HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

4664

4664- عن ابن عباس قال: حدثني عمر بن الخطاب، قال: لما اعتزل النبي صلى الله عليه وسلم نساءه دخلت المسجد فإذا الناس ينكتون بالحصى ويقولون طلق رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه، وذلك قبل أن يؤمرون بالحجاب فقلت لأعلمن ذلك اليوم، فدخلت على عائشة فقلت: يا بنت أبي بكر قد بلغ من شأنك أن تؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت مالي ولك يا ابن الخطاب؟ عليك بعيبتك فدخلت على حفصة، فقلت يا حفصة أقد بلغ من شأنك أن تؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله لقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحبك، ولولا أنا لطلقك، فبكت أشد البكاء، فقلت لها: أين رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت في المشربة، فدخلت فإذا أنا برباح غلام رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدا على أسكفة المشربة، مدليا رجليه على نقير من خشب، وهو جذع يرقى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وينحدر، فناديت يا رباح استأذن لي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنظر إلى الغرفة، ثم نظر إلي فلم يقل شيئا، فقلت يا رباح استأذن لي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنظر إلى الغرفة، ثم نظر إلي، فلم يقل شيئا، فرفعت صوتي، ثم قلت يا رباح استأذن لي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإني أظن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ظن أني جئت من أجل حفصة، والله لئن أمرني بضرب عنقها لأضربن عنقها فأومأ إلي بيده: أن ارقه، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع على حصير فجلست فإذا عليه إزار وليس عليه غيره، وإذا الحصير قد أثر في جنبه، فنظرت في خزانة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا أنا بقبضة من شعير نحو الصاع، ومثلها من قرظ، في ناحية الغرفة، فإذا فيق1 معلق فابتدرت عيناي، فقال: ما يبكيك يا ابن الخطاب؟ قلت: يا نبي الله وما لي لا أبكي؟ وهذا الحصير قد أثر في جنبك، وهذه خزانتك لا أرى فيها إلا ما أرى، وذاك قيصر وكسرى في الثمار والأنهار، وأنت رسول الله وصفوته، وهذه خزانتك، فقال: يا ابن الخطاب أما ترضى أن تكون لنا الآخرة، ولهم الدنيا، قلت بلى، ودخلت عليه حين دخلت وأنا أرى في وجهه الغضب، فقلت يا رسول الله ما يشق عليك من شأن النساء؟ فإن كنت طلقتهن فإن الله معك وملائكته وجبريل وميكائيل وأنا وأبو بكر والمؤمنون معك، وكل ما تكلمت وأحمد الله بكلام إلا رجوت الله يصدق قولي الذي أقوله، ونزلت هذه الآية: {عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجاً خَيْراً مِنْكُنَّ} ، {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ} وكانت عائشة وحفصة تظاهران على سائر نساء النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله طلقتهن قال: لا، قلت: يا رسول الله إني دخلت المسجد والمسلمون ينكتون بالحصى ويقولون طلق رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه، أفأنزل أخبرهم أنك لم تطلقهن؟ قال: نعم إن شئت، ثم لم أزل أحدثه حتى تحسر الغضب عن وجهه، وحتى كشر وضحك، وكان أحسن الناس ثغرا فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم ونزلت أتشبث بالجذع، ونزل رسول الله صلى الله عليه وسلم كأنما يمشي على الأرض ما يمسه بيده، فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما كنت في هذه الغرفة تسعا وعشرين، فقال: إن الشهر قد يكون تسعا وعشرين، فقمت على باب المسجد فناديت بأعلى صوتي: لم يطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه، ونزلت هذه الآية: {وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ} فكنت أنا استنبطت ذلك الأمر، وأنزل الله آية التخيير. "عبد بن حميد في تفسيره ع م وابن مردويه" وروى بعضه ودخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حصير إلى قوله قلت بلى.
4664: ۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں سے جدائی اختیار کرلی تو میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو لوگ کنکریوں کو ہاتھ میں لیے بات کر رہے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عورتوں کو طلاق دیدی ہے۔ یہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے قبل کی بات تھی۔ چنانچہ میں دل میں تہیہ کیا کہ میں ان عورتوں کو آج سبق سکھاؤں گا۔ میں عائشہ (رض) کے پاس گیا اور کہا اے بنت ابی بکر ! تمہاری یہ ہمت ہوگئی کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے لگی ہو۔ عائشہ بولی : اے ابن خطاب میرا اور تمہارا کیا واسطہ ! تم جا کر اپنی بیٹی کو کہو۔ چنانچہ میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے پاس آیا اور بولا اے حفصہ ! تمہاری یہ ہمت ہوگئی ہے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچاؤ۔ اللہ کی قسم مجھے علم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے محبت نہیں کرتے اگر (ان کی جگہ) میں ہوتا تو تم کو طلاق دیدیتا۔ حفصہ بہت زیاد تیز تیز رونے لگی۔ پھر میں نے اس سے پوچھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہیں ؟ بولی : وہ اوپر بالا خانے میں ہیں۔ (یہ ایک اونچی جگہ پر بنا ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلوت خانہ تھا) میں وہاں پہنچا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام رباح بالاخانے کی دہلیز پر ایک لکڑی پر پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا۔ یہ ایک نوجوان لڑکا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سہارے بالاخانے میں چڑھتے اترتے تھے۔
میں نے اس کو آواز دی اے رباح ! میرے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لو۔ اس نے کمرے کے اندر دیکھا پھر مجھے دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔ میں نے پھر آواز دی۔ اے رباح ! میرے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لو۔ اس نے پھر کمرے کی طرف دیکھا اور پھر مجھے دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے پھر آواز بلند کرکے کہا اے رباح ! میرے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لو میرا خیال ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھ رہے ہیں میں حفصہ کی (حمایت کی وجہ) سے شاید آیا ہوں اللہ کی قسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر مجھے اس کی گردن مارنے کا حکم دیں گے تو میں فورا اس کی گردن اڑا دوں گا پھر غلام نے میری طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ اوپر چڑھ آؤ۔
چنانچہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوا۔ آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس وقت آپ کے جسم پر صرف ایک تہہ بند تھی۔ اس کے علاوہ اور کوئی کپڑا آپ کے جسم پر نہ تھا۔ چٹائی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم پر نشانات ڈال رکھے تھے۔ پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی الماری میں دیکھا وہاں بس ایک مٹھی جو صاع کے پیمانے میں رکھی تھی اور اسی جتنے قرظ پتے تھے۔ (جو غالبا جانور کی کھال کی دباغت کے لیے رکھے تھے) اور چند گھونٹ دودھ ایک برتن میں تھا۔ بےاختیار میری آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے ابن الخطاب ! کس چیز نے تم کو رلا دیا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں کیوں نہ روؤں ؟ چٹائی نے آپ کے جسم پر نشانات ڈال دیے ہیں اور آپ کی الماری میں بس یہی کچھ ہے جو میں دیکھ رہا ہوں جبکہ وہ قیصر و کسری (شاہان روم وفارس) ہیں جو پھلوں اور نہروں میں عیش کر رہے ہیں اور آپ اللہ کے رسول اور اس کے خاص الخاص بندے ہیں اور یہ آپ کی کل متاع ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
اے ابن الخطاب ! کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ یہ نعمتیں ہمارے لیے آخرت میں ہوں گی اور ان کے لیے دنیا ہی میں مہیا کردی گئی ہیں ؟ میں نے عرض کیا ضرور۔ میں جب آپ کے پاس حاضر ہوا تھا تو آپ کے چہرے میں غصہ کے تاثرات تھے۔ اس لیے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! عورتوں کی وجہ سے آپ کو کیا تکلیف اور مشقت پیش آئی ہے ؟ اگر آپ نے ان کو طلاق دیدی ہے تو اللہ آپ کے ساتھ، ملائکہ ، جبرئیل، میکائیل، میں ابوبکر اور تمام مومنین آپ کے ساتھ ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں اور جو بھی میں نے آپ سے بات کی اور اللہ کی حمد کی اس سے میرا یہ مقصد اللہ کی رضا تھا اور اللہ پاک نے پھر اپنا کلام کرکے میری تمام باتوں کی تصدیق کردی۔
وان تظاھرا علیہ فان اللہ ھو مولہ الخ وابکارا۔ التحریم : 4 ۔ 5
اور تم پیغمبر (کی ایذاء) پر باہم اعانت کروگی تو خدا اور جبرائیل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوست دار ہیں) اور ان کے علاوہ (اور) فرشتے بھی مددگار ہیں۔ اگر پیغمبر تم کو طلاق دیدیں تو عجب نہیں کہ ان کا پروردگار تمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیویاں دیدے، مسلمان صاحب ایمان، فرانبردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گذار، روزہ رکھنے والیاں بن شوہر اور کنواریاں۔
عائشہ اور حفصہ (رض) ان دو بیویوں نے دیگر تمام ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا ہمنوا کرلیا تھا (حضور سے اپنی بات منوانے کے لیے) چنانچہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ان کو طلاق دیدی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں مسجد میں گیا تھا وہاں لوگ کنکریاں کرید رہے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عورتوں کو طلاق دیدی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اتر کر ان کو خبر سنا دوں کہ آپ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ فرمایا ٹھیک ہے اگر تم چاہو۔ پھر میں آپ سے مزید بات چیت کرتا رہا حتی کہ غصہ آپ کے چہرہ سے چھٹ گیا آپ کے دانت نظر آنے لگے اور آپ ہنسنے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسکراہٹ تمام انسانوں سے خوبصورت تھی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیچے اترے اور میں دربان لڑکے سہارے نیچے اترا جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ((کی طاقت اور پھرتی کا یہ منظر تھا کہ) بغیر کسی سہارے کو چھوئے نیچے اترے گویا ہموار زمین پر چل رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ تو بالا خانے میں صرف انتیس دن رہے ہیں۔ (جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ کی قسم کھائی تھی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی مہینہ انتیس یوم کا بھی ہوتا ہے۔ پھر میں نے مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو کر بلند آواز میں پکارا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عورتوں کو طلاق نہیں دی ہے۔ اور اللہ پاک نے یہ حکم بھی نازل فرمایا :
واذا جاء ہم امر من الامن او الخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم۔ النساء : 83 ۔
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں۔ اور اگر وہ اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے۔ تو یہ تحقیق کرنے والا میں ہی تھا۔ اور اللہ پاک نے پھر اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت تخییر نازل کرکے عورتوں کے بارے میں اختیار دے دیا تھا۔ عبد بن حمید فی تفسیرہ۔ مسند ابی یعلی، مسلم ابن مردویہ۔
بعض کتابوں میں یہاں تک یہ روایت منقول ہے اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوا اور آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ یہاں سے میں نے عرض کیا کیوں نہیں میں راضی ہوں۔۔۔ تک۔
4665: ۔۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ جا رہے تھے۔ حتی کہ ہم مر الظہران پر پہنچے۔ وہاں حضرت عمر (رض) پیلو (کے جھنڈ) میں قضائے حاجت کے لیے چلے گئے ۔ میں آپ کی انتظار میں بیٹھ گیا حتی کہ آپ نکلے میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! میں ایک سال سے آپ سے ایک سوال کرنے کی کوشش میں ہوں۔ لیکن مجھے آپ کا رعب و دبدبہ سوال کرنے سے روک دیتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ایسا نہ کیا کر، جب تم کو معلوم ہو کہ میرے پاس اس چیز کا علم ہے تو ضرور سولا کرلیا کر میں نے عرض کیا میں آپ سے دو عورتوں کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ایسا نہ کیا کر، جب تم کو معلوم ہو کہ میرے پاس اس چیز کا علم ہے تو ضرور سوال کرلیا کر میں نے عرض کیا میں آپ سے دو عورتوں کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) عن نے فرمایا : ہاں وہ حفصہ اور عائشہ تھیں۔ ہم جالیت میں عورتوں کو کچھ شمار نہیں کرتے تھے۔ اور نہ ان کو اپنے معاملات میں دخل دینے کی اجازت دیتے تھے۔
پھر جب اللہ پاک نے اسلام کا بول بالا کیا اور عورتوں کے بارے میں بھی (ان کے حقوق اور اہمیت کے) احکام نازل کیے۔ اور ان کے لیے حقوق رکھے بغیر اس کے کہ وہ ہمارے کاموں میں دخل دیں۔ پس ایک مرتبہ میں اپنے کام سے بیٹھا تھا۔ کہ مجھے میری بیوی نے کہا : یہ کام یوں یوں ہونا چاہیے۔ میں نے کہا تجھے اس کام سے کیا سروکار ؟ اور تو نے کب سے ہمارے کاموں میں دخل دینا شروع کیا ہے ؟ تب میری بیوی نے کہا : اے ابن خطاب ! کوئی تجھ سے بات نہ کرے جبکہ تیری بیٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیدیتی ہے۔ حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ ہوجاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا واقعی وہ ایسا کرتی ہے ؟ بیوی نے کہا : ہاں۔ پس میں کھڑا ہوگیا اور سیدھا حفصہ کے پاس آیا۔ اور کہا : اے حفصہ ! تو اللہ سے نہیں ڈرتی ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرتی ہے حتی کہ وہ غصہ ہوجاتے ہیں ؟ افسوس تجھ پر، تو عائشہ کی خوبصورتی اور اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت سے دھوکا نہ کھا۔ پھر میں ام سلمہ کے پاس آیا۔ اور اس کو بھی اسی طرح کی بات کی۔ وہ بولی : اے ابن خطاب آپ ہر چیز میں داخل ہوگئے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی بیویوں کے درمیان بھی دخل دینے لگے ہیں۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میرا ایک انصاری پڑوسی تھا جب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے غائب رہتا تو وہ مجلس میں حاضری دیتا تھا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں حاضری دیتا تھا۔ وہ مجھے خبر دیتا اور میں اس کو خبر دیتا تھا۔ اور ہمیں غسان بادشاہ کے سوا کسی اور کے حملے کا خوف نہ تھا۔ اچانک ایک دن میرا ساتھی آیا اور دو مرتبہ ابا حفصہ کہہ کر مجھے پکارا۔ میں نے کہا (اف ! کیا ہوگیا تجھے ؟ کیا غسانی بادشاہ آگیا ہے ؟ وہ بولا نہیں، بلکہ رسول اللہ نے اپنی عورتوں کو طلاق دیدی ہے۔ میں نے کہا حفصہ کی ناک زمین پر رگڑے کیا وہ جدا ہوگئی ہے۔ پھر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا وہاں پر گھر میں رونا رویا جا رہا تھا۔ جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بالا خانے میں فروکش تھے۔ اور دروازے پر ایک حبشی لڑکا کھڑا تھا۔ میں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرے لیے اجازت لو۔ چنانچہ اس نے آپ سے میرے لیے اجازت لی اور میں اندر داخل ہوا تو آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، سر کے نیچے کھجور کی چھال بھرا ہوا تکیہ تھا۔ ایک طرف قرظ پتے (جن سے کھال دباغت دی جاتی ہے) اور کھال لٹکی ہوئی تھی۔ پھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دینے لگا کہ میں نے عائشہ اور حفصہ کو کیا کہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہینہ بھر اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم اٹھائی جب انتیسویں رات تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتر کر عورتوں کے پاس گئے۔ مسند ابی داؤد الطیالسی۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔