HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

38844

(۳۸۸۴۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی أَبِی أُسَیْد الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : سَمِعَ عُثْمَان ، أَنَّ وَفْدَ أَہْلِ مِصْرَ قَدْ أَقْبَلُوا ، فَاسْتَقْبَلَہُمْ ، فَکَانَ فِی قَرْیَۃٍ خَارِجًا مِنَ الْمَدِینَۃِ ، أَوْ کَمَا قَالَ : قَالَ : فَلَمَّا سَمِعُوا بِہِ أَقْبَلُوا نَحْوَہُ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِی ہُوَ فِیہِ ، قَالَ : أُرَاہُ ، قَالَ : وَکَرِہَ أَنْ یَقْدُمُوا عَلَیْہِ الْمَدِینَۃَ ، أَوْ نَحْوًا مِنْ ذَلِکَ ، فَأَتَوْہُ فَقَالُوا : ادْعُ بِالْمُصْحَفِ ، فَدَعَا بِالْمُصْحَفِ فَقَالُوا : افْتَحَ السَّابِعَۃَ ، وَکَانُوا یُسَمُّونَ سُورَۃَ یُونُسَ السَّابِعَۃَ ، فَقَرَأَہَا حَتَّی إِذَا أَتَی عَلَی ہَذِہِ الآیَۃِ : {قُلْ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللَّہُ أَذِنَ لَکُمْ أَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرُونَ} قَالُوا : أَرَأَیْت مَا حَمَیْت مِنَ الْحِمَی آللَّہُ أَذِنَ لَکَ بِہِ أَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرِی ، فَقَالَ : أَمْضِہِ ، أنْزلَتْ فِی کَذَا وَکَذَا ، وَأَمَّا الْحِمَی فَإِنَّ عُمَرَ حَمَی الْحِمَی قَبْلِی لإِبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَلَمَّا وُلِّیتُ زَادَتْ إبِلُ الصَّدَقَۃِ فَزِدْت فِی الْحِمَی لِمَا زَادَ مِنْ إبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَجَعَلُوا یَأْخُذُونَہُ بِالآیَۃِ فَیَقُولُ : أَمْضِہِ ، نَزَلَتْ فِی کَذَا وَکَذَا ۔ ۲۔ وَالَّذِی یَلِی کَلاَمُ عُثْمَانَ یَوْمَئِذٍ فِی سِنِّکَ ، یَقُولُ أَبُو نَضْرَۃَ : یَقُولُ لِی ذَلِکَ أَبُو سَعِیدٍ ، قَالَ أَبُو نَضْرَۃَ : وَأَنَا فِی سِنِّکَ یَوْمَئِذٍ ، قَالَ : وَلَمْ یَخْرُجْ وَجْہِی ، أَوْ لَمْ یَسْتَوِ وَجْہِی یَوْمَئِذٍ ، لاَ أَدْرِی لَعَلَّہُ ، قَالَ مَرَّۃً أُخْرَی : وَأَنَا یَوْمَئِذٍ فِی ثَلاَثِینَ سَنَۃً ۔ ۳۔ ثُمَّ أَخَذُوہُ بِأَشْیَائَ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ مِنْہَا مَخْرَجٌ ، فَعَرَفَہَا ، فَقَالَ : أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ ، فَقَالَ لَہُمْ : مَا تُرِیدُونَ فَأَخَذُوا مِیثَاقَہُ ، قَالَ : وَأَحْسِبُہُ ، قَالَ : وَکَتَبُوا عَلَیْہِ شَرْطًا ، قَالَ : وَأَخَذَ عَلَیْہِمْ ، أَنْ لاَ یَشُقُّوا عَصًا وَلاَ یُفَارِقُوا جَمَاعَۃً مَا أَقَامَ لَہُمْ بِشَرْطِہِمْ ، أَوْ کَمَا أَخَذُوا عَلَیْہِ ۔ ۴۔ فَقَالَ لَہُمْ : مَا تُرِیدُونَ فَقَالُوا : نُرِیدُ أَنْ لاَ یَأْخُذَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ عَطَائً ، فَإِنَّمَا ہَذَا الْمَالُ لِمَنْ قَاتَلَ عَلَیْہِ وَلِہَذِہِ الشُّیُوخِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَضُوا ، وَأَقْبَلُوا مَعَہُ إِلَی الْمَدِینَۃِ رَاضِینَ ، فَقَامَ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : وَاللہِ إنِّی مَا رَأَیْت وَافِدًا ہُمْ خَیْرٌ لِحَوْبَاتِی مِنْ ہَذَا الْوَفْدِ الَّذِینَ قَدِمُوا عَلَیَّ ، وَقَالَ مَرَّۃً أُخْرَی : حَسِبْت ، أَنَّہُ قَالَ : مِنْ ہَذَا الْوَفْدِ مِنْ أَہْلِ مِصْرَ ، أَلاَ مَنْ کَانَ لَہُ زَرْعٌ فَلْیَلْحَقْ بِزَرْعِہِ ، وَمَنْ کَانَ لَہُ ضَرْعٌ فَلْیَحْتَلِبْ ، أَلاَ إِنَّہُ لاَ مَالَ لَکُمْ عِنْدَنَا ، إنَّمَا ہَذَا الْمَالُ لِمَنْ قَاتَلَ عَلَیْہِ ، وَلِہَذِہِ الشُّیُوخِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ النَّاسُ وَقَالُوا : مَکْرُ بَنِی أُمَیَّۃَ ۔ ۵۔ ثُمَّ رَجَعَ الْوَفْدُ الْمِصْرِیُّونَ رَاضِینَ ، فَبَیْنَمَا ہُمْ فِی الطَّرِیقِ إذْ بِرَاکِبٍ یَتَعَرَّضُ لَہُمْ ، ثُمَّ یُفَارِقُہُمْ ، ثُمَّ یَرْجِعُ إلَیْہِمْ ، ثُمَّ یُفَارِقُہُمْ وَیَسُبُّہُمْ ، فَقَالُوا لَہُ : إِنَّ لَکَ لأَمْرًا مَا شَأْنُک ، قَالَ : أَنَا رَسُولُ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ إِلَی عَامِلِہِ بِمِصْرَ فَفَتَّشُوہُ فَإِذَا بِالکِتَابٍ عَلَی لِسَانِ عُثْمَانَ ، عَلَیْہِ خَاتَمُہُ إِلَی عَامِلٍ مِصْرَ أَنْ یَقْتُلَہُمْ ، أَوْ یَقْطَعَ أَیْدِیہمْ وَأَرْجُلَہُمْ ۔ ۶۔ فَأَقْبَلُوا حَتَّی قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ ، فَأَتَوْا عَلِیًّا فَقَالُوا : أَلَمْ تَرَ إِلَی عَدُوِّ اللہِ ، أَمَرَ فِینَا بِکَذَا وَکَذَا ، وَاللہِ قَدْ أُحِلَّ دَمُہُ قُمْ مَعَنا إلَیْہِ ، فَقَالَ : لاَ وَاللہِ ، لاَ أَقُومُ مَعَکُمْ ، قَالُوا : فَلِمَ کَتَبْت إلَیْنَا ، قَالَ : لاَ وَاللہِ مَا کَتَبْت إلَیْکُمْ کِتَابًا قطُّ ، قَالَ : فَنَظَرَ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ ، ثُمَّ قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : أَلِہَذَا تُقَاتِلُونَ ، أَوْ لِہَذَا تَغْضَبُونَ وَانْطَلَقَ عَلِیٌّ فَخَرَجَ مِنَ الْمَدِینَۃِ إِلَی قَرْیَۃٍ ، أَوْ قَرْیَۃٍ لَہُ ۔ ۷۔ فَانْطَلَقُوا حَتَّی دَخَلُوا عَلَی عُثْمَانَ فَقَالُوا : کَتَبْت فِینَا بِکَذَا وَکَذَا ، فَقَالَ : إنَّمَا ہُمَا اثْنَتَانِ ، أَنْ تُقِیمُوا عَلَیَّ رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، أَوْ یَمِینًا : بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، مَا کَتَبْت وَلاَ أَمْلَیْت ، وَقَدْ تَعْلَمُونَ ، أَنَّ الْکِتَابَ یُکْتَبُ عَلَی لِسَانِ الرَّجُلِ وَیُنْقَشُ الْخَاتَمَ عَلَی الْخَاتَمِ ، فَقَالُوا لَہُ : قَدْ وَاللہِ أَحَلَّ اللَّہُ دَمَک ، وَنُقِضَ الْعَہْدَ وَالْمِیثَاقَ ، ۸۔ قَالَ : فَحَصَرُوہُ فِی الْقَصْرِ ، فَأَشْرَفَ عَلَیْہِمْ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، قَالَ : فَمَا أُسْمِعَ أَحَدًا رَدَّ السَّلاَمَ إِلاَّ أَنْ یَرُدَّ رَجُلٌ فِی نَفْسِہِ ، فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ ، ہَلْ عَلِمْتُمْ أَنِّی اشْتَرَیْت رُومَۃً بِمَالِی لأَسْتَعْذِبَ بِہَا ، قَالَ : فَجَعَلْتُ رِشَائِی فِیہَا کَرِشَائِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَقِیلَ : نَعَمْ ، فَقَالَ : فَعَلاَمَ تَمْنَعُونِی أَنْ أَشْرَبَ مِنْہَا حَتَّی أُفْطِرَ عَلَی مَائِ الْبَحْرِ ۔ ۹۔ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ ہَلْ عَلِمْتُمْ أَنِّی اشْتَرَیْت کَذَا وَکَذَا مِنَ الأَرْضِ فَزِدْتہ فِی الْمَسْجِد ، قِیلَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَہَلْ عَلِمْتُمْ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ مُنِعَ أَنْ یُصَلِّیَ فِیہِ قبلی قِیلَ قَالَ : وَأَنْشُدُکُمْ بِاللہِ ہَلْ سَمِعْتُمْ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذَکَرَ کَذَا وَکَذَا شَیْئًا مِنْ شَأْنِہِ ، وَذَکَرَ أُرَی کِتَابَۃَ الْمُفَصَّلِ ۔ ۱۰۔ قَالَ : فَفَشَا النَّہْی ، وَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ : مَہْلاً ، عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَفَشَا النَّہْیُ وَقَامَ الأَشْتَرُ ، فَلاَ أَدْرِی یَوْمَئِذٍ أَمْ یَوْم آخَرَ ، فَقَالَ : لَعَلَّہُ قَدْ مَکَرَ بِہِ وَبِکُمْ ، قَالَ : فَوَطِئَہُ النَّاسُ حَتَّی أُلْقِیَ کَذَا وَکَذَا ۔ ۱۱۔ ثُمَّ إِنَّہُ أَشْرَفَ عَلَیْہِمْ مَرَّۃً أُخْرَی فَوَعَظَہُمْ وَذَکَّرَہُمْ ، فَلَمْ تَأْخُذْ فِیہِم الْمَوْعِظَۃُ ، وَکَانَ النَّاسُ تَأْخُذُ فِیہِمَ الْمَوْعِظَۃُ أَوَّلَ مَا یَسْمَعُونَہَا ، فَإِذَا أُعِیدَتْ عَلَیْہِمْ لَمْ تَأْخُذْ فِیہِم الْمَوْعِظَۃُ ۔ ۱۲۔ ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ وَوَضَعَ الْمُصْحَفَ بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : فَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِی بَکْرٍ دَخَلَ عَلَیْہِ فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَان : لَقَدْ أَخَذْت مِنِّی مَأْخَذًا ، أَوْ قَعَدْت مِنِّی مَقْعَدًا مَا کَانَ أَبُو بَکْرٍ لِیَأْخُذَہُ ، أَوْ لِیَقْعُدَہُ ، قَالَ : فَخَرَجَ وَتَرَکَہُ ۔ ۱۳۔ قَالَ : وَفِی حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ : فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ : بَیْنِی وَبَیْنَکَ کِتَابُ اللہِ ، فَخَرَجَ وَتَرَکَہُ ، وَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ الْمَوْتُ الأَسْوَدُ فَخَنَقَہُ وَخَنَقَہُ ، ثُمَّ خَرَجَ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا رَأَیْت شَیْئًا قَطُّ ہُوَ أَلْیَنُ مِنْ حَلْقِہِ ، وَاللہِ لَقَدْ خَنَقْتہ حَتَّی رَأَیْت نَفَسَہُ مِثْلَ نَفَسِ الْجَانِّ تَرَدَّدَ فِی جَسَدِہِ ۔ ۱۴۔ ثُمَّ دَخَلَ عَلَیْہِ آخَرُ ، فَقَالَ : بَیْنِی وَبَیْنَکَ کِتَابُ اللہِ وَالْمُصْحَفُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَأَہْوَی إلَیْہِ بِالسَّیْفِ فَاتَّقَاہُ بِیَدِہِ فَقَطَعَہَا فَلاَ أَدْرِی أَبَانَہَا ، أَوْ قَطَعَہَا فَلَمْ یُبِنْہَا ، فقَالَ : أَمَا وَاللہِ ، إِنَّہَا لأَوَّلُ کَفٍّ قَطُّ خَطَّت الْمُفَصَّلَ ۔ ۱۵۔ وَحُدِّثْت فِی غَیْرِ حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ : فَدَخَلَ عَلَیْہِ التّجوبِیُّ فَأَشْعَرَہُ بِمِشْقَصٍ ، فَانْتَضَحَ الدَّمُ عَلَی ہَذِہِ الآیَۃِ : {فَسَیَکْفِیکَہُمَ اللَّہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ} وَإِنَّہَا فِی الْمُصْحَفِ مَا حُکَّتْ ۔ ۱۶۔ وَأَخَذَتْ بِنْتُ الْفُرَافِصَۃِ فِی حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ حُلِیَّہَا فَوَضَعَتْہُ فِی حِجْرِہَا ، وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُقْتَلَ ، فَلَمَّا أَشْعَرَ ، أَوْ قُتِلَ تَجَافَتْ ، أَوْ تَفَاجّتْ عَلَیْہِ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : قَاتَلَہَا اللَّہُ ، مَا أَعْظَمَ عَجِیزَتَہَا ، فَعَرَفْت أَنَّ أَعْدَائَ اللہِ لَمْ یُرِیدُوا إِلاَّ الدُّنْیَا۔ (احمد ۷۶۶)
(٣٨٨٤٥) ابو سعید سے منقول ہے کہ حضرت عثمان سے سنا کہ مصر کا وفد آیا ہے پس حضرت عثمان نے ان کا استقبال کیا وہ مدینہ سے باہر ایک بستی میں تھے راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عثمان اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ مدینہ میں ان کے پاس حاضر ہوں یا اس طرح کا کوئی امر تھا۔ پس اہل مصر ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ صحیفہ منگوائیے تو انھوں نے صحیفہ منگوا لیا پھر کہنے لگے اس کو کھولیے اور سابعہ نکالیے وہ سور یونس کو سابعہ کا نام دیتے تھے پس حضرت عثمان نے پڑھنا شروع کیا اس آیت پر پہنچے : { قُلْ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللَّہُ أَذِنَ لَکُمْ أَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرُونَ } (آپ کہہ دیجیے تم بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے جو رزق اتارا پھر اس میں سے تم نے حرام اور حلال بنا لیا آپ کہہ دیں کیا تمہیں اللہ نے اجازت دی یا اللہ پر تم بہتان باندھتے ہو) حضرت عثمان نے فرمایا پس اسے چھوڑو یہ آیت فلاں فلاں امر میں اتری ہے بہرحال آپ چراگاہ کی جو بات کر رہے ہیں تو مجھ سے پہلے حضرت عمر نے صدقہ کے اونٹوں کے لیے چراگاہ مقرر کی تھی۔ پھر جب مجھے والی بنایا گیا تو صدقہ کے اونٹ بڑھ گئے، میں نے چراگاہ کو بھی وسعت دیدی اونٹوں کی کثرت کے پیش نظر۔ پس اہل مصر آیتوں سے دلیل پکڑتے رہے اور حضرت عثمان فرماتے رہے کہ اسے چھوڑو اور کہتے رہے یہ آیت فلاں فلاں واقعہ میں اتری ہے۔ جو حضرت عثمان سے کلام کررہا تھا وہ آپ کی عمر کا تھا، ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ یہ بات مجھے ابو سعیدنے بتائی، ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ میں اس دن تمہاری عمر کا تھا کہتے ہیں میرے چہرے پر مکمل جوانی کے اثرات ظاہر نہ ہوئے تھے یا یوں فرمایا کہ میں اچھی طرح جوان نہ ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ انھوں نے دوسری دفعہ فرمایا ہو میں اس دن تیس سال کا تھا۔ پھر انھوں نے حضرت عثمان سے ایسے اعتراضات کیے جن سے وہ چھٹکارا نہ پا سکے اور حضرت عثمان نے ان چیزوں کی حقیقت کو اچھی طرح پہچان لیا پھر فرمایا میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ پھر ان سے فرمایا تم کیا چاہتے ہو ؟ پھر انھوں نے حضرت عثمان سے ایک عہد لیا راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے انھوں نے کچھ شرائط بھی طے کیں اور حضرت عثمان نے ان سے عہد لیا کہ وہ مسلمانوں کی قوت کو فرو نہ کریں گے اور نہ ہی مسلمانوں میں تفرقہ پھلائیں گے جب تک کہ میں شرائط پر قائم رہوں گا۔ پھر حضرت عثمان نے فرمایا تم اور کیا چاہتے ہو تو انھوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اہل مدینہ عطا یا نہ لیں کیونکہ یہ مال تو صرف قتال کرنے والوں اور اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے پس وہ راضی ہوگئے اور حضرت عثمان کے ساتھ مدینہ آئے پس حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا اللہ کی قسم میں نے اس وفد سے بہتر کوئی وفد نہیں دیکھا جو میری حاجت کے لیے اس سے بہتر ہو۔ اور پھر دوسری مرتبہ یہی فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس کے شرکاء اہل مصر ہیں سنو جس کے پاس کھیتی ہے وہ اپنی کھیتی باڑی کرے اور جس کے پاس دودھ والا جانور ہے وہ اس کا دودھ نکال کر گزارا کرے میرے پاس تمہارے لیے کوئی مال نہیں۔ اور مال مجاہدین اور اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے پس لوگ غصے ہوئے اور کہنے لگے یہ بنوامیہ کا فریب ہے۔ پھر مصری وفد بخوشی واپس لوٹ گیا۔ راستے میں تھے کہ ایک سوار ان کے پاس آیا پھر ان سے جدا ہوگیا پھر ان کی طرف لوٹا اور جدا ہوگیا اور ان کو برا بھلا کہا۔ تو انھوں نے اس سے کہا تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا امیر المؤ منین کی طرف سے مصر کے گورنر کی طرف سفیر ہوں پس اس وفد نے تحقیق کی تو اس کے پاس سے ایک خط نکلا جو حضرت عثمان کی طرف سے تھا اس پر مہر بھی حضرت عثمان کی تھی اور مصر کے گورنر کو یہ پیغام لکھا تھا کہ وہ اس وفد کو قتل کردے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں۔ پس وہ وفد واپس لوٹا اور مدینہ پہنچا اور حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا تم اللہ کے دشمن کی طرف نہیں دیکھتے جس نے ہمارے بارے میں اس طرح کا حکم جاری کیا ہے، اللہ نے اس کا خون حلال کردیا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیے مگر حضرت علی نے فرمایا اللہ کی قسم میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤنگا، اہل وفد نے حضرت عثمان سے پوچھا آپ نے ہمارے لیے یہ خط کیوں لکھا تو حضرت عثمان نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نے تمہارے لیے کوئی خط نہیں لکھا، پس وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، اور ایک دوسرے کو کہنے لگے کیا اس وجہ سے تم قتال کروگے ؟ کیا اس وجہ سے تم غیظ و غضب میں مبتلا ہو ؟ حضرت علی مدینہ سے نکل کر ایک بستی کی طرف چلے گئے۔ پس وہ چلے اور حضرت عثمان کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ آپ نے ہمارے بارے میں اس طرح کیوں لکھا۔ حضرت عثمان نے فرمایا کہ تب دو ہی چیزیں ہیں ایک یہ کہ تم مسلمانوں میں سے دو گواہ پیش کرو یا پھر میں اس اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ خط نہ ہی کسی سے لکھوایا اور تم جانتے ہو کہ خط کسی کی طرف سے کوئی دوسرا بھی لکھ سکتا ہے اور مہر پر جعلی مہر بھی لگائی جاسکتی ہے۔ پس انھوں نے کہا اللہ کی قسم اللہ نے آپ کا خون حلال کردیا ہے اور عہدوپیماں توڑ دیے گئے ہیں۔ پھر انھوں نے حضرت عثمان کو ان کے گھر میں محصور کردیا پس حضرت عثمان ان پر جھانکے اور سلام کیا۔ پھر فرمایا میں نے سلام کا جواب نہیں سنا کسی سے مگر یہ کہ کسی نے اپنے دل میں جواب دیا ہو، پھر فرمایا پس تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے مال سے بئر رومہ خریدا تھا تاکہ میٹھا پانی دستیاب ہو اور پھر میں نے اسے تمام مسلمانوں کے لیے عام کردیا تھا ؟ پس کہا گیا جی ایسے ہی ہے پھر فرمایا تم مجھے کیوں روک رہے ہو اس کے پانی سے حتیٰ کہ میں کھاری پانی پینے پر مجبور ہوں۔ پھر فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو میں نے اس طرح کی زمین خریدی تھی پھر اس کو مسجد بنادیا تھا ؟ کہا گیا کہ ہاں پھر فرمایا کیا تم لوگوں میں سے کسی کو جانتے ہو کہ اس کو اس میں نماز سے روکا گیا ہو مجھ سے پہلے ؟ پھر فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس اس طرح فرماتے ہوئے سنا (یعنی آپ کے فضائل میں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے) اور راوی نے مفصل لکھا ہوا ذکر کیا پھر فرمایا کہ روکنے کی بات پھیل گئی پھر لوگ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور کہنے لگے امیر المؤمنین کو مہلت دینی چاہیے۔ اشہر کھڑا ہوا راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ اسی دن یا اس سے اگلے دن۔ پھر کہنے لگا ممکن ہے یہ (خط) اس کے ساتھ اور تمہارے ساتھ مکر کیا گیا ہو لوگوں نے اسے روند ڈالا اور اس کو ادھر ادھر پٹخا گیا۔ پھر حضرت عثمان دوبارہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو وعظ و نصیحت کی مگر وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ لوگوں کو جب پہلی دفعہ وعظ و نصیحت کی گئی تو اس کا اثر ہوا تھا مگر دوبارہ ان پر اس کا کچھ اثر نہ ہوسکا۔ پھر حضرت عثمان نے دروازہ کھولا اور قرآن مجید اپنے سامنے رکھ لیا راوی کہتے ہیں کہ حسن سے منقول ہے کہ سب سے پہلے محمد بن ابوبکر گھر میں داخل ہوئے اور ان کی داڑھی کو پکڑا، تو عثمان نے فرمایا کہ جس طرح تم نے میری داڑھی کو پکڑا ہے اس طرح ابوبکر صدیق پکڑنے والے نہ تھے پس وہ یہ سن کر نکل گئے اور ان کو چھوڑ دیا۔ ابو سعید کی حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان کے پاس ایک آدمی داخل ہوا تو حضرت عثمان نے فرمایا میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے پس وہ نکل گیا اور ان کو چھوڑ دیا۔ پھر ایک شخص آیا جسے موت اسود کے نام سے پکارا جاتا تھا پس اس نے حضرت عثمان کے گلے کو دبایا اور حضرت عثمان نے اس کے گلے کو دبایا پھر نکل گیا پس وہ کہتا تھا کہ اللہ کی قسم میں نے ان کے حلق سے زیادہ نرم شئے نہیں دیکھی۔ میں نے ان کے گلے کو گھونٹا یہاں تک کہ میں نے ان کی جان کو دیکھا اس جان کی طرح جو اپنے جسم میں لوٹ رہی ہو۔ پھر دوسرا شخص اندر آیا اس سے حضرت عثمان نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان اللہ کی کتاب ہے پس اس نے تلوار چلائی حضرت عثمان نے اسے اپنے ہاتھ سے روکا مگر اس نے ہاتھ کاٹ دیا راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ہاتھ جدا ہوا یا نہیں بہرحال اللہ کی قسم یہ پہلا ہاتھ تھا جس نے حد بندی کو عبور کیا۔ پھر کنانہ بن بشر تجوبی اندر آیا اور اس نے چوڑے پھل والے نیزے کے ذریعے آپ کو لہو لہان کردیا پس خون قرآن کی اس آیت پر گرا { فَسَیَکْفِیکَہُمَ اللَّہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ } (عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان کی طرف سے کافی ہوجائے گا) اور وہ خون مصحف میں موجود ہے اس کو کھرچا نہیں گیا۔ نائلہ بن فراصفہ نے اپنے زیور کو اپنی گود میں رکھا یہ حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے کی بات ہے۔ جب ان کو شہید کیا گیا تو وہ ان پر جھکی ہوئی تھیں۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ ان کے سرین کتنے بڑے ہیں ؟ (یعنی یہ کتنی حسین ہیں میں) نے جان لیا کہ یہ اللہ کے دشمن صرف دنیا چاہتے ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔