HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Al Bayhaqi

.

سنن البيهقي

13273

(۱۳۲۶۷) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی ثَوْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمْ أَزَلْ حَرِیصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ الْمَرْأَتَیْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ -ﷺ- اللَّتَیْنِ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی { إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا} حَتَّی حَجَّ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَحَجَجْتُ مَعَہُ فَلَمَّا کَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ عَدَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِحَاجَتِہِ وَعَدَلْتُ مَعَہُ بِالإِدَاوَۃِ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَی فَسَکَبْتُ عَلَی یَدَیْہِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ -ﷺ- اللَّتَانِ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا} فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : وَاعَجَبًا لَکَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ الزُّہْرِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی : کَرِہَ وَاللَّہِ مَا سَأَلَہُ عَنْہُ وَلَمْ یَکْتُمْہُ قَالَ : ہِیَ حَفْصَۃُ وَعَائِشَۃُ ثُمَّ أَخَذَ یَسُوقُ الْحَدِیثَ فَقَالَ : کُنَّا مَعْشَرَ قُرَیشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا یَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِہِمْ قَالَ وَکَانَ مَنْزِلِی فِی بَنِی أُمَیَّۃَ بْنِ زَیْدٍ بِالْعَوَالِی فَتَغَضَّبْتُ یَوْمًا عَلَی امْرَأَتِی فَإِذَا ہِیَ تُرَاجِعُنِی فَأَنْکَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِی فَقَالَتْ مَا تُنْکِرُ أَنْ أُرَاجِعَکَ فَوَاللَّہِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ -ﷺ- یُرَاجِعْنَہُ وَتَہْجُرُہُ إِحْدَاہُنَّ الْیَوْمَ إِلَی اللَّیْلِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَۃَ فَقُلْتُ : أَتُرَاجِعِینَ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ-؟ فَقَالَتْ : نَعَمْ۔ وَتَہْجُرُہُ إِحْدَاہُنَّ الْیَوْمَ إِلَی اللَّیْلِ؟ قُلْتُ : قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ مِنْکُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاکُنَّ أَنْ یَغْضَبَ اللَّہُ عَلَیْہَا لِغَضَبِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَإِذَا ہِیَ قَدْ ہَلَکَتْ لاَ تُرَاجِعِی رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- وَلاَ تَسْأَلِیہِ شَیْئًا وَسَلِینِی مَا بَدَا لَکِ وَلاَ یَغُرَّنَّکِ أَنْ کَانَتْ جَارَتُکِ ہِیَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- مِنْکِ یُرِیدُ عَائِشَۃَ قَالَ وَکَانَ لِی جَارٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَکُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَیَنْزِلُ یَوْمًا وَأَنْزِلُ یَوْمًا فَیَأْتِینِی بِخَبَرِ الْوَحْیِ وَغَیْرِہِ وَآتِیہِ بِمِثْلِ ذَلِکَ قَالَ وَکُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَیْلَ لِغَزْوِنَا فَنَزَلَ صَاحِبِی یَوْمًا ثُمَّ أَتَانِی عِشَائً فَضَرَبَ بَابِی ثُمَّ نَادَانِی فَخَرَجْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ : حَدَثَ أَمْرٌ عَظِیمٌ قَالَ قُلْتُ : مَاذَا أَجَائَ تْ غَسَّانُ؟ قَالَ : لاَ بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِکَ وَأَطْوَلُ طَلَّقَ الرَّسُولُ -ﷺ- نِسَائَ ہُ قَالَ فَقُلْتُ : قَدْ خَابَتْ حَفْصَۃُ وَخَسِرَتْ قَدْ کُنْتُ أَظُنُّ ہَذَا کَائِنًا حَتَّی إِذَا صَلَّیْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَۃَ وَہِیَ تَبْکِی فَقُلْتُ : أَطَلَّقَکُنَّ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- قَالَتْ : لاَ أَدْرِی ہُوَ ہَذَا مُعْتَزِلاً فِی ہَذِہِ الْمَشْرُبَۃِ فَأَتَیْتُ غُلاَمًا لَہُ أَسْوَدَ فَقُلْتُ : اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلاَمُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَیَّ فَقَالَ : قَدْ ذُکِرْتَ لَہُ فَصَمَتَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَتَیْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا قَوْمٌ حَوْلَ الْمِنْبَرِ جُلُوسٌ یَبْکِی بَعْضُہُمْ فَجَلَسْتُ قَلِیلاً ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ فَأَتَیْتُ الْغُلاَمَ فَقُلْتُ : اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَیَّ فَقَالَ : قَدْ ذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ فَخَرَجْتُ فَجَلَسْتُ إِلَی الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ فَأَتَیْتُ الْغُلاَمَ فَقُلْتُ : اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَیَّ فَقَالَ : قَدْ ذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ قَالَ فَوَلَّیْتُ مُدْبِرًا فَإِذَا الْغُلاَمُ یَدْعُونِی فَقَالَ : ادْخُلْ قَدْ أَذِنَ لَکَ فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَإِذَا ہُوَ مُتَّکِئٌ عَلَی رَمْلِ حَصِیرٍ قَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقُلْتُ : أَطَلَّقْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ نِسَائَ کَ؟ قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیَّ وَقَالَ : لاَ ۔ فَقُلْتُ : اللَّہُ أَکْبَرُ لَوْ رَأَیْتَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ وَکُنَّا مَعْشَرَ الْقَوْمِ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا یَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِہِمْ فَتَغَضَّبْتُ عَلَی امْرَأَتِی یَوْمًا فَإِذَا ہِیَ تُرَاجِعُنِی یَعْنِی فَأَنْکَرْتُ فَقَالَتْ : مَا تُنْکِرُ أَنْ أُرَاجِعَکَ فَوَاللَّہِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ -ﷺ- لَیُرَاجِعْنَہُ وَتَہْجُرُہُ إِحْدَاہُنَّ الْیَوْمَ إِلَی اللَّیْلِ فَقُلْتُ قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ مِنْہُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاہُنَّ أَنْ یَغْضَبَ اللَّہُ عَلَیْہَا لِغَضَبِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَإِذَا ہِیَ قَدْ ہَلَکَتْ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فَقُلْتُ یَعْنِی قَدْ دَخَلْتُ عَلَی حَفْصَۃَ فَقُلْتُ : لاَ یَغُرَّنَّکِ أَنْ کَانَتْ جَارَتُکِ ہِیَ أَوْسَمَ مِنْکِ وَأَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- مِنْکِ فَتَبَسَّمَ أُخْرَی فَقُلْتُ : أَسْتَأْنِسُ یَا رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : نَعَمْ ۔ فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِی فِی الْبَیْتِ فَوَاللَّہِ مَا رَأَیْتُ فِیہِ شَیْئًا یَرُدُّ الْبَصَرَ إِلاَّ أُہُبٌ ثَلاَثَۃٌ فَقُلْتُ : ادْعُ اللَّہَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنْ یُوَسِّعَ عَلَی أُمَّتِکَ فَقَدْ وُسِّعَ عَلَی فَارِسَ وَالرُّومِ وَہُمْ لاَ یَعْبُدُونَ اللَّہَ فَاسْتَوَی جَالِسًا فَقَالَ : أَفِی شَکٍّ أَنْتَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِکَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَہُمْ طَیِّبَاتُہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ۔ فَقُلْتُ : أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَکَانَ أَقْسَمَ أَنْ لاَ یَدْخُلَ عَلَیْہِنَّ شَہْرًا مِنْ شِدَّۃِ مَوْجِدَتِہِ عَلَیْہِنَّ حَتَّی عَاتَبَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ۔ قَالَ الزُّہْرِیُّ فَأَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- بَدَأَ بِی فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَقْسَمْتَ أَنْ لاَ تَدْخُلَ عَلَیْنَا تَعْنِی شَہْرًا إِنَّکَ دَخَلْتَ عَلَیَّ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ أَعُدُّہُنَّ قَالَ : إِنَّ الشَّہْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ۔ ثُمَّ قَالَ : یَا عَائِشَۃُ إِنِّی ذَاکِرٌ لَکِ أَمْرًا فَلاَ عَلَیْکِ أَنْ لاَ تَعْجَلِی فِیہِ حَتَّی تَسْتَأْمِرِی أَبَوَیْکِ ۔ قَالَ ثُمَّ قَرَأَ عَلَیَّ {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا} الآیَۃَ قَالَتْ : قَدْ عَلِمَ وَاللَّہِ أَنَّ أَبَوَیَّ لَمْ یَکُونَا یَأْمُرَانِی بِفِرَاقِہِ قَالَتْ قُلْتُ : أَفِی ہَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَیَّ؟ فَإِنِّی أُرِیدُ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الآخِرَۃَ۔ قَالَ مَعْمَرٌ وَأَخْبَرَنِی أَیُّوبُ قَالَ فَقَالَتْ لَہُ عَائِشَۃُ: لاَ تَقُلْ إِنِّی اخْتَرْتُکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : إِنَّمَا بُعِثْتُ مُبَلِّغًا وَلَمْ أُبْعَثْ مُتَعَنِّتًا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ وَمُحَمَّدِ بْنِ أَبِی عُمَرَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ بِطُولِہِ۔
(١٣٢٦٧) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میری ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ میں عمر (رض) سے یہ سوال کروں کہ وہ دو عورتیں کون سی ہیں جن کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا : { إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا } [التحریم ٤] یہاں تک کہ عمر (رض) نے بھی حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا۔ راستے میں حضرت عمر (رض) الگ ہوگئے، قضائِ حاجت کے لیے تشریف لے گئے، میں بھی برتن لے کر آپ کے ساتھ گیا۔ پھر آپ نکلے تو میں نے آپ (رض) کے ہاتھوں پر پانی بہایا۔ آپ نے وضو فرمایا۔ میں نے کہا : اے امیرالمومنین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کون سی دو بیویاں ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے { إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا } عمر (رض) فرمانے لگے : اے ابن عباس ! تجھ پر تعجب ہے ! (زہری (رح) فرماتے ہیں : قسم بخدا انھوں نے اس کے سوال ناپسند کیا آپ نے اسے چھپایا نہیں بلکہ فرمایا : وہ حفصہ (رض) اور عائشہ (رض) تھیں، پھر واقعہ بیان کرنا شروع ہوئے کہ ہم قریشی لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے یہاں ایسے لوگ دیکھے جن پر عورتیں غالب ہیں تو ہماری عورتیں بھی ان سے سیکھنے لگیں فرماتے ہیں : میرا گھر بنو امیہ بن زید کے بالائی جانب تھاں ایک روز میں اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی، مجھے اس کے جواب دینے پر تعجب ہوا، وہ کہنے لگی : آپ کو میرے جواب دینے پر تعجب کیوں ہوا ؟ قسم بخدا ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات آپ کو جواب دیتی ہیں اور آج تو ان میں سے ایک نے آپ سے رات تک علیحدگی اختیار کی ہوئی ہیں فرماتے ہیں : میں حفصہ کی طرف گیا، میں نے کہا : کیا تو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیتی ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ! اور آج رات تو ان میں سے ایک نے آپ سے علیحدگی اختیار کی ہوئی ہے۔ میں نے کہا : تم میں سے جس نے یہ کام کیا ہے وہ تو خسارے میں رہی۔ کیا تم میں سے کوئی اس سے مطمئن ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نہ ہوگا ؟ وہ تو ہلاک ہوچکی، تم ہرگز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب نہ دیا کرو۔ اور نہ آپ سے کسی چیز کا سوال کرو، جو چاہیے مجھ سے مانگ لیا کرو اور تمہیں پڑوسن دھوکے میں نہ ڈالے وہ تمہاری نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ محبوب ہے، ان کی مراد عائشہ (رض) تھیں۔
فرماتے ہیں : میرا ایک انصاری پڑوسی تھا اور ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس باری باری جاتے رہتے۔ ایک دن وہ آپ کے پاس جاتا تو دوسرے دن میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔ وہ مجھے کوئی وحی سناتا اور میں بھی اسی طرح کوئی واقعہ سناتا۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ غسان قبیلہ نے ہم سے جنگ کے لیے گھوڑے کے کھر تیار کرلیے ہیں۔ میرا دوست آیا۔ پھر وہ رات کو عشا میں بھی میرے پاس آیا، اس نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے آواز دی، میں اس کی طرف نکلا تو اس نے کہا : بہت بڑا واقعہ پیش آگیا ہے۔ میں نے کہا : کیا غسان والے نکل آئے ہیں ؟ اس نے کہا : نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑا اور اہم۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا : حفصہ تو خائب و خاسر ہوگئی۔ میرا گمان تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ جب میں نے صبح کی نماز ادا کی تو اپنے کپڑے سمیٹے اور حفصہ کے پاس چلا آیا۔ دیکھا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا : کیا واقعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں طلاق دے دی ہے ؟
انھوں نے کہا : میں نہیں جانتی، وہ اس معاملہ میں جدائیگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ میں آپ کے ایک حبشی غلام سے ملا، میں نے اسے کہا : عمر کے لیے اجازت مانگو۔ غلام داخل ہوا۔ پھر میرے پاس آیا اور کہا : آپ کا ذکر ان کے سامنے کیا گیا تو وہ خاموش رہے۔ میں مسجد کی طرف چلا گیا۔ وہاں لوگ منبر کے پاس بیٹھے ہوئے رو رہے تھے۔ میں تھوڑی دیر بیٹھا رہا، پھر مجھ پر میرا وجدان غالب آگیا تو واپس غلام کے پاس آیا اور کہا : عمر کے لیے اجازت مانگو۔ غلام اندر گیا اور باہر آ کر وہی جواب دیا، میں پھر مسجد میں منبر کے پاس جا بیٹھا۔ لیکن پھر وہی کیفیت ہوئی تو تیسری بار پھر گیا اور اجازت چاہی۔ جب اجازت نہ ملی تو پیٹھ پھیر کر چل پڑا۔ اچانک غلام مجھے آواز دینے لگا کہ آئیے آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں اندر گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام عرض کیا۔ آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور اس کے نشان آپ کے بدن پر ظاہر تھے۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا واقعی آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : نہیں۔ میں نے کہا : اللہ اکبر ! اے اللہ کے رسول ! ہمیں دیکھیے، ہم قریشی لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب سے ہم مدینہ آئے، وہاں ہم نے ایسی قوم دیکھی جن پر ان کی عورتیں غالب ہیں۔ اب ہماری عورتیں بھی ان سے سیکھنے لگی ہیں۔ ایک دن میں اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی۔ مجھے تعجب ہوا تو وہ کہنے لگی : آپ کو تعجب کیوں ہے ؟ قسم بخدا ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات آپ کو جواب بھی دیتی ہیں اور آج تو ان میں سے ایک نے آپ سے علیحدگی اختیار کی ہوئی ہے۔ میں نے کہا : پھر تو وہ تباہ و برباد ہوگئی۔ کیا تم میں سے کوئی اس سے مطمئن ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اس پر غضب نازل ہو۔ وہ تو ہلاک ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یہ سن کر) مسکرا دیے۔ میں نے کہا : پھر میں حفصہ کے پاس گیا۔ میں نے اسے کہا : تجھے یہ بات دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تیری پڑوسن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھ سے زیادہ محبوب ہے۔ آپ پھر مسکرائے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں مانوس ہو جاؤں ؟
آپ نے فرمایا : ہاں۔ میں بیٹھ گیا، پھر میں نے سر اٹھا کر گھر میں نظر دوڑائی۔ قسم بخدا ! میں نے تاحد نگاہ کچھ نہ دیکھا سوائے تین چمڑوں کے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اپنی امت کے لیے وسعت کی دعا فرمائیے۔ روم وفارس پر کس قدر وسعت کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا : اے عمر ! کیا تم شک میں ہو ! یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کی پسندیدہ چیزیں دنیا میں دے دی گئی ہیں۔ میں نے کہا : میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم اٹھالی تھی کہ اپنی ازواج کے پاس ایک ماہ تک نہ جائیں گے ان کو سختی سے تنبیہ کرنے کی غرض سے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے معاملہ صاف کروایا۔
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : جب ٢٩ راتیں گزر گئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے ابتدا کی۔ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے تو ہمارے پاس ٣٠ دن نہ آنے کی قسم اٹھائی تھی جبکہ ابھی تو ٢٩ دن ہوئے ہیں، میں گنتی رہی ہوں۔ آپ نے فرمایا : مہینہ ٢٩ دن کا بھی ہوتا ہے۔ پھر فرمایا : اے عائشہ ! میں نے تم سے ایک بات کہنی ہے تم اس میں جلدی نہ کرنا، بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ آیت سنائی : { یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا } الایۃ فرماتی ہیں : اللہ کی قسم ! میرے والدین مجھے کبھی بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدائیگی کا حکم نہیں دیں گے۔ میں نے کہا : کیا میں اس معاملے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ! میں تو اللہ، اس کے رسول اور آخرت کو چاہتی ہوں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ کو عائشہ (رض) نے کہا : آپ ایسا نہ کہیے، میں نے تو آپ کو اختیار کیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں مبلغ بنا کر بھیجا گیا ہوں ضدی نہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔