HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

30242

30242- عن أبي قتادة قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيش الأمراء وقال: عليكم زيد بن حارثة، فإن أصيب زيد فجعفر بن أبي طالب، فإن أصيب جعفر فعبد الله بن رواحة، فوثب جعفر فقال: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما كنت أرتقب أن تستعمل علي زيدا قال: أمضه فإنك لا تدري في أي ذلك خير فانطلقوا فلبثوا ما شاء الله، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صعد المنبر وأمر أن ينادى: الصلاة جامعة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: باب خير وباب خير - ثلاثا - ألا أخبركم عن جيشكم هذا الغازي: انطلقوا فلقوا العدو فأصيب زيد شهيدا، فاستغفروا له فاستغفر له الناس، ثم أخذ اللواء جعفر بن أبي طالب فشد على القوم حتى قتل شهيدا، فاستغفروا له فاستغفر له الناس، ثم أخذ اللواء عبد الله بن رواحة فثبت قدميه حتى قتل شهيدا أشهد له بالشهادة، فاستغفروا له فاستغفر له الناس ثم أخذ اللواء خالد بن الوليد ولم يكن من الأمراء هو آمر نفسه، ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم ضبعيه فقال: اللهم هذا سيف من سيوفك فانتقم به - وفي لفظ: فأنت تنصره - فسمي خالد سيف الله قال: انفروا وأمدوا إخوانكم ولا يتخلفن منكم أحد فنفر الناس في حر شديد مشاة وركبانا، فبينما هم ليلة مما يلين عن الطريق إذ نعس رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى مال عن الرحل فأتيته فدعمته بيدي فلما وجد مس يد رجل اعتدل فقال: من هذا؟ فقلت: أبو قتادة فسار أيضا، ثم نعس حتى مال عن الرحل، فأتيته فدعمته بيدي فلما وجد مس يد رجل اعتدل فقال: من هذا؟ فقلت: أبو قتادة قال في الثانية أو الثالثة: ما أراني إلا قد شققت عليك منذ الليلة؟ قلت: كلا بأبي أنت وأمي ولكن أرى الكرى أو النعاس قد شق عليك، فلو عدلت فنزلت حتى يذهب كراك؟ قال: إني أخاف أن يخذل الناس قال: كلا بأبي أنت وأمي. قال: فأبغنا مكانا خمرا فعدلت عن الطريق فإذا أنا بعقدة من شجر فجئت فقلت: يا رسول الله هذه عقدة من شجر قد أصبتها فعدل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعدل معه من يليه من أهل الطريق فنزلوا واستتروا بالعقدة، فما استيقظنا إلا بالشمس طالعة علينا، فقمنا ونحن ذهلين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رويدا رويدا حتى تعالت الشمس ثم قال: من كان يصلي هاتين الركعتين قبل صلاة الغداة فليصلهما فصلاهما من كان يصليهما، ومن كان لا يصليهما، ثم أمر فنودي بالصلاة، ثم تقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بنا، فلما سلم قال: إنا نحمد الله أنا لم نكن في شيء من أمر الدنيا فشغلنا عن صلاتنا، ولكن أرواحنا كانت بيد الله أرسلها إن شاء ألا فمن أدركته هذه الصلاة من عبد صالح فليقض معها مثلها قالوا: يا رسول الله العطش؟ قال: لا عطش يا أبا قتادة قال: أرني الميضأة فأتيته بها فجعلها في ضبنه ثم التقم فمها فالله أعلم أنفث فيها أم لا، ثم قال: يا أبا قتادة أرني الغمر على الراحلة، فأتيته بقدح بين القدحين، فصب فيه فقال: اسق القوم، ونادى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورفع صوته: ألا من أتاه إناؤه فليشربه. فأتيت رجلا فسقيته، ثم رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بفضلة القدح، فذهبت فسقيت الذي يليه حتى سقيت أهل تلك الحلقة، ثم رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بفضلة القدح، فسقيت حلقة أخرى حتى سقيت سبع رفق وجعلت أتطاول هل بقي فيها شيء فصب رسول الله صلى الله عليه وسلم في القدح فقال لي: اشرب قلت: بأبي أنت وأمي إني لأجدني كثير عطش، قال: إليك عني فإني ساقي القوم منذ اليوم، فصب رسول الله صلى الله عليه وسلم في القدح فشرب ثم صب في القدح فشرب، ثم ركب وركبنا، ثم قال: كيف ترى القوم صنعوا حين فقدوا نبيهم وأرهقتهم صلاتهم؟ قلت: الله ورسوله أعلم قال: أليس فيهم أبو بكر وعمر إن يطيعوهما فقد رشدوا ورشدت أمهم وإن يعصوهما فقد غووا وغوت أمهم قالها ثلاثا، ثم سار وسرنا حتى إذا كنا في نحر الظهيرة إذا ناس يتبعون ظلال الشجر، فأتيناهم فإذا ناس من المهاجرين فيهم عمر بن الخطاب فقلنا لهم: كيف صنعتم حين فقدتم نبيكم وأرهقتكم صلاتكم؟ قالوا: نحن والله نخبركم، وثب عمر فقال لأبي بكر: إن الله تعالى قال في كتابه: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} وإني لا أدري لعل الله قد توفى نبيه فقم فصل، وأنطلق إني ناظر بعدك ومتلوم1، فإن رأيت شيئا وإلا لحقت بك، وأقيمت الصلاة وانقطع الحديث. "ش" والروياني؛ ورجاله ثقات وروى بعضه "هق" في الدلائل.
30242 ۔۔۔ حضرت ابوقتادہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” سوئے موتہ جیش الامراء “ کو بھیجا ، اور تاکید کی کہ تمہارا امیر زید بن حارثہ ہوگا اگر وہ شہید ہوجائے تو تمہارا امیر جعفر بن ابی طالب ہوگا ، اگر وہ بھی شہید ہوجائے تو عبداللہ بن رواحہ تمہارا امیر ہوگا جعفر (رض) نے بڑھ کر عرض کی : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں کیسے مان جاؤں کہ آپ مجھ پر زید بن حارثہ کو امیر مقرر کر رہے ہیں آپ نے فرمایا : تم چلو تمہیں کیا معلوم کس میں اللہ تعالیٰ نے بھلائی رکھی ہے چنانچہ لشکر اسلام روانہ ہوگیا پھر جیسا اللہ نے چاہا وہی انھیں پیش آیا کچھ دنوں بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : لوگوں کو مسجد میں جمع ہوجانے کے لیے اعلان کرو جب لوگ جمع ہوگئے آپ نے فرمایا : یہ چیز کا دروازہ ہے تین بار فرمایا کیا میں تمہیں اس لشکر کے متعلق خبر نہ دوں ۔ چنانچہ ہمارا لشکر منزل بہ منزل روانہ ہوا پھر دشمن سے اس کا مقابلہ ہوا زید شہید ہوگیا لہٰذا تم لوگ اس کے لیے استغفار کرو چنانچہ لوگوں نے حضرت زید (رض) کے لیے استغفار کی فرمایا : پھر جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا تھام لیا اس نے بردست حملہ کیا لیکن وہ بھی شہید ہوگیا اس کے لیے استغفار کرو لوگوں نے جعفر (رض) کے لیے استغفار کیا پھر جھنڈا عبداللہ بن رواحہ (رض) نے سنبھال لیا وہ بھی استقلال سے لڑتا رہا لیکن وہ بھی شہید ہوگیا میں اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہوں اس کے لیے استغفار کرو ، ، چنانچہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے لیے استغفار کیا فرمایا : پھر خالد بن ولید نے جھنڈا سنبھال لیا حالانکہ وہ مقررہ کردہ امرء میں سے نہیں ، وہ اپنے تئیں امیر بنا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور فرمایا : یا اللہ یہ (خالد بن ولید) تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد کر ، اسی لیے حضرت خالد (رض) کو سیف اللہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پھر فرمایا : چلو جاؤ اور اپنے بھائیوں کی مدد کرو تم میں سے کوئی شخص بھی پیچھے نہ رہے چنانچہ سخت گرمی میں لوگ پیادہ وسوار ہر حال میں چل پڑے اسی دوران راستے میں ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سواری پر بیٹھے بیٹھے اونگھ آئی آپ کجاوے میں ایک طرف جھک گئے ، میں نے آکر اپنے ہاتھ سے آپ کو سہارا دیا ، آپ نے میرے ہاتھ کی لمس محسوس کی اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کی : میں نے آکر اپنے ہاتھ سے آپ کو سہارا دیا ، آپ نے میرے ہاتھ کی لمس محسوس کی اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کی : میں ابو قتادہ ہوں آپ چلتے رہے پھر تھوڑی دیر بعد آپ کو اونگھ آگئی اور کجاوے میں ایک طرف جھک گئے میں نے آکر اپنے ہاتھ سے آپ کو سہارا دیا میرے ہاتھ کی لمس محسوس کی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کون ہے ؟ میں نے عرض کی : ابو قتادہ ہوں چنانچہ آپ نے دوسری یا تیسری مرتبہ کے بعد فرمایا : میں نے آج رات تمہیں مشقت میں ڈال دیا ہے کہ میں نے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ایسا ہرگز نہیں البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اونگھ نے مشقت میں ڈال دیا ہے اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے رک جائیں تاکہ سواری سے نیچے اتر کر نیند پوری کرلیں ؟ فرمایا مجھے خوف ہے کہ لوگ بےیارومددگار نہ ہوجائیں عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہوگا فرمایا : ہمارے لیے کوئی جگہ تلاش کرو جہاں میں تھوڑی دیر کے لیے نیند کرلوں میں راستے سے ہٹ گیا اور جھاڑیوں کے درمیان مستور جگہ تلاش کرلی میں نے آکر عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس ہی جھاڑیوں میں ایک جگہ ہے اللہ نے رحم فرمایا، میں نے جگہ ڈھونڈلی ، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ہمراہی راستے سے الگ ہوگئے اور اس جگہ جا کر آرام کیا پھر ہم ایسے سوئے کہ سورج کی تمازت نے ہماری آنکھ کھولی ہم پشیمانی کے عالم میں اٹھے اور نماز کے دوڑ دھوپ کرنے لگے آپ نے فرمایا : آرام سے آرام سے ذرا سورج کو بلند ہونے دو پھر آپ نے فرمایا : جس نے صبح کی دو رکعتیں پڑھنی ہیں وہ جماعت سے پہلے پڑھ لے چنانچہ جس نے پڑھنی تھیں ان نے پڑھ لیں پھر آپ نے حکم دیا اذان دی گئی اور آپ نے پھر لوگوں کو نماز پڑھائی جب آپ نے سلام پھیرا فرمایا : ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کام میں مشغول ہو کر نماز سے غافل نہیں ہوئے البتہ ہماری روحیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں جب چاہتا ہے روحوں کو اپنے قبضہ سے واکر دیتا ہے غور سے سن لو جس شخص کی بھی یہ نماز فوت ہوجائے وہ اسی طرح کی نماز ادا کرے ۔ برتن پانی سے ابل پڑا : پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شدت پیاس کی شکایت کی فرمایا : اے ابوقتادہ : کوئی پیاس نہیں میرے پاس کوزہ لاؤ میں کوزہ لے آیا آپ نے کوزہ گود میں رکھ لیا پھر آپ نے کوزے پر منہ کیا واللہ اعلم آپ نے کوزے میں پھونکا یا نہیں پھر فرمایا : اے ابو قتادہ مجھے چھوٹا پیالہ لا دو چنانچہ میں کجاوے سے چھوٹا سا پیالہ لے آیا آپ نے پیالہ کوزے میں انڈیلا پھر فرمایا : لوگوں کو پانی پلاؤ پھر آپ نے بآواز بلند فرمایا : جس کے پاس برتن ہیں وہ آئے پانی پی لے میں ایک آدمی کے پاس کیا اسے پانی پلایا پھر میں پیالے میں بچا ہوا پانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا پھر میں نے حلقہ میں موجود سبھی لوگوں کو پلایا پھر میں بچا ہوا پانی لے آیا میں طمع کرتے ہوئے پیالہ میں دیکھنے لگا کہ اس میں پانی بچا ہے آپ نے پیالے میں اور پانی ڈالا اور فرمایا : پیو میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے شدید پیاس لگی ہوئی ہے آپ نے فرمایا : پیو مجھے رہنے دو چونکہ میں آج قوم کا ساقی ہوں (اور ساقی آخر میں پیتا ہے) پھر آپ نے پیالے میں پانی ڈالا اور خود پیا پھر اور ڈال کر پیا پھر سوار ہوگئے اور ہم بھی سوار ہو کر چل دیئے ۔ آپ نے فرمایا : تم نے اس وقت لوگوں کو کس حال میں پایا جب انھوں نے اپنے نبی کو گم پایا اور پھر نماز کا وقت بھی ہوگیا تھا ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں فرمایا : کیا لوگوں میں ابوبکر اور عمر نہیں اگر لوگ ان دونوں کی اطاعت کرتے رہیں گے تو ہدایت پر قائم رہیں گے اگر ان کی نافرمانی کی تو وہ بھی گمراہ ہوجائیں گے آپ نے یہ بات تین بار فرمائی حتی کہ آپ چل دیئے اور ہم چل دیئے جب ہم نحر الظہرہ کے مقام پر پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ لوگ درختوں کے سائے تلے ہیں ہم ان کے پاس آئے مہاجرین کے کچھ لوگوں میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ہیں ہم نے ان سے پوچھا : جب تم لوگوں نے اپنے نبی کو گم پایا اور نماز کا وقت بھی ہوگیا تم نے کیا کیا ؟ لوگوں نے کہا : بخدا ہم تمہیں خبر دیتے ہیں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) آگے بڑھے اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کہا : اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے : ” انک میت وانھم میتون “ آپ نے بھی مرنا ہے اور لوگوں نے بھی مرنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلایا ہو لہٰذا آپ نماز پڑھائیں میں جا کر ادھر ادھر دیکھتا ہوں اگر میں نے کچھ دیکھا ورنہ میں آپ کے ساتھ مل جاؤں گا چنانچہ نماز کھڑی کردی گئی اور بات یوں ختم ہوگئی۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ ، والرویانی ورحالہ ثقات وروری بعضہ البیہقی فی الدلائل)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔