HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Abu Dawood

.

سنن أبي داود

4612

صحیح
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ. ح وحَدَّثَنَاالرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّيُحَدِّثُنَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّضْرِ. ح وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَبِيصَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَتَبَ:أَمَّا بَعْدُ أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالِاقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏وَتَرْكِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ وَكُفُوا مُؤْنَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ فَإِنَّهَا لَكَ بِإِذْنِ اللَّهِ عِصْمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعِ النَّاسُ بِدْعَةً إِلَّا قَدْ مَضَى قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلَافِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ كَثِيرٍ:‏‏‏‏ مَنْ قَدْ عَلِمَ مِنَ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الْأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى وَبِفَضْلِ مَا كَانُوا فِيهِ أَوْلَى، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ وَلَئِنْ قُلْتُمْ إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ مَا أَحْدَثَهُ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ فَإِنَّهُمْ هُمُ السَّابِقُونَ فَقَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَكْفِي وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا، ‏‏‏‏‏‏وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏كَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ فَعَلَى الْخَبِيرِ بِإِذْنِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَعْتَ مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ وَلَا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا وَلَا أَثْبَتُ أَمْرًا مِنَ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ كَانَ ذَكَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلَاءُ يَتَكَلَّمُونَ بِهِ فِي كَلَامِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَى مَا فَاتَهُمْ ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الْإِسْلَامُ بَعْدُ إِلَّا شِدَّةً، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) فِي غَيْرِ حَدِيثٍ وَلَا حَدِيثَيْنِ وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَكَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ وَتَضْعِيفًا لِأَنْفُسِهِمْ أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ وَلَمْ يُحْصِهِ كِتَابُهُ وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ مَعَ ذَلِكَ لَفِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَئِنْ قُلْتُمْ لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ كَذَا ؟ لِمَ قَالَ كَذَا ؟ لَقَدْ قَرَءُوا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ كُلِّهِ بِكِتَابٍ وَقَدَرٍ وَكُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ وَمَا يُقْدَرْ يَكُنْ وَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَمْلِكُ لِأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِكَ وَرَهِبُوا.
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خط لکھ کر عمر بن عبدالعزیز سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا : امابعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرنے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لیے کافی ہوجانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے، اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو، اس لیے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے، (اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم ﷺ ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے، کیا کیا غلطیاں، لغزشیں، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں (ابن کثیر کی روایت میں من قد علم کا لفظ نہیں ہے) لہٰذا تم اپنے آپ کو اسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم (سلف) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے، اس لیے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق و برتر تھے انہوں نے جتنا کچھ بیان کردیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی و کافی ہے، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہوگئے، اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرار کے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہوجانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں۔ پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا، اور اس کو مسلمانوں نے آپ ﷺ سے سنا، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی، اس پر یقین کر کے، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آچکی ہو، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوچکی ہو، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا، اسی سے اسے سیکھا۔ اور اگر تم یہ کہو : اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی ؟ اور ایسا کیوں کہا (جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں) ؟ تو (جان لو) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل و تفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہوگا، جو اللہ نے چاہا، وہی ہوا، جو نہیں چاہا، نہیں ہوا۔ اور ہم تو اپنے لیے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے پھر اس اعتقاد کے بعد بھی اگلے لوگ اچھے کام کرتے رہے اور برے کاموں سے ڈرتے رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمر بن عبدالعزیز (رح) کے اس جواب سے بدعت اور سنت کی راہ بالکل واضح ہوگئی اور یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ کسی بھی عمل سے پہلے قرآن و سنت کو دیکھنا چاہیے، اگر ان میں نہ ملے تو صحابہ کرام اور تابعین عظام کو دیکھنا چاہیے کہ ان کا عمل اس پر تھا یا نہیں، اگر ہم اس معیار کو اختیار کرلیں تو اللہ کے فضل سے سارے اختلافات دور ہوجائیں اور بیشمار بدعات ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائیں، لیکن ہم نے بعد کے لوگوں کی روش کو اپنا رکھا ہے اور بدعات کی گرم بازاری میں مگن ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔