HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

17. کتاب المناقب والفضائل

معارف الحدیث

2068

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَزَيْدِ بْنِ اَرْقَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ بِغَدِيرِ خُمٍّ، أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى لِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ «لَهُ هَنِيئًا يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، وَمُؤْمِنَةٍ» (رواه احمد)
حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم پر نزول اور قیام فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر (عام حاضرین و رفقاء سفر سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا کہ “أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ” (کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میں مسلمانوں کا ان کے نفسوں اور ان کی جانوں سے بھی زیادہ دوست اور محبوب ہوں) سب نے عرض کیا کیوں نہیں ہاں ! بےشک ایسا ہی ہے (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ” (کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مسلمان کا اس کے نفس اور اس کی جان سے زیادہ دوست اور محبوب ہوں)سب نے عرض کیا کیوں نہیں ہاں ! بےشک ایسا ہی ہے (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اَللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ” (اے اللہ ! میں جس کا دوست ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست ہیں ، اے اللہ جو علیؓ سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی فرما اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما) اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے اور (ان کو مبارک باد دیتے ہوئے) فرمایا کہ تمہیں مبارک اور خوشگوار ہو اے ابن ابی طالب ! کہ تم ہر صبح اور ہر شام (یعنی ہر وقت) ہر مومن اور مومنہ کے دوست اور محبوب ہو گئے ۔ (مسند احمد)

تشریح
یہ واقعہ جس کا ذخر اس روایت میں کیا گیا ، حجۃ الوداع کے سفر سے واپسی کا ہے “غدیر” کے معنی تالاب کے ہیں اور خم ایک مقام کا نام ہے جس کے قریب یہ تالاب تھا ، یہ مقام مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے مشہور بستی “الجحفہ” سئ تین چار میل کے فاصلہ پر واقع تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہوتے ہوئے اپنے فرقاء سفر کے پورے قافلہ کے ساتھ جس میں مدینہ منورہ اور قرب و جوار کے تمام ہی وہ صحابہ کرامؓ تھے جو اس مبارک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ۱۸؍ ذی الحجہ کو اس مقام پر پہنچے تھے ، اور قیام فرمایا تھا ، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رفقاء سفر کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اس خطبہ سے متعلق حدیث کی کتابوں میں جو روایات ہیں ۔ ان سے کو جمع کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطاب میں کچھ اہم باتیں ارشاد فرمائی تھی جن میں سے ایک بات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہ بھی تھی جو اس روایت میں ذکر کی گئی ہے ۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمہید کے ساتھ خاص اہمیت سے بیان فرمائی ۔
سورہ احزاب کے آیت نمبر ۶ میں ارشاد فرمایا گیا ہے : “النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ” اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر سب سے زیادہ محبت و خیرخواہی اپنے نفس اور اپنی عزیز جان کے ساتھ ہوتی ہے ، ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ اہل ایمان اپنے نفس اور اپنی جان عزیز سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت رکھیں ۔ قرآن پاک کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے فرمایا کہ کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ میں سب ایمان والوں کی دوستی اور محبت کا ان کے نفسوں اور ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق دار ہوں ۔ سب حاضرین نے بیک زبان عرض کیا کہ ہاں ! بےشک ایسا ہی ہے ، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ “کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ ہر مومن کو اپنے نفس اور اپنی عزیز جان سے جو محبت اور تعلق ہے اس سے زیادہ محبت اور تعلق اس کو میرے ساتھ ہونا چاہئے ۔ سب حاضرین نے عرض کیا کہ ہاں بےشک ایسا ہی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ھق ہم میں سے ہر ایک پر یہ ہے کہ اپنے نفس اور اپنی جان عزیزسے بھی زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو ..... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ۔
«اَللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» اے اللہ (تو گواہ رہ کہ) میں جس کا دوست اور محبوب ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست اور محبوب ہیں ، تو اے اللہ ! میری تجھ سے دعا ہے کہ جو علیؓ سے محبت رکھے تو اس سے محبت کا معاملہ فرما اور جو اس سے عداوت رکھے تو اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما ..... حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطاب کے بعد حضرت عمرؓ ، حضرت علی مرتضیٰؓ سے ملے اور مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا اے ابن ابی طالب ! تم کو مبارک اور خوشگوار ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہر ایمان والے اور ہر ایمان والی کے تم محبوب ہو گئے ، ہر ایک تم سے ہمیشہ محبت کا تعلق رکھے گا ۔
یہاں تک صرف حدیث کے مضمون کی تشریح کی گئ ، اس موقع پر راقم سطور ناظرین کو یہ بتلانا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ شیعہ علماء و مصنفین اس حدیث کو اپنے اس عقیدہ اور دعوے کی مضبوط ترین اور سب سے زیادہ وزنی دلیل کے طور پر پیش کرے ہیں غدیر خم کے س خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے لئے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ و جانشین اور امت کا امام و حاکم بنا دیا تھا اور اس خطاب کا خاص مقصد یہی تھا ، وہ کہتے ہیں کہ مولیٰ کے معنی آقا ، مالک اور حاکم کے ہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میں جن لوگوں کا آقا اور حاکم ہوں ۔ علیؓ ان سب کے آقا اور حاکم ہیں ، پس یہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت اور امت پر ان کی حاکمیت کا اعلان تھا ..... ان شاء اللہ آئندہ سطور سے ناظرین کرام کو معلوم ہو جائے گا کہ شیعہ علماء کا یہ دعویٰ اور ان کی یہ دلیل کس قدر لچر ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں بہت سے الفاظ ایسے جو بیس بیس یا اس سے بھی زیادہ معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ لفظ مولیٰ بھی انہیں الفاظ میں سے ہے ۔ عربی لغت کی مشہور و مستند ترین کتاب “القاموس المحیط” میں اس لفظ مولیٰ کے مندرجہ ذیل ۲۱ معنی لکھے ہیں ۔
المولى :
(1) المالك(2) والعبد(3) والعتق(4) والمعتق(5) والصاحب(6) والقريب كابن العم ونحوه(7) والجار(8) والحليف(9) والابن(10) والعم(11) والنزيل(12) والشريك(13) وابن الاخت(14) والولى(15) والرب(16) والناصر(17) والمنعم(18) والمنعم عليه(19) والمحب(20) والتابع(21) والصهر (1)
(ان تمام الفاظ کا ترجمہ مصباح اللغات کی عبارت میں ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں گے جو آگے نقل کی جا رہی ہے) اور عربی لغت کی دوسری مستند و معروف کتاب “اقرب الموارد” میں بھی لفظ مولیٰ کے یہی سب معنی لکھے گئے ہیں ۔ (2)
لغت حدیث کی مشہور و مستند ترین کتاب “النهاية لابن الاثير الجزري فى غريب الحديث والاثر” میں بھی قریبا یہ سب معنی لکھے گئے ہیں ، علامہ طاہر پٹنی نے مجمع بحار الانوار میں نہایہ ہی کے حوالہ سے اس کی پوری عبارت نقل کر دی ہے ۔ (3)
مصباح اللغات جس میں عربی الفاظ کے معنی اردو زبان میں لکھے گئے ہیں ، اس میں قریب قریب ان سب الفاظ کا ترجمہ آ گیا ہے جو “القاموس المحیط” اور “اقرب الموارد” وغیرہ مندرجہ بالا کتابوں میں لکھے گئے ہیں ، ہم اس کی عبارت بعینہٖ ذیل میں درج کرتے ہیں ۔
المولی = مالک و سردار ، غلام آزاد کرنے والا ، آزاد شدہ ، انعام دینے والا جس کو انعام دیا جائے ، محبت کرنے والا ، ساتھی ۔ حلیف پڑوسی ، مہمان ، شریک ، بیٹا ، چچا کا بیٹا ، بھانجا ، چچا ، داماد ، رشدہ دار ، والی ، تابع ۔ (4)
معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن پاک کی کسی آیت یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد میں یا کسی بھی فصیح و بلیغ کلام میں جب کوئی کثیر المعنی لفظ استعمال ہو تو خود اس میں یا اس کے سیاق و سباق میں ایسا قرینہ موجود ہوتا ہے جو اس لفظ کے معنی اور اس کی مراد متعین کر دیتا ہے .... اس زیر تشریح حدیث میں خود قرینہ موجود ہے ، جس سے اس حدیث کے لفظ مولیٰ کے معنی متعین ہو جاتے ہیں ، حدیث کا آخری دعائیہ جملہ ہے “اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ” (اے اللہ جو علی سے دوستی اور محبت رکھے تو اس سے دوستی اور محبت فرما ، اور جو اس سے دشمنی رکھے ، تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما) ۔ اس سے متعین طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث میں لفظ مولیٰ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، اور “مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ” کا مطلب وہی ہے جو اوپر تشریح میں بیان کیا گیا ہے ۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو کچھ ہوا ، وہ اس بات کی روشن اور قطعی دلیل ہے کہ غدیر خم کے ہزاروں صحابہ کرام کے اس مجمع میں کسی فرد نے ، خود حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان کے قریب ترین حضرات نے بھی حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں سمجھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کے لئے ان کی خلافت و حاکمیت اور امت کی امامت عامہ کا اعلان فرما رہے ہیں ، اگر خود حضرت علی مرتضیٰؓ نے اور ان کے علاوہ جس نے بھی ایسا سمجھا ہوتا ، تو ان کا فرض تھا کہ جس وقت خلافت کا مسئلہ طے ہو رہا تھا تو یہ لوگ کہتے کہ ابھی صرف ستر (۷۰) بہتر (۷۲) دن پہلے غدیر خم کے موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنا دیا تھا اور اہتمام سے اس کا اعلان فرمایا تھا الغرض یہ مسئلہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم طے فرما گئے ہیں اور حضرت علیؓ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ نامزد فرما گئے ہیں ، اب وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ امت کے حکمران اور سربراہ ہیں .... لیکن معلوم ہے کہ نہ حضرت علیؓ نے یہ بات کہی اور نہ کسی اور نے ، سبھی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کر کے بیعت کر لی ۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر شیعہ علماء کی یہ بات مان لی جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے اس خطبہ میں “مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ” فرما کر حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت و جانشینی صاف صاف اعلان فرمایا تھا تو معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصال کے بعد اس کی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیوں نہیں فرمایا ؟ ان کا فرض تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تجویز کی تنقید اور اس فرمان و اعلان کو عمل میں لانے کے لئے میدان میں آتے اگر کوئی خطرہ تھا تو اس کا مقابلہ فرماتے ۔
یہی بات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پوتے حسن مثلث نے اس شخص کے جواب میں فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں رافضیوں والا غالیانہ عقیدہ رکھتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا تھا ، تو حضرت حسن مثلث نے اس شخص سے فرمایا تھا ۔
ولو كان الامر كما تقولون ان الله جل وعلى ورسوله صلى الله عليه وسلم اختار عليا لهذا الامر والقيام على الناس بعده فان عليا اعظم الناس خطيئة وجر ما اذ ترك امر رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔ (1)
ترجمہ : اگر بات وہ ہو جو تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علیؓ کو رسول کے بعد خلافت کے لئے منتخب اور نامزد فرما دیا تھا تو علیؓ سب سے زیادہ خطاکار اور مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہیں کی ۔
اور جب اس شخص نے حضرت حسن مثلث سے یہ بات سن کر اپنے عقیدہ کی دلیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد “مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ” کا حوالہ دیا تو حضرت حسن مثلث نے فرمایا ۔
اما و الله لو يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم بذالك الامر و السلطان و القيام على الناس لا فصح به كما افصح بالصلاة و الزكاة و الصيام و الحج ولقال ايها الناس ان هذا الولي بعدي اسمعوا واطيعوا. (1)

تشریح : سن لو ! میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ اور حاکم بنانا ہوتا تو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح صراحت اور وضاحت سے فرماتے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ، زکوٰۃ ، روزوں اور حج کے بارے میں صراحت اور وضاحت سے فرمایا ہے اور صاف صاف یوں فرماتے کہ اے لوگو ! یہ علی میرے بعد ولی الامر اور حاکم ہوں گے لہٰذا تم ان کی بات سننا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنا ۔
اس کے بعد یہ بات وضاھت طلب رہ جاتی ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں اس خطاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کس خاص وجہ سے اور کس غرض سے فرمائی ۔
واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قریبا تین سو افراد کی جمیعت کے ساتھ یمن بھیج دیا تھا ، وہ حجۃ الوداع میں یمن سے مکہ مکرمہ آ کر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے ، یمن کے زمانہ قیام میں ان کے چند ساتھیوں کو ان کے بعض اقدامات سے اختلاف ہوا تھا ، وہ لوگ بھی حجۃ الوداع میں شرکت کے لئے ان کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ آئے تھے ، یہاں آ کر ان میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اپنے احساس و خیال کے مطابق حضرت علیؓ کی شکایت کی (2) اور دوسرے لوگوں نے بھی ذکر کر دیا ..... بلا شبہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جن لوگوں نے شکایت کی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا عنداللہ اور دین میں جو مقام و مرتبہ ہ ان کو بتلا کر اور ان کے اقدامات کی تصویب اور توثیق فرما کر ان کے خیالات کی اصلاح فرما دی ، لیکن بات دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ چکی تھی ، شیطان ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں کدورت اور افتراق پیدا کر دیتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت محسوس فرمائی کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبوبیت اور مقبولیت کا جو مقام حاصل ہے اس سے عام لوگوں کو آگاہ فرما دیں اور اس کے اظہار و اعلان کا اہتمام فرمائیں .... اسی مقصد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے اس خطبہ میں جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام رفقاء سفر صحابہ کرامؓ کو جمع فرما دیا تھا ، خاص اہتمام سے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا تھا ۔ “مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ”
جیسا کہ تفصیل سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میں جس کا محبوب ہوں یہ علیؓ بھی اس کے محبوب ہیں لہذا جو مجھ سے محبت کرے اس کو چاہئے وہ ان علی سے بھی محبت کرے ، آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ، اے اللہ جو بندہ علی سے محبت و موالاۃ کا تعلق رکھے اس سے تو محبت و موالاۃ کا معاملہ فرما اور جو کوئی علی سے عداوت رکھے اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما ، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا یہ دعائیہ جملہ اس کا واضح قرینہ ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ محبوب ہے اور دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد “مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ..... الخ” کا مسئلہ امامت و خلافت سے کوئی تعلق نہیں ۔
امید ہے کہ یہاں تک جو کچھ اس مسئلہ کے بارے میں عرض کیا گیا وہ ہر صاحب ایمان سلیم القلب کے لئے ان شاء اللہ کافی و شافی ہو گا ۔ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔