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ أَصْلًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّہَا تَتَوَضَّأُ لِکُلِّ وَقْتِ صَلَاۃٍ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔
٦٢٢: سفیان نے فراس وبیان سے ‘ وہ شعبی سے اور شعبی نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ پس جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے وہ روایت وارد ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حکم مستحاضہ کے متعلق وہ یہی فتویٰ دیتی تھیں کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے اور وہ جو ہم نے بیان کیا کہ وہ دو نمازوں کو ایک غسل کے ساتھ جمع کرے اور اسی طرح جو ہم نے بیان کیا کہ ایّام حیض میں اپنی نماز چھوڑ دے۔ پھر غسل کر کے ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ یہ تمام تر باتیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہیں تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے جواب سے ثابت ہوا کہ یہ آخری حکم پہلے دو حکموں کو منسوخ کرنے والا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ ناسخ کو چھوڑ کر منسوخ پر فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ اگر یہ بات تسلیم نہ کی جائے تو ان کی روایت ساقط ہوجائے گی۔ پس جب اس بنیاد پر جو ہم نے ذکر کی اس کا ناسخ ہونا ثابت ہوگیا۔ تو اب اس کو اختیار کرنا ضروری ہوا اور اس کی مخالفت جائز نہ رہی۔ یہ وہ صورت ہے جس سے ان آثار کے معانی درست ہوسکتے ہیں اور اس میں ایک اور صورت بھی بن سکتی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ فاطمہ بنت حبیش نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت کی ہے وہ حضرت سہلہ کی روایت کے خلاف نہیں کیونکہ فاطمہ کے ایّام حیض معروف تھے اور سہلہ کے ایّام نامعلوم تھے البتہ اتنا فرق ضرور تھا کہ سہلہ کا خون کسی وقت منقطع ہوجاتا اور پھر کسی وقت جاری ہوجاتا۔ اس لیے ان کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ وہ غسل کے بعد بھی حیض سے فارغ نہیں ہوئیں۔ چہ جائیکہ وہ اس سے دو نمازیں پڑھیں۔ اگر یہ بات اسی طرح ہے تو ہم ان دونوں روایات کے بارے میں یہ عرض کرسکتے ہیں کہ حضرت فاطمہ والی روایت کا حکم اسی قسم پر لگے گا کہ جس کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ یعنی ایسی عورت جس کے ایّام حیض معلوم ہوں اور سہلہ والی روایت کا رخ اس طرف پھیرا جائے جو ہم نے ذکر کیا یعنی جس عورت کے ایّام معلوم نہ ہو سکیں۔ اب رہی وہ روایت جس کو حضرت امّ حبیبہ (رض) نے روایت کیا ہے تو وہ روایت بھی مختلف روات نے مختلف نقل کی ہے۔ چنانچہ بعض نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امّ حبیبہ (رض) کو ہر نماز کے وقت غسل کا حکم دیا۔ مگر اس میں ان کے ایّام حیض کا تذکرہ موجود نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ نے امّ حبیبہ (رض) کو یہ حکم پانی کے ذریعہ معالجہ کی خاطر دیا ہو کیونکہ پانی رحم کے اندر خون کو روک دیتا ہے اور وہ بہنا بند ہوجاتا ہے۔ بعض دوسرے روات حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو یہ حکم فرمایا کہ وہ اپنے ایّام حیض میں نماز کو چھوڑ دے اور پھر ہر نماز کے لیے غسل کرتی رہیں۔ اگر یہ روایت اسی طرح مان لی جائے تو عین ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ذریعے ان کے علاج کا ارادہ فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد وہی ہو جو ہم گزشتہ فصل میں ذکر کرچکے ہیں کیونکہ ان کا خون تو ہر وقت بہتا تھا۔ پس کوئی نماز بھی ایسی نہیں تھی کہ جس کے بارے میں یہ احتمال نہ ہو کہ اس میں حیض سے وہ پاک ہیں۔ پس اس کے لیے یہی مناسب تھا کہ وہ غسل کے بعد اس کو ادا کرے۔ اس لیے آپ نے اس کو غسل کا حکم فرمایا۔ پس اگر ان کی روایت کا یہی مطلب ہو تو ہم یہی بات ان سب عورتوں کے بارے میں کہتے ہیں جن کا خون جاری رہتا ہو اور ان کے ایّام معلوم نہ ہوں۔ جب ان روایات میں یہ احتمالات موجود ہیں جو ہم نے بیان کردیئے اور ہم نے یہ بھی ذکر کردیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ فتویٰ دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس مستحاضہ کا حکم یہی ہے کہ جس کے ایّام معلوم نہ ہوں اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی اس کے برعکس جو کچھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی وساطت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستحاضہ کے بارے میں مروی ہے تو اس کے استحاضہ کی ‘ اس سے الگ صورت مراد ہے یا اس کا استحاضہ اسی استحاضہ کی طرح ہے مگر یہ کہ کونسا معنی مراد ہے۔ آیا جو فاطمہ بنت حبیش کے معاملے میں مروی ہے تو وہ اولیٰ ہے کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے اسی کو اختیار فرمایا حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کونسا قول اس کے موافق یا مخالف ہے۔ اسی طرح جو ہم نے مستحاضہ کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے اور وہ جو ہم نے انہی سے روایت نقل کی ہے کہ وہ دو نمازوں کو ایک غسل کے ساتھ جمع کرے اور وہ جو انہی سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ حیض کے دنوں میں نمازوں کو ترک کر دے پھر غسل کر کے ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے حضرت علی (رض) کے اقوال مستحاضہ عورتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے فتویٰ میں مختلف ہیں۔ رہی وہ روایت جو حضرت امّ حبیبہ (رض) سے مروی ہے کہ ہر نماز کے وقت غسل کرے تو ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بطور علاج کے آپ نے فرمایا تھا۔ یہ تو اس باب کا حکم ان آثار کو سامنے رکھ کر تھا جن کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے ‘ پھر اس میں دوسرا اختلاف ان لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے جبکہ دوسرے یہ کہتے ہیں کہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کرے اور یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ زفر ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا ہے۔ علماء کی ایک اور جماعت نے یہ کہا ہے کہ ہر نماز کے لیے وہ عورت وضو کرے اس سلسلے میں وہ وقتی ذکر کو نہیں پہچانتے۔ پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے صحیح قول کو ظاہر کریں۔ چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر اس عورت نے نماز کے وقت میں وضو کیا مگر نماز ادا نہ کی۔ یہاں تک کہ اس کا وقت جاتا رہا۔ اب اس نے اسی وضو سے نماز پڑھنا چاہی تو اس کے لیے یہ جائز نہیں جب تک کہ وہ نیا وضو نہ کرے اور ہم یہ بات بھی پاتے ہیں کہ اگر اس نے نماز کے وقت میں وضو کرلیا پھر نماز ادا کی پھر اسی وضو سے نفل پڑھنا چاہے تو جب تک وقت ہے اس کو نوافل کی ادائیگی جائز ہے جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس چیز نے اس کی طہارت کو زائل کیا ہے وہ وقت کا نکلنا ہے اور اس کا وضو اس کو وقت لازم کرتا ہے ‘ نماز نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر اس کی کئی نمازیں فوت ہوجائیں اور اس کا ارادہ یہ ہوا کہ وہ ان کی قضا کرلے تو اس کو ایک نماز کے وقت میں ان تمام نمازوں کا ایک وضو سے جمع کرنا جائز ہے۔ اگر اس پر ہر نماز کے لیے وضو لازم ہوتا تو پھر ضروری تھا کہ ہر فوت شدہ نماز کے لیے وہ وضو کرتی۔ پس جب ان سب کی ادائیگی ایک وضو سے ہوگئی تو اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ وہ وضو جو اس پر لازم ہوا وہ نماز کے لیے نہیں بلکہ وقت کے لیے ہے۔ دوسری دلیل ملاحظہ ہو : ہم یہ بات بھی پاتے ہیں کہ طہارتیں حدث سے ٹوٹ جاتی ہیں اور احداث یہ ہیں : بول و برواز اور بعض طہارتیں ایسی ہیں جو وقت کے نکلنے سے ٹوٹتی ہیں ‘ وہ موزوں پر مسح کی طہارت ہے کہ مسافر یا مقیم کے لیے وقت کا نکلنا طہارت مسح کو باطل کردیتا ہے ‘ ان طہارتوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے۔ ان طہارتوں کو توڑنے والی چیزوں میں ہم نماز کو نہیں پاتے بلکہ صرف حدث یا وقت کے نکل جانے کو پاتے ہیں اور یہ بات تو ثابت ہوچکی کہ مستحاضہ کی طہارت ایسی طہارت ہے جو حدث اور غیر حدث دونوں سے ٹوٹتی ہے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ غیر حدث جس سے یہ ٹوٹ جاتی ہے وہ وقت کا نکل جانا ہے جبکہ دوسروں نے یہ کہا کہ وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے مگر ہم نماز سے فارغ ہونے کو اس کے علاوہ اور کسی چیز میں حدث نہیں پاتے۔ جبکہ وقت کے نکلنے کو اور کئی چیزوں میں حدث تسلیم کیا گیا ہے۔ پس اس میں بہتر یہی ہے کہ ہم اس حدث میں بھی اسی طرح رجوع کریں اور اس کو ایسا حدث بنائیں جس پر سب کا اتفاق ہے اور اس کی اصل پائی جاتی ہو اور اس کو ایسا حدث نہ بنائیں جس پر اتفاق نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی اصل ہے۔ پس اس سے ان علماء کا قول ثابت ہوگیا جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت نماز کے لیے وضو کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
فیصلہ :
اب جب حضرت عائشہ (رض) نے وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مستحاضہ کے سلسلہ میں یہ فتویٰ دیا کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے تو اب سابقہ روایات کہ مستحاضہ ہر نماز کے لیے غسل کرے اور یہ روایت کہ دو نمازیں ایک غسل سے پڑھے اور یہ روایت کہ وہ ایام حیض میں نماز چھوڑ دے پھر غسل کرے اور ہر نماز کے لیے غسل کرے یہ تمام روایات انہی سے مروی ہیں ان کے اس فتویٰ نے ثابت کردیا کہ پہلی دونوں روایات منسوخ ہیں اور ناسخ کے ہوتے ہوئے منسوخ پر عمل درست نہیں وہ اگر ناسخ کو چھوڑ کر منسوخ کا فتویٰ دیتیں تو ان کی روایات ہی ساقط ہوجاتیں پس جب ناسخ ہونا ظاہر ہوگیا اس پر فتویٰ لازم اور اس کی مخالفت جائز نہیں یہ روایات پر عمل کی بہترین صورت ہے۔
ایک دوسری صورت :
بھی ہوسکتی ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش والی روایت کو اس پر محمول کریں کہ وہ معتادہ تھیں اس لیے وضو لکل صلوۃ کا حکم فرمایا اور سہلہ بنت سہیل کے ایام حیض نامعلوم اور خون کبھی بند ہوتا اور کبھی جاری ہوتا اس لیے ان کو دو نمازوں کو ایک غسل سے پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جب محمل الگ الگ ہوئے تو تضاد نہ رہا۔
روایت ام حبیبہ (رض) کا جواب : توجیہ اوّل :
اس روایت کو مختلف وجوہ سے بیان کیا گیا ہے۔
بعض نے حضرت عائشہ (رض) کے واسطہ سے ذکر کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرمایا اور ایام حیض کا اس میں تذکرہ نہیں ہے تو عین ممکن ہے کہ یہ حکم غسل ان کے لیے بطور علاج ہو کیونکہ پانی اپنی ٹھنڈک سے رحم کے خون کو بند کرتا ہے اور اس کا قرینہ ان کا ٹب میں بیٹھ کر کافی دیر نہانے والی روایت ہے۔
نمبر ٢: بعض نے اس روایت کو بواسطہ عائشہ (رض) نقل کیا مگر اس میں حکم یہ ہے کہ وہ حیض کے ایام میں نماز کو چھوڑ دے پھر ہر نماز کے لیے غسل کرے اگر یہ روایت اسی طرح ہو تو اس کو غسل کا حکم بطور علاج ہو ‘ یہ بھی عین ممکن ہے۔
غسل کا حکم بطور علاج ہو :
نمبردو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مستحاضہ مستمرۃ الدم ہوں تو ان کی ہر نماز اسی طرح شمار ہوگی گویا ابھی وہ حیض سے پاک ہوئی ہیں اس لیے غسل کے بعد ہی ان کو نماز کی اجازت ہوگی اس وجہ سے آپ نے اس کو غسل لکل صلوۃ کا حکم فرمایا۔ جب ان کی روایت کی یہ توجیہ ہوئی تو وہ عورت جس کا خون مستمر ہو اور ایام حیض معلوم نہ ہوں اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔

ایک جدید توجیہ :
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا فتویٰ زمانہ نبوت کے بعد کا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ غسل لکل صلوۃ والی روایت میں ایسی مستحاضہ کا ذکر ہے جس کے ایام حیض معلوم و معروف ہوں اور عائشہ (رض) کی مرفوع روایت میں ایسی مستحاضہ کا ذکر ہے جو اس کے علاوہ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ وضو لکل صلوۃ ، معتادہ کے حق میں ہے جیسے فاطمہ بنت ابی حبیش یا پھر وہ روایت اس مستحاضہ سے متعلق ہو جس کے ایام تو معروف نہیں مگر وہ طہر متخلل کی وجہ سے اس عورت کی طرح ہوجاتی ہے جس کے ایام حیض ہی غیر متعین ہیں مگر کبھی استحاضہ کا خون بند ہونے کی وجہ سے وہ معتادہ کے مشابہہ بن جاتی ہے کہ جب خون آنا بند ہو تو وہ ایک غسل سے جتنی چاہے نمازیں پڑھ سکتی ہے اب یہ تین صورتیں بن گئیں تو فتویٰ کس روایت کے موافق قرار دیں گے۔
غور سے معلوم ہوا کہ فاطمہ بنت ابی حبیش کی روایت فتویٰ سے جوڑ رکھتی ہے کہ فتویٰ زمانہ نبوت کے بعد کا ہے تو حضرت عائشہ (رض) کو فتویٰ کے موافق و مخالف دونوں روایات کا علم تھا اس علم کی روشنی میں ان کا وضو لکل صلوۃ کا فتویٰ دینا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کے خلاف روایات یا تو عورتوں کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہیں یا تمام تر منسوخ ہیں۔
روایات علی (رض) کا جائزہ :
حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح تینوں قسم کی روایات وارد ہوئی ہیں کہ وہ غسل لکل صلوۃ نمبر ٢ غسل لصلاتین نمبر ٣ وضو لکل صلوۃ البتہ ایام حیض میں نماز بالکل ترک کرے گی تو یہ روایات سوائے آخری روایت کے فتویٰ کے خلاف ہیں پس یہی کہیں گے کہ مستحاضہ کے حالات کے اختلاف سے روایت و فتویٰ مختلف ہے۔
ایک اعتراض :
ضمنی طور پر پیدا ہوا کہ اوپر آپ نے ان کی روایات کی توجیہ تو احوال کے اختلاف سے کردی مگر ام حبیبہ (رض) تو ایک ہی عورت ہے ان کے متعلق روایات کے اختلاف کا کیا مطلب ہے وہ معتادہ سمجھی جائیں یا متحیرہ مستمرۃ الدم۔
الجواب :
وہ درحقیقت معتادہ ہیں رہی وہ روایات جن میں ایام حیض کا تذکرہ موجود نہیں تو ان سے آپ ان پر متحیرہ کا حکم لاگو نہیں کرسکتے رہا حکم غسل تو بطور علاج ہے نہ کہ بطور حکم شرعی۔
آثار کو سامنے رکھ کر ہم نے یہ توجیہات ذکر کردیں۔
اختلاف دوم :
ہر نماز کے لیے وضو یا ہر وقت نماز کے لیے وضو ؟ دو روایتیں۔
نمبر ١: امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد و احمدر حمہم اللہ کے ہاں وقت صلوۃ کے لیے وضو کیا جائے گا۔
نمبر ٢: امام شافعی و سفیان ثوری و احمد (رح) ہر فرض نماز کے لیے وضو کرنا لازم ہے۔
ان دونوں اقوال میں صحیح قول کی وضاحت کے لیے غوروخوض ضروری ہے غور سے معلوم ہوا کہ ہر دو کے ہاں یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ مستحاضہ عورت کسی ایک وقت کی نماز کے لیے وضو کرے اور نماز نہ پڑھے مگر اس وقت جبکہ اس نماز کا وقت فوت ہوجائے تو اسی وضو سے خروج وقت کے بعد کوئی نماز ادا کرنا جائز نہیں بلکہ تجدید وضو لازم ہے۔
نمبر ٢: دوسری بات یہ بھی ظاہر ہوئی کہ اگر وہ وقت کے اندر وضو کرے اور نماز ادا کرے پھر وقت کے دوران اسی وضو سے نوافل و سنن ادا کرے تو بالاتفاق یہ جائز ہے اور اس کے نوافل درست ہیں نتیجہ فکریہ نکل آیا کہ خروج وقت نے اس کی طہارت کو توڑ دیا ادائیگی نماز نے نہیں توڑا ورنہ فرائض کے بعد اس کو نوافل کی قطعاً گنجائش نہ ہوتی پس روایت میں وضو لکل صلوۃ سے لوقت کل صلوۃ مراد ہے۔
ایک الزامی دلیل :
اگر اس کی کئی نمازیں فوت ہوجائیں اور وہ ان کو اد ا کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ ان تمام فوت شدہ نمازوں کو اکٹھا ایک نماز کے وقت میں ایک وضو سے ادا کرے اور دوسری طرف آپ کے ہاں ہر نماز کے لیے وضو لازم ہے وقتی کے لیے الگ وضو کیا جائے اور فائتہ کے لیے الگ کیا جائے اور متعدد فوت شدہ کو ایک وضو سے ادا کرنا جائز ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نماز سے فراغت وضو کے لیے ناقض نہیں ورنہ فوت شدہ میں ہر ایک کے لیے الگ وضو کرنا لازم ہوتا جو کہ آپ کے نزدیک بھی لازم نہیں تو ہر نماز کے وقت کے لیے وضو لازم ہوا۔
نظر طحاوی (رح) سے آخری دلیل :
پوری فکروسوچ سے ہم نے جانچا کہ طہارت دو قسم کی ہے۔
نمبر ١: وہ طہارت جو پیشاب و پائخانہ سے ٹوٹتی ہے۔
نمبر ٢: وہ طہارت جو وقت کے نکلنے سے ٹوٹتی ہے مثلاً مسح خفین۔ مسافر و مقیم کا وقت ایک دن رات اور تین دن رات پورے ہونے سے خود ٹوٹ جاتا ہے ان طہارتوں پر سب کا اتفاق ہے ہم نے کوئی ایسی طہارت نہ پائی جس کو نماز توڑ دے بلکہ طہارات کا ناقض حدث اور خروج وقت ہی پایا گیا اب آمدم برسر مطلب مستحاضہ کے باب میں دیکھا کہ اس کی طہارت کو حدث بھی توڑتا ہے اور غیر حدث بھی۔ اب غیر حدث جو اس کی طہارت کا ناقض ہے وہ کیا چیز ہے ایک گروہ نے تو خروج وقت قرار دیا دوسروں نے کہا وہ خروج وقت نہیں بلکہ فراغ صلوۃ ہے اب ان دونوں میں فیصلہ کے لیے نظیر کی تلاش کی تو خرورج وقت کی نظیر مل گئی کہ وہ مسح علی الخفین ہے مگر فراغت صلوۃ کی نظیر میسر نہ آئی۔
پس بطور عقل بھی فراغ نماز کو ناقض قرار نہیں دے سکتے اس لیے خرورج وقت کو ناقض وضو قرار دینا بہرحال اولیٰ ہوگا اس عقلی دلیل سے ان حضرات کی بات کو مزید تقویت مل جاتی ہے جو ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کو ضروری قرار دیتے ہیں یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے اپنے مزاج و طرز کے خلاف راجح قول کو اول نقل کیا حالانکہ اس کا کتاب میں یہ طرز چلا آ رہا ہے کہ پہلے مرجوح اقوال کو ذکر کرتے ہیں اور آخر میں راجح قول لاتے ہیں جیسا کہ اس باب کے مسئلہ اول کے سلسلہ میں بخوبی ظاہر ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔