HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

719

۷۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ عَبَّادٍ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ قَالَا قَالَ : ابْنُ مَسْعُوْدٍ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَدُلُّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَعَدَ لِلْغَائِطِ، فِیْ مَکَانٍ لَیْسَ فِیْہِ أَحْجَارٌ لِقَوْلِہٖ : لِعَبْدِ اللّٰہِ (نَاوِلْنِیْ ثَلَاثَۃَ أَحْجَارٍ) .وَلَوْ کَانَ بِحَضْرَتِہٖ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ ، لَمَا احْتَاجَ إِلٰی أَنْ یُنَاوِلَہٗ مِنْ غَیْرِ ذٰلِکَ الْمَکَانِ. فَلَمَّا أَتَاہُ عَبْدُ اللّٰہِ بِحَجَرَیْنِ وَرَوْثَۃٍ، فَأَلْقَی الرَّوْثَۃَ، وَأَخَذَ الْحَجَرَیْنِ، دَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اسْتِعْمَالِہِ الْحَجَرَیْنِ، وَعَلٰی أَنَّہٗ قَدْ رَأٰی أَنَّ الْاِسْتِجْمَارَ بِہِمَا یُجْزِئُ مِمَّا یُجْزِئُ مِنْہُ الْاِسْتِجْمَارُ بِالثَّلَاثِ .لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ لَا یُجْزِئُ الْاِسْتِجْمَارُ بِمَا دُوْنَ الثَّلَاثِ، لَمَا اکْتَفٰی بِالْحَجَرَیْنِ وَلَأَمَرَ عَبْدَ اللّٰہِ أَنْ یَبْغِیَہٗ ثَالِثًا .فَفِیْ تَرْکِہِ ذٰلِکَ، دَلِیْلٌ عَلَی اکْتِفَائِہٖ بِالْحَجَرَیْنِ - فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْغَائِطَ وَالْبَوْلَ اِذَا غُسِلَا بِالْمَائِ مَرَّۃً، فَذَہَبَ بِذٰلِکَ أَثَرُہُمَا أَوْ رِیْحُہُمَا حَتّٰی لَمْ یَبْقَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ أَنَّ مَکَانَہُمَا قَدْ طَہُرَ .وَلَوْ لَمْ یَذْہَبْ بِذٰلِکَ لَوْنُہُمَا وَلَا رِیْحُہُمَا، اُحْتِیْجَ إِلٰی غُسْلِہٖ ثَانِیَۃً .فَإِنْ غُسِلَ ثَانِیَۃً فَذَہَبَ لَوْنُہُمَا وَرِیْحُہُمَا، طَہُرَ بِذٰلِکَ، کَمَا یَطْہُرُ بِالْوَاحِدَۃِ .وَلَوْ لَمْ یَذْہَبْ لَوْنُہُمَا وَلَا رِیْحُہُمَا یُغْسَلُ مَرَّتَیْنِ، اُحْتِیْجَ إِلَی أَنَّ الْغَسْلَ بَعْدَ ذٰلِکَ حَتّٰی یَذْہَبَ لَوْنُہُمَا وَرِیْحُہُمَا .فَکَانَ مَا یُرَادُ فِی غَسْلِہِمَا ہُوَ ذَہَابُہُمَا بِمَا أَذْہَبَہُمَا، مِنَ الْغُسْلِ، وَلَمْ یَرِدْ فِیْ ذٰلِکَ مِقْدَارٌ مِنَ الْغُسْلِ مَعْلُوْمٌ لَا یُجْزِئُ مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْہٗ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ الْاِسْتِجْمَارُ بِالْحِجَارَۃِ، لَا یُرَادُ مِنَ الْحِجَارَۃِ فِیْ ذٰلِکَ مِقْدَارٌ مَعْلُوْمٌ لَا یُجْزِئُ الْاِسْتِجْمَارُ بِأَقَلَّ مِنْہُ، وَلَکِنْ یُجْزِئُ مِنْ ذٰلِکَ مَا أَذْہَبَ بِالنَّجَاسَۃِ، مِمَّا قَلَّ أَوْ کَثُرَ .وَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی.
٧١٩: اور بو سحاق نے نقل کیا کہ علقمہ واسود دونوں نے کہا کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اسی طرح کی روایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ اس روایت میں اس بات پر دلالت ہے کہ آپ قضائے حاجت کے لیے ایسی جگہ بیٹھے جہاں پتھر نہ تھے اس لیے کہ آپ نے ابن مسعود (رض) کو فرمایا مجھے تین پتھر لا کر دو ۔ اگر وہاں پتھر ہوتے تو دوسرے سے منگوانے کی چنداں حاجت نہ تھی۔ عبداللہ (رض) نے آپ کی خدمت میں دو پتھر اور مینگنی پیش کی۔ آپ نے پتھر لے لیے اور مینگنی کو پھینک دیا۔ اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ آپ نے دو پتھر استعمال فرمائے اور دوسری یہ دلالت ملی کہ آپ ان دو پتھروں سے استنجاء کو کافی سمجھتے تھے جو تین کی جگہ کام دے جائیں۔ اگر تین کے بغیر استنجاء درست نہ ہوتا تو آپ دو پتھروں پر اکتفاء نہ فرماتے بلکہ ابن مسعود (رض) کو حکم فرماتے کہ تیسرا پتھر بھی تلاش کر کے لاؤ۔ آپ کا تیسرا پتھر کو چھوڑ دینا دو پتھروں کے کافی ہونے کو ثابت کرتا ہے ‘ آثار کے معنی کو درست کرنے کی خاطر اس باب کا راستہ یہ ہے۔ غور و فکر کے انداز سے ملاحظہ کریں۔ ہم نے بول و براز کے متعلق غور کیا کہ اگر ان کو پانی کے ساتھ دھویا جائے تو ان کا اثر اور بدبو وغیرہ دور ہوجاتی ہے یہاں تک کہ وہاں کوئی چیز نہیں رہتی تو وہ جگہ یا کپڑا پاک ہوجاتا ہے اور اگر اس سے ان کا رنگ اور بو زائل نہ ہو تو دوبارہ دھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر دو مرتبہ دھو ڈالنے سے اس کی رنگت اور بدبو چلی جائے تو اس صورت میں بھی پاک ہوجائے گا جس طرح کہ ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہوگیا تھا۔ اگر دو مرتبہ دھونے سے بھی رنگت اور بو کا ازالہ نہیں ہوتا تو پھر ایک بار پھر دھونے کی حاجت پڑے گی تاکہ ان نجاستوں کی رنگت اور بول زائل ہوجائے۔ گویا دھونے سے جو چیز مقصود ہے وہ ان نجاسات کا ازالہ ہے جس قدر دھونے سے ازالہ ہوجائے دھونے کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے کہ اس سے کم کفایت نہ کرتا ہو (بلکہ اتنی مقدار کو پورا کرنا ضروری ہو) ۔ پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ پتھروں سے ازالہ نجاست کے وقت بھی پتھروں کی مقررہ مقدار معلوم نہیں کہ ان سے کم کے ساتھ استنجاء نہ ہوسکتا ہو بلکہ جس قدر پتھر کافی ہوں جن سے ازالہ نجاست ہو خواہ کم ہوں یا زیادہ ‘ قیاس اسی بات کو چاہتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا یہی قول ہے۔
تخریج : دارقطنی ١؍٥٣
حاصل روایات :
ان چار روایات نے احتمال اول کی جانب کو متعین کردیا کہ آثار اول میں طاق کا حکم استحباب کے لیے ہے بطور فرض نہیں کہ اس کے بغیر حصول طہارت نہ ہو حدیث ابن مسعود (رض) نے تو اس بات کو مزید کھول دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پائخانہ کے لیے ایسی جگہ میں جہاں پتھر نہ تھے تین پتھر لانے کا حکم فرمایا اگر یہ تین کا عدد لزوم کے لیے ہوگا تو عبداللہ کے دو پتھر اور ایک مینگنی لانے پر دو پتھروں پر اکتفاء نہ فرماتے اور دور سے لانے کی بھی ضرورت تبھی پیش آئی کہ سامنے پتھر نہ تھے دو کے استعمال سے ثابت ہوگیا کہ ان سے بھی استنجاء اسی طرح جائز ہے جس طرح تین سے اگر تین لازم ہوتے تو دو پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ عبداللہ کو تیسرا پتھر تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جو کہ آپ نے نہیں کیا گویا تیسرے کے استعمال کا ترک خود عدم وجوب ثلاث کی واضح دلیل ہے۔
جو کچھ آثار کی توفیق کے لیے مناسب تھا ہم نے یہاں تک لکھا۔
اب بطریق نظر ملاحظہ ہو۔ تاکہ تنویر دلیل کا کام دے۔
نظر طحاوی (رح) :
پیشاب و پائخانہ کے متعلق غور کیا کہ جب ان کو ایک مرتبہ پانی سے دھو ڈالتے ہیں اور اس مقام پر اس کا اثر اور بدبو وغیرہ میں سے کوئی چیز نہیں رہتی تو وہ جگہ یا کپڑا پاک ہوجاتا ہے اور اگر اس سے ان کا رنگ اور بدبو نہ جائے تو دوبارہ دھونے کی ضرورت پڑتی ہے اگر دوسری بار دھونے سے بدبو وغیرہ چلی گئی تو وہ پاک ہوگیا جیسا کہ ایک بار دھونے سے اگر یہ کیفیت حاصل ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے اور اگر دوسری بار دھونے سے بھی اس کی بدبو اور رنگ نہ گیا اس کو اس وقت تک دھوتے رہیں گے جب تک بدبو اور رنگ کا ازالہ نہ ہوجائے تو گویا اس کے دھونے کا مقصود پائخانہ کی جسامت اور بدبو اور رنگ کا ازالہ ہے اس سے غسل کی کوئی تعداد مقصود نہیں کہ جس سے کم پر اکتفا درست نہ ہو۔
پس تقاضا نظریہ ہے کہ استنجاء بالا حجار میں بھی اسی طرح ہونا چاہیے کہ پتھروں کی مخصوص تعداد متعین نہیں کہ جس سے کم میں استنجاء جائز نہ ہو بس اس قدر ہو جس سے گندگی کا ازالہ ہو خواہ کم ہوں یا زیادہ۔
یہی نظر و فکر کا تقاضا ہے اور ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن (رح) کا یہی مسلک ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔