HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2317

۲۳۱۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو الْأَزْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ أَبِیْ مُوْسٰی‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (مَرِضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ‘ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ .فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ رَقِیْقٌ‘ فَقَالَ : مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ‘ فَإِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ) .قَالَ : قَامَ أَبُوْ بَکْرٍ فِیْ حَیَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرُوْہُ .وَلٰـکِنَّ أَفْعَالَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاتِہٖ تِلْکَ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ إِمَامًا‘ وَذٰلِکَ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ‘ فِیْ حَدِیْثِ الْأَسْوَدِ عَنْہَا (فَقَعَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ یَسَارِ أَبِیْ بَکْرٍ) وَذٰلِکَ قُعُوْدُ الْاِمَامِ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ أَبُوْ بَکْرٍ إِمَامًا لَہٗ‘ لَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْعُدُ عَنْ یَمِیْنِہٖ .فَلَمَّا قَعَدَ عَنْ یَسَارِہٖ وَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ عَنْ یَمِیْنِہِ‘ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ ہُوَ الْاِمَامُ‘ وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ ہُوَ الْمَأْمُوْمُ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی‘ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ فِیْ حَدِیْثِہٖ (فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقِرَائَ ۃِ مِنْ حَیْثُ انْتَہٰی أَبُوْ بَکْرٍ) .فَفِیْ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَطَعَ الْقِرَائَ ۃَ‘ وَقَرَأَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ کَانَ الْاِمَامَ‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ‘ لَمْ یَقْرَأْ‘ لِأَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃَ کَانَتْ صَلَاۃً یُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا عَلِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَوْضِعَ الَّذِیْ انْتَہَی إِلَیْہِ أَبُوْ بَکْرٍ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ‘ وَلَا عَلِمَہُ مَنْ خَلْفَ أَبِیْ بَکْرٍ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا وَصَفْنَا أَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃَ‘ کَانَتْ مِمَّا یُجْہَرُ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ‘ وَقَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا‘ وَکَانَ النَّاسُ جَمِیْعًا لَا یَخْتَلِفُوْنَ أَنَّ الْمَأْمُوْمَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ‘ کَمَا یَقْرَأُ الْاِمَامُ .ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِیْ تِلْکَ الصَّلَاۃِ إِمَامًا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ دُخُوْلَ الْمَأْمُوْمِ فِیْ صَلَاۃِ الْاِمَامِ‘ قَدْ یُوْجِبُ فَرْضًا عَلَی الْمَأْمُوْمِ‘ وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ، وَلَمْ نَرَہُ یُسْقِطُ عَنْہُ فَرْضًا قَدْ کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ .فَمِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْمُسَافِرَ یَدْخُلُ فِیْ صَلَاۃِ الْمُقِیْمِ‘ فَیَحَبُّ عَلَیْہِ أَنْ یُصَلِّیَ صَلَاۃَ الْمُقِیْمِ أَرْبَعًا‘ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ وَاجِبًا عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہِ مَعَہٗ، وَإِنَّمَا أَوْجَبَہُ عَلَیْہٖ‘ دُخُوْلُہُ مَعَہٗ۔ وَرَأَیْنَا مُقِیْمًا لَوْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃِ مُسَافِرٍ‘ صَلّٰی بِصَلَاتِہٖ، حَتّٰی اِذَا فَرَغَ أَتَیْ بِتَمَامِ صَلَاۃِ الْمُقِیْمِ‘ فَلَمْ یَسْقُطْ عَنِ الْمُقِیْمِ فَرْضٌ بِدُخُوْلِہِ مَعَ الْمُسَافِرِ‘ وَکَانَ فَرْضُہُ عَلٰی حَالِہٖ غَیْرَ سَاقِطٍ مِنْہُ شَیْئٌ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الصَّحِیْحُ الَّذِیْ کَانَ عَلَیْہِ فَرْضُ الْقِیَامِ اِذَا دَخَلَ مَعَ الْمَرِیْضِ‘ الَّذِیْ قَدْ سَقَطَ عَنْہُ فَرْضُ الْقِیَامِ فِیْ صَلَاتِہٖ، أَنْ لَا یَکُوْنَ ذٰلِکَ الدُّخُوْلُ مُسْقِطًا عَنْہُ فَرْضًا کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہِ فِی الصَّلَاۃِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْعَبْدَ الَّذِیْ لَا جُمُعَۃَ عَلَیْہِ‘ یَدْخُلُ فِی الْجُمُعَۃِ‘ فَیُجْزِیْہِ مِنَ الظُّہْرِ‘ وَیَسْقُطُ عَنْہُ فَرْضٌ قَدْ کَانَ عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ مَعَ الْاِمَامِ فِیْہَا .قِیْلَ لَہٗ : ھٰذَا یُؤَکِّدُ مَا قُلْنَا‘ وَذٰلِکَ أَنَّ الْعَبْدَ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ جُمُعَۃٌ قَبْلَ دُخُوْلِہِ فِیْہَا‘ فَلَمَّا دَخَلَ فِیْہَا مَعَ مَنْ ہِیَ عَلَیْہٖ‘ کَانَ دُخُوْلُہُ إِیَّاہَا یُوْجِبُ عَلَیْہِ مَا ہُوَ وَاجِبٌ عَلٰی إِمَامِہٖ ‘ فَصَارَ بِذٰلِکَ اِذَا وَجَبَ عَلَیْہِ مَا ہُوَ وَاجِبٌ عَلٰی إِمَامِہٖ ‘ فِیْ حُکْمِ مُسَافِرٍ لَا جُمُعَۃَ عَلَیْہِ دَخَلَ فِی الْجُمُعَۃِ‘ فَقَدْ صَارَتْ وَاجِبَۃً عَلَیْہِ لِوُجُوْبِہَا عَلٰی إِمَامِہٖ ‘ وَصَارَتْ مُجْزِئَۃً عَنْہُ مِنَ الظُّہْرِ‘ لِأَنَّہَا صَارَتْ بَدَلًا مِنْہَا .فَکَذٰلِکَ الْعَبْدُ‘ لَمَّا وَجَبَتْ عَلَیْہِ الْجُمُعَۃُ بِدُخُوْلِہِ فِیْہَا أَجْزَأَتْہُ مِنَ الظُّہْرِ‘ لِأَنَّہَا صَارَتْ بَدَلًا مِنْہَا .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ دُخُوْلَ الرَّجُلِ فِیْ صَلَاۃٍ غَیْرُہٗ، قَدْ یُوْجِبُ عَلَیْہِ مَا لَمْ یَکُنْ وَاجِبًا عَلَیْہٖ‘ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ فِیْہَا‘ وَلَا یَسْقُطُ عَنْہُ‘ مَا کَانَ وَاجِبًا عَلَیْہِ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّحِیْحَ الَّذِی‘ الْقِیَامُ فِی الصَّلَاۃِ وَاجِبٌ عَلَیْہٖ‘ اِذَا دَخَلَ مَعَ مَنْ قَدْ سَقَطَ عَنْہُ فَرْضُ الْقِیَامِ فِیْ صَلَاتِہٖ، لَمْ یَکُنْ یَسْقُطُ عَنْہُ بِدُخُوْلِہِ مِنَ الْقِیَامِ‘ مَا کَانَ وَاجِبًا عَلَیْہِ قَبْلَ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ .وَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ: لَا یَجُوْزُ لِصَحِیْحٍ أَنْ یَأْتَمَّ بِمَرِیْضٍ یُصَلِّیْ قَاعِدًا‘ وَإِنْ کَانَ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ .وَیَذْہَبُ إِلٰی أَنَّ مَا کَانَ مِنْ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا فِیْ مَرَضِہِ بِالنَّاسِ وَہُمْ قِیَامٌ مَخْصُوْصٌ‘ لِأَنَّہٗ قَدْ فَعَلَ فِیْہَا مَا لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ بَعْدَہٗ أَنْ یَفْعَلَہٗ، مِنْ أَخْذِہِ فِی الْقِرَائَ ۃِ‘ مِنْ حَیْثُ انْتَہٰی أَبُوْ بَکْرٍ‘ وَخُرُوْجِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنَ الْاِمَامَۃِ إِلٰی أَنْ صَارَ مَأْمُوْمًا فِیْ صَلَاۃٍ وَاحِدَۃٍ‘ وَھٰذَا لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِہٖ‘ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِیْنَ جَمِیْعًا فَدَلَّ ذٰلِکَ‘ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَدْ کَانَ خُصَّ فِیْ صَلَاتِہٖ تِلْکَ‘ بِمَا مُنِعَ مِنْہُ غَیْرُہٗ .
٢٣١٧: ابو بردہ بن ابو موسیٰ نے اپنے والد ابو موسیٰ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا ابوبکر (رض) کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ (میں نے کہا) ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اس پر بھی آپ نے فرمایا جاؤ لوگوں کو کہو کہ وہ ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہیں تم تو یوسف کو مشورہ دینے والیاں ہو۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) آپ کی زندگی میں (آپ کے مصلیٰ پر امامت کے لئے) کھڑے ہوئے۔ ان کے خلاف دلیل یہ ہے اگرچہ یہ روایت جس کا انھوں نے تذکرہ کیا وہ مروی ہے مگر نماز میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ امام تھے (نہ کہ مقتدی) اور وہ اس طرح کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اسود والی روایت میں فرمایا (فعقد رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن یسار ابی بکر) کہ آپ ابوبکر (رض) کے بائیں جانب بیٹھ گئے اور یہ امام کے بیٹھنے کا مقام ہے۔ اگر جناب ابوبکر (رض) امام ہوتے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دائیں جانب بیٹھتے اب جبکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بائیں جانب بیٹھے اور ابوبکر (رض) آپ کی دائیں جانب تھے۔ تو یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ امام تھے اور حضرت ابوبکر (رض) مقتدی تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابن عباس (رض) نے اپنی روایت میں یہ بات ذکر کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت کو وہیں سے شروع فرمایا جہاں تک ابوبکر (رض) پہنچے تھے۔ اس سے یہ دلالت میسر آئی کہ ابوبکر (رض) نے قراءت کو روک دیا اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت شروع فرمائی۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ آپ امام تھے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ قراءت نہ کرتے کیونکہ وہ ایسی نماز تھی جس میں قراءت کو جہر سے پڑھا جاتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ مقام قراءت کو نہ جان سکتے کہ کہاں ابوبکر (رض) نے قراءت کو چھوڑا ہے اور دوسرے مقتدیوں کو بھی معلوم نہ ہوسکتا۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ایسی نماز تھی جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں قراءت فرمائی اور اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے قراءت نہ کرنا چاہیے جیسا امام قراءت کرتا ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نماز میں امام تھے یہ تو اس باب کے آثار کو پیش نظر رکھتے ہوئے صورت ہے۔ باقی نظر و فکر کا طریق پیش کیے دیتے ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنیادی بات جس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب مقتدی امام کے ساتھ نماز میں شمولیت اختیار کرلے تو اس پر امام والے فرض کو لازم کردیتی ہے جو کہ پہلے اس پر فرض نہ تھے اور ہم یہ مقتدی کے متعلق خیال نہیں کرتے کہ اس پر جو چیز پہلے سے فرض تھی تو یہ داخل ہونا اس کے فرض کو ساقط کر دے گا۔ پس اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر کسی مقیم کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے تو اس کے ذمہ ضروری ہے کہ وہ مقیم والی نماز چار رکعت ادا کرلے حالانکہ اس مقیم امام کی اقتداء سے پہلے اس پر فرض نہ تھی (صرف دو رکعت تھیں) امام کے ساتھ شمولیت نے اس پر لازم کردی اور ہم نے دیکھا کہ اگر کوئی مقیم کسی مسافر کی اقتداء میں نماز ادا کرنے لگے تو وہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھتا رہے گا جب امام اپنی نماز کو مکمل کرلے تو یہ مقیم والی نماز کی تکمیل کرے گا۔ پس مسافر امام کی اقتداء نے اس کے چار فرض کو گرا کر دو نہیں کردیا بلکہ وہ فرض اسی طرح رہیں گے اس میں ذرہ بھر حصہ ساقط نہ ہوگا۔ پس اس نظر کا تقاضا یہ ہے۔ وہ صحت مند آدمی جس پر قیام تھا جب وہ مریض کے ساتھ نماز میں شامل ہوا کہ جس مریض کا قیام والا فرض ساقط ہوچکا تو اس کی نماز میں داخلہ اس فرض کو اس سے ساقط نہ کرے گا جو داخلہ سے پہلے اس پر لازم تھا۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ غلام جس پر جمعہ لازم ہی نہیں اگر وہ جمعہ میں شامل ہوجائے تو وہ اس کی ظہر کی جگہ کفایت کر جائے گا اور ظہر کا فریضہ اس سے ساقط ہوجائے گا اور اس کے ذمہ سے وہ فرض ساقط ہوجائے گا جو امام کے ساتھ نماز میں داخلے سے پہلے اس پر لازم تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کی یہ بات تو ہمارے قول کی مؤید ہے اور وہ اس طرح کہ غلام پر تو امام کے ساتھ داخلے سے پہلے جمعہ لازم ہی نہ تھا پھر جب وہ امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوا تو اس کا نماز میں داخلہ ہی اس پر امام والی بات کو اس پر لازم کررہا ہے۔ پس وہ اس طرح اس مسافر کے حکم میں ہوگیا کہ جس پر جمعہ فرض نہ تھا مگر وہ امام کے ساتھ جمعہ میں شامل ہوگیا تو اب اس پر وہ چیز واجب ہوگئی جو اس کے امام پر واجب تھی اور اس کا وہ جمعہ ظہر کی بجائے کفایت کر جائے گا کیونکہ وہ ظہر کا بدل بن گیا۔ پس اسی طرح جب غلام پر امام کی نماز میں داخلہ کے بعد جمعہ لازم ہوگیا اور وہ ظہر کی جگہ کفایت کر گیا۔ کیونکہ وہ ظہر کا بدل بن گیا۔ پس ہماری اس بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کے ساتھ نماز میں شامل ہوگا تو اس کی دو حالتیں ہوں گی بعض اوقات اس سے اس پر وہ چیز واجب ہوجائے گی جو داخلہ سے پہلے اس پر لازم نہ تھی اور جو داخلہ سے پہلے اس کے ذمہ لازم ہوچکی تھی وہ اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگی (بعض اوقات دوسری صورت ہوگی جو مذکور ہوئی) اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ وہ صحت مند جس پر قیام کرنا نماز میں لازم ہے جب وہ اس مریض کے ساتھ نماز میں شامل ہو جس سے فرض قیام ساقط ہے تو امام کے ساتھ نماز میں شمولیت سے اس سے فرض قیام ساقط نہ ہوگا جو کہ پہلے اس پر لازم ہوچکا تھا اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف (رح) کا قول یہی ہے۔ امام محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ صحت مند شخص کو ایسے مریض کی اقتداء ہی درست نہیں جو بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ اگرچہ وہ رکوع و سجدہ سے نماز ادا کرتا ہو۔ ان کا رجحان اس طرف ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیٹھ کر نماز پڑھنا جبکہ صحابہ کرام (رض) حالت قیام میں تھے ‘ یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ اس لیے کہ اس میں آپ نے وہ عمل کیا جو آپ کے بعد کسی کو جائز نہیں مثلاً آپ نے قراءت اس جگہ سے شروع فرمائی جہاں تک جناب ابوبکر (رض) پہنچے تھے۔ اسی طرح دوسری بات یہ ہے کہ جناب صدیق اکبر (رض) ایک ہی نماز میں امامت سے نکل کر مقتدی بن گئے اور یہ بات اجماعی ہے کہ یہ عمل آپ کے سواء اور کسی کے لیے جائز نہیں۔ پس اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ یہ عمل جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے جو دوسروں کے لیے ممنوع ہے۔
: مسلم فی الصلاۃ نمبر ١٠١۔
حاصل روایات : ان روایات ثلاثہ سے تو امامت ابوبکر (رض) معلوم ہوتی ہے اور اس میں تو کسی کو اشکال نہیں وہ بھی کھڑے تھے اور مقتدی بھی کھڑے تھے پس سابقہ روایات سے استدلال باطل ہے۔
جواب : یہ دونوں روایات بلاشبہ موجود ہیں۔
نمبر 1: مگر جن روایات پر اعتراض کیا گیا ان میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو آپ کا امام ہونا ثابت کرتے ہیں آپ بائیں طرف بیٹھے تو امام مقتدی کے بائیں طرف ہوتا ہے اور اسود کی روایت میں فقعد عن یسار ابی بکر کے الفاظ ہیں اگر ابوبکر (رض) امام ہوتے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دائیں طرف بیٹھتے آپ کا بائیں طرف بیٹھنا امامت کی واضح دلیل ہے۔
نمبر 2: روایت ابن عباس (رض) میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت کو وہیں سے شروع کیا جہاں سے ابوبکر (رض) نے چھوڑی تھی تو ابوبکر کا قراءت روک دینا اور آپ کا قراءت شروع کردینا یہ امامت کی واضح دلیل ہے اگر ابوبکر امام ہوتے تو آپ جہراً کیوں پڑھتے اور اگر جہری نماز نہ ہوتی تو آپ کو ابوبکر (رض) کی قراءت کا علم کیوں کر ہوتا اور مقتدیوں کو کیسے معلوم ہوتا کہ ابوبکر (رض) نے قراءت منقطع کردی اور آپ نے شروع کردی ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت نہیں ہے پس ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نماز میں امام تھے۔
نظر طحاوی (رح) :
مقتدی جب امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے تو اس سے مقتدی پر ایسی نماز لازم ہوجاتی ہے جو اس سے پہلے اس پر چنداں فرض نہ تھی جیسا کہ مسافر جب مقیم امام کی اقتداء کرے تو اس پر چار رکعت پوری کرنی لازم ہیں جو کہ اس پر پہلے واجب نہ تھیں اور اگر کسی پر کوئی فرض پہلے سے لازم تھا تو اقتداء امام کی وجہ سے اس میں کمی نہ آئے گی اور نہ وہ ساقط ہوگا جیسا کہ جب مقیم اگر مسافر امام کی اقتداء کرے تو مقیم کو چار رکعت لازم ہوں گی ان میں کمی نہ آئے گی بلکہ امام کی فراغت کے بعد کھڑے ہو کر وہ اپنی بقیہ نماز پوری کرے گا یہ اس کو لازم ہے۔
اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوگیا کہ مقتدی پر اقتداء سے قبل جو فرض واجب ہو وہ اقتداء کے بعد بھی باقی رہتا ہے اقتداء سے ساقط نہیں ہوتا اسی لیے صحت و تندرستی والے پر قیام فرض ہے تو معذور امام کی اقتداء کی وجہ سے فرض قیام مقتدی سے کیوں کر ساقط ہوگا فلہٰذا تندرست مقتدی کا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا لازم ہے۔
ایک ضمنی سوال :
غلام پر جمعہ لازم نہیں ہے اگر وہ جمعہ پڑھ لے تو ظہر کی بجائے اس کو کافی ہوجائے گا اور اس کے ذمہ جو فرض ہے وہ اس سے ساقط ہوجائے گا حالانکہ امام کے ساتھ اس پر جمعہ واجب ہی نہ تھا۔
جواب : جب وہ امام کے ساتھ داخل ہوگیا تو اس پر اس لیے واجب ہوا کہ اس کے امام پر واجب تھا پس وہ ظہر کا بدل بن کر کافی ہوا۔
اسی طرح جب غلام پر جمعہ اس کے جمعہ میں شامل ہونے کی وجہ سے لازم ہوا اور ظہر کی طرف سے بدل کی بناء پر کافی ہوا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ آدمی جب کسی دوسرے کی نماز میں شامل ہوجائے تو کبھی اس پر وہ لازم ہ وجاتا ہے جو اس پر داخلے سے پہلے لازم نہ تھا اور اس سے وہ ساقط نہیں ہوتا جو اس پر پہلے لازم تھا پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ تندرست پر تو قیام پہلے لازم ہے جب وہ اس شخص کے ساتھ نماز میں شامل ہوا جس سے قیام کا فرض ساقط ہے تو اس کے ساتھ نماز میں شامل ہونے سے اس کا اپنا فرض تو ساقط نہ ہوگا اور وہ قیام ہے۔
یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔ البتہ امام محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ تندرست کو مریض کی اقتداء درست نہیں جبکہ وہ رکوع و سجدہ کی طاقت رکھتا ہو۔
اب رہا یہ سوال کہ بہت سی روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایام مرض میں بیٹھ کر صحابہ کو نماز پڑھانا ثابت ہے جبکہ صحابہ کرام قیام کی حالت میں تھے تو وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات آپ کے ساتھ مخصوص ہے اس میں کئی ایسے افعال بھی ثابت ہیں جو اور کسی کو جائز نہیں مثلاً آپ نے اسی جگہ سے قراءت شروع کردی جہاں سے حضرت ابوبکر (رض) نے چھوڑی اور ایک ہی نماز میں ابوبکر (رض) امام تھے پھر وہ مقتدی بن گئے اور یہ باتیں سب کے ہاں آپ کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں ہیں اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ نماز آپ کے ساتھ مخصوص اور دوسروں کو ایسا کرنا درست نہیں۔
نوٹ : امام طحاوی (رح) نے فریق ثانی کے مؤقف کو دلیل سے خوب ثابت و مضبوط کیا مگر اس باب میں ایک انوکھا انداز یہ رکھا کہ امام محمد (رح) کا مسلک بیان کر کے فقط ان کی دلیل تو پیش کردی مگر اس کے متعلق سوال و جواب سے اپنے قلم کو روک لیا شاید ان کا بھی تخصیص کی طرف میلان ہو واللہ اعلم۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔