HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

1382

۱۳۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا سُحَیْمُ ڑالْحَرَّانِیُّ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنِ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ صِلَۃَ عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِہِ : سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظِیْمِ ثَلَاثًا وَفِیْ سُجُوْدِہِ سُبْحَانَ رَبِّی الْأَعْلٰی ثَلَاثًا) .فَھٰذَا أَیْضًا قَدْ دَلَّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ وُقُوْفِہِ عَلٰی دُعَائٍ بِعَیْنِہٖ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ أَمَّا الرُّکُوْعُ، فَلَا یُزَادُ فِیْہِ عَلَی تَعْظِیْمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا السُّجُوْدُ، فَیَجْتَہِدُ فِیْہِ فِی الدُّعَائِ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثَیْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَاہُمَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ قَدْ جَعَلُوْا قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَمَّا الرُّکُوْعُ فَعَظِّمُوْا فِیْہِ الرَّبَّ) نَاسِخًا لِمَا تَقَدَّمَ مِنْ أَفْعَالِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أَمَرَہُمْ بِالتَّعْظِیْمِ فِی الرُّکُوْعِ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ عَلَیْہِ (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ) وَیُجْہِدُہُمْ بِالدُّعَائِ فِی السُّجُوْدِ بِمَا أَحَبُّوْا قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ عَلَیْہِ (سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی ) فَلَمَّا نَزَلَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أَمَرَہُمْ بِأَنْ یَنْتَہُوْا إِلَیْہِ فِیْ سُجُوْدِہِمْ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ عُقْبَۃَ، وَلَا یَزِیْدُوْنَ عَلَیْہِ فَصَارَ ذٰلِکَ نَاسِخًا لِمَا قَدْ تَقَدَّمَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ، کَمَا کَانَ الَّذِیْ أَمَرَہُمْ بِہٖ فِی الرُّکُوْعِ عِنْدَ نُزُوْلِ (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ) نَاسِخًا لِمَا قَدْ کَانَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقُرْبِ وَفَاتِہٖ، لِأَنَّ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (کَشَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السِّتَارَۃَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ) .قِیْلَ لَہٗ : فَہَلْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَقِبِہَا أَوْ أَنَّ تِلْکَ الْمِرْضَۃَ، ہِیَ مِرْضَتُہُ الَّتِیْ تُوُفِّیَ فِیْہَا؟ لَیْسَ فِی الْحَدِیْثِ مِنْ ھٰذَا شَیْئٌ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہِیَ الصَّلَاۃَ الَّتِیْ تُوُفِّیَ بِعَقِبِہَا وَیَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ صَلَاۃً غَیْرَہَا قَدْ صَحَّ بَعْدَہَا .فَإِنْ کَانَتْ تِلْکَ ہِیَ الصَّلَاۃَ الَّتِیْ تُوُفِّیَ بَعْدَہَا، فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی ) أُنْزِلَتْ عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ قَبْلَ وَفَاتِہٖ. وَإِنْ کَانَتْ تِلْکَ الصَّلَاۃُ مُتَقَدِّمَۃً لِذٰلِکَ، فَہِیَ أَحْرٰی أَنْ یَجُوْزَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَہَا مَا ذَکَرْنَا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا مَوَاضِعَ فِی الصَّلَاۃِ فِیْہَا ذِکْرٌ .فَمِنْ ذٰلِکَ التَّکْبِیْرُ لِلدُّخُوْلِ فِی الصَّلَاۃِ، وَمِنْ ذٰلِکَ التَّکْبِیْرُ لِلرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَالْقِیَامِ مِنَ الْقُعُوْدِ .فَکَانَ ذٰلِکَ التَّکْبِیْرُ تَکْبِیْرًا قَدْ وُقِفَ الْعِبَادُ عَلَیْہِ وَعُلِّمُوْہُ، وَلَمْ یُجْعَلْ لَہُمْ أَنْ یُجَاوِزُوہُ إِلَیْ غَیْرِہٖ .وَمِنْ ذٰلِکَ مَا یَشْہَدُوْنَ بِہٖ فِی الْقُعُوْدِ، فَقَدْ عُلِّمُوْہُ، وَوُقِفُوْا عَلَیْہِ، وَلَمْ یُجْعَلْ لَہُمْ أَنْ یَأْتُوْا مَکَانَہُ بِذِکْرِ غَیْرِہٖ لِأَنَّ رَجُلًا لَوْ قَالَ مَکَانَ قَوْلِہٖ " اللّٰہُ أَکْبَرُ " اللّٰہُ أَعْظَمُ أَوْ " اللّٰہُ أَجَلُّ " کَانَ فِیْ ذٰلِکَ مُسِیْئًا .وَلَوْ تَشَہَّدَ رَجُلٌ بِلَفْظٍ یُخَالِفُ لَفْظَ التَّشَہُّدِ الَّذِیْ جَائَ تْ بِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ، کَانَ فِیْ ذٰلِکَ مُسِیْئًا، وَکَانَ بَعْدَ فَرَاغِہِ مِنَ التَّشَہُّدِ الْأَخِیْرِ قَدْ أُبِیْحَ لَہٗ مِنَ الدُّعَائِ مَا أَحَبَّ فَقِیْلَ لَہٗ فِیْمَا رَوَی ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ثُمَّ لِیَخْتَرْ مِنَ الدُّعَائِ مَا أَحَبَّ) .فَکَانَ قَدْ وُقِفَ فِیْ کُلِّ ذِکْرٍ عَلٰی ذِکْرٍ بِعَیْنِہِ وَلَمْ یُجْعَلْ مُجَاوَزَتُہُ إِلٰی مَا أَحَبَّ إِلَّا مَا قَدْ وُقِفَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ، وَإِنْ اسْتَوَیْ ذٰلِکَ فِی الْمَعْنَی فَلَمَّا کَانَ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ قَدْ أُجْمِعَ عَلٰی أَنَّ فِیْہِمَا ذِکْرًا، وَلَمْ یُجْمَعْ عَلٰی أَنَّہٗ أُبِیْحَ لَہٗ فِیْہِمَا کُلُّ الذِّکْرِ، کَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الذِّکْرُ کَسَائِرِ الذِّکْرِ فِیْ صَلَاتِہٖ، مِنْ تَکْبِیْرِہٖ وَتَشَہُّدِہٖ، وَقَوْلِہٖ : " سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ " وَقَوْلِ الْمَأْمُوْمِ " رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ " فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ قَوْلًا خَاصًّا لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ مُجَاوَزَتُہُ إِلَیْ غَیْرِہٖ، کَمَا لَا یَنْبَغِیْ لَہٗ فِیْ سَائِرِ الذِّکْرِ الَّذِیْ فِی الصَّلَاۃِ وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ مُجَاوَزَتُہٗ ذٰلِکَ إِلٰی غَیْرِہِ إِلَّا بِتَوْقِیفٍ مِنَ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ الَّذِیْنَ وَقَّتُوْا فِیْ ذٰلِکَ ذِکْرًا خَاصًّا وَہُمْ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی حَدِیْثِ عُقْبَۃَ، عَلٰی مَا فُصِّلَ فِیْہِ مِنَ الْقَوْلِ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَأَیْنَ جُعِلَ لِلْمُصَلِّیْ أَنْ یَقُوْلَ بَعْدَ التَّشَہُّدِ مَا أَحَبَّ؟ قِیْلَ لَہٗ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ۔
١٣٨٢: صلہ نے حذیفہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ تین مرتبہ پڑھتے تھے۔ ان دونوں روایات سے یہ دلیل مل گئی کہ رکوع اور سجدے میں انہی تسبیحات پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ علماء کی ایک اور جماعت نے کہا کہ رکوع میں تو سبحان ربی العظیم ہی کہا جائے گا۔ مگر سجدے میں دعا میں خوب کوشش کی جائے گی۔ اور انھوں نے فصل اول میں ذکر کی جانے والی حضرت علی اور ابن عباس (رض) والی روایات کو دلیل بنایا۔ ان کے خلاف ہماری دلیل یہ ہے کہ ان حضرات نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ام الرکوع فعظموا فیہ الرّبّہ کو آپ کے فصل اوّل میں آنے والے افعال کا ناسخ قرار دیا۔ تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ تعظیم فی الرکوع والا ارشاد ان آیات کے نزول سے پہلے ہو۔ اور اجتہاد فی السجود یہ سبح اسم ربک الاعلٰی کے نزول سے پہلے ہو۔ جب یہ آیات اتر پڑیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو حکم دیا کہ اپنے سجدے میں اسی پر اکتفاء کریں۔ جیسا کہ حدیث عقبہ (رض) میں آیا ہے اور اس میں اضافہ نہ کریں۔ تو یہ اسی طرح پہلے والے فعل اور حکم کے لیے ناسخ بن گیا۔ جس طرح رکوع کے سلسلے میں سبح الاسم ربک العظیم ناسخ بن گیا۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ آپ کے یہ افعال آپ کی وفات کے قریبی زمانے کے ہیں۔ کیونکہ حدیث ابن عباس (رض) میں صاف مذکور ہے : کشف رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السّارۃ والناس صفوف خلف ابی بکر ‘ یعنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت پردہ ہٹایا جب کہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پیچھے صف باندھنے والے تھے۔ اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کیا اس روایت میں ایسی بات موجود ہے کہ وہ نماز ہے کہ جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی یا وہی مرض کے آیام ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی۔ روایت میں تو اس کا کوئی نشان بھی نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ یہ وہی نماز ہو کہ جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی۔ جس طرح کہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اور کوئی نماز ہو کہ جس کے بعد آپ صحت یاب ہوئے۔ اگر بالفرض یہ وہی نماز ہو جس کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔ تو یہ بھی تو کہنا درست ہے کہ سبح اسم ربک الاعلٰی آیت اس نماز کے بعد اور وفات سے پہلے اتری ہو۔ اور اگر یہ نماز اس سے پہلے زمانے کی ہے تو پھر زیادہ مناسب ہے کہ نزول آیت اس کے بعد ہوا ہو۔ روایات کے معانی کی درستگی کی یہ صورت ہے۔ بطریق نظر جب ہم نے دیکھا تو ہم نے نماز میں ذکر کے مختلف مقامات پائے۔ ان میں سے ایک تکبیر ہے جس سے نماز میں داخل ہوتے ہیں اور ایک تکبیر رکوع ‘ سجدے اور قعدہ سے قیام کے لیے ہے۔ اور یہ تکبیر ہی کہی جاتی ہے۔ اور بندے اس سے اچھی طرح مطلع ہیں ‘ آج تک اس سے تجاوز نہیں کیا۔ اور ان مواقع میں سے ایک قعدہ میں تشہد پڑھنا ہے اور اس سے بھی سب لوگ واقف ہیں ‘ اس کی جگہ اور کوئی ذکر کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کیونکہ اگر کسی شخص نے اللّٰہ اکبر کی بجائے اللّٰہ عظیم یا اللّٰہ اجل کہہ دیا تو اس سے وہ گناہ گار ہوگا۔ اور اگر اس نے اس تشہد کے علاوہ اور تشہد پڑھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ سے روایات میں آیا ہے تو وہ گناہ گار ہوگا۔ اور آخری تشہد سے فارغ ہونے کے بعد دل پسند دعا پڑھ سکتا ہے۔ تو اس کو ابن مسعود (رض) والی روایت کے مطابق کہا جائے گا۔ وہ اپنی پسندیدہ دعا چنے۔ پس ان مختلف مواقع ذکر کے کلمات مقرر ہیں جن کو ترک کر کے دوسرے کی طرف وہ تجاوز نہیں کرسکتا اور نہ مقررہ کلمات سے ان کے ہم معنی کلمات کی طرف جاسکتا ہے۔ جب رکوع اور سجدے کے متعلق اتفاق ہے کہ ان میں ذکر اور اس بات پر اجماع نہیں کہ ان میں اس کو دیگر کلمات مباح ہیں ‘ تو یہ ذکر بھی ان تمام اذکار یعنی تکبیر ‘ تشہد اور اسی طرح قومہ کی تسمیع وتحمید یہ بھی خاص کلمات ان سے کسی کو اور کی طرف تجاوز جائز نہیں۔ جیسا کہ اسے جائز نہیں کہ نماز کے دیگر اذکار میں اسے کسی اور ذکر کی طرف تجاوز جائز نہیں فقط اس کی اجازت ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوا ہے۔ پس اس سے ان لوگوں کی بات پختہ ہوگئی جنہوں نے ہر ایک وقت کے لیے ایک ذکر کو مخصوص قرار دیا اور یہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عقبہ (رض) والی روایت کو اختیار کیا ‘ جس میں سجدہ و رکوع کی تفصیل مذکور ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ تشہد کے بعد نماز کو اپنے پسندیدہ دعائیہ کلمات کی کہاں اجازت دی گئی اسے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت میں موجود ہے جس کو ابو بکرہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٢٠‘ نمبر ٨٨٨۔
حاصل ہر دو روایت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع و سجود میں معینہ دعا پر اکتفاء فرماتے تھے اور گزشتہ روایات بھی اسی کو ظاہر کرتی ہیں۔
مؤقف فریق ثالث :
رکوع میں تو اسی پر اکتفاء کیا جائے البتہ سجدہ میں خوب دعا مانگیں گے گویا انھوں نے دونوں قسم کی روایات سے ایک ایک بات لے کر موافقت کی صورت نکالی ہے ان کی مستدل روایات یہ ہیں جن کو نمبر ١٣٦٤ تا ١٣٦٦ حضرت علی (رض) اور ابن عباس (رض) سے ہم نقل کر آئے ہیں۔
ہم آگے بڑھنے سے قبل فریق ثالث کی ان دلیلوں کا جواب عرض کرتے ہیں۔
S: آپ کی پیش کردہ روایات میں جو کچھ فرمایا گیا وہ بجا طور درست ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع کے متعلق فعظموا فیہ الرّب کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے الفاظ رکوع میں کہے جائیں پر عمل پیرا رہے اور جب سبح باسم ربک العظیم نازل ہوئی تو آپ نے سبحان ربی العظیم کا حکم دیا تو سابقہ کلمات منسوخ مان لیا مگر جب سجدے کی باری آئی تو یجہدہم بالدعاء پر عمل پیرا رہے جب سبح اسم ربک الاعلٰی نازل ہوئی اور سبحان ربی الاعلٰی کا حکم ملا تو اسے ناسخ نہیں مانا۔ حالانکہ دونوں کا حکم یکساں ہے اور یہ بھی ماقبل کی اسی طرح ناسخ ہے جس طرح رکوع والی آیت ہے۔
اشکال :
ابن عباس (رض) کی روایت سے معلوم ہوا ہے کہ یہ قرب وفات کا عمل ہے پس اس کی ناسخ تو وہ آیات نہ بن سکیں۔
حل اشکال :
اس روایت میں کوئی قرینہ نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ وہی نماز ہے جس کے بعد آپ کی وفات ہوگی پس جب دونوں احتمال پیدا ہوگئے کہ ممکن ہے کہ یہ اس بیماری کا تذکرہ ہو جس میں آپ کی وفات ہوئی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اور کوئی نماز ہو تو سبح اسم ربک کا اس کے بعد نزول ظاہر ہے یہ جواب تو تمام آثار کو صحیح قرار دیتے ہوئے دیا گیا ہے مگر بطریق نظر اس کا فیصلہ واضح ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
نماز میں کئی مواضع ہیں جن میں اذکار مقررہ ہیں چنانچہ نماز میں داخلے کے لیے تکبیر اور رکوع میں تعظیم اور سجود میں تسبیح اور ان میں منتقل ہونے کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے بندوں نے اس تکبیر کو اختیار کیا اور وہ اس تکبیر کے علاوہ کو اختیار نہیں کرتے اور ان اذکار میں سے ایک قعدہ ہے جس میں تشہد پڑھی جاتی ہے لوگوں نے ان سب چیزوں کو اختیار کر کے اسی کو اپنایا وہ ان کی جگہ دوسرے کسی ذکر کا جواز نہیں سمجھتے اگر بالفرض کسی شخص نے اللہ اکبر کی جگہ اللہ اعظم یا اللہ اجل کہا تو وہ گناہ گار ہوگا اسی طرح اگر کسی نے اس تشہد کے علاوہ تشہد پڑھا جو آثار نبویہ میں وارد ہے وہ شخص گناہ گار ہوگا اور آخری تشہد سے فراغت کے بعد اسے ہر اس دعا کی اجازت ہے جو وہ پسند کرتا ہو تشہد ابن مسعود (رض) پڑھے اور دعا مانگے۔

حاصل کلام : یہ ہوا کہ ہر مقام کے لیے ایک ذکر متعین ہے جس سے نمازی کو تجاوز جائز نہیں اگرچہ معنوی اعتبار سے اسی طرح ہو جب اس بات پر اتفاق ہے کہ رکوع و سجدہ دونوں میں ذکر کے وجود پر سب کا اتفاق ہے اور اس پر اتفاق نہیں کہ ان دونوں میں ان کے علاوہ بھی کوئی ذکر مباح ہو تو نظر و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ذکر بھی نماز کے دوسرے مقامات کی طرح مثلاً تکبیر ‘ تشہد وغیرہ کی طرح نہ بدلے اور سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی کا قول ربنا ولک الحمد یہ بھی خاص کلمہ ہے کسی کو اس سے تجاوز جائز نہیں جیسے دوسرے اذکار سے تجاوز درست نہیں اس لیے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر مداومت فرمائی پس اس سے ان لوگوں کی بات اظہر من الشمس کی طرح ثابت ہوگئی جنہوں نے خاص مواقع میں اذکارکو خاص مانا ہے اور اس سے مراد وہ ہیں جو حدیث عقبہ بن عامر (رض) کو دلیل بنانے والے ہیں یعنی فریق ثانی و اعوانہم۔
ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
اہم اشکال :
یہ بات کہاں سے ثابت ہے کہ تشہد کے بعد اپنی پسندیدہ دعا پڑھے۔ ؟
جواب : پسندیدہ دعا کا ثبوت روایت ابن مسعود (رض) میں مذکور ہے ملاحظہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔