HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

3074

3074- "أتاني جبريل فقال: إن الله يأمرك أن تقرئ أمتك القرآن على حرف فقلت أسأل الله معافاته ومغفرته، فإن أمتي لا تطيق ذلك، ثم أتاني الثانية فقال: إن الله يأمرك أن تقرئ أمتك القرآن على حرفين، فقلت أسأل الله معافاته [ومغفرته –2] وإن أمتي لا تطيق ذلك، ثم جاءني الثالثة فقال: إن الله يأمرك أن تقرئ أمتك القرآن على ثلاثة أحرف، فقلت أسأل الله معافاته ومغفرته، وإن أمتي لا تطيق ذلك، ثم جاءني الرابعة فقال: إن الله يأمرك أن تقرئ أمتك القرآن على سبعة أحرف، فأيما حرف قرأوا عليه فقد أصابوا" "د ن عن أبي بن كعب".
3074: مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک حرف پر قرآن پڑھایا تھا۔ پھر میں نے ان سے رجوع کیا اور مزید حرفوں کا تقاضا کرتا رہا اور وہ بڑھاتے رہے حتی کہ سات حرفوں تک پہنچ گئے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم بروایت ابن عباس (رض)۔
فائدہ : سات حروف سے کیا مراد ہے اس میں انتہائی زیادہ اختلافات ہیں۔ ان میں سے اکثر اختلافات تفصیل کے ساتھ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب علوم القرآن میں بیان فرمائے ہیں۔ پھر راجح ترین قول کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جس کو ہم ذیل میں من و عن بغیر کسی ترمیم کے نقل کرتے ہیں۔ جزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔
سبعۃ احرف، کی راجح ترین تشریح :
ہمارے نزدیک قرآن کریم کے " سات حروف " کی سب سے بہتر تشریح اور تعبیر یہ ہے کہ حدیث میں " حروف کے اختلاف " سے مراد " قراءتوں کا اختلاف " ہے اور سات حروف سے مراد " اختلاف قراءت " کی سات نوعیتیں ہیں، چنانچہ قراءتیں تو اگرچہ سات سے زائد ہیں، لیکن ان قراءتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ سات اقسام میں منحصر ہیں، (ان سات اقسام کی تشریح آگے آرہی ہے) ۔
ہمارے علم کے مطابق یہ قول متقدمین میں سے سب سے پہلے امام مالک (رح) کے یہاں ملتا ہے، مشہور مفسر قرآن علامہ نظام الدین قمی نیشا پوری (رح) اپنی تفسیر غرائب القرآن میں لکھتے ہیں کہ احرف سبعۃ کے بارے میں امام مالک (رح) کا یہ مذہب منقول ہے اس سے مراد قرآءت میں مندرجہ ذیل سات قسم کے اختلافات ہیں :
1 ۔ مفرد اور جمع کا اختلاف، کہ ایک قراءت میں لفظ مفرد آیا ہو اور دوسری میں صیغہ جمع، مثلا وتمت کلمۃ ربک، اور کلمات ربک،
2 ۔ تذکیر و تانیث کا اختلاف، کہ ایک میں لفظ مذکر استعمال ہوا اور دوسری میں مونث جیسے لایقبل اور لا تقبل۔
3 ۔ وجوہ اعراب کا اختلاف کہ زیر زبر وغیرہ بدل جائیں۔ مثلا ھل من خالق غیر اللہ اور غیر اللہ۔
4 ۔ صرفی ہیئت کا اختلاف، جیسے یعرشون اور یعرشون۔
5 ۔ ادوات (حروف نحویہ) کا اختلاف، جیسے لکن الشیاطین اور لکن الشیاطین۔
6 ۔ لفظ کا ایسا اختلاف جس سے حروف بدل جائیں جیسے تعلمون اور یعلمون اور ننشزھا اور ننشزہا،
7 ۔ لہجوں کا اختلاف، جیسے تخفیف، تفخیم، امالہ، مد، قصر، اظہار اور ادغام وغیرہ۔ (النیشاپوری (رح)، غرائب القرآن و رغائب الفرقان، ھاش ابن جریر، ص 21 ج المطبعۃ المیمنۃ مصر) ۔
امام ابو الفضل رازی (رح)، قاضی ابوبکر بن الطیب باقلانی (رح) اور محقق ابن جزری رحمہم اللہ نے اختیار فرمایا ہے (ابن قتیبہ (رح)، ابو الفضل رازی (رح) اور ابن الجزری (رح) کے اقوال، فتح الباری، ص 25 و 26 ج 9، اور اتقان ص 147 ج 1 میں موجود ہیں۔ اور قاضی ابن الطیب (رح) کا قول تفسیر القرطبی رحمۃ اللہ ص 45 ج 1 میں دیکھا جاسکتا ہے) محقق ابن الجزری (رح) جو قراءت کے مشہور امام ہیں اپنا یہ قول بیان کرنے سے قبل تحریر فرماتے ہیں :
" میں اس حدیث کے بارے میں اشکالات میں مبتلا رہا، اور اس پر تیس سال سے زیادہ غور و فکر کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کی ایسی تشریح کھول دی جو انشاء اللہ صحیح ہوگی " النثر فی القراءات ا لعشر، ص 26 ج 1)
یہ سب حضرات اس بات پر تو متفق ہیں کہ حدیث میں، سات حروف، سے مراد اختلاف قراءت کی سات نوعیتیں ہیں، لیکن پھر ان نوعیتوں کی تعیین میں ان حضرات کے اقوال میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک نے قرآءت کا استقراء اپنے طور پر الگ کیا ہے، ان میں جن صاحب کا استقراء سب سے زیادہ منضبط مستحکم اور جامع و مانع ہے، وہ امام ابو الفضل رازی (رح) کہتے ہیں، کہ قراءت کا اختلاف سات اقسام میں منحصر ہے :
1 ۔ اسماء کا اختلاف، جس میں افراد، تثنیہ و جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، (اس کی مثال وہی تمت کلمۃ ربک ہے، جو ایک قراءت میں تمت کلمات ربک بھی پڑھا گیا ہے۔
2 ۔ افعال کا اختلاف، کہ کسی قراءت میں صیغہ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر (اس کی مثال ربنا باعد بین اسفارنا ہے کہ ایک قراءت میں اس کی جگہ ربنا باعد بین اسفارنا بھی آیا ہے۔
3 ۔ وجوہ اعراب کا اختلاف، جس میں اعراب یا حرکات مختلف قراءتوں میں مختلف ہوں (اس کی مثال ولا یضار کتاب اور لا یضار کاتب اور ذوالعرش المجید اور ذوالعرش المجید)
4 ۔ الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف، کہ ایک قراءت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو (مثلا ایک قراءت میں وما خلق الذکر والانثی ہے اور دوسری میں والذکر والانثی ہے اور اس میں وما خلق کا لفظ نہیں ہے، اسی طرح ایک قراءت میں تجری من تحتہا الانہر اور دوسری میں تجری تحتہا الانہر)
5 ۔ تقدیم و تاخیر کا اختلاف، کہ ایک قراءت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں موخر ہے (مثلا وجاءت سکرۃ الموت بالحق اور جاءت سکرۃ الحق بالموت)
6 ۔ بدلیت کا اختلاف، کہ ایک قراءت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قراءت میں اس جگہ دوسرا لفظ (مثلا ننشزہا اور ننشزہا، نیز فتبینوا، فتثبتوا اور طلح اور طلع)
7 ۔ لہجوں کا اختلاف، جس میں تفخیم، ترقیق ، امالہ قصر، مد، ہمز، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلافات شامل ہیں۔ الفتح الباری ص 24 ج 9 ۔
(مثلا، موسیٰ ایک قراءت میں امالہ کے ساتھ ہے، اور اسے موسیٰ کی طرح پڑھا جاتا ہے، اور دوسری میں بغیر امالہ کے ہے) ۔
علامہ ابن الجزری (رح)، علامہ ابن قتیبہ (رح) اور قاضی ابو طیب (رح) کی بیان کردہ وجوہ اختلاف بھی اس سے ملتی جلتی ہیں، البتہ امام ابوالفضل رازی (رح) کا استقراء اس لیے زیادہ جامع معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف چھوٹا نہیں ہے۔ اس کے برخلاف باقی تین حضرات کی بیان کردہ وجوہ میں آخری قسم یعنی لہجوں کا اختلاف تو بیان کیا گیا ہے لیکن الفاظ کی کمی بیشی، تقدیم و تاخیر اور بدلیت کے اختلافات کی پوری وضاحت نہیں ہے، اس کے برخلاف امام ابو الفضل رازی (رح) کے استقراء میں یہ تمام اختلافات وضاحت کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں، محقق ابن الجزری (رح) جنہوں نے تیس سال سے زائد غور و فکر کرنے کے بعد سات احرف کو سات وجوہ اختلاف پر محمول کیا ہے انھوں نے بھی امام ابو الفضل (رح) کا قول بڑی وقعت کے ساتھ نقل فرمایا ہے، اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ ان کے مجموعی کلام سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ انھیں امام ابو الفضل (رح) کا استقراء خود اپنے استقراء سے بھی زیادہ پسند آیا ہے (النشر فی القراءت العشر، ص 27 و 2 ج 2) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر (رح) کے کلام سے بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ان تینوں اقوال میں امام ابو الفضل رازی (رح) کے استقراء کو ترجیح دی ہے کیونکہ انھوں نے علامہ ابن قتیبہ (رح) کا قول نقل کرکے لکھا ہے کہ ھذا وجہ حسن (یہ اچھی توجیہ ہے) پھر امام ابو الفضل (رح) کی بیان کردہ سات وجوہ بیان کرکے تحریر فرمایا ہے :
قلت وقد اخذ کلام ابن قتیبہ و نقحہ۔
میرا خیال ہے کہ امام ابو الفضل رازی (رح) نے ابن قتیبہ کا قول اختیار کرکے اسے اور نکھار دیا ہے۔ فتح الباری ص 24 ج 9 ۔
آخری دور میں شیخ عبد العظیم الزرقانی (رح) نے انہی کے قول کو اختیار کرکے اس کی تائید میں متعلقہ دلائل پیش کیے ہیں۔ (مناہل العرفان فی علوم القرآن ص 54 1 تا 156)
بہر کیف ! استقراء کی وجوہ میں تو اختلاف ہے لیکن اس بات پر امام مالک (رح) علامہ ابن قتیبہ (رح)، امام ابو الفضل رازی (رح)، محقق ابن الجزری (رح) اور قاضی باقلانی پانچوں حضرات متفق ہیں جو سات نوعیتوں میں منحصر ہیں۔
احقر کی ناچیز رائے میں " سبعۃ احرف " کی یہ تشریح سب سے زیادہ بہتر ہے، حدیث کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مختلف طریقے اپنی نوعیتوں کے لحاظ سے سات ہیں۔ ان سات نوعیتوں کی کوئی تعیین چونکہ کسی حدیث میں موجود نہیں ہے اس لیے یقین کے ساتھ تو کسی کے استقراء کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ حدیث میں وہی مراد ہے لیکن بظاہر امام ابو الفضل رازی (رح) کا استقراء زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ موجودہ قراءات کی تمام انواع کو جامع ہے۔
اس قول کی وجوہ ترجیح :
" سبعۃ احرف " کی تشریح میں جتنے اقوال حدیث تفسیر اور علوم قرآن کی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان سب میں یہ قول (کہ سات حروف سے مراد اختلاف قراءت کی سات نوعیتیں ہیں) سب سے زیادہ راجح، قابل اعتماد اور اطمینان بخش ہے اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں :
1 ۔ اس قول کے مطابق " حروف " اور " قراءت " کو دو الگ الگ چیزیں قرار دینا نہیں پڑتا، علامہ ابن جریر (رح) اور امام طحاوی (رح) کے اقوال میں ایک مشترک الجھن یہ ہے کہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت میں دو قسم کے اختلافات تھے، ایک حروف کا اختلاف اور دوسرے قراءت کا اختلاف، حروف کا اختلاف اب ختم ہوگیا اور قراءت کا اختلاف باقی ہے، حالانکہ احادیث کے اتنے بڑے ذخیرہ میں کوئی ایک ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ " حروف " اور " قراءت " دو الگ الگ چیزیں ہیں، احادیث میں صرف حروف کے اختلاف کا ذکر ملتا ہے اور اسی کے لیے کثرت سے قراءۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اگر قراءت ان حروف سے الگ ہوتیں تو کسی نہ کسی حدیث میں ان کی طرف کوئی اشارہ تو ہونا چاہیے تھا آخر کیا وجہ ہے کہ " حروف " کے اختلاف کی احادیث تو تقریبا تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں، اور قراءت کے جداگانہ اختلاف کا ذکر کسی ایک حدیث میں بھی نہیں ہے ؟ محض اپنی قیاس سے یہ کہہ دینا کیوں کر ممکن ہے کہ اختلاف حروف کے علاوہ قرآن کریم کے الفاظ میں ایک دوسری قسم کا اختلاف بھی تھا ؟
مذکورہ بالا قول میں یہ الجھن بالکل رفع ہوجاتی ہے، اس لیے کہ اس میں حروف اور قراءت وک ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔
2 ۔ علامہ ابن جریر (رح) کے قول پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ سات حروف میں سے چھ حروف منسوخ یا متروک ہوگئے اور صرف ایک حرف قریش باقی رہ گیا، (موجودہ قراءت اسی حرف قریش کی ادائیگی کے اختلافات ہیں) اور اس نظریہ کی قباحتیں ہم آگے تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے مذکورہ بالا آخری قول میں یہ قباحتیں نہیں ہیں، کیونکہ اس کے مطابق ساتوں حروف آج بھی باقی اور محفوظ ہیں۔
3 ۔ اس قول کے مطابق " سات حروف " کے معنی بلا تکلف صحیح ہوجاتے ہیں جبکہ دوسرے اقوال میں یا " حروف " کے معنی میں تاویل کرنی پڑتی ہے یا " سات " کے عدد میں۔
4 ۔ " سبعۃ احرف " کے بارے میں جتنے علماء کے اقوال ہماری نظر سے گذرے ہیں، ان میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور عہد رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قریب تر ہستی امام مالک (رح) کی ہے، اور وہ علامہ نیشا پوری (رح) کے بیان کے مطابق اسی قول کے قائل ہیں۔
5 ۔ علامہ ابن قتیبہ (رح) اور محقق ابن الجزری (رح) دونوں علم قراءت کے مسلم الثبوت امام ہیں، اور دونوں اسی قول کے قائل ہیں، اور موخر الذکر کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے کہ انھوں نے تیس سال سے زائد اس حدیث پر غور کرنے کے بعد اس قول کو اختیار کیا ہے۔
اس قول پر وارد ہونے والے اعتراضات اور ان کا جواب
اب ایک نظر ان اعتراضات پر بھی ڈال لیجیے جو اس قول پر وارد ہوسکتے ہیں یا وارد کیے گئے ہیں :
1 ۔ اس پر ایک اعتراض تو یہ کیا گیا ہے کہ اس قول میں جتنی وجوہ اختلاف بیان کی گئی ہیں وہ زیادہ تر صرفی اور نحوی تقسیمات پر مبنی ہیں، حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس وقت یہ حدیث ارشاد فرمائی اس وقت صرف و نحو کی یہ فنی اصطلاحات اور تقسیمات رائج نہیں ہوئی تھیں، اس وقت اکثر لوگ لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے ایسی صورت میں ان وجوہ اختلاف کو " سبعۃ احرف " قرار دینا مشکل معلوم ہوتا ہے، حافظ ابن حجر نے یہ اعتراض نقل کرکے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ :
ولا یلزم من ذلک توھین ما ذھب الیہ ابن قتیبۃ (رح) لاحتمال ان یکون الانحصار المذکور فی ذلک وقع اتفاقا وانما اطلع علیہ بالاستقراء وفی ذلک من الحکمۃ البالغۃ مالا یخفی۔ فتح الباری، ص 24 ج 9 ۔
" اس سے ابن قتیبہ (رح) کے قول کی کمزوری لازم نہیں آتی۔ اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ مذکورہ انحصار اتفاقا ہوگیا ہو، اور اس کی اطلاع استقرار کے ذریعے ہوگئی ہو۔ اور اس میں جو حکتم بالغہ ہے وہ پوشیدہ نہیں "
ہماری ناچیز فہم کے مطابق اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ عہد رسالت میں یہ اصطلاحات رائج نہ تھیں۔ اور شاید یہی وجہ ہو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے " سبعۃ احرف " کی تشریح اس دور میں نہیں فرمائی۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ فنی اصطلاحات جن مفاہیم سے عبارت ہیں وہ مفاہیم تو اس دور میں بھی موجود تھے، اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مفاہیم کے لحاظ سے وجوہ اختلاف کو سات میں منحصر قرار دے دیا ہو تو اس میں کیا تعجب ہے ؟ ہاں اس دور میں اگر سات وجوہ اختلاف کی تفصیل بیان کی جاتی۔ تو شاید عامۃ الناس کی سمجھ سے بالاتر ہوتی، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفصیل بیان فرمانے کے بجائے صرف اتنا واضح فرمایا دیا کہ یہ وجوہ اختلاف کل سات میں منحصر ہیں بعد میں جب یہ اصطلاحات رائج ہوگئیں تو علماء نے استقراء تام کے ذریعہ ان وجوہ اختلاف کو اصطلاحی الفاظ سے تعبیر کردیا، یہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ کسی خاص شخص کے استقراء کے بارے میں یقین کامل سے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہی تھی، لیکن جب مختلف لوگوں کا استقراء یہ ثابت کررہا ہے کہ وجوہ اختلاف کل سات ہیں تو اس بات کا قریب قریب یقین ہوجاتا ہے کہ " سبعۃ احرف " سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد سات وجوہ اختلاف تھیں، خواہ ان کی تفصیل بعینہ وہ نہ ہو جو بعد میں استقراء کے ذریعہ معین کی گئی ہے، بالخصوص جبکہ " سبعۃ احرف " کی تشریح میں کوئی اور صورت معقولیت کے ساتھ بنتی ہی نہیں ہے۔
سات حروف کے ذریعہ کیا آسانی پیدا ہوئی ؟
(2) ۔ اس قول پر دوسرا اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کو سات حروف پر اس لیے نازل کیا گیا، تاکہ امت کے لیے تلاوت قرآن میں آسانی پیدا کی جائے، یہ آسانہ علامہ ابن جریر (رح) کے قول پر تو سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ عرب میں مختلف قبائل کے لوگ تھے اور ایک قبیلے کے لیے دوسرے قبیلے کی لغت پر قرآن پڑھنا مشکل تھا لیکن امام مالک (رح)، امام رازی (رح) اور ابن الجزری (رح) وغیرہ کے اس قول پر تو ساتوں حراف ایک لغت قریشی ہی سے متعلق ہیں، اس میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ جب قرآن کریم ایک ہی لغت پر نازل کرنا تھا تو اس میں قراءت کا اختلاف باقی رکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟
اس اعتراض کی بنیاد اس بات پر ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلاوت قرآن میں سات حروف کی جو سہولت امت کے لیے مانگی تھی اس میں قبائل عرب کا اختلاف لغت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش نظر تھا، حافظ ابن جریر طبری (رح) نے اسی بناء پر " سات حروف " کو سات لغات عرب کے معنی پہنائے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ بات ہے جس کی تائید کسی حدیث سے نہیں ہوتی، اس کے برعکس ایک حدیث میں سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صراحت و وضاحت کے ساتھ یہ بیان فرما دیا ہے کہ ساتھ حروف کی آسانی طلب کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش نظر کیا بات تھی ؟ امام ترمذی (رح) نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابی بن کعب (رض) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ :
لقی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبرائیل عند الحجار المروہ فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ل جبرائیل : انی بعثت الی امۃ امیین فبہم الشیخ الفانی والعجوز الکبیرۃ والھلام، قال فمرہم فلیقرء والقرآن علی سبعۃ احرف، بحوالہ النشر فی القراءت العشر، ص 20 ج 1 ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات مروہ کے پتھروں کے قریب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا : میں ایک ان پڑھ امت کی طرف بھیجا گیا ہوں جس میں لب گور بوڑھے بھی ہیں، اور بچے بھی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کو حکم دیجیے کہ وہ قرآن وک سات حروف پر پڑھیں۔
ترمذی (رح) ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا :
انی بعثت الی امۃ امیین منہم العجوز والشیخ والکبیر والغلام والجاریۃ والذی لم یقرا کتابا قط۔ جامع الترمذی (رح)، ص 138 ج 2، قرآن محل کراچی۔
مجھے ایک ان پڑھ امت کی طرف بھیجا گیا ہے، جن میں بوڑھیاں بھی ہیں، بوڑھے بھی، سن رسیدہ بھی، لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اور ایسے لوگ بھی جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
اس حدیث کے الفاظ صراحت اور وضاحت کے ساتھ بتلا رہے ہیں کہ امت کے لیے سات حروف کی آسانی طلب کرنے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش نظریہ بات تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک امی اور ان پڑھ قوم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں، جس میں ہر طرح کے افراد ہیں، اگر قرآن کریم کی تلاوت کے لیے صرف ایک ہی طریقہ متعین کردیا گیا تو امت مشکل میں مبتلا ہوجائے گی، اس کے برعکس اگر کئی طریقے رکھے گئے تو یہ ممکن ہوگا کہ کوئی شخص ایک طریقے سے تلاوت پر قادر نہیں ہے تو وہ دوسرے طریقے سے انہی الفاط کو ادا کردے، اس طرح اس کی نماز اور تلاوت اور عبادات درست ہوجائیں گی، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بوڑھوں، بوڑھیوں یا ان پڑھ لوگوں کی زبان پر ایک لفظ ایک طریقہ سے چڑھ جاتا ہے اور اس کے لیے زیر زبر کا معمولی فرق بھی دشوار ہوتا ہے، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آسانی طلب فرمائی کہ مثلا کوئی شخص معروف کا صیغہ ادا نہیں کرسکتا تو اس کی جگہ دوسری قرآءت کے مطابق مجہول کا صیغہ ادا کرلے، یا کسی کی زبان پر صیغہ مفرد نہیں چڑھتا تو وہ اسی آیت کو صیغہ جمع سے پڑھ لے، کسی کے لیے لہجہ کا ایک طریقہ مشکل ہے تو دوسرا اختیار کرلے، اور اس طرح اس کو پورے قرآن میں سات قسم کی آسانیاں مل جائیں گی۔
آپ نے مذکورہ بالا حدیث میں ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات حروف کی آسانی طلب کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ میں جس امت کی طرف بھیجا گیا ہوں وہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کی لغت جدا ہے، اس لیے قرآن کریم کو مختلف لغات پر پڑھنے کی اجازت دی جائے، اس کے برخلاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبائلی اختلافات سے قطع نظر ان کی عمروں کا تفاوت اور ان کے امی ہونے کی صفت پر زور دیا، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سات حروف کی آسانی دینے میں بنیادی عامل قبائلی کا لغوی اختلاف نہ تھا، بلکہ امت کی ناخواندگی کی پیش نظر تلاوت میں ایک عام قسم کی سہولت دینا پیش نظر تھا، جس سے امت کے تمام افراد فائدہ اٹھاسکیں۔
سبعہ احرف کی وضاحت :
(3) ۔ اس قول پر تیسرا اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ اختلاف قراءت کی جو سات نوعیتیں بیان کی گئی ہیں وہ خواہ امام مالک (رح) یا ابو الفضل رازی (رح) کی بیان کی ہوئی ہوں یا علامہ ابن قتیبہ (رح)، محقق ابن الجزری (رح) اور قاضی ابو الطیب (رح) کی، بہرحال ایک قیاس اور تخمینہ کی حیثیت رکھتی ہیں، اسی وجہ سے ان حضرات میں سے ہر ایک نے ان سات وجوہ اختلاف کی تفصیل الگ الگ بیان کی ہے، ان کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ کیونکر باور کرلیا جائے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہی تھی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ " سبعۃ احرف " کی کوئی واضح تشریح کسی حدیث یا کسی صحابی کے قول میں نہیں ملتی، اس لیے اس باب میں جتنے اقوال ہیں، ان سب میں روایات کو مجموعی طور پر جمع کرکے کوئی نتیجہ نکالا گیا ہے اس لحاظ سے یہ قول زیادہ قرین صحت معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس پر کوئی بنیادی اعتراض واقع نہیں ہوتا، روایات کو مجموعی طور پر دیکھنے کے بعد بھی معلوم ہوا کہ اس اختلاف قراءت کی سات نوعیتیں ہیں، رہی ان نوعیتوں کی تعیین و تشخیص، سو اس کے بارے میں ہم پہلے بھی یہ عرض کرچکے ہیں کہ اسے معلوم کرنے کا ذریعہ استقراء کے سوا اور کوئی نہیں، امام ابو الفضل رازی (رح) کا استقراء ہمیں جامع و مانع ضرر معلوم ہوتا ہے، مگر یقین کے ساتھ ہم کسی کے استقراء کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے، کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہی تھی لیکن اس سے یہ اصولی حقیقت مجروح نہیں ہوتی کہ " سبعۃ احرف " سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد اختلاف قراءت کی سات نوعیتیں تھیں، جن کی تفصیل کا یقینی علم حاصل کرنے کا نہ ہمارے پاس کوئی راستہ ہے اور انہ اس کی کوئی چنداں ضرورت ہے۔
4 ۔ اس قول پر چوتھا اعتراض یہ ممکن ہے کہ اس قول میں " حروف سبعہ " سے الفاظ اور ان کی ادائیگی کے طریقوں کا اختلاف مراد لیا گیا ہے، معانی سے اس میں بحث نہیں ہے، حالانکہ ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سات قسم کے معانی ہیں، امام طحاوی (رح) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :
کان الکتاب الاول ینزل من باب واحد علی حرف واحد ونزل القرآن من سبعۃ ابواب علی سبعۃ احرف زاجر وامر وحالال و حرام و محکم و متشابہ وامثال۔ الخ۔
پہلے کتاب ایک باب سے ایک حرف پر نازل ہوتی تھی اور قرآن کریم سات ابواب سے سات حروف پر نازل ہوا۔ وہ سات حروف یہ ہیں :
1 ۔ زاجر (کسی بات سے روکنے والا) ۔۔۔ 2 ۔ آمر۔ (کسی چیز کا حکم دینے والا)
3 ۔ حلال۔ 4 ۔ حرام۔
5 ۔ محکم (جس کے معنی معلوم ہیں) ۔ 6 ۔ متشابہ (جس کے یقینی معنی معلوم نہیں۔ 7 ۔ امثال۔
اسی بناء پر بعض علماء سے منقول ہے کہ انھوں نے سات حروف کی تفسیر سات قسم کے معنی سے کی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہے۔ امام طحاوی (رح) اس کی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسے ابو سلمہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے، حالانکہ ابوسلمہ کی ملاقات حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے نہیں ہوئی۔ مشکل الآثار، ص 185 ج 4 ۔
اس کے علاوہ قدیم زمانہ کے جن بزرگوں سے اس قسم کے اقوال منقول ہیں، ان کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن جریر طبری (رح) نے لکھا ہے کہ ان کا مقصد " سبعۃ احرف والی حدیث کی تشریح کرنا نہیں تھا، بلکہ " سبعۃ احرف " کے زیر بحث مسئلہ سے بالکل الگ ہو کر یہ کہنا چاہتے تھے کہ قرآن کریم اس قسم کے مضامین پر مشتمل ہے۔ تفسیر ابن جریر، ص 15 ج 1 ۔
رہے وہ لوگ جنہوں نے " سبعۃ احرف " والی حدیث کی تشریح ہی میں اس قسم کی باتیں کہی ہیں، ان کا قول بالکل بدیہی البطلان ہے، اس لیے کہ پیچھے جتنی احادیث نقل کی گئی ہیں، ان کو سرسری نظر ہی سے دیکھ کر ایک معمولی عقل کا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ حروف کے اختلاف سے مراد معانی اور مضامین کا اختلاف نہیں، بلکہ الفاظ کا اختلاف ہے چنانچہ محقق علماء میں سے کسی ایک نے بھی اس قول کو اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کی تردید کی ہے۔ تفصیلی تردید کیلیے ملاحظہ ہو الاتقان ص 49 ج 1 نوع 16 اور النشر فی القراءات العشر لابن الجزری (رح) ص 25 ج 1 بشکریہ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب از علوم القرآن۔
آپ کا پروردگار آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی امت کو سات حرفوں پر قرآن پڑھائیے۔ پس ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھیں گے درست کریں گے۔ ابو داود، نسائی بروایت ابی (رض) بن کعب۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔