HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14535

14535- عن ابن جريج قال: قال عمرو بن شعيب قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم إن مات الوالد أو الولد عن مال أو ولاء فهو لورثته من كانوا، وقضى أن الأخ للأب والأم أولى الكلالةبالميراث ثم الأخ للأب أولى من بني الأخ للأب والأم فإذا كان بنو الأب والأم وبنو الأب بمنزلة واحدة فبنو الأب والأم من بني الأب، فإذا كان بنو الأب أرفع من بني الأب والأم بأب فبنو الأب أولى، فإذا استووا في النسب فبنو الأب والأم أولى من بني الأب، وقضى أن العم للأب والأم أولى من العم للأب وأن العم للأب أولى من بني العم للأب والأم فإذا كان بنو الأب والأم وبنو الأب بمنزلة واحدة نسبا واحدا فبنو الأب والأم أولى من بني الأب؛ فإذا كان بنو الأب أرفع من بني الأب والأم بأب فبنو الأب أولى من بني الأب والأم، فإذا استووا في النسب فبنو الأب والأم أولى من بني الأب، لا يرث عم ولا ابن عم مع أخ وابن أخ، الأخ وابن الأخ ما كان منهم أحد أولى بالميراث ما كانوا من العم وابن العم، وقضى أنه من كانت له عصبة من المحررينفلهم ميراثه على فرائضهم في كتاب الله فإن لم يستوعب فرائضهم ماله كله، رد عليهم ما بقي من ميراثه على فرائضهم حتى يرثوا ماله كله، وقضى أن الكافر لا يرث المسلم وإن لم يكن له وارث غيره وأن المسلم لا يرث الكافر ما كان له وارث يرثه أو قرابة به فإن لم يكن له وارث يرثه أو قرابة به ورثه المسلم بالإسلام. وقضى أن كل مال قسم في الجاهلية فهو على قسمة الجاهلية وأن ما أدرك الإسلام ولم يقسم فهو على قسمة الإسلام، وذكر أن الناس كلموا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مواريثهم وكانوا يتوارثون كابرا عن كابر ليرفعها فأبى وقضى أن كل مستلحقادعى من بعد أبيه ادعاه وارثه فقضى أنه إن كان من أمة أصابها وهو يملكها فقد لحق بمن استلحقه وليس له من ميراث أبيه الذي يدعى له من شيء إلا أن يورثه من استلحقه في نصيبه، وإنه ما كان من ميراث ورثوه بعد أن ادعى فله نصيب منه، وقضى أنه إن كان من أمة لا يملكها أبوه فالذي يدعى له أو من حرة عير بها فقضى أنه لا يلحق ولا يرث وإن كان الذي يدعى له هو ادعاه فإنه ولد زنا لأهل أمه من كانوا حرة أو أمة وقال: الولد للفراش وللعاهر الحجر، وقضى أنه من كان حليفا حولف في الجاهلية فهو على حلفه وله نصيبه من العقلوالنظر يعقل عنهمن حالفه وميراثه لعصبته من كانوا، وقال: لا حلف في الإسلام وتمسكوا بحلف الجاهلية، فإن الله تعالى لم يزده في الإسلام إلا شدة، وقضى أن العمرىلمن أعمرها، وقضى في الموضحةبخمس من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء وفي المنقلة.5 خمس عشرة من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وقضى في العين خمسين من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وقضى في الأنف إذا جدع كله بالعقل كاملا، وإذا جدعت روثتهبنصف العقل خمسين من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وفي اليد نصف العقل وفي الرجل نصف العقل خمسين من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وفي الأصابع عشرا عشرا في كل أصبع لا زيادة بينهن أو قدر ذلك من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، قال: وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل طعن آخر بقرن في رجله فقال: يا رسول الله أقدنيفقال: حتى يبرأ جراحك فأبى الرجل إلا أن يستقيد فأقاده النبي صلى الله عليه وسلم فصح المستقاد منه وعرج المستقيد، فقال: عرجت وبرأصاحبي فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ألم آمرك أن لا تستقيد حتى تبرأ جراحك فعصيتني فأبعدك الله وبطل عرجك ثم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان به جرح بعد الرجل الذي عرج أن لا يستقيد حتى يبرأ جرح صاحبه فالجرح على ما بلغ حتى يبرأ فما كان من شلل أو عرج فلا قود فيه وهو عقل ومن استقاد جرحا فأصيب المستقاد منه فعقل ما فضل من ديته على جرح صاحبه له وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا يقتل مسلم بكافر، وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في فداء رقيق العرب من أنفسهم، فقضى في الرجل الذي يسلم في الجاهلية بثمان من الإبل وفي ولد إن كان له لأمه بوصيفينوصيفين كل إنسان منهم ذكرا أو أنثى، وقضى في سبية الجاهلية بعشر من الإبل وقضى في ولدها من العبد بوصيفين وصيفين وبدية موالي أمه وهم عصبتها، ثم لهم ميراثه وميراثها ما لم يعتق أبوه، وقضى في سبى الإسلام بست من الإبل في الرجل والمرأة والصبي، وذلك في العرب بينهم وما كان من نكاح أو طلاق كان في الجاهلية فأدركه الإسلام إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقره على ذلك إلا الربا فما أدرك الإسلام من ربا لم يقبض رد إلى البائع رأس ماله وطرح الربا. "عب".
14535 ابن جریج سے مروی ہے کہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اگر والد یا اولاد کا انتقال ہوجائے اور وہ مال یا ولاء (آزاد کردہ غلام کی وراثت) چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہوگا جو بھی ہوں۔ نیز حقیقی بھائی جو ماں باپ شریک ہو وہ کلالہ۔ جس کے اولاد اور ماں باپ نہ ہوں کی میراث کا زیادہ حقدار ہے، پھر باپ شریک بھائی زیادہ حقدار ہے بنسبت حقیقی بھتیجوں (جو ماں باپ شریک بھائی کی اولاد ہوں) جب ماں باپ کی اولاد اور صرف باپ کی اولاد ایک جگہ شریک ہوں تو ماں باپ شریک اولاد زیادہ حقدار ہے بنسبت صرف باپ شریک اولاد کے۔ جب باپ کی اولاد ارفع آگے ہو ماں باپ کی اولاد سے تو باپ کی اولاد زیادہ حقدار اور اولیٰ ہے۔
جب سب نسب میں برابر ہوں تو بنوالاب والام (ماں باپ شریک اولاد) بنوالاب (صرف باپ شریک اولاد) سے اولیٰ (مقدم) ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا : ماں باپ شریک چچا اولیٰ ہے بنسبت صرف باپ شریک چچا سے۔ نیز باپ شریک چچا ماں باپ شریک بھتیجوں سے زیادہ اولیٰ ہے۔ جب بنوالاب والام اور بنوالاب نسب میں بمنزلہ واحد یعنی ایک مرتبہ میں ہوں تو بنوالاب والام اولیٰ ہے بنوالاب سے۔ پس جب بنوالاب ارفع (اعلیٰ نسب) ہوں بنی الاب والا باب سے (تو بنوالاب اولیٰ ) ہیں بنی الاب والام سے۔ جب سب نسب میں برابر ہوں تو بنوالاب والا اولیٰ ہیں بنوالاب سے۔ نیز فرمایا : بھائی اور بھتیجے کی موجودگی میں چچا اور چچا زاد وارث نہیں ہوسکتے۔ بھائی اور بھتیجے میں سے جو موجود ہو وہ میراث کا زیادہ حقدار ہے چچا اور چچا زاد سے۔ نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ آزاد کردہ غلاموں میں سے جس کے عصبہ موجود ہوں وہ اس کے وارث ہوں گے کتاب اللہ میں مقرر کردہ حصوں کے مطابق۔ اگر ان کے حصے ادا کرنے کے بعد مال بچ جائے تو دوبارہ انہی حصوں کے مطابق میراث تقسیم ہوگی حتیٰ کہ وہ عصبہ اس کے سارے مال کے وارث ہوجائیں نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا : کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا خواہ اس کے سوا اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ اسی طرح مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا، جو اس کا وارث ہوگا وہ اس کی وراثت پائے گا یا اس کا رشتہ دار اس کی وراثت پائے گا۔ اگر مسلمان کا کوئی وارث حقیقی یا رشتہ دار نہیں ہے تو عام مسلمان۔ بیت المال کی شکل میں اس کا وارث ہوگا۔
نیز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ ہر وہ مال جو جاہلیت میں تقسیم ہوگیا وہ اسی تقسیم پر رہے گا۔ اور جس مال پر اسلام آگیا اور وہ ہنوز تقسیم نہیں ہوا وہ اسلام کی تقسیم پر تقسیم ہوگا۔
نیز عمرو بن شعیب نے ذکر کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی میراث اور وارثوں کے بارے میں بات چیت کی جن کے وہ اوپر سے ایک دوسرے کے بعد وارث چلے آرہے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمادیا اور فیصلہ فرمایا کہ ہر لاحق ہونے والا بچہ اوائل اسلام میں یہ احکام پیدا ہوئے کیونکہ جاہلیت میں لوگوں کی ان یہ باندی ہوا کرتی تھیں اور لوگ ان کے ساتھ بدکاری کا پیشہ کرواتے تھے۔ پس جب کسی باندی کو کوئی بچہ ہوتا تو یا تو اس کا مالک بچہ کو اپنا کہہ دیتا تھا ورنہ کوئی زانی اپنا کہہ دیتا تھا اور پھر وہ اس کا وارث ہوجاتا تھا اگر وہ اپنے باپ کے جانے کے بعد اس کی طرف منسوب ہوا اور وارثوں نے بھی اس کو ملالیا تو اگر وہ اس باندی کا ہے جو اس کے باپ کی ملکیت تھی جب وہ اس کے ساتھ ہم بستر ہوا تو تب وہ اس کے ساتھ لاحق ہوجائے گا یعنی اس کا بیٹا قرار پائے گا۔ لیکن اس کی میراث میں وارث نہ ہوگا ہاں اگر دوسرے وارث اس کو شریک کرنا چاہیں تو جو جو شریک کریں انی کے حصے میں وارث ہوگا۔ اور اگر اس نے پہلے ہی باپ کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کردیا اور پھر وارثوں نے اس کے باپ کی وارثت پائی تو تب اس کا بھی وارثت بھی حصہ ہوگا۔
نیز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اگر وہ لڑکا ایسی باندی کا ہے جس کا مالک اس لڑکے کا باپ نہیں تھا پس وہ جس کا پکارا جائے (جس کی طرف منسوب ہو) یا وہ ایسی آزاد عورت کا لڑکا ہے جس کے ساتھ وہ متہم ہے (یعنی بدکاری کے نتیجے میں آزاد عورت سے پیدا ہوا ہے) تو یہ دونوں طرح کی اولاد باپ کے ساتھ نہیں لاحق ہوں گی اور نہ اس کی وارث ہوں گی خواہ وہ جس کا پکارا جاتا ہے اس نے خود اس کا دعویٰ کیا ہے تب بھی وہ اس کا شمار نہ ہوگا بلکہ وہ ولدالزنا (حرامی) ہوگا صرف ماں کی طرف منسوب ہوگا خواہ اس کی ماں آزاد ہو یا باندی۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بچہ صاحب بستر (شوہر یا باندی کے آقا) کا ہے اور زانی کے لیے (سنگساری کے) پتھر ہیں۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا جو زمانہ جاہلیت میں کسی کا حلیف بنا۔ ان کا فرد بنا تو وہ (اسلام میں بھی) انہی کا حلیف ہے اور اس کو ان کی دیت کا حصہ بھی ملے گا اور اس کے حلیف اپنی دیت کی ادائیگی میں اس پر بھی تاوان رکھیں گے اور اس کی میراث اس کے عصبہ کے لیے ہوگی جو بھی ہوں۔ نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام میں (اس طرح کا کوئی) حلف نہیں ہے (جس سے وہ اپنے خاندان سے کٹ کر حلیفوں کا ہوجائے) لیکن جاہلیت کے حلف کو تھامے رکھو۔ بیشک اللہ تعالیٰ اس کو اسلام میں مضبوطی ہی دیتے ہیں بجائے کسی کمی کے۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمادیا کہ عمریٰ اس کے لیے جس نے جاری کیا (کسی نے کہا) یہ اونٹ یا زمین یا مکان میری یا تیری زندگی تک تیرے لیے ہے تو وہ اس کو زندگی کے بعد مالک کو واپس لوٹ جائے گا۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ موضحۃ (وہ زخم جو ہڈی کی سفیدی ظاہر کردے) میں پانچ اونٹ ہیں یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ اور منقلہ (وہ زخم جس سے چھوٹی ہڈیاں نکل آئیں اور اپنی جگہ سے سرک جائیں) میں پندرہ اونٹ ہیں۔ یا ان کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آنکھ ضائع کرنے میں پچاس اونٹ مقرر فرمائے یا ان کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری ناک کاٹنے میں پوری دیت لازم فرمائی اور اگر ناک کا سرا کاٹ دیا جائے تو اس میں نصف دیت یعنی پچاس اونٹ مقرر فرمائے یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ ہاتھ میں نصف دیت پاؤں میں نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ اور انگلیوں میں ہر انگی میں دس دس اونٹ مقرر فرمائے اور اس میں تمام انگلیاں برابر ہیں۔ یادس اونٹوں کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔
ٹانگ میں سینگ مارنے کا فیصلہ
نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ایک شخص کے بارے میں جس کی ٹانگ میں کسی نے سینگ ماردیا۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے بدلہ دلائیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ٹھہر جاؤ جب تک کہ تمہارا زخم ٹھیک ہوجائے۔ لیکن آدمی بدلہ لینے پر مصر رہا ۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بدلہ دلوادیا۔ لیکن جس سے بدلہ لیا گیا تھا وہ تو صحیح ہوگیا اور بدلہ لینے والا لنگڑا ہوگیا۔ اس نے عرض کیا : میں تو لنگڑا ہوگیا جبکہ میرا ساتھی صحیح سالم ہوگیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ تو بدلہ نہ لے جب تک کہ تیرا زخم نہ بھر جائے مگر تو نے میری بات نہ مانی، پس اللہ تجھے سمجھے، اب تیرا لنگڑا پن بیکار ہوگیا۔ اس کا بدلہ دوبارہ نہیں لیا جاسکتا۔
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا : یہ شخص جو لنگڑا ہوگیا اس کے علاوہ جس کو کوئی (کاری) زخم پہنچے تو وہ بدلہ نہیں ہے بلکہ اس کی دیت لی جائے گی اور اگر کسی نے زخم کا بدلہ زخم سے لیا مگر وہ (لنگڑے پن کی) مصیبت میں بدل گیا تو وہ پہلے والے سے دیت لے گا مگر اس سے زخم کا بدلہ وضع کیا جائے گا۔
نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے عوض قتل کیا جائے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ جو (غلام) آدمی جاہلیت میں مسلمان ہوگیا اس کا فدیہ آٹھ اونٹ ہیں اور اس کا بچہ اگر باندی سے ہو تو اس کا بدلہ دو دو خدمت گار ہیں ایک ایک مذکر ایک ایک مونث۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کی قیدی عورت میں دس اونٹوں کے فدیے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے بچے میں جو غلام سے پیدا ہوا ہو دودو خدمت گار کا فدیہ ہے، نیز اس کی ماں کے موالی کی دیت کا فیصلہ فرمایا جو کہ اس کی ماں کے عصبہ ہیں۔ پھر ان عصبہ کو اس بچے کی اور عورت کی میراث ملے گی جب تک کہ بچے کا باپ آزادنہ ہو۔
نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیدی میں چھ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا آدمی میں عورت میں اور بچے میں بھی۔ اور یہ صرف عرب کے آپس میں ہے۔
اور جو عرب میں جاہلیت میں نکاح ہوا یا طلاق ہوئی پھر ان کو اسلام کا زمانہ آگیا (اور وہ مسلمان ہوگئے) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسی حال پر برقرار رکھا، سوائے سود کے چونکہ جس سود پر اسلام آگیا اور وہ ابھی حاصل نہیں ہوا تو وہ مال کے مالک کو صرف اصل واپس کیا جائے گا اور ربوا (سود) ختم کردیا جائے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔