HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14137

14137- عن ابن عباس أن عمر جلس على المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى عليه، ثم قال، إن الله أبقى رسوله بين أظهرنا ينزل عليه الوحي من الله يحل به ويحرم به، ثم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع منه ما شاء أن يرفع، وأبقي ما شاء أن يبقى، فتشبثنا ببعض وفاتنا بعض فكان مما كنا نقرأ من القرآن، لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم ونزلت آية الرجم فرجم النبي صلى الله عليه وسلم ورجمنا معه، والذي نفس محمد بيده لقد حفظتها وقلتها وعقلتها لولا أن يقال كتب عمر في المصحف ما ليس فيه لكتبتها بيدي كتابا والرجم على ثلاث منازل حمل بين واعتراف من صاحبه أو شهود عدل كما أمر الله، وقد بلغني أن رجالا يقولون في خلافة أبي بكر: إنها كانت فلتة ولعمري إنها كانت كذلك ولكن الله أعطى خيرها ووقي شرها وإياكم هذا الذي ينقطع إليه الأعناق كانقطاعها إلى أبي بكر إنه كان من شأن الناس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي فأتينا فقيل لنا إن الأنصار قد اجتمعت في سقيفة بني ساعدة مع سعد بن عبادة يبايعون فقمت وقام أبو بكر وأبو عبيدة بن الجراح نحوهم فزعين أن يحدثوا في الإسلام، فلقينا رجلين من الأنصار رجلا صدق عويمر بن ساعدة ومعن بن عدي، فقالا: أين تريدون؟ قلنا: قومكم لما بلغنا من أمرهم، فقالا: ارجعوا فإنكم لن تخالفوا ولن يؤتى بشيء تكرهونه فأبينا إلا أن نمضى أنا أزويكلاما أن أتكلم به حتى انتهينا إلى القوم وإذا هم عكوف هنالك على سعد بن عبادة وهو على سرير له مريض؛ فلما غشيناهم تكلموا فقالوا: يا معشر قريش منا أمير ومنكم أمير فقال الحباب بن المندر: أنا جذيلها المحكك وعذيقها المرجب إن شئتم والله رددناها جذعةفقال أبو بكر: على رسلكم. فذهبت لأتكلم فقال: أنصت يا عمر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: يا معشر الأنصار إنا والله ما ننكر فضلكم ولا بلاغكم في الإسلام، ولا حقكم الواجب علينا ولكنكم قد عرفتم أن هذا الحي من قريش بمنزلة من العرب فليس بها غيرهم وأن العرب لن تجتمع إلا على رجل منهم فنحن الأمراء وأنتم الوزراء، فاتقوا الله ولا تصدعوا الإسلام ولا تكونوا أول من أحدث في الإسلام ألا وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين لي ولأبي عبيدة بن الجراح فأيهما بايعتم فهو لكم ثقة، قال: فوالله ما بقي شيء كنت أحب أن أقول إلا قد قاله يومئذ غير هذه الكلمة، فوالله لأن أقتل ثم أحيى ثم أقتل ثم أحيى في غير معصية أحب إلي من أن أكون أميرا على قوم فيهم أبو بكر، ثم قلت يا معشر المسلمين إن أولى الناس بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعده ثاني اثنين إذ هما في الغار أبو بكر السباق المبين، ثم أخذت بيده وبادرني رجل من الأنصار فضرب على يده قبل أن أضرب على يده فتتابع الناس وميل عن سعد بن عبادة فقال الناس: قتل سعد قتله الله ثم انصرفنا، وقد جمع الله أمر المسلمين بأبي بكر فكانت لعمري فلتة كما أعطى الله خيرها من وقي شرها، فمن دعا إلى مثلها فهو الذي لا بيعة له ولا لمن بايعه. "ش".
14137 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) منبر پر بیٹھے اللہ کی حمدوثناء کی ، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر فرمایا ان پر درود بھیجا پھر ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جب تک چاہا ہمارے درمیان زندہ رکھا اور ان پر وحی من جانب اللہ وحی نازل ہوتی رہی، جس کے ذریعہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حلال و حرام کرتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اٹھا لیا اور جو اللہ پاک نے وحی سے واپس اٹھانا تھا اٹھا لیا اور جس کو باقی رکھنا تھا باقی رکھا۔ بعض اٹھ جانے والی وحی کو ہم نے یاد رکھا، جو قرآن ہم پہلے پڑھتے تھے ان میں یہ آیت بھی تھی :
لا ترغبوا عن آباء کم فانہ کفر بکم ان ترغبوعن آباء کم۔
اپنے آباء سے (اپنی نسبت کا) انکار نہ کرو بیشک یہ تمہاری اپنی ذات کا انکار ہے کہ تم اپنے آباء سے انکار کرو۔
نیز پہلے آیت رجم کا بھی نزول ہوا تھا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! میں نے اس آیت رجم کو یاد رکھا ، پڑھا اور پھر اچھی طرح سمجھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ کہیں گے عمر نے مصحف میں اس چیز کا اضافہ کردیا ہے جو اس میں نہیں ہے تو میں اس کو ضرور اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا۔ اور یاد رکھو رجم تین صورتوں میں لازم ہے، حمل ظاہر ہوجائے، زانی یا زانیہ خود اعتراف زنا کرلے یا چار عادل گواہ شہادت دیدیں جیسے کہ اللہ نے حکم فرمایا ہے۔
لوگو ! مجھے خبر ملی ہے کہ بعض لوگ حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت میں چہ میگوئیاں کرتے ہیں کہ وہ بلا سوچ سمجھے کی خلافت تھی۔ میری زندگی کی قسم ! ہاں اسی طرح ہوا۔ لیکن اللہ پاک نے ان کو خلافت اور بھلائی سے ہمکنار کیا اور خلافت کے شر سے ان کو بچا لیا۔ اب تم اس شخص (عمر) سے اپنا خیال رکھو، اس کی طرف گردنیں اٹھ رہی ہیں جس طرح حضرت ابوبکر (رض) کی طرف اٹھی تھیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو لوگوں کا حال یہ تھا کہ ہم کو خبر ملی کہ انصار شقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ہیں اور سعد بن عبادۃ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سن کر میں اٹھا اور ابوبکر (رض) اور ابوعبیدۃ (رض) بھی اٹھے ہم ان کی طرف پریشانی کے عالم میں نکلے کہ کہیں وہ اسلام میں فتنہ نہ کھڑا کردیں۔ ہماری راستے میں دو انصاریوں سے ملاقات ہوئی، دونوں سچے آدمی تھے۔ عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی۔ انھوں نے کہا : تم کہاں جارہے ہو ؟ ہم نے کہا تمہاری قوم کی اطلاع ملی ہے ان کے پاس جارہے ہیں۔ دونوں بولے : واپس چلے جائیں کیونکہ تمہاری مخالفت ہرگز نہیں کی جائے گی اور نہ تمہاری مرضی کے خلاف کچھ ہوگا۔ ، لیکن ہم نے مڑنے سے انکار کردیا۔ جبکہ میں کلام ڈھونڈ رہا تھا کہ کیا کیا بولوں گا۔ حتیٰ کہ ہم قوم کے پاس پہنچ گئے۔ وہ لوگ سعد بن عبادۃ پر جھکے پڑے تھے سعد چارپائی پر تھا اور مرض میں مبتلا تھا۔ جب ہم ان کے پاس پہنچ گئے تو انھوں نے ہم سے بات کی اور بولے : اے جماعت قریش ! ہم میں سے بھی ایک امیر ہو اور تم میں سے بھی ایک امیر ہوجائے۔ حباب بن منذر نے کہا : میں اس مسئلے کا تسلی بخش حل پیش کرتا ہوں جو خوشگوار ہوگا۔ اگر تم چاہو واللہ ! ہم اس منصب کو واپس کردیتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم ذرا ٹھہر جاؤ۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں میں کچھ بولنے کو ہوا تو حضرت ابوبکر (رض) نے مجھے بھی خاموش کرادیا۔ پھر آپ (رض) نے اللہ کی حمدوثناء بیان کی پھر فرمایا : اے جماعت انصار ! اللہ کی قسم ہم تمہاری فضیلت کا انکار ہرگز نہیں کرتے، نہ اسلام میں تمہارے مرتبے اور محنت کا انکار کرتے ہیں اور نہ اپنے اوپر تمہارے واجب حق کو بھولتے ہیں۔ لیکن تم جانتے ہو کہ یہ قبیلہ قریش عرب میں اس مرتبے پر ہے جہاں کوئی اور ان کا ہم سر نہیں، اور عرب ان کے آدمی کے سوا کسی پر راضی نہیں ہوں گے۔ پس ہم امراء بنتے ہیں اور تم وزراء ۔ پس اللہ سے ڈرو اور اسلام میں پھوٹ نہ ڈالو اور اسلام میں فتنے پیدا کرنے والوں میں اول نہ بنو۔ دیکھو میں تمہارے لیے ان دو آدمیوں پر راضی ہوں تم ان میں سے کسی ایک کو چن لو مجھے (عمر کو) یا ابوعبیدۃ کو۔ تم ان میں سے جس کی بیعت کرو وہ تمہارے لیے بااعتماد ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! ایسی کوئی بات نہ رہی جو میں کرنا چاہتا تھا مگر آپ (رض) نے وہ فرمادی سوائے اس آخری بات کے۔ اللہ کی قسم ! مجھے بغیر کسی گناہ کے قتل کیا جاتا، پھر مجھے زندہ کیا جاتا پھر قتل کیا جاتا پھر زندہ کیا جاتا یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند تھا کہ میں ایسی قوم پر امیر بنوں جس میں ابوبکر (رض) موجود ہوں۔ پھر میں نے کہا : اے مسلمان لوگو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعدان کے پیچھے اس منصب کا سب لوگوں میں صحیح حقدار ثانی اثنین اذھما فی الغار ہے۔
یعنی ابوبکر جوہر خیر میں کھلی سبقت کرنے والے ہیں۔ پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑاتا کہ بیعت کروں لیکن ایک انصاری ہی نے مجھ سے پہلے آپ کے ہاتھ پر ہاتھ ماردیا اور مجھ سے پہلے بیعت کا شرف حاصل کرلیا پھر دوسرے لوگ بھی ہجوم کرکے بیعت میں شامل ہوگئے۔ جبکہ سعد بن عبادۃ (رض) کو لوگوں نے چھوڑ دیا۔ لوگ کہنے لگے : سعد تو مارا گیا، اللہ اس کا برا کرے۔ انھوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : پھر ہم لوٹ آئے اور اللہ نے مسلمانوں کو ابوبکر پر جمع کردیا، میری زندگی کی قسم یہ سب اچانک ہوا، پھر اللہ نے ان کو خلافت کی خیر عطا کی اور خلافت کے شر سے محفوظ کردیا۔ پر جو اس بیعت کے لیے کسی اور کو چنے تو دونوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابن ابی شیبہ

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔