HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2422

۲۴۲۲: فَإِنَّ أَبَا بَکْرَۃَ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ شِہَابٍ‘ قَالَ : قُلْتُ لِعُرْوَۃِ : مَا کَانَ یَحْمِلُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَلٰی أَنْ تُصَلِّیَ فِی السَّفَرِ أَرْبَعًا؟ فَقَالَ : تَأَوَّلَتْ مَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ فِیْ إِتْمَامِ الصَّلَاۃِ بِ " مِنًی " .وَقَدْ ذَکَرْنَا مَا تَأَوَّلَ فِیْ إِتْمَامِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الصَّلَاۃَ بِ " مِنًی " فَکَانَ مَا صَحَّ مِنْ ذٰلِکَ ہُوَ أَنَّہٗ کَانَ مِنْ أَجْلِ نِیَّتِہِ لِلْاِقَامَۃِ .فَإِنْ کَانَ مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ‘ کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُتِمُّ الصَّلَاۃَ‘ فَإِنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَتْ لَا یَحْضُرُہَا صَلَاۃٌ إِلَّا نَوَتْ إقَامَۃً فِیْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ‘ یَجِبُ عَلَیْہَا بِہَا إِتْمَامُ الصَّلَاۃِ‘ فَتُتِمُّ الصَّلَاۃَ لِذٰلِکَ .فَیَکُوْنُ إِتْمَامُہَا وَہِیَ فِیْ حُکْمِ الْمُقِیْمِیْنَ‘ لَا فِیْ حُکْمِ الْمُسَافِرِیْنَ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : کَانَ ذٰلِکَ مِنْہَا‘ لِمَعْنًیْ غَیْرِ ھٰذَا‘ وَہُوَ أَنِّیْ سَمِعْتُ أَبَا بَکْرَۃَ یَقُوْلُ : قَالَ أَبُوْ عُمَرَ کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ فَکَانَتْ تَقُوْلُ : کُلُّ مَوْضِعٍ أَنْزِلُہُ‘ فَہُوَ مَنْزِلُ بَعْضِ بَنِیَّ‘ فَتَعُدُّ ذٰلِکَ مَنْزِلًا لَہَا‘ وَتُتِمُّ الصَّلَاۃَ مِنْ أَجْلِہٖ۔ وَھٰذَا - عِنْدِی - فَاسِدٌ‘ لِأَنَّ عَائِشَۃَ وَإِنْ کَانَتْ ہِیَ أُمُّ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبُو الْمُؤْمِنِیْنَ‘ وَہُوَ أَوْلٰی بِہِمْ مِنْ عَائِشَۃَ .فَقَدْ کَانَ یَنْزِلُ فِیْ مَنَازِلِہِمْ‘ فَلاَ یَخْرُجُ بِذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ السَّفَرِ الَّذِیْ یُقْصَرُ فِیْہِ الصَّلَاۃُ إِلَی حُکْمِ الْاِقَامَۃِ الَّتِیْ تُکْمَلُ فِیْہَا الصَّلَاۃُ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : کَانَ مَذْہَبُ عَائِشَۃَ فِیْ قَصْرِ الصَّلَاۃِ أَنَّہٗ یَکُوْنُ لِمَنْ حَمَلَ الزَّادَ وَالْمَزَادَ‘ عَلٰی مَا رَوَیْنَا‘ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَکَانَتْ تُسَافِرُ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ کِفَایَۃٍ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَتَرَکَتْ لِھٰذَا الْمَعْنٰی قَصْرَ الصَّلَاۃِ .فَلَمَّا تَکَافَأَتْ ھٰذِہِ التَّأْوِیْلَاتُ فِیْ فِعْلِ عُثْمَانَ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ لَزِمَنَا أَنْ نَنْظُرَ حُکْمَ قَصْرِ الصَّلَاۃِ‘ مَا یُوْجِبُہُ .فَکَانَ الْأَصْلُ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا کَانَ مُقِیْمًا فِیْ أَہْلِہٖ، فَحُکْمُہٗ فِی الصَّلَاۃِ حُکْمُ الْاِقَامَۃِ‘ وَسَوَائٌ کَانَ فِیْ إقَامَتِہِ طَاعَۃٌ أَوْ مَعْصِیَۃٌ‘ لَا یَتَغَیَّرُ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ حُکْمُہٗ، فَکَانَ حُکْمُہٗ تَمَامَ الصَّلَاۃِ یَجِبُ عَلَیْہِ بِالْاِقَامَۃِ خَاصَّۃً‘ لَا بِطَاعَۃٍ‘ وَلَا بِمَعْصِیَۃٍ ثُمَّ اِذَا سَافَرَ‘ خَرَجَ بِذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ الْاِقَامَۃِ .فَقَدْ جَرٰی فِیْ ھٰذَا مِنَ الْاِخْتِلَافِ‘ مَا قَدْ ذَکَرْنَا .فَقَالَ قَوْمٌ : لَا یَجِبُ لَہٗ حُکْمُ التَّقْصِیْرِ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ السَّفَرُ سَفَرَ طَاعَۃٍ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : یَجِبُ لَہٗ حُکْمُ التَّقْصِیْرِ فِی الْوَجْہَیْنِ جَمِیْعًا .فَلَمَّا کَانَ حُکْمُ الْاِتْمَامِ یَجِبُ لَہٗ فِی الْاِقَامَۃِ بِالْاِقَامَۃِ خَاصَّۃً‘ لَا بِطَاعَۃٍ وَلَا بِغَیْرِہَا‘ کَانَ کَذٰلِکَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ التَّقْصِیْرِ یَجِبُ لَہٗ فِی السَّفَرِ بِالسَّفَرِ خَاصَّۃً‘ لَا بِطَاعَۃٍ وَلَا غَیْرِہَا‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا بَیَّنَّا وَشَرَحْنَا .وَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ التَّقْصِیْرَ إِنَّمَا یَجِبُ لَہٗ بِحُکْمِ السَّفَرِ خَاصَّۃً لَا بِغَیْرِہِ‘ ثَبَتَ أَنَّہٗ یَقْصُرُ مَا کَانَ مُسَافِرًا فِی الْأَمْصَارِ وَفِیْ غَیْرِہَا لِأَنَّ الْعِلَّۃَ الَّتِیْ لَہَا تُقْصَرُ فِی السَّفَرِ الَّذِیْ لَمْ یَخْرُجْ مِنْہُ بِدُخُوْلِہِ الْأَمْصَارَ .وَجَمِیْعُ مَا بَیَّنَّا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَصَحَّحْنَا‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٤٢٢: ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے عروہ سے سوال کیا کہ حضرت عائشہ (رض) نے سفر میں چار کیوں پڑھیں تو اس نے کہا کہ انھوں نے وہی تاویل کی جو عثمان (رض) نے منیٰ میں نماز کو مکمل پڑھنے کی کی تھی۔ کہ انھوں نے اقامت کی نیت کرلی تھی اس سے یہ ثابت ہوا کہ جب نماز کا وقت آتا تو وہ اس مقام پر اقامت کی نیت کرلیتیں تو ان کے قصر چھوڑنے کی وجہ نیت اقامت سے مقیم بن جانا تھا جس کی وجہ سے وہ مقیمین والی نماز پڑھتیں ایسا نہیں تھا کہ وہ مسافرت کی نیت ہوتے ہوئے مکمل پڑھتی تھیں۔ ہم نے حضرت عثمان (رض) کے منیٰ میں چار رکعات ادا کرنے کی جو صحیح تاویل نقل کی ہے۔ وہ یہی تھی کہ آپ نے اقامت کی نیت کی تھی۔ پس حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بھی نماز کو اسی وجہ سے پوری کرتی ہوں ‘ ہر نماز کے وقت وہ نیت اقامت کرلیتی ہوں۔ جس کی وجہ سے ان پر نماز کو مکمل پڑھنا لازم ہو۔ چنانچہ وہ نماز کو مکمل کرتیں۔ فلہذا آپ کا مکمل نماز پڑھنا اس لیے ہوا کہ آپ مقیمین کے حکم میں تھیں ‘ سرے سے مسافرین کے حکم ہی میں نہ تھیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ کسی اور وجہ سے نماز پوری پڑھتی تھیں۔ وہ یہ کہ ابو عمر نے ابوبکرہ (رض) کو کہتے سنا کہ وہ فرماتیں میں مؤمنوں کی ماں ہوں ہر جگہ جہاں اتروں وہ میرے بیٹوں کی منزل و مکان ہے۔ وہ اس کو اپنا ٹھکانا شمار کر کے نماز کو مکمل کرتیں۔ مگر میں ابو جعفر کے ہاں یہ وجہ فاسد ہے۔ کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بلاشبہ امّ المؤمنین ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمنزلہ مؤمنوں کے باپ کے ہیں اور آپ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی بنسبت مؤمنوں کے قریب تر ہیں اور آپ ان کے مکانات میں اترنے کے باوجود آپ کو یہ نزول اجلال مسافروں کے حکم سے نہ نکالتا تھا اور آپ قصر چھوڑ کر مکمل نماز ادا نہ فرماتے تھے (فتدبر) ۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا مذہب نماز کو قصر کرنے کے سلسلہ میں وہ تھا جو ہم نے حضرت عثمان (رض) سے نقل کیا کہ جو زاد راہ اور مشکیزہ رکھے اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سفر فرماتیں تو ان کی ضرورت نہ ہوتی اسی وجہ سے انھوں نے نماز میں قصر کو ترک فرمایا جب حضرت عثمان اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے اقوال میں یہ تاویلات ذکر کی جا چکیں تو اب ہم نظر و فکر کے اعتبار سے جو چیز لازم آتی ہے اس پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں یہ اصل پایا گیا کہ جب آدمی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہو تو اس کا حکم اقامت والا ہوجاتا ہے۔ خواہ اقامت اطاعت کی ہو یا گناہ کی ہو اس کا حکم کسی لحاظ سے تبدیل نہ ہوگا۔ پس اسے نماز کو پورا پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس پر اقامت کی وجہ سے نماز خصوصاً کامل فرض لازم ہوں گے نہ کہ طاعت و معصیۃ کے سبب سے۔ پھر جب وہ سفر کرے گا تو اس کی وجہ سے وہ مقیم کے حکم سے نکل جائے گا اس سلسلہ جو اختلاف تھا جس کا تذکرہ گزشتہ سطور میں کردیا گیا۔ بعض نے کہا کہ اس پر قصر اس وقت لازم ہے جبکہ یہ سفر بھی اطاعت والا ہو اور دوسروں کا کہنا یہ ہے طاعت و معصیت کے ہر دو سفروں میں اس کو قصر کرنا ہوگا۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب اتمام کا حکم خصوصاً اقامت کی بناء پر تھا اس میں طاعت و معصیت کا دخل نہ تھا تو قیاس یہی چاہتا ہے کہ قصر کے حکم کا دارومدار بھی سفر پر ہو ‘ اس طاعت و غیر طاعت کا کچھ دخل نہ ہو۔ جیسا کہ ہم نے کھول کر بتلایا غور و فکر اسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصر خصوصی طور پر سفر کی وجہ سے لازم آتا اس میں اور کسی سبب کا دخل نہیں ‘ تو اس سے یہ بات پختہ ہوگئی کہ شہروں میں بھی شہر کے علاوہ مقامات میں وہ جب تک مسافر رہے گا وہ قصر کرتا رہے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس علت کی وجہ سے قصر ہے وہ سفر ہے جس سے شہروں کا داخلہ خارج نہیں کرتا۔ ہم نے جو کچھ اس بات میں بیان کیا اور اس کی تصحیح دلائل سے کی وہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسلم ١؍٢٤١‘ صلوۃ المسافرین۔
ایک انوکھا قول :
ابو عمر کہتے ہیں کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہا کرتی تھیں ہر جگہ جہاں میں اتروں وہ میرے بیٹوں کی جگہ ہے پس اس کو اپنا گھر شمار کر کے وہ نماز کو مکمل کرتیں۔
جواب : یہ غلط قول ہے کیونکہ حضرت عائشہ (رض) کو امّ المؤمنین ہونے کی وجہ سے سفر کی ہر جگہ کو اپنا گھر قرار دینا درست ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوالمؤمنین ہیں آپ کو تو بدرجہ اولیٰ حق ہے مگر آپ نے قصر کو ترک نہیں کیا اور کسی کو کیسے درست ہے کہ وہ اس کو وجہ بنا کر ترک قصر اختیار کرے۔ آپ ان مقامات پر اترتے اور سفر میں قصر کرتے اور حکم اقامت والے مقامات میں اقامت کرتے تھے۔ پس یہ قول باطل ہے۔
بعض کا قول :
اس سلسلہ میں بعض نے کہا کہ وہ بھی زاد راہ اور مشکیزہ والے کو مسافر قرار دیتی تھیں جیسا کہ ہم حضرت عثمان (رض) کے متعلق نقل کرچکے اور جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان کا سفر اس حالت میں ہوتا کہ یہ سب اسباب مہیا ہوتے تھے۔ پس اسی وجہ سے وہ قصر کو ترک کرتی تھیں۔
ان قابل اعتراض روایات کی تاویل سے فارغ ہوچکے تو اب عقلی اعتبار سے مسئلہ قصر کو عرض کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
جب آدمی گھر میں مقیم ہو تو اس کا حکم نماز کے سلسلہ میں اقامت والا ہے خواہ ان کی اقامت اطاعت کے لیے ہو یا معصیت کے لیے ہو۔ اس کا حکم کسی چیز سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حکم نماز کو مکمل پڑھنا ہے جو کہ خاص طور پر اقامت کی وجہ سے لازم ہوا ہے اس کا طاعت و معصیت سے واسطہ نہیں پھر جب اس نے سفر کیا تو اقامت کے حکم سے خارج ہوگیا اور اس میں یہ اختلاف چل نکلا کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ قصر کی اجازت اسی وقت ہے جبکہ یہ سفر خاص اطاعت کا ہو دوسروں نے کہا ہر صورت میں اس کو قصر کرنی ہوگی جب اقامت میں طاعت و معصیت کی وجہ سے حکم اقامت یعنی تکمیل صلوۃ نہیں بدلتا تو تقاضا نظریہ ہے کہ قصر کا حکم بھی سفر میں خاص ہے اس کا طاعت و معصیت سے تعلق نہیں پس اسے بھی نیت معصیت سے بدلنا نہ چاہیے۔
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصر سفر کی وجہ سے ہے کسی اور وجہ سے نہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ اس وقت تک قصر کرے گا جب تک وہ حالت سفر میں ہوگا خواہ شہر میں ہو یا جنگل میں کیونکہ قصر کی علت سفر ہے اور کسی شہر میں داخل ہونے سے اس علت سے خارج نہیں ہوتا پس حکم قصر ہی ہوگا۔
اس باب میں جن اقوال کو صحیح قرار دیا وہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔