HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

4663

4663- "من مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عباس قال: لم أزل حريصا على أن أسأل عمر عن المرأتين من أزواج النبي صلى الله عليه وسلم اللتين قال الله تعالى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} حتى حج عمر وحججت معه، فلما كنا ببعض الطريق عدل عمر وعدلت معه بالإداوة فتبرز ثم أتاني، فسكبت على يديه ثم توضأ، فقلت: يا أمير المؤمنين من المرأتان من أزواج النبي صلى الله عليه وسلم اللتان قال الله تعالى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} ؟ فقال عمر: "وا عجبا لك يا ابن عباس؟ هي حفصة وعائشة، ثم أخذ يسوق الحديث قال: كنا معشر قريش قوما نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، وكان منزلي في بني أمية بن زيد بالعوالي، فغضبت يوما على امرأتي، فإذا هي تراجعني فأنكرت أن تراجعني: فقالت: ما تنكر أن أراجعك؟ فوالله إن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ليراجعنه، وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، فانطلقت فدخلت على حفصة فقلت أتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت نعم، قلت وتهجره إحداكن اليوم إلى الليل؟ قالت نعم قلت: قد خاب من فعل ذلك منكن، وخسر، أفتأمن إحداكن أن يغضب الله عليها لغضب رسوله؟ فإذا هي قد هلكت لا تراجعي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تسأليه شيئا، وسليني ما بدا لك، ولا يغرنك أن كان جارتك هي أوسم منك وأحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك يريد عائشة، وكان لي جار من الأنصار وكنا نتناوب النزول إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل يوما وأنزل يوما، فيأتيني بخبر الوحي وغيره، وآتيه بمثل ذلك، وكنا نتحدث أن غسان تنعل الخيل لتغزونا، فنزل صاحبي يوما ثم أتاني عشاء فضرب بابي، فخرجت إليه فقال: حدث أمر عظيم، فقلت وما ذاك؟ أجاءت غسان؟ قال: لا بل أعظم من ذلك، طلق الرسول نساءه، فقلت: قد خابت حفصة وخسرت، قد كنت أظن هذا كائنا، حتى إذا صليت الصبح شددت علي ثيابي، ثم نزلت فدخلت على حفصة وهي تبكي فقلت أطلقكن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: لا أدري، هو ذا معتزل في المشربة1 فأتيت غلاما له أسود، فقلت استأذن لعمر، فدخل الغلام ثم خرج إلي فقال قد ذكرتك له فصمت: فانطلقت حتى أتيت المنبر فإذا عنده رهط جلوس، يبكي بعضهم، فجلست قليلا، ثم غلبني ما أجد فأتيت الغلام فقلت استأذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي فقال قد ذكرتك له، فصمت فخرجت ثم جلست إلى المنبر، ثم غلبني ما أجد، فأتيت الغلام فقلت استأذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي فقال: قد ذكرتك له فصمت، فوليت مدبرا فإذا الغلام يدعوني فقال: ادخل، فقد أذن لك فدخلت فسلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو متكئ على رمال حصير قد أثر في جنبه، فقلت: أطلقت نساءك؟ فرفع رأسه إلي وقال: لا فقلت الله أكبر، لو رأيتنا يا رسول الله، وكنا معشر قريش قوما نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، فغضبت على امرأتي يوما، فإذا هي تراجعني فأنكرت ذلك أن تراجعني، فقالت: ما تنكر أن أراجعك؟ فوالله إن أزواج رسول الله صلى الله عليه سلم، ليراجعنه، وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل فقلت قد خاب من فعل ذلك منهن، وخسر، أفتأمن إحداهن أن يغضب الله عليها لغضب رسوله؟ فإذا هي قد هلكت فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخلت على حفصة فقلت لا يغرنك أن كان جارتك هي أوسم وأحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك؟ فتبسم أخرى، فقلت أستأنس يا رسول الله؟ قال: نعم فجلست فرفعت رأسي في البيت فوالله ما رأيت في البيت شيئا يرد البصر إلا أهبة ثلاثة، فقلت ادع الله يا رسول الله أن يوسع على أمتك، فقد وسع على فارس والروم وهم لا يعبدون الله فاستوى جالسا، ثم قال: "أفي شك أنت يا ابن الخطاب؟ أولئك قوم عجلت لهم طيباتهم في الحياة الدنيا"، فقلت استغفر لي يا رسول الله، وكان أقسم أن لا يدخل عليهن شهرا من شدة موجدته عليهن، حتى عاتبه الله عز وجل في ذلك، وجعل له كفارة اليمين". "عب وابن سعد والعدني وعبد بن حميد في تفسيره خ م ت ن وابن جرير في تهذيبه وابن المنذر وابن مردويه ق في الدلائل
4663: ۔۔ (مسند عمر (رض)) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میں مسلسل اس بات کی کھوج میں تھا کہ حضرت عمر (رض) سے ان دو عورتوں کے بارے میں سوال کروں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے :
ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ التحریم۔
حتی کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے حج کیا اور میں نے بھی آپ کے ساتھ حج کیا۔ جب ہم ایک راستے پر چل رہے تھے کہ حضرت عمر (رض) راستے سے ہٹ کر ایک طرف کو چلے تو میں بھی پانی کا برتن لے کر پیچھے ہولیا۔ آپ (رض) قضائے حاجت سے فارغ ہو کر میری طرف آئے۔ میں نے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور آپ نے وضوء کیا۔ میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے وہ دو کونسی بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے ابن عباس ! تعجب ہے تم پر یہ حفصہ اور عائشہ (رض) تھیں۔ پھر حضرت عمر (رض) بات کرنے لگے : کہ ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے۔ جب ہم مدینہ آئے تو ایسی قوم کے ساتھ یہ چیز سیکھنے لگیں، میرا گھر مضافات مدینہ میں بنی امیہ بن زید کے قبیلے میں تھا۔ ایک دن میں اپنی بیوی پر غصہ ہوگیا۔ وہ بھی مجھے آگے سے جواب دینے لگی۔ یہ بات میں عجیب محسوس کی اور کہا تو آگے سے مجھے جواب دیتی ہے۔ تم کو یہ کیوں عجیب لگتا ہے کہ میں تمہاری بات کا جواب دوں جب کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں آپ کے ساتھ تکرار کرتی ہیں اور کوئی کوئی سارا دن رات تک آپ سے بولنا چھوڑ دیتی ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں یہ سن کر میں حفصہ کے پاس گیا اور پوچھا کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیدیا کرتی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ پھر میں نے پوچھا : کیا تم میں کوئی بیوی سارا سارا دن آپ سے بات نہیں کرتی اور حتی کہ رات ہوجاتی ہے ؟ کہا : ہاں میں نے کہا : تم میں جو یہ کرتی ہے وہ تو نامراد ہوگئی اور گھاٹے کا شکار ہوگئی۔ کیا تم اس بات سے مطمئن ہو کر بیٹھ گئی ہو کہ اللہ کا غضب تم پر آجائے اپنے رسول کی وجہ سے۔ تب وہ قطعاً ہلاکت کا شکار ہوجائے گی۔ (بیٹی) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگے سے جواب نہ دیا کر اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کیا۔ تجھے جس چیز کی ضرورت ہوا کرتے مجھے سے مانگ لیا کر۔ اور اس بات سے دھوکا (اور حسد) کا شکار نہ ہو کہ تیری کوئی پڑوسن تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ کو تجھ سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت عمر (رض) کا خیال حضرت عائشہ (رض) کی طرف تھا۔
حضرت عمر (رض) عن فرماتے ہیں : میں ایک انصاری کا پڑوسی تھا ہم دونوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانے کی باری مقرر کی ہوئی تھی۔ ایک دن وہ جاتا اور ایک دن میں جاتا تھا۔ وہ میرے پاس اپنی باری کے دن کی وحی کی خبریں وغیرہ لاتا تاھ اور میں بھی اپنی باری کی خبریں اس کو سناتا تھا۔ ان دنوں میں یہ بات لوگوں میں گردش کر رہی تھی کہ غسان (بادشاہ) اپنے گھوڑوں کی نعلیں درست کرا رہا ہے تاکہ ہم سے برسر پیکار ہو۔ ایک دن میرا ساتھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت سے آیا اور عشاء کے وقت آ کر میرے دروازے پر دستک دی۔ میں نکل کر اس کے پاس آیا۔ اس نے (پریشانی کے عالم میں) کہا بڑا حادثہ پیش آگیا ہے۔ میں نے پوچھا : وہ کیا ؟ کیا غسان (بادشاہ ) آگیا ہے ؟ اس نے کہا نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عورتوں کو طلاق دیدی ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں۔ میں نے کہا حفصہ تو تو نامراد ہوگئی : تیرا ناس ہو۔ پہلے ہی میرا خیال تھا یہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ میں نے صبح کی نماز پڑھ کر اپنے کپڑے پہنے اور (مدینہ کے اندر گیا) اور حفصہ کے پاس پہنچا وہ رو رہی تھی۔
میں نے (چھوٹتے ہی پوچھا : کیا تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق دیدی ہے ؟ حفصہ بولی مجھے نہیں معلوم ! وہ ادھر اوپر اپنے بالا خانے میں ہیں چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام (دربان) کے پاس آیا اور اس کو کہا عمر کے لیے اجازت لے کر آؤ۔ غلام اندر جا کر واپس آیا اور بولا میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آپ کا ذکر کیا تھا۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدستور خاموش ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ وہاں سے ہٹ کر مسجد میں آپ کے مبر کے پاس آیا وہاں پہلے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ میں بھی تھوڑی دیر وہاں بیٹھا لیکن پھر اندر کی کشمکش نے مجھ پر غلبہ پا لیا اور میں دوبارہ اٹھ کر اس غلام کے پاس آیا اور کہا : عمر کے لیے اجازت لے کر آؤ۔ غلام اندر داخل ہو کر واپس لوٹا اور کہا میں نے آپ کا ذکر کیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدستور خاموش رہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں واپس آ کر منبر کے پاس بیٹھ گیا۔ لیکن اندر کی پکڑ دھکڑ نے مجھے پھر اٹھا دیا اور غلام کے پاس جا کر عمر کے لیے اجازت لے کر آؤ۔ وہ اندر سے واپس آ کر بولا : میں نے آپ کا ذکر کیا تھا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ حضرت عمر (رض) پھر واپس لوٹ گئے۔ اچانک ان کو پیچھے سے غلام کی آواز آئی کہ آئیے اندر چلے جائیں آپ کے لیے اجازت مل گئی ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں۔ میں اندر داخل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ریتیلی چٹائی پر ٹیل گائے استراحت فرما رہے تھے۔ چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو میں نمایاں نظر آ رہے تھے۔ میں نے پوچھا : کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا : نہیں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں۔ میں نے اللہ اکبر کہا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ ہمیں دیکھیں ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے۔ لیکن مدینے آئے تو ایسی قوم سے سابقہ پڑا جن کی عورتیں مردوں پر غالب رہتی ہیں۔ لہٰذا ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں سے یہ چیز سیکھنا شروع کردی۔ یونہی ایک دن میں اپنی بیوی پر غصہ ہوگیا لیکن وہ تو مجھے آگے سے (توتڑاک) جواب دینا شروع ہوگئی۔ میں نے کہا یہ کیا بات ہے کہ تو مجھے جواب دے رہی ہے ؟ اس نے کہا تجھے یہ اجنبی لگ رہا ہے جبکہ اللہ کی قسم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں آپ کو جواب دیا رتی ہیں اور کوئی کوئی سارا سارا دن آپ سے بولتی نہیں ہے۔ میں نے کہا نامراد ہو جو ایسا کرتی ہے وہ تو گھاٹے کا شکار ہوگئی۔ کیا وہ اس بات سے مطمئن ہوگئیں کہ ان پر اللہ پاک اپنے پیغمبر کی وجہ سے ناراض ہوجائیں تب تو وہ ہلاک ہوجائیں گی۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بات سن کر مسکرادیے۔ میں نے آگے عرض کیا : پھر میں حفصہ کے پاس گیا اور اس کو کہا : تجھے یہ بات دھوکا میں مبتلا نہ کرے کہ تیری ساتھن تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ کو تجھ سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوبارہ مسکرائے ۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (کچھ دیر میں بیٹھ کر) دل بہلانے کی باتیں کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی تو میں نے کمرے میں ادھر ادھر نظریں گھمائیں اللہ کی قسم ! مجھے کمرے میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی جس کو دوبارہ نظر ڈالی جائے سوائے چمڑے کی کھالوں کے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! مجھے کمرے میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی جس کو دوبارہ نظر ڈالی جائے سوائے چمڑے کی کھالوں کے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ سے دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر فراخی فرمائے۔ اللہ نے فارس اور روم کو کیا کچھ نہیں دے رکھا حالانکہ وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، پھر فرمایا : اے ابن خطاب ! کیا تو اب تک شک میں ہے ؟ ان لوگوں کے لیے اللہ نے ان کی عیش و عشرت دنیا میں جلد عطا کردی ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ اللہ سے میرے لیے استغفار کردیجیے۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درحقیقت بیویوں پر غصہ کی وجہ سے قسم کھائی تھی کہ ایک ماہ تک ان کے پاس نہیں جائیں گے۔ پھر اللہ پاک نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس بارے میں عتاب نازل کیا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ (عبدالرزاق، ابن سعد، العدنی، عبد بن حمید فی تفسیرہ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، التہذیب لابن جریر، ابن المنذر، ابن مردیوہ، الدلائل للبیہقی)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔