HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

4670

4670- عن ابن عباس قال: أردت أن أسأل عمر بن الخطاب عن قوله عز وجل: {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ} فكنت أهابه، حتى حججنا معه فلما قضينا حجتنا قال: مرحبا بابن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما حاجتك؟ قلت أخبرني عن قول الله عز وجل: {وإن تظاهرا عليه} من هما؟ قال: ما تسأل عنها أحدا أعلم بذلك مني، كنا ونحن بمكة لا يكلم أحد منا امرأته إذا كانت له حاجة سفع1 برجليها، فقضى منها حاجته فلما قدمنا المدينة تزوجنا من نساء الأنصار، فجعلن يكلمننا ويراجعننا فقمت إليها بقضيب فضربتها به، فقالت: يا عجبا لك يا ابن الخطاب فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم تكلمه نساؤه، فدخلت على حفصة فقلت: يا بنية أنظري لا تكلمي رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء، ولا تسأليه، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس عنده دينار ولا درهم يعطيكن، فما كان لك من حاجة حتى دهنك فسليني، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الصبح في مصلاه وجلس الناس حوله حتى تطلع الشمس، ثم يدخل على نسائه امرأة امرأة، يسلم عليهن، ويدعو لهن، فإذا كان يوم إحداهن كان عندها وأنها أهديت لحفصة عكة فيها عسل من الطائف، أو من مكة فكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل عليها حبسته حتى تلعقه وتسقيه منها، وإن عائشة أنكرت احتباسه عنها، فقالت لجويرية عندها حبشية يقال لها خضراء إذا دخل على حفصة فادخلي عليها فأنظري ما يصنع؟ فأخبرتها الجارية بشأن العسل، فأرسلت إلى صواحبها، فأخبرتهن وقالت: إذا دخل عليكن فقلن: إنا نجد منك ريح مغافير، ثم إنه دخل على عائشة فقالت يا رسول الله أطعمت شيئا منذ اليوم؟ لكأني أجد منك ريح مغافير، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أشد شيء عليه أن يوجد منه ريح شيء، فقال: هو عسل، والله لا أطعمه أبدا، حتى إذا كان يوم حفصة قالت: يا رسول الله إن لي حاجة إلى أبي نفقة لي عنده فأذن لي آتيه، فأذن لها، ثم أرسل إلى مارية جاريته فأدخلها بيت حفصة، فوقع عليها، فقالت حفصة: فوجدت الباب مغلقا، فجلست عند الباب فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو فزع، ووجهه يقطر عرقا، وحفصة تبكي، فقال: ما يبكيك؟ قالت: إنما أذنت لي من أجل هذا؟ أدخلت أمتك بيتي، ثم وقعت عليها على فراشي، ما كنت تصنع هذا بامرأة منهن؟ أما والله لا يحل لك هذا يا رسول الله، فقال: والله ما صدقت، أليس هي جاريتي وقد أحلها الله لي؟ أشهدك أنها علي حرام ألتمس رضاك، لا تخبري بهذا امرأة منهن، فهي عندك أمانة فلما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قرعت حفصة الجدار الذي بينها وبين عائشة، فقالت: ألا أبشرك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حرم عليه أمته، وقد أراحنا الله تعالى منها: فأنزل الله: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ} ثم قال: {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ} فهي عائشة وحفصة كانتا لا تكتم إحداهما الأخرى شيئا، فجئت فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، في مشربته فيها حصير، وإذا سقاء من جلود معلقة، وقد أفضى جنبه إلى الحصير، فأثر الحصير في جنبه، وتحت رأسه وسادة من أدم حشوها ليف، فلما رأيته بكيت، فقال: ما يبكيك؟ قلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم فارس والروم يضطجع أحدهم على الديباج، فقال: هؤلاء قوم عجلوا طيباتهم في الدنيا، والآخرة لنا، فقلت يا رسول الله: فما شأنك؟ فعن خبر أتاك اعتزلتهن؟ فقال: لا، ولكن بيني وبين أزواجي شيء، فأقسمت أن لا أدخل عليهن شهرا، ثم خرجت على الناس فقلت: يا أيها الناس ارجعوا فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان بينه وبين أزواجه شيء فأحب أن يعتزل، فدخلت على حفصة فقلت: يا بنية أتكلمين رسول الله صلى الله عليه وسلم وتغيظينه؟ فقالت: لا أكلمه بعد بشيء يكرهه، ودخلت على أم سلمة وكانت خالتي، فقلت لها كنحو ما قلت لحفصة، فقالت: عجبا لك يا عمر، كل شيء قد تكلمت فيه حتى تريد أن تدخل بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أزواجه؟ ما يمنعنا أن نغار على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأزواجكم يغرن عليكم؟ وأنزل الله تعالى: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا} الآية. "طس وابن مردويه".
4670: ۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میرا ارادہ تھا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) سے اللہ عزوجل کے فرمان :
وان تظاھرا علیہ۔ التحریم۔
اور اگر وہ دو عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک دوسرے کی مدد کریں۔ کے متعلق پوچھنا چاہتا تھا۔ لیکن میں آپ کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے رک جاتا تھا۔ جب ہم نے حج کیا تو حضرت عمر (رض) نے خود ہی مجھے فرمایا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بیٹے ! مرحبا ہو، تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : مجھے اللہ عزوجل کے فرمان : وان تظاہرا علیہ کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دو عورتیں کون تھیں ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم ان کے بارے میں مجھ سے زیادہ جاننے والے کو نہیں پاسکتے۔
ہم لوگ مکہ میں اپنی عورتوں سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے تھے۔ جب بھی کسی کو اپنی عورت کی ٹانگیں کھینچنے کی خواہش ہوتی تو وہ بغیر پوچھے اپنی حاجت پوری کرلیتا تھا۔ جب ہم مدینہ آئے اور انصار کی عورتوں سے شادی بیاہ کیے تو وہ ہم سے بات کرتی تھیں اور آگے سے جواب بھی دیدیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ میں نے اپنی عورت کو چھڑی سے مارا تو وہ بولی : اے ابن خطاب ! تجھ پر تعجب (و افسوس) ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو ان کی بیویاں بات چیت کرتی ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں یہ سن کر میں حفصہ کے پاس آیا اور اس کو کہا : اے بیٹی ! دیکھ ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی چیز کے لیے تنگ نہ کیا کر، نہ ان سے کچھ مانگا کر، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دینار ہیں اور نہ درہم جو اپنی بیویوں کو دیں۔ جب بھی تجھے کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتادیا کر خواہ تیل ہی کی ضرورت ہو۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح کی نماز پڑھ کر فارغ وجاتے تھے تو لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے حتی کہ جب سورج طلوع ہوجاتا پھر ایک کرکے اپنی سب عورتوں کے پاس چکر لگاتے۔ ان کو سلام کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ اور پھر جس عورت کی باری کا دن ہوتا اس کے ہاں ٹھہر جاتے تھے۔۔ حضرت حفصہ (بنت عمر بن خطاب) کو طائف یا مہ کا شہد ھدیہ میں کہیں سے آیا ہوا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس کے پاس جاتے تھے تو وہ آپ کو روک لیا کرتی تھی اور جب تک وہ شہد نہ چٹا دیتی اور نہ پلا دیتی آپ کو آنے نہ دیتی تھی۔ جبکہ عائشہ اتنی دیر زیادہ ان کے پاس رکنے کو ناپسند کرتی تھی۔ چنانچہ حضرت عائشہ (رض) نے اپنی ایک حبشی باندی جس کو خضراء کہا جاتا تھا کو کہا کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حفصہ کے پاس آئیں تو بھی ان کے پاس چلی جانا اور دیکھنا کہ آپ وہاں کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ باندی نے آ کر حضرت عائشہ (رض) کو شہد کی بات بتائی۔ عائشہ نے اپنی تمام ساتھنوں کو کہلا بھیجا اور ساری خبر سنوا دی اور یہ ہدایت دی کہ جس کے پاس بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں تو وہ آپ کو یہ کہے : آپ سے ہمیں مغافیر (گوند) کی بو آرہی ہے۔
عائشہ کے پاس داخل ہوئے۔ عائشہ (رض) نے کہا : آج آپ نے کوئی چیز کھائی ہے کیا ؟ شاید مجھے آپ سے مغافیر (گوند) کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے بہت نفرت کرتے تھے کہ ان سے کسی طرح کی ناگوار بو کسی کو آئے۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ شہد ہے اور اللہ کی قسم میں آئندہ اس کو چکھوں گا بھی نہیں۔
پھر ایک مرتبہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حفصہ کے پاس آئے تو حفصہ نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اپنے والد (عمر بن خطاب (رض)) کے پاس خرچے کے لیے جانے کی حاجت ہے۔ مجھے اجازت دیں تو میں ہو آؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اجازت دیدی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک باندی ماریہ کو پیغام بھیج کر حفصہ کے گھر بلوا لیا۔ اور ان سے مباشرت کی۔
حصہ کہتی ہیں (جب میں واپس آئی تو) میں نے دروازہ کو بند پایا۔ لہٰذا میں دروازہ کے پاس بیٹھ گئی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائے ہوئے نکلے، پسینہ آپ کی پیشانی سے ٹپک رہا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ حفصہ رو رہی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم کیوں رو رہی ہو ؟ حفصہ نے کہا : آپ نے مجھے اسی لیے اجازت دی تھی۔ آپ نے میرے کمرے میں اپنی بادنی داخل کی اور پھر اس کے ساتھ میرے ہی بستر پر ہم بستری کی ۔ آپ نے مجھے آپ نے یہ کسی اور بیوی کے ہاں کیوں نہ کرلیا ؟ اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ یہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم تم نے سچ نہیں کہا۔ کیا یہ میری باندی نہیں ہے اور کیا اس کو اللہ نے میرے لیے حلال نہیں کردیا ؟ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے میں تمہاری رضامندی چاہتا ہوں۔ لیکن تم کسی کو اس کی خبر نہ دینا یہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔
لیکن جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکل گئے تو حفصہ نے اپنی اور عائشہ کے درمیان جو دیوار تھی وہ بجائی اور بولی : کیا میں تجھے خوشخبری نہ سناؤں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی باندی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے اور اللہ نے اس باندی سے ہم کو راحت دیدی ہے تب اللہ پاک نے یہ سورت نازل کی۔
پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا۔ وان تظاھرا علیہ، اور اگر تم دونوں نے رسول اللہ پر ایک دوسرے کی اعانت کی ۔ سے مراد عائشہ اور حفصہ ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی بات نہ چھپاتی تھیں۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : پھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے بالا خانے میں داخل ہوا اس میں ایک چٹائی پڑی تھی۔ اور ایک چمڑے کا مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ چٹائی پر پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو میں نمایاں ہوگئے تھے۔ آپ کے سر کے نیچے چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حال میں دیکھا تو بےساختہ رو پڑا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا : تم کو کیا چیز رلا رہی ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! فارس و روم کے لوگ دیباج پر لیٹتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان لوگوں کو ان کی پوچھا تم کو کیا چیز رل ارہی ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! فارس و روم کے لوگ دیباج پر لیٹتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان لوگوں کو ان کی عیش و عشرت کے سامان دنیا میں مل گئے ہیں۔ جبکہ ہمارے لیے آخرت میں یہ سب چیزیں تیار ہیں۔ پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کے کیا حال ہیں ؟ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں۔ لیکن میرے اور میری بیویوں کے درمیان کوئی بات ہوگئی تھی جس کی وجہ سے میں نے قسم اٹھالی کہ میں ایک ماہ تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں چنانچہ میں آپ کے پاس سے نکلا اور (جو لوگ پریشانی کی وجہ سے مجتمع تھے ان کو اعلان کیا) اے لوگو ! واپس جاؤ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی بیویوں کے درمیان کوئی بات ہوگئی تھی جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (کچھ وقت کے لیے) ان سے دور رہنا پسند کرلیا ہے۔
پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے پاس گیا اور اس کو کہا : اے بیٹی ! کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی بات کرتی ہے کہ ان کو غصہ دلا دیتی ہے ؟ حفصہ بولی : آئندہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی کوئی بات نہیں کروں گی جس کو وہ ناپسند کرتے ہوں۔ پھر میں ام سلمہ کے پاس گیا یہ میری خالہ لگتی تھیں لہٰذا میں نے ان کو بھی حفصہ جیسی بات کہی۔ اس نے کہا : تعجب ہے تجھ پہ اے عمر ! تو ہر چیز میں بات کرتا ہے ! حتی کہ اب تو نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی بیویوں کے درمیان بھی دخل اندازی شروع کردی ہے ؟ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیوں نہ غیرت کریں جبکہ تمہاری بیویوں تم پر غیرت کرتی ہیں۔
اللہ پاک نے اسی کے بارے میں یہ فرمان بھی نازل کیا :
یا ایہا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا۔ الاحزاب۔
اے نبی ! کہہ دے اپنی بیویوں کو اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تم کو سامان دے کر اور خوبصورتی کے ساتھ تم کو رخصت کروں۔ الاوسط للطبرانی۔ ابن مردویہ۔
4671: ۔۔ ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ (میرے والد) حضرت عمر (رض) (میری بہن) حفصہ کے پاس گئے تو وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا : تم کیوں رو رہی ہو ؟ شاید تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق دیدی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ تم کو طلاق دی تھی اور پھر میری وجہ سے تم سے رجوع کرلیا تھا۔ اب اللہ کی قسم اگر دوبارہ انھوں نے تم کو طلاق دی تو میں کبھی بھی تم سے بات نہیں کروں گا۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں تیرے بارے میں بات نہیں کروں گا۔ مسند البزر، السنن لسعید بن منصور۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔