HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

1842

۱۸۴۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ہُوَ ابْنُ نُوْحٍ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدٍ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ : (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ شَغَلُوْنَا عَنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ قَالَ : وَلَمْ یُصَلِّہَا یَوْمَئِذٍ حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ مَلَأَ اللّٰہُ قُبُوْرَہُمْ نَارًا وَقُلُوْبَہُمْ نَارًا وَبُیُوْتَہُمْ نَارًا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الرَّاکِبَ لَا یُصَلِّی الْفَرِیْضَۃَ عَلٰی دَابَّتِہِ، وَإِنْ کَانَ فِیْ حَالٍ لَا یُمْکِنُہُ فِیْہَا النُّزُوْلُ، قَالُوْا : لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَئِذٍ رَاکِبًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : إِنْ کَانَ ھٰذَا الرَّاکِبُ یُقَاتِلُ، فَلاَ یُصَلِّیْ وَإِنْ کَانَ الرَّاکِبُ لَا یُقَاتِلُ وَلَا یُمْکِنُہُ النُّزُوْلُ صَلَّی، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَئِذٍ ؛ لِأَنَّہٗ کَانَ یُقَاتِلُ، فَالْقِتَالُ عَمَلٌ، وَالصَّلَاۃُ لَا یَکُوْنُ فِیْہَا عَمَلٌ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَئِذٍ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ أُمِرَ - حِیْنَئِذٍ - أَنْ یُصَلِّیَ رَاکِبًا .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَإِذَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ۔
١٨٤٢: زر نے حضرت حذیفہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ خندق کے روز فرما رہے تھے ان کفار نے ہمیں نماز عصر سے مشغول کردیا یعنی نہ پڑھنے دی آپ عصر کی نماز ادا نہ فرما سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا آپ نے یہ بددعا فرمائی اللہ تعالیٰ ان کی قبور کو آگ سے بھر دے اور ان کے دلوں کو آگ سے بھر دے اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سوار اس سواری پر فرض نماز نہ پڑھے جبکہ وہ ایسی حالت میں بھی ہو کہ اس سے اترنا اسے ممکن نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن سواری کی حالت میں نماز ادا نہ فرمائی۔ دوسروں نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر سوار لڑائی میں مصروف ہو تو پھر نماز نہ پڑھے اور اگر سوار لڑائی نہ کررہا ہو اور اترنا بھی ممکن نہ ہو تو نماز پڑھ لے۔ یہ کہنا درست ہے کہ آپ نے نماز اس وجہ سے نہ پڑھی ہو کہ آپ لڑائی میں مصروف ہو۔ لڑائی ایک خارجی عمل ہے اور نماز میں کوئی خارجی عمل نہیں ہوتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے نماز اس لیے نہ پڑھی ہو کہ سواری کی حالت میں نماز کا حکم نہ دیا گیا تھا۔ پس ہم نے اس پر غور کیا تو یہ روایات سامنے آئیں۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٩٨‘ والمغازی باب ٢٩‘ مسلم فی المساجد ٢٠٢؍٢٠٣‘ ترمذی فی تفسیر سورة نمبر ٢‘ باب ٣١‘ نسائی فی الصلاۃ باب ١٤‘ ابن ماجہ فی الصلاۃ باب ٦‘ مسند احمد ١؍٧٩‘ ٨١‘ ١١٣۔
مؤقف ثانی : اگر سوار لڑائی میں مصروف ہو تو نماز نہ پڑھے اور اگر لڑائی میں مصروف نہ ہو مگر اترنا ممکن نہ ہو تو سواری کی حالت میں فرض ادا کرے۔
جواب نمبر 1: قدیجوز سے دیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت کفار کے ساتھ مقابلے میں مصروف رہے اور مقابلہ تو عمل کثیر ہے اس کے ہوتے ہوئے نماز ممکن نہیں تھی۔
نمبر 2: اس لیے آپ نے نماز ادا نہیں کی کیونکہ سواری کی حالت میں نماز کا حکم نہ ملا تھا جیسا کہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے۔
خلاصہ الزام : سوار ہونے کی حالت میں مجاہد یا مسافر کو اشارہ سے نماز جائز ہے یا نہیں۔ تعاقب دشمن کے عذر کے باوجود سواری پر اشارہ سے نماز درست نہیں یہ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے۔
نمبر 2: جبکہ امام مالک و شافعی و احمد (رح) اور اکثر احناف سواری پر عذر کی حالت میں فرض نماز کو جائز قرار دیتے ہیں۔
مؤقف اول اور اس کے دلائل : سوار کو فرض نماز سواری کی حالت میں بالکل درست نہیں کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم خندق میں سواری کی حالت میں نماز نہیں پڑھی۔ دلیل۔ ابن ابی لیلیٰ ان لوگوں میں سے ہیں جو اس حدیث کی طرف گئے ہیں۔ اسے ابوحنیفہ اور محمد بن حسن (رح) نے اس کو چھوڑ دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { ولتأت طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک } ” اور چاہے کہ دوسری جماعت آئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی وہ آپ کے ساتھ نماز ادا کریں “۔ اس روایت میں ہے کہ ” انھم صلّوا جمیعًا “ کہ ان تمام نے اکٹھی نماز پڑھی اور ابن عمر اور عبیداللہ کی ابن عباس (رض) والی روایت اسی طرح حضرت حذیفہ اور زید بن ثابت (رض) میں اس طرح مذکور ہے کہ وہ دوسری رکعت میں اس دوسرے گروہ کے داخل ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی قرآن مجید کی دلالت بھی ان کی روایت کے مضمون کا مؤید ہے۔ جو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی۔ پس ان دونوں کے نزدیک یہ روایت حضرت ابو عیاش اور جابر (رض) کی روایت سے اولیٰ و افضل ہے۔ مگر امام ابویوسف (رح) کا مؤقف یہ ہے کہ جب دشمن قبلہ کی جانب ہوں تو پھر نماز حضرت ابوعیاش و جابر (رض) کی روایت کے مطابق ہوگی اور دشمن اگر قبلہ کے علاوہ ہوں تو پھر اس طرح نماز پڑھی جائے جیسے حضرت ابن عمر ‘ ابن عباس ‘ زید بن ثابت اور حذیفہ (رض) کی روایت میں مذکور ہے۔ کیونکہ حضرت ابوعیاش (رض) کی روایت صاف موجود ہے کہ دشمن قبلہ کی طرف تھا اور حضرت اب عمر ‘ حذیفہ اور زید (رض) کی روایت میں کسی بھی ایسی بات کا تذکرہ نہیں ہے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) سے ان کے موافق روایت موجود ہے اور اس میں مذکور ہے کہ دشمن غیر قبلہ کی طرف تھا۔ امام ابویوسف (رح) کا مؤقف یہ ہے کہ میرے ہاں دونوں روایات درست ہیں ‘ اس لیے ابن مسعود (رض) کی روایت اور جو ان کے موافق ہیں اس بات پر محمول کرتا ہوں جب دشمن قبلہ کی سمت میں نہ ہوں اور رہی روایت ابو عیاش اور جابر (رض) اس صورت سے تعلق رکھتی ہے جبکہ دشمن قبلہ کی جانب ہو اور یہ صورت ہمارے نزدیک بھی قرآن مجید کے مخالف نہیں۔ کیونکہ ارشاد خداوندی { ولتأت طائفۃ اخریٰ } (القرآن) کی آیت اس صورت سے متعلق ہے جب دشمن قبلہ والی جانب نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ جب دشمن قبلہ والی جانب ہو تو نماز کس طرح ادا کی جائے۔ پس آپ نے دونوں پر عمل کیا جیسا کہ دونوں طرح کی روایات وارد ہیں۔ ہمارے نزدیک تمام اقوال میں سے زیادہ صحیح یہ قول ہے۔ کیونکہ روایات کی صحت اس پر گواہ ہے اور اس کی مؤید وہ روایت ہے جو ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز خوف کے سلسلہ میں نقل کی ہے۔ جس کو اس باب کی ابتداء میں ہم نے ذکر کیا۔ اس کو ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے مقام ذی قرر میں نقل کیا ہے اور وہ ابن مسعود ‘ ابن عمر ‘ حذیفہ اور زید (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں روایات کی ہیں ‘ ان کے موافق ہے اور ابن عباس (رض) کا فتویٰ بھی اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو۔
امام ابو یوسف (رح) کبھی تو اس طرح فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نماز خوف نہ پڑھی جائے ‘ بقیہ صحابہ کرام (رض) نے آپ کے ساتھ صلوۃ خوف فضیلت کو حاصل کرنے کو پڑھی تھی۔ مگر یہ قول ہمارے ہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتی ‘ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام نے بھی یہ نماز پڑھی ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ (رض) نے طبرستان میں یہ نماز ادا کی اس میں جو کچھ تذکرہ ہو وہ اس قدر شہرت یافتہ ہے کہ ہمیں دوبارہ ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر بالفرض وہ اس سلسلہ میں اس ارشاد گرامی سے استدلال کریں { و اذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ } (القرآن) کہ ” جب آپ ان میں ہوں تو آپ ان کو نماز اس طرح پڑھائیں “۔ انھوں نے کہا یہ حکم آپ کی موجودگی کے ساتھ خاص ہے ‘ جب آپ نہیں ہوں گے تو یہ حکم بھی منقطع ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { خذ من اموالھم صدقۃ۔۔۔} (الآیۃ) کہ ” آپ ان کے اموال سے زکوۃ وصول کریں اور ان کو پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں “۔ یہاں اگرچہ خطاب تو آپ کو فرمایا مگر اس پر تمام کا اتفاق ہے کہ آپ کے بعد بھی اس پر عمل کیا جائے گا۔ جیسا کہ ظاہری حیات طیبہ میں اس پر عمل کیا گیا۔ مجھے احمد بن ابی عمران نے محمد بن شجاع ثلجی کے متعلق بتلایا کہ وہ امام ابویوسف (رح) کے قول کو ناپسند کرتے اور اس پر عیب لگاتے اور فرماتے اگرچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کرنا سب سے افضل ہے مگر اس نماز میں ایسا کلام کسی کو جائز نہیں جو نماز کو توڑ دے۔ اسے نماز میں وہ عمل نہ کرنا چاہیے جو وہ دوسرے کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے نہیں کرتا۔ آپ کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کو وہ عمل توڑ دیتا ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ نماز کو توڑ دیتا ہے مثلاً حدث کا پیش آنا۔ پس جب آپ کے پیچھے نماز خوف میں آنا جانا اور قبلہ کی طرف پشت کرنا نماز کو نہیں توڑتا تو کسی دوسرے کے پیچھے بھی نماز خوف کا یہی حکم ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔