HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14245

14245- عن عمرو بن ميمون قال: جئت وإذا عمر واقف على حذيفة وعثمان بن حنيف، وهو يقول: تخافا أن تكونا حملتما الأرض ما لا تطيق؟ فقال عثمان: لو شئت لأضعفت أرضي، وقال حذيفة: لقد حملت الأرض أمرا هي له مطيقة وما فيها كبير فضل فقال: انظرا مالديكما إن تكونا حملتما الأرض ما لا تطيق، ثم قال: والله لئن سلمني الله لأدعن أرامل العراق لا يحتجن بعدي إلى أحد أبدا، فما أتت عليه إلا رابعة حتى أصيب وكان إذا دخل المسجد قام بين الصفوف ثم قال: استووا فإذا استووا تقدم فكبر فلما طعن مكانه فسمعته يقول: قتلني الكلب أو أكلني الكلب، فقال عمرو: فما أدري أيهما قال، فأخذ عمر بيد عبد الرحمن فقدمه، وطار العلجوبيده سكين ذات طرفين ما يمر برجل يمينا ولا شمالا إلا طعنه حتى أصاب معه ثلاثة عشر رجلا فمات منهم تسعة فلما رأى ذلك رجل من المسلمين طرح عليه برنساليأخذه فلما ظن أنه مأخوذ نحر نفسه فصلينا الفجر صلاة خفيفة، فأما نواحي المسجد فلا يدرون ما الأمر إلا أنهم حين فقدوا صوت عمر جعلوا يقولون: سبحان الله مرتين؛ فلما انصرفوا كان أول من دخل عليه ابن عباس، فقال: انظر من قتلني فجال ساعة، ثم جاء فقال: غلام المغيرة الصنعفقال عمر: الحمد لله الذي لم يجعل منيتي بيد رجل يدعي الإسلام قاتله الله لقد أمرت به معروفا. ثم قال لابن عباس: لقد كنت أنت وأبوك تحبان أن تكثر العلوج بالمدينة فقال ابن عباس: إن شئت فعلنا، فقال: بعدما تكلموا بكلامكم وصلوا بصلاتكم ونسكوا نسككم، فقال له الناس: ليس عليك بأس، فدعا بنبيذ فشربه فخرج من جرحه، ثم دعا بلبن فشربه فخرج من جرحه، فظن أنه الموت، فقال لعبد الله بن عمر: انظر ما علي من الدين فحسبه فوجده ستة وثمانين [ألف درهم] ، فقال: إن وفى بها مال آل عمر فأدها عني من أموالهم وإن لم تف أموالهم فسل بني عدي بن كعب فإن لم تف من أموالهم فسل قريشا ولا تعدهمإلى غيرهم فأدها عني، ثم قال: يا عبد الله اذهب إلى عائشة أم المؤمنين فسلم وقل يستأذن عمر بن الخطاب ولا تقل أمير المؤمنين فإني لست اليوم بأمير المؤمنين أن يدفن مع صاحبيه. فأتاها عبد الله بن عمر فوجدها قاعدة تبكي، فسلم عليها ثم قال: يستأذن عمر بن الخطاب أن يدفن مع صاحبيه، قالت: قد كنت والله أريده لنفسي ولأوثرنه اليوم على نفسي فلما جاء قيل هذا عبد الله بن عمر، قال: ما لديك؟ قال: أذنت لك، فقال عمر: ما كان شيء أهم عندي من ذلك، ثم قال: إذا أنا مت فاحملوني على سريري، ثم استأذن فقل: يستأذن عمر بن الخطاب، فإن أذنت لك فأدخلني، وإن لم تأذن فردني إلى مقابر المسلمين، فلما حمل فكأن الناس لم تصبهم مصيبة إلا يومئذ فسلم عبد الله بن عمر، فقال: يستأذن عمر بن الخطاب فأذنت له حيث أكرمه الله مع رسوله ومع أبي بكر، فقالوا له حين حضره الموت: استخلف، فقال: لا أجد أحدا أحق بهذا الأمر من هؤلاء النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فأيهم استخلف فهو الخليفة بعدي، فسمى عليا وعثمان وطلحة والزبير وعبد الرحمن بن عوف وسعدا فإن أصابت الإمرة سعدا فذلك، وإلا فأيهم استخلف فليستعن به فإني لم أعزله عن عجز ولا خيانة وجعل عبد الله يشاور معهم، وليس له من الأمر شيء. فلما اجتمعوا قال عبد الرحمن بن عوف: اجعلوا أمركم إلى ثلاثة نفر فجعل الزبير أمره إلى علي، وجعل طلحة أمره إلى عثمان، وجعل سعد أمره إلى عبد الرحمن، فأتمر أولئك الثلاثة حين جعل الأمر إليهم فقال عبد الرحمن: أيكم يتبرأ من الأمر ويجعل الأمر إلي ولكم الله علي ألا آلوا عن أفضلكم وأخيركم للمسلمين؟ قالوا: نعم فخلا بعلي فقال: إن لك من القرابة من رسول الله صلى الله عليه وسلم والقدم فالله عليك لئن استخلفت لتعدلن ولئن استخلف عثمان لتسمعن ولتطيعن، قال: نعم وخلا بعثمان فقال له مثل ذلك فقال عثمان: نعم، ثم قال: لعثمان: أبسط يدك يا عثمان فبسط يده فبايعه علي والناس. "ابن سعد وأبو عبيد في الأموال ش خ ن حب ق ط"
14245 عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا تو آپ حذیفہ اور عثمان بن حنیف کے سامنے کھڑے تھے اور ان کو فرما رہے تھے :
تخافان ان تکونا حملتما الارض ما لا تطبق ؟ فقال عثمان : لوشئت لا ضعفت ارضی، وقال حذیفۃ : لقد حملت الارض امراھی لہ مطیقۃ وما فیھا کبیر فضل وقال : انظر امالدیکما ان تکونا حملتما الارض مالا تطیق۔
تم اس بات سے ڈر رہے ہو کہ کہیں تم کو دور کے سفر پر روانہ نہ کردیا جائے جس کی تم میں سہار نہ ہو ، عثمان بولے : اگر میں چاہوں تو اپنی زمین سے آگے مزید سفر بھی کرسکتا ہوں۔ حذیفہ بولے : اگر مجھے دور دراز کے سفر پر بھیجا جائے تو میں اس پر جاسکتا ہوں اور اس میں کوئی بڑی فضیلت نہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم دیکھ لو کہ اگر تم کو لمبے سفر پر بھیجا جائے تو تمہارے پاس کیا کچھ زادراہ ہے ؟ واللہ اعلم بمرادہ الصحیح۔
پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر اللہ پاک نے مجھے سلامت رکھا تو میں عراق کے فقیروں کو ایسا غنی کردوں گا کہ وہ میرے بعد کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ پھر بھی ان پر چوتھا دن نہ گزرا تھا کہ ان پر حملہ کردیا گیا۔
حضرت عمر (رض) جب مسجد میں داخل ہوتے تو صفوں کے درمیان کھڑے ہوجاتے تھے پھر ارشاد فرماتے : صفیں سیدھی کرلو۔ جب وہ صفیتں سیدھی کرلیتے تو آگے بڑھ کر (مصلی پر جاکر) تکبیر کہہ دیتے۔ چنانچہ حملہ کے موقع پر جب آپ نے تکبیر کہہ دی (نماز کی نیت باندھ لی) تو اسی جگہ آپ پر خنجر کے وار کیے گئے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں : میں نے اس وقت آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا قتلتی الکلب یا فرمایا اکلنی الکلب مجھے کتے نے قتل کردیا یا فرمایا مجھے کتا کھا گیا۔ عمرو فرماتے ہیں یاد نہیں آپ نے ان میں سے کیا فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے عبدالرحمن بن عوف (رض) کا ہاتھ پکڑ کر ان کو آگے کردیا۔ جبکہ حملہ آور عجمی کافر بھاگ پڑا، اس کے ہاتھ میں دو دھاری خنجر تھا وہ دائیں بائیں جس آدمی کے پاس سے گزرتا اس پر حملہ کرتا جاتا حتیٰ کہ اس نے تیرا آدمیوں پر خنجر کے وار کیے، جن میں سے نو افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک مسلمان نے پکڑنے کے لیے اس پر چادر ڈال دی جس میں وہ الجھ گیا، جب اس نے دیکھا کہ وہ پکڑا جاچکا ہے تو اس نے خود کو ذبح کرکے خود کشی کرلی، عمرو فرماتے ہیں : پھر ہم نے مختصر فجر کی نماز ادا کی۔ مسجد کے دور کے اطراف و جوانب والوں کو اس واقعہ کا پتہ نہ چل سکا۔ انھوں نے جب حضرت عمر (رض) کی آواز نہ سنی تو دو مرتبہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہا۔ جب لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے تو سب سے پہلے حضرت ابن عباس (رض) حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : دیکھ کر آؤ مجھے قتل کرنے والا کون تھا ؟ چنانچہ ابن عباس (رض) ایک چکر لگا کر آئے اور عرض کیا وہ مغیرۃ (رض) کا (کافر) کاریگر غلام تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری موت ایسے شخص کے ہاتھ نہیں لکھی جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو۔ اللہ اس کو قتل کرے، میں نے تو اس کو بھلی بات کا کہا تھا۔
پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) کو مخاطب ہو کر فرمایا : تو اور تیرا باپ ہی پسند کرتے تھے کہ عجمی لوگ مدینے میں کثرت سے آئیں۔ ابن عباس (رض) نے عرض کیا : اگر آپ چاہیں تو ہم (ان کو نکال سکتے ہیں اور) ایسا کرسکتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اب جبکہ وہ تمہاری بات کے ساتھ بات کرنے لگے ہیں۔ تمہاری نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے ہیں اور تمہارے طریقوں پر چل پڑے ہیں۔
لوگوں نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا : آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں (اللہ شفاء دے گا) حضرت عمر (رض) نے۔ اس کے جواب میں نبیذ (مشروب) منگوایا وہ پیا تو وہ آپ کے پیٹ کے زخم سے نکل گیا۔ پھر آپ (رض) نے دودھ منگوایا وہ پیا تو وہ بھی زخم کے راستے سے جوں کا توں نکل گیا۔ تب آپ کو یقین ہوگیا کہ موت سر پر آگئی ہے۔ آپ (رض) نے اپنے بیٹے عبداللہ کو فرمایا : دیکھو ! مجھ پر کتنا قرض ہے ؟ عبداللہ نے حساب لگایا تو وہ چھیاسی ہزار درہم کے مقروض نکلے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : دیکھ اگر آل عمر کے پاس اتنا مال ہو تو میری طرف سے یہ قرض ادا کردو۔ اگر ان کے اموال میں سے میرا قرض مکمل پورا نہ ہو تو میرے قبیلے عدی بن کعب سے سوال کرلینا پھر بھی قرض کی مکمل ادائیگی نہ ہوجائے تو پھر قریش سے سوال کرلینا اور ان کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کرنا اور میرا قرض ادا کردینا۔
پھر فرمایا : اے عبداللہ ! ام المومنین عائشہ (رض) کے پاس جاؤ، ان کو سلام کرکے کہو : عمر بن خطاب ہاں امیر المومنین نہ کہنا کیونکہ آج سے میں امیر المومنین نہیں رہا، آپ سے اجازت مانگتے ہیں کہ ان کو دو ساتھیوں کے ساتھ دفن کردیا جائے۔ چنانچہ عبداللہ ابن عمر (رض) حضرت عائشہ (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور ان کو بیٹھے روتا ہوا پایا۔ عبداللہ نے ان کو سلام کہا اور فرمایا : عمر بن طاب اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے اس جگہ کو اپنے لیے کر رکھا تھا، لیکن آج میں اپنی ذات کو عمر پر ترجیح نہ دوں گی۔ چنانچہ جب حضرت ابن عمر (رض) اپنے والد کے پاس واپس حاضر ہوئے تو انھوں نے پوچھا : تمہارے پاس کیا خبر ہے ؟ ابن عمر (رض) نے عرض کیا : انھوں نے اجازت دیدی ہے۔ تب حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے پھر تاکیداً فرمایا : (اب بھی) جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھے چار پائی پر اٹھا کرلے جانا پھر (دوبارہ) اجازت مانگنا، کہنا : عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ اجازت دیدیں تو مجھے اندر داخل کردینا اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لوٹا دینا۔ جب حضرت عمر (رض) کا جنازہ اٹھا تو لوگوں کا یہ حال تھا گویا ان کو آج ہی سب سے بڑی مصیبت لاحق ہوئی ہے۔ چنانچہ پھر عبداللہ بن عمر (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کے دروازے پر جاکر اجازت مانگی اور عرض کیا عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے ان کو اجازت مرحمت فرمادی۔ یوں اللہ نے عمر (رض) کو اپنے رسول اور ان کے ساتھی ابوبکر کے ساتھ جگہ دے کر ان کا بہت اکرام فرمایا۔
خلیفہ مقرر کرنا چھ افراد کی شوریٰ کا ذمہ ہے
جب حضرت عمر (رض) کی موت کا وقت قریب ہوا تھا تو لوگوں نے ان سے عرض کیا : ہمارے لیے کوئی خلیفہ منتخب فرمادیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں اس منصب کا سب سے زیادہ حقدار اس چھ افراد کی جماعت میں سے ہر ایک کو سمجھتا ہوں کہ جن سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاتے وقت راضی تھے۔ پس ان میں سے جس کو خلیفہ بنالیا جائے وہ میرے بعد (مسلمانوں کا) خلیفہ ہوگا۔ پھر آپ (رض) نے علی، عثمان ، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بنعوف اور سعد بن ابی وقاص کے اسماء گرامی لیے۔ اگر امارت سعد کے حصے میں ہے تو ان کے لیے ہوگی کیونکہ میں ان کو ان کی کسی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے (سپہ سہ لاری سے) معزول نہیں کیا تھا اور اگر کسی اور کو خلیفہ بنایا جائے تو ان میں سے ہر ایک کو خلیفہ بنایا جاسکتا ہے۔ پھر اس کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ جبکہ عبداللہ (میرا بیٹا) مشورہ کی حد تک شریک کار رہے گا۔ جبکہ وہ امارت میں کسی شے کا حقدار نہ ہوگا۔
چنانچہ جب یہ (ساتوں) حضرات جمع ہوئے تو عبدالرحمن (رض) بن عوف نے فرمایا : تم اپنے چھ میں سے تین کو چن لو۔ لہٰذا زبیر نے اپنی جگہ علی کے حق میں رائے دی ، طلحہ نے عثمان کے حق میں اور سعد نے عبدالرحمن بن عوف کے حق میں رائے دیدی۔ یوں اب انتخاب کا مرحلہ صرف تین میں رہ گیا پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا : تم میں سے کون اس (حق) سے دستبردار ہو کر مجھے انتخاب کا کام سپرد کرتا ہے ، اور میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میں تم میں مسلمانوں کے لیے سب سے افضل اور سب سے بہترین شخص کو چننے میں کوئی کوتاہی نہیں برتوں گا ؟ ان سب حضرات نے اثبات میں اقرار کرلیا۔ پھر حضرت عبدالرحمن نے علی (رض) کے ساتھ خلوت میں گفتگو کی اور فرمایا : آپ کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قرابت اور رشتے داری ہے اور آپ کو (اسلام میں) قدیم ہونے کی فضیلت حاصل ہے اب تم کو اللہ حاضر وناظر جان کر بولو اگر تم کو خلیفہ بنایا گیا تو تم انصاف کرو گے اور اگر عثمان کو خلیفہ بنایا گیا تو تم ان کو سنو گے اور اطاعت کرو گے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : بالکل ، پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو خلوت میں لے جاکر پہلے کی طرح گفتگو کی حضرت عثمان (رض) نے بھی اس کا جواب اثبات میں دیا تو عبدالرحمن (رض) نے فرمایا : اپنا ہاتھ پھیلاؤ اے عثمان ! چنانچہ انھوں نے ہاتھ پھیلایا تو حضرت علی (رض) نے ان کی بیعت کرلی اور دوسرے لوگوں نے بھی بیعت کرلی۔
ابن سعد ، ابوعبید فی الاموال، ابن ابی شیبہ، البخاری، النسائی، ابن حبان، السنن للبیہقی، ابوداؤد

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔