HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14210

14210- "مسند عمر" عن الليث بن سعد قال: كتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص من عبد الله أمير المؤمنين إلى عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فإني فكرت في أمرك الذي أنت عليه، فإذا أرضك أرض واسعة عريضة رفيعة قد أعطى الله أهلها عددا وجلداوقوة في بر وبحر وأنها لا تؤدي نصف ما كانت تؤديه من الخراج قبل ذلك على قحوطلا جدوب ولقد أكثرت من مكاتبتك في الذي على أرضك من الخراج، فظننت أن ذلك شيئا بينا على غير نزرورجوت أن تفيق فترجع إلى ذلك، فإذا أنت تأتيني بمعاريضتغتالها ولا توافق الذي في نفسي، ولست قابلا منك دون الذي كانت تؤخذ به من الخراج قبل ذلك، ولست أدري مع ذلك ما الذي أنفرك من كتابي فلئن كنت مجزماكافيا صحيحا فإن البراءة لنافعة، ولئن كنت مضيعا فطنافإن الأمر على غير ما تحدث به نفسك، وقد تركت أن أبتلي ذلك منك في العام الماضي رجاء أن تفيق فترجع إلى ذلك، وقد علمت أنه لم يمنعك من ذلك إلا عمالك عمال السوء، وما تواليت عليه وتلفقاتخذوك كهفا، وعندي بإذن الله دواء فيه شفاء عما أسألك عنه، فلا تجزع أبا عبد الله أن يؤخذ منك الحق وتعطاه، فإن النهر يخرج الدر والحق أبلج، ودعني وما عنه تتلجلج فإنه قد برحالخفاء والسلام. قال: فكتب إليه عمرو بن العاص بسم الله الرحمن الرحيم لعبد الله عمر أمير المؤمنين من عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فقد بلغني كتاب أمير المؤمنين في الذي استبطأني فيه من الخراج، والذي ذكر فيها من عمل الفراعنة قبلي، وإعجابه من خراجها على أيديهم ونقص ذلك منها منذ كان الإسلام، ولعمري الخراج يومئذ أوفر وأكثر، والأرض أعمر لأنهم كانوا على كفرهم وعتوهم أرغب في عمارة أرضهم منا منذ كان الإسلام وذكرت أن النهر يخرج الدر فحلبتها حلبا قطع ذلك درها، وأكثرت في كتابك وأنبت وعرضت وبرأتوعلمت أن ذلك عن شيء نخفيه على غير خبير فجئت لعمري بالمفظعاتالمقذعات ولقد كان لكم فيه من الصواب من القول رضينصارم بليغ صادق وقد عملنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم ولمن بعده فكنا بحمد الله مؤدين لأمانتنا حافظين لما عظم الله من حق أئمتنا، نرى غير ذلك قبيحا والعمل به سيئا، فتعرف ذلك لنا وتصدق به قبلنا معاذ الله من تلك الطعمومن شر الشيم والاجتراء على كل مأثم فاقبض عملك فإن الله قد نزهني عن تلك الطعم الدنية والرغبة فيها بعد كتابك الذي لم تستبق فيه عرضا تكرم فيه أخا، والله يا ابن الخطاب لأنا حين يراد ذلك مني أشد لنفسي غضبا ولها إنزاهاوإكراما، وما علمت من عمل أرى علي فيه متعلقا ولكني حفظت ما لم تحفظ، ولو كنت من يهود يثرب ما زدت يغفر الله لك ولنا وسكت عن أشياء كنت بها عالما وكان اللسان بها مني ذلولا، ولكن الله عظم من حقك ما لا يجهل، والسلام، قال ابن قيس مولى عمرو بن العاص فكتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فقد عجبت من كثرة كتبي إليك في إبطائك بالخراج وكتابك إلي ببنياتالطريق وقد علمت أني لست أرضى منك إلا بالحق البين، ولم أقدمك إلى مصر أجعلها لك طعمة ولا لقومك لكني وجهتك لما رجوت من توفير الخراج وحسن سياستك، فإذا أتاك كتابي هذا فاحمل الخراج، فإنما هو فيء المسلمين وعندي من تعلم قوم محصورون، والسلام، فكتب إليه عمرو بن العاص بسم الله الرحمن الرحيم لعمر بن الخطاب من عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فقد أتاني كتاب أمير المؤمنين يستبطئني في الخراج، ويزعم أني أعند عن الحق أنكب عن الطريق وإني والله ما أرغب عن صالح ما تعلم ولكن أهل الأرض استنظروني إلى أن تدرك غلتهم فنظرت للمسلمين فكان الرفق بهم خيرا من أن يخرق بهم فنصير إلى ما لا غنى لهم عنه، والسلام. "ابن عبد الحكم أيضا".
14210 (مسند عمر (رض)) لیث بن سعد سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عمرو بن العاص (رض) کو خط لکھا :
ازبندہ خدا امیر المومنین عمر بطرف عمرو بن العاص
تم پر سلام ہو۔ میں تم کو اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ حمدوصلاۃ کے بعد ! مجھے تمہارے منصب کی طرف سے فکر لاحق ہے، جس پر تم فائز ہو ۔ دیکھو تم وسیع و عریض سرزمین پرامیر ہو۔ جس کے اہلیان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے تعداد، قوت اور بروبحر پر قدرت بخشی ہے۔ تمہاری رعایا (یعنی اہل مصر) اس سے قبل قحط سالیوں وغیرہ کی وجہ سے جس قدرلگان بھرتی تھی اب خراج کی صورت میں ان سے اس کا نصف بھی وصول نہیں کیا جاتا۔ اور میں نے خراج کے بارے میں تم سے اکثر مرتبہ خط و کتابت کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ واضح اور کھلی چیز ہے سوائے معمولی اور اتفاقیہ صورت حال کے۔ میرا خیال ہے کہ تم مر کر ہی میری بات کو قبول کرو گے۔ جب تم مجھے (خراج بھجوانے کی بجائے) لمبے چوڑے مسائل کا ذکر کرتے ہو جو میرے خیال کے موافق (درست) نہیں ہوئے تو (یادرکھو) میں ان کو قبول نہیں کرسکتا، سوائے اس صورت کے کہ تم سے جو خراج پہلے وصول کیا جاتا تھا وہی تم سے وصول کیا جائے۔ اور مجھے اس کے ساتھ اس بات کی وجہ بھی معلوم نہیں ہورہی کہ خطوط میں لکھی کسی چیز نے تم کو میرے خطوط سے متفرد کردیا ہے۔ پس اگر کسی واضح بات کا قطعیت کے ساتھ ذکر کرو تو ہماری معذرت اور برأت تم کو نفع مند ہوسکتی ہے اور اگر تم یونہی کھوکھلی باتیں کرو گے تو بات اس طرح معمول پر نہیں آئے گی جیسا تم سمجھ رہے ہو۔ ہاں میں یہ رعایت کرتا ہوں کہ گزشتہ سال (کے خراج) سے متعلق تم کو آزمائش میں نہ ڈالوں اس امید پر کہ تم میری بات پر لوٹ آؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کو خراج کی ادائیگی سے صرف تمہارے برے ارکان حکومت ہی روک رہے ہیں۔ اور تم جس چیز کے درپے ہو اور جس کے بارے میں گٹھ جوڑ کر رہے ہو تمہارے ارکان نے تم کو اس کے لیے جائے پناہ بنالیا ہے اور میرے پاس اللہ کے حکم سے ایسی دواء ہے جس میں اس مرض کی شفاء ہے جس کے متعلق میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ اے ابوعبیداللہ ! فکر نہ کرو تم سے حق لیا جائے گا اور تم خود اس کو ادا کرو گے۔ تمہارے ملک کی نہریں دودھ دیتی ہیں اور حق بات صاف سفید ہے۔ تم مجھے اور اس بات کو چھوڑ دو جو تمہارے جی میں کھٹک رہی ہے کیونکہ پوشیدہ امر کھل گیا ہے، والسلام۔
راوی کہتے ہیں پھر حضرت عمرو بن العاص (رض) نے حضرت عمر (رض) کو جواب لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ خدا امیر المومنین عمر کی طرف عمرو بن العاص کی جانب سے۔
تم پر سلام ہو۔ میں تم کو اللہ کی حمدبیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
حمدوصلاۃ کے بعد !
مجھے امیر المومنین کا خط پہنچا خراج کے متعلق جس کی ادائیگی میں انھوں نے مجھے تاخیر کرنے والا پایا اور انھوں نے اپنے خط میں مصر میں فرعونوں کے دور کا حال اور ان کے اعمال کا بھی ذکر کیا، امیر المومنین کو تعجب ہے کہ پہلے زمانے میں اب سے دگنا خراج مختلف صورتوں میں ان سے لیا جاتا تھا اب اسلام کے دور میں اس سے کہیں کم کیوں نہیں ادا کیا جارہا۔
میری زندگی کی قسم ! خراج آج بہت زیادہ ہے اور کثیر ہے، زمین بھی زیادہ آباد کیونکہ لوگ پہلے اپنے کفر اور اپنی سرکشی پر اڑے ہوئے تھے خواہ اس وقت اپنی زمینوں کو آج اسلام کے زمانے سے ہم سے زیادہ آبا کرنے والے تھے۔ لیکن کفر کی نحوست نے ان کی کوششوں کو بار آور نہیں ہونے دیا نیز آپ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہاں کی نہر (دریائے نیل زمینوں کی پیداوار کی صورت میں ) دودھ دیتی ہے اور میں وہ دودھ دوہتا ہوں، اس طرح آپ نے اپنے خط میں بہت باتیں فرمائی ہیں، خبردار کیا ہے، تعرض کیا ہے اور برأت کا اظہار کیا ہے ایسی کسی بات سے جس کے متعلق آپ کا خیال ہے کہ ہم آپ کو اندھیرے میں رکھ رہے ہیں۔ میری زندگی کی قسم ! آپ نے بہت سخت زبان اور گالی گلوچ والی باتیں فرمائی ہیں، آپ کے لیے درست تھا کہ آپ قاعدے کے موافق سچی حتمی اور حق بات کہہ دیتے۔ حالانکہ ہم نے رسول اللہ کے حکم پر اور پھر ان کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے حکم پر بھی یہ ذمہ داری نبہائی۔ بحمد للہ ہم ہر زمانے میں اپنی امانت کو ادا کرنے والے رہے اور اللہ نے ہمارے ائمہ کا جو عظیم حق ہم پر رکھا ہم اس کی حفاظت کرتے رہے۔ ہم اس کے علاوہ کسی بھی (خیانت کی) صورت کو قبیح سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرنا براگردانتے ہیں۔ ہماری یہ صفت آپ بھی بہ خوبی جانتے ہیں اور پہلے تک آپ اس کی تصدیق کرتے رہے۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اس طرح کے کھانے سے بری عادت سے اور ہر گناہ پر جراءت کرنے سے۔ آپ اپنا عہدہ ہم سے واپس لیجئے، بیشک اللہ نے مجھے اس گھٹیا طعام سے اور اس میں لاچ رکھنے سے پاک رکھا ہے۔ آپ نے اس خط کے بعد کسی آبرو کا خیال بھی نہ رکھا جس کے توسط سے آپ کسی بھائی کا اکرام کرسکتے اللہ کی قسم ! اے ابن الخطاب ! جب مجھ سے ایسی بات کی امید رکھی جائے تو میں خود اپنی ذات پر ایسا غضبناک ہوں اور اس کو اس خیانت سے پاک کرتا ہوں اور اس کا اکرام کرتا ہوں میں اپنے کسی ایسے عمل کے بارے میں نہیں جانتا جس کے متعلق مجھے کچھ جوابدہی کرنا پڑے۔
لیکن میں ایسی باتوں کو محفوظ رکھتا ہوں جن کو آپ محفوظ نہیں رکھتے۔ اگر میں یثرب کا یہودی ہوتا تب بھی میں کوئی زیادتی نہیں کرتا۔ بس اللہ آپ کی اور ہماری مغفرت فرمائے۔ میں بہت سی ایسی باتوں سے خاموشی اختیار کرتا ہوں جن کو میں جانتا ہوں لیکن ان کو زبان پر لانا خود کو پستی میں گرانے والی بات ہوتی۔ ہاں بس میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ نے آپ کے حق کو ہم پر زیادہ کیا ہے جس سے کوئی جاہل نہیں۔ والسلام۔
حضرت عمروبن العاص (رض) کے غلام ابن قیس فرماتے ہیں پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت عمرو (رض) بن العاص کو اس کا جواب لکھا جو ذیل پر مشتمل ہے :
تم پر سلام ہو، میں تم پر اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے (حمدوصلاۃ کے) بعد خراج سے متعلق میرے کثرت سے خطوط نے تم کو تعجب (اور پریشانی میں) ڈال دیا ہے، جبکہ تمہارا خط جو مجھے موصول ہوا ہے، یہ چھوٹی موٹی باتیں ہیں اور تم جانتے ہو کہ میں کھلے حق کے سوا تم سے کسی بات پر راضی نہیں ہونے والا۔ میں نے تم کو مصر اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اس کے مال کو اپنے اور اپنے لوگوں کے لیے کھانے پینے کا طعام خیال کرو۔ میں نے تم کو اس لیے وہاں کی امارت سپرد کی تھی کہ تم خراج۔ جو مسلمانوں کا حق ہے خوب حاصل کرو گے اور اپنی حسن سیاست کو عمل میں لاؤ گے۔ جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو فوراً خراج کا مال روانہ کرادو۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہے اور میرے پاس ایسے لوگ ہیں جن کو تم جانتے ہو وہ (سواری وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر جانے سے) رکے ہوئے ہیں۔ والسلام
چنانچہ پھر حضرت عمرو بن العاص (رض) نے ان کا جواب لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
از عمرو بن العاص بجانب عمر بن الخطاب۔
تم پر سلام ہو، میں تم پر اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
امابعد ! مجھے امیر المومنین کا خط موصول ہوا، آپ مجھے خراج کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں حق سے عناد رکھنے والا ہوں اور سیدھے راستے سے بھٹکنے والا ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں آپ جانتے ہیں میں درست بات سے ہرگز اعراض کرنے والا نہیں، لیکن اہل ارض (اہل مصر) نے مجھے خراج کی ادائیگی میں کچھ مہلت مانگ لی ہے اس وقت تک کہ وہ غلہ اور پیداوار زمین سے حاصل کرلیں۔ میں نے مسلمانوں کی طرف بھی نظر ڈالی تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کو نرمی دینا بہتر بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ سختی برتی جائے ورنہ پھر (پھوٹ اور اختلافات کے) اس انجام سے دوچار ہوں گے جس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ والسلام۔ ابن عبدالحکم ایضاً

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔