HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2650

۲۶۵۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَدَ شَاۃً مَیْتَۃً أَعْطَیْتَہٗ َا مَوْلَاۃٌ لِمَیْمُوْنَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنَ الصَّدَقَۃِ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِجِلْدِہَا قَالُوْا : إِنَّہَا مَیْتَۃٌ‘ قَالَ إِنَّمَا حَرُمَ أَکْلُہَا) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الَّذِیْ حَرُمَ مِنَ الشَّاۃِ بِمَوْتِہَا‘ ہُوَ الَّذِیْ یُرَادُ مِنْہَا لِلْأَکْلِ لَا غَیْرُ ذٰلِکَ مِنْ جُلُوْدِہَا وَعَصَبِہَا .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہِ أَنَّ الْعَصِیْرَ لَا بَأْسَ بِشُرْبِہٖ، وَالْاِنْتِفَاعِ بِہٖ، مَا لَمْ یَحْدُثْ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَمْرِ .فَإِذَا حَدَثَتْ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَمْرِ‘ حَرُمَ بِذٰلِکَ‘ ثُمَّ لَا یَزَالُ حَرَامٌ کَذٰلِکَ حَتّٰی تَحْدُثَ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَلِّ .فَإِذَا حَدَثَتْ فِیْہِ صِفَاتُ الْخَلِّ حَلَّ .فَکَانَ یَحِلُّ بِحُدُوْثِ الصِّفَۃِ‘ وَیَحْرُمُ بِحُدُوْثِ صِفَۃٍ غَیْرِہَا‘ وَإِنْ کَانَ بَدَنًا وَاحِدًا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ جِلْدُ الْمَیْتَۃِ‘ یَحْرُمُ بِحُدُوْثِہِ صِفَۃُ الْمَوْتِ فِیْہٖ‘ وَیَحِلُّ بِحُدُوْثِ صِفَۃِ الْأَمْتِعَۃِ فِیْہِ مِنَ الثِّیَابِ وَغَیْرِہَا فِیْہِ .وَإِذَا دُبِغَ فَصَارَ کَالْجُلُوْدِ وَالْأَمْتِعَۃِ‘ فَقَدْ حَدَثَتْ فِیْہِ صِفَۃُ الْحَلَالِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَّحِلَّ أَیْضًا بِحُدُوْثِ تِلْکَ الصِّفَۃِ فِیْہِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی : أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمَّا أَسْلَمُوْا‘ لَمْ یَأْمُرْہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِطَرْحِ نِعَالِہِمْ وَخِفَافِہِمْ وَأَنْطَاعِہِمْ‘ الَّتِیْ کَانُوْا اتَّخَذُوْہَا فِیْ حَالِ جَاہِلِیَّتِہِمْ‘ وَإِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنْ مَیْتَۃٍ‘ أَوْ مِنْ ذَبِیْحَۃٍ .فَذَبِیْحَتُہُمْ حِیْنَئِذٍ إِنَّمَا کَانَتْ ذَبِیْحَۃَ أَہْلِ الْأَوْثَانِ‘ فَہِیَ - فِیْ حُرْمَتِہَا عَلٰی أَہْلِ الْاِسْلَامِ - کَحُرْمَۃِ الْمَیْتَۃِ .فَلَمَّا لَمْ یَأْمُرْہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِطَرْحِ ذٰلِکَ‘ وَتَرْکِ الْاِنْتِفَاعِ بِہٖ، ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ قَدْ خَرَجَ مِنْ حُکْمِ الْمَیْتَۃِ وَنَجَاسَتِہَا بِالدِّبَاغِ‘ إِلَی حُکْمِ سَائِرِ الْأَمْتِعَۃِ وَطَہَارَتِہَا .وَکَذٰلِکَ کَانُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا افْتَتَحُوْا بُلْدَانَ الْمُشْرِکِیْنَ لَا یَأْمُرُہُمْ بِأَنْ یُتَحَامَوْا خِفَافَہُمْ وَنِعَالَہُمْ وَأَنْطَاعَہُمْ وَسَائِرَ جُلُوْدِہِمْ‘ فَلاَ یَأْخُذُوْا مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا‘ بَلْ کَانَ لَا یَمْنَعُہُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ‘ فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَیْضًا‘ عَلٰی طَہَارَۃِ الْجُلُوْدِ بِالدِّبَاغِ .وَلَقَدْ رُوِیَ فِیْ ھٰذَا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ
٢٦٥٠: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مردہ بکری پائی جو حضرت میمونہ (رض) کی لونڈی کو صدقہ میں دی گئی تھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا انھوں نے کہا کہ وہ مردہ ہے آپ نے فرمایا اس کا کھانا حرام ہے۔ اس روایت سے یہ دلالت مل گئی کہ بکری کی موت سے جو چیز حرام ہوئی وہ اس کے گوشت کا کھانا ہے نہ کہ پوست اور پٹھا۔ آثار کے پیش نظر اس باب کا یہی مفہوم ہے۔ البتہ نظر و فکر کے لحاظ سے تو ملاحظہ فرمائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اتفاقی قاعدہ انگور کے نچوڑ سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے جب تک کہ اس میں شراب کی خصوصیات پیدا نہ ہوں ‘ جب شراب کی صفات اس میں پیدا ہوجائیں تو اس سے وہ حرام ہوجائے گا۔ پھر وہ حرام باقی رہے گا جب تک اس میں سرکہ کی صفات پیدا نہ کی جائیں۔ پس جب اس میں سرکے والی صفات آجائیں گی تو وہ حلال ہوجائے گا۔ تو گویا وہ چند صفات کے آنے سے حرام ہوا اور جدید صفات کے پیدا ہونے سے حلال ہوگیا ‘ جو پہلے سے مختلف تھیں۔ اگرچہ اس کا وجود ایک ہی ہو۔ پس غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ مردار کے چمڑے کا حال بھی اسی طرح ہو۔ کہ جب اس میں صفات میت پیدا ہوجائیں تو حرام ہوجائے اور جب اس میں برتنے کی چیزوں والی صفات آجائیں تو وہ اس وقت حلال ہوجائیں مثلاً کپڑے وغیرہ۔ جب اس میں دباغت کرلی گئی تو وہ چمڑے اور سامان کی طرح ہوگیا۔ اس سے اس میں حلت کی صفت آگئی۔ اس گزشتہ بات پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس صفت کے آجانے سے وہ حلال ہوجائے۔ ایک اور دلیل سنیے ! ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) جب اسلام لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جوتے اور موزے اور چمڑے پھینک دینے کا حکم نہیں فرمایا جن کو انھوں نے زمانہ جاہلیت میں حاصل کیا تھا اور بلاشبہ وہ مردار کی کھال یا ذبیحہ کی کھال سے تھے اور ان کا ذبیحہ بھی تو بت پرستوں کا ذبیحہ ہے۔ بت پرستوں کا ذبیحہ مسلمان کے لیے مردار کا حکم رکھتا ہے۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پھینکنے کا حکم نہ فرمایا اور ان کو اس سے فائدہ حاصل کرنے دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ مردار کے حکم سے خارج تھے اور دباغت کی وجہ ان کی نجاست دوسرے سامان کی طرح طہارت میں بدل چکی تھی۔ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں اسی طرح رہتے تھے جب وہ مشرکین کے کسی علاقہ کو فتح کرتے تو آپ انھیں ان کے موزوں ‘ جوتوں ‘ چمڑوں دیگر کھالوں کو پھینکنے کا حکم نہ فرماتے تھے بلکہ ان کو ان میں سے کسی چیز کے استعمال سے نہ روکتے تھے۔ اس میں ان چمڑوں کے دباغت کے ساتھ پاک ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بات حضرت جابر (رض) سے اس طرح مروی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٦١‘ مسلم فی الحیض نمبر ١٠١‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٣٨‘ نمبر ٤١٢٠‘ نسائی فی الفرع والعتیرہ باب ٤‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٢٥‘ نمبر ٣٦١٠‘ موطا مالک نمبر ١٦۔
حاصل روایات : مرنے سے بکری کا گوشت حرام ہوا اور وہی مراد ہے کھال اور پٹھے تو کھائے نہیں جاتے کہ وہ اس تحریم کے حکم میں آئیں۔
آثار کے طریقہ سے تو اس باب کا یہ حکم ہے۔ بطریق نظر اس کا حکم ہم بیان کئے دیتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ عصیر عنب وغیرہ کو پینا اور اس سے فائدہ حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شراب کی خصوصیات پیدا نہ ہوں جب اس میں شراب کی خصوصیات آجائیں گی تو وہ حرام ہوگا اور پھر وہ حرام ہی رہے گا یہاں تک کہ اس میں سرکہ کی صفات پیدا نہ ہوں جب سرکہ کی صفات آجائیں تو حلال ہوجائے گا۔
تو گویا صفات کے پائے جانے سے اس کے حکم حلت و حرمت میں فرق پڑگیا خواہ وہ ایک ہی شے تھی۔ پس مردار کے چمڑے کا حال بھی کچھ اسی طرح نظر آتا ہے موت کی صفت پیدا ہوتے ہی حرام ہوگیا اور کپڑے وغیرہ استعمالی چیز کی صفت پیدا ہونے سے حلال بن گیا دباغت سے پہلے وہ ناپاک تھا اب دباغت کے بعد وہ پاک ہوگیا۔
نظر ثانی :
جب اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان لائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جوتے ‘ موزے ‘ بچھانے والے چمڑے پھینکنے کا حکم نہیں فرمایا جو انھوں نے زمانہ جاہلیت میں بنائے تھے حالانکہ وہ مردار جانور یا مذبوحہ جانوروں سے حاصل شدہ کھالوں سے بنے ہوئے تھے بلکہ ان کا ذبیحہ بھی بتوں کے نام نیازات کا ذبیحہ تھا اور وہ تو مسلمان کے لیے مردار سے کم درجہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پھینکنے دینے اور ان سے انتفاع ترک کرنے کا نہیں فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دباغت کی وجہ سے نجاست سے خارج ہوچکے تھے اور ان کا حکم عام سامان کی طرح طہارت کا ہوچکا تھا بالکل اسی طرح جب صحابہ کرام نے مشرکین کے علاقوں کو فتح کیا تو ان کے جوتوں ‘ موزوں اور تمام چمڑوں اور بچھانے والے چمڑوں سے بچنے کا حکم نہیں فرمایا کہ ان میں سے کسی چیز کو مت لو بلکہ ان کی کسی ایسی چیز سے نہیں روکا یہ بھی دلیل ہے کہ دباغت سے ان کے چمڑے وغیرہ پاک ہوگئے۔
اور صحابہ کرام (رض) سے روایات اس کی موید ہیں ملاحظہ ہوں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔