HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2958

۲۹۵۸ : وَہُوَ مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْیَمَانِ‘ قَالَ : أَنَا شُعَیْبٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : ثَنَا السَّائِبُ بْنُ یَزِیْدَ أَنْ حُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزّٰی أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ السَّعْدِیِّ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ قَدِمَ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ خِلَافَتِہٖ‘ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ : (أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّک تَلِیْ مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا‘ فَإِذَا أُعْطِیْتُ الْعُمَالَۃَ کَرِہْتُہَا) فَقَالَ : نَعَمْ .فَقَالَ عُمَرُ : فَمَا تُرِیْدُ إِلٰی ذٰلِکَ ؟ قُلْتُ : إِنَّ لِیْ أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا أَتَّجِرُ‘ وَأُرِیْدُ أَنْ یَّکُوْنَ عُمَالَتِیْ صَدَقَۃً عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ .فَقَالَ عُمَرُ : فَلاَ تَفْعَلْ‘ فَإِنِّیْ قَدْ کُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِیْ أَرَدْتُ‘ وَقَدْ (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْطِیْنِی الْعَطَائَ فَأَقُوْلُ : أَعْطِہٖ مَنْ ہُوَ أَفْقَرُ إِلَیْہِ مِنِّیْ‘ حَتّٰی أَعْطَانِیْ مَرَّۃً مَالًا فَقُلْتُ لَہٗ ذٰلِکَ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خُذْہُ فَتَمَوَّلْہُ فَمَا جَائَ کَ مِنْ ھٰذَا الْمَالِ‘ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ‘ وَلَا سَائِلٍ‘ فَخُذْہُ‘ وَمَا لَا فَلاَ تُتْبِعْہُ نَفْسَکَ) .قَالَ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَحْرِیْمُ الْمَسْأَلَۃِ أَیْضًا .قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ ھٰذَا عَلٰی أَمْوَالِ الصَّدَقَاتِ‘ إِنَّمَا ھٰذَا عَلَی الْأَمْوَالِ الَّتِیْ یَقْسِمُہَا الْاِمَامُ عَلَی النَّاسِ‘ فَیَقْسِمُہَا عَلٰی أَغْنِیَائِہِمْ وَفُقَرَائِہِمْ .کَمَا فَرَضَ عُمَرُ لِأَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ دَوَّنَ الدَّوَاوِیْنَ‘ فَفَرَضَ لِلْأَغْنِیَائِ مِنْہُمْ وَلِلْفُقَرَائِ ‘ فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَمْوَالُ یُعْطَاہَا النَّاسُ‘ لَا مِنْ جِہَۃِ الْفَقْرِ‘ وَلٰـکِنْ لِحُقُوقِہِمْ فِیْہَا .فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ‘ حِیْنَ أَعْطَاہُ الَّذِیْ کَانَ أَعْطَاہُ مِنْہَا قَوْلُہٗ : (أَعْطِہِ مَنْ ہُوَ أَفْقَرُ إِلَیْہِ مِنِّیْ) .أَیْ : إِنِّیْ لَمْ أُعْطِکَ ذٰلِکَ لِأَنَّک فَقِیْرٌ‘ إِنَّمَا أَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ لِمَعْنًی آخَرَ غَیْرِ الْفَقْرِ .ثُمَّ قَالَ لَہٗ (خُذْہُ‘ فَتَمَوَّلْہُ) فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّہٗ لَیْسَ مِنْ أَمْوَالِ الصَّدَقَاتِ‘ لِأَنَّ الْفَقِیْرَ لَا یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الصَّدَقَاتِ مَا یَتَّخِذُہُ مَالًا‘ کَانَ ذٰلِکَ عَنْ مَسْأَلَۃٍ مِنْہُ أَوْ عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ .ثُمَّ قَالَ : " فَمَا جَائَ کُ مِنْ ھٰذَا الْمَالِ الَّذِیْ ھٰذَا حُکْمُہٗ، وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ‘ أَیْ تَأْخُذُہٗ بِغَیْرِ إشْرَافٍ .وَالْاِشْرَافُ : أَنْ تُرِیْدَ بِہٖ مَا قَدْ نُہِیْتُ عَنْہُ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ قَوْلُہٗ (وَلَا مُشْرِفٍ) أَیْ : وَلَا تَأْخُذْ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ أَکْثَرَ مِمَّا یَجِبُ لَکَ فِیْہَا‘ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ شَرَفًا فِیْہَا (وَلَا سَائِلٍ) أَیْ : وَلَا سَائِلٍ مِنْہَا مَا لَا یَجِبُ لَک .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .فَأَمَّا مَا جَائَ فِیْ أَمْوَالِ الصَّدَقَاتِ‘ فَقَدْ أَتَیْنَا بِمَعَانِیْ ذٰلِکَ‘ فِیْمَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہٗ، مِنْ ھٰذَا الْبَابِ .
٢٩٥٨: عبداللہ بن السعدی نے بتلایا کہ میں عمر (رض) کے پاس ان کی خلافت کے زمانہ میں گیا تو انھوں نے مجھے فرمایا کیا میں نے تجھے نہیں بتلایا کہ تم لوگوں کے اعمال کے ذمہ دار بنتے ہو اور جب تمہیں تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اس کو ناپسند کرتے ہو میں نے کہا جی ہاں ! تو عمر کہنے لگے تیرے تنخواہ واپس کرنے سے کیا مقصد ہے میں نے کہا میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں تجارت بھی کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ بن جائے عمر (رض) فرمانے لگے ایسا نہ کرو میں نے بھی وہی ارادہ کیا جو تو نے ظاہر کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے عطیہ دیتے تو میں کہتا جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے اس کو دے دیں یہاں تک کہ ایک مرتبہ مجھے مال دیا تو میں نے یہی بات کہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو لے لو اور اپنے پاس جمع کرلو تمہارے پاس جو مال (بلااشراف) بلا سوال اور بلاتوقع آجائے تو اس کو لے لو۔ جو ایسا نہ ہو تو اس کی طلب میں اپنے کو مت لگاؤ۔ اگر کوئی معترض کہے کہ اس روایت میں بھی سوال کی ممانعت ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا اس روایت میں اموال صدقہ نہیں بلکہ اس سے وہ اموال مراد ہیں جن کو حاکم اغنیاء اور فقراء میں تقسیم کرتا ہے جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اموال مقرر کیے اور وہ ان میں سے اغنیاء اور فقراء سب کو تقسیم فرماتے۔ یہ اموال ان کی محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے حقوق کے بناء پر ان کو دیا جاتا ہے۔ حضرت عمر (رض) کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطیہ دیا اور انھوں نے واپس کرنا چاہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند فرمایا عمر (رض) نے کہا کہ یہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو دے دیا جاتے تو آپ نے فرمایا یہ تمارے فقیر کی وجہ سے نہیں دیا جارہا بلکہ یہ اس کے علاوہ بات کے پیش نظر ہے۔ پھر آپ نے ان کو فرمایا اس مال کو لے کر اسے اپنی ملکیت بناؤ۔ اس سے یہ ثبوت مل گیا کہ مال صدقات سے نہ تھا ۔ کیونکہ محتاج کے لیے تو مناسب نہیں کہ وہ مال کو اکٹھا کرنے کے لیے صدقہ لے ۔ خواہ وہ سوال کر کے حاصل کرے یا بغیر سوال اسے دیا جائے ۔ پھر آپ نے ان کو یہ بھی فرمایا کہ جو اس قسم کا مال تمہارے پاس آئے اور تم اس کی طرف امید باندھنے والے نہ ہو تو اسے لے لو اور ا شراف یہ ہے کہ تم اس مال کی طمع رکھنے والے ہو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور لا مشرف کا قول اس بات کا بھی احتمال رکھتا ہے۔ کہ اس میں اس بات کی ممانعت ہے کہ مسلمانوں کے اموا ل میں سے اپنے حصہ سے زائد نہ لو ۔ اگر لو گے تو وہ دوسروں پر برتری بن جائے گی جو کہ درست نہیں ‘ ‘ ولا سائلـ: کا مطلب یہ ہے کہ تم مت اس مال کا سوال کرو جو تمہارا حق نہیں بنتا ۔ ہمارے ہاں اس باب کی یہ صورت ہے۔ واللہ اعلم باقی جو آثار اموال صدقہ کے سلسلہ میں آئے ہیں ان کے معانی کی وضاحت اس باب کی پہلی سطور میں کر آئے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٨‘ نمبر ١٦٤٧۔
حاصل روایات : اس روایت سے بھی مطلق سوال کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔
الجواب : اول تو یہ مال صدقات سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق اس مال سے ہے جو امام المسلمین لوگوں کے اغنیاء و فقراء سب پر تقسیم کرتا ہے وہ مراد ہے۔ اس کی نظیر وہ اموال ہیں جو حضرت عمر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور عطیہ سال میں مقرر فرمایا اس میں ان کے فقراء و اغنیاء سب کو برابر دیا جاتا تھا یہ ان کے حق کی وجہ سے دیا جاتا اس میں فقر کا لحاظ نہ تھا۔
پس اسی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کے اس قول کو ناپسند فرمایا آپ کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ یہ مال تمہیں فقر کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا بلکہ یہ اور وجہ سے دیا جا رہا ہے پھر فرمایا اس کو لے کر اپنے مال میں جمع کرلو اس سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ مال مال صدقات سے نہ تھا کیونکہ فقیر کو بھی صدقات سے وہ مال لینے کی اجازت نہیں جس پر وہ امیر بن سکے خواہ سوال سے ہو یا غیر سوال سے۔
پھر فرمایا جو مال اس قسم کا ہو اور تیرا میلان اس کی طرف نہ ہو تو اسے لے لو۔
حاصل روایات : اشراف۔ جو چیز ممنوع ہو اس کا ارادہ کرنا۔ ولا مشرف۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جس قدر تیرا وظیفہ بنایا گیا ہے اسی کو باقی رکھو یہ باعث مشرف ہوگا ولا سائل کا معنی جو تمہارا حق نہیں اس کو مت مانگو ہمارے ہاں اس روایت کا یہی مطلب ہے صدقات کے سلسلہ میں ہم پہلے بات کہہ چکے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) اپنے دلائل کی روایات کا مفہوم ساتھ ساتھ بتلاتے گئے ہیں بلاضرورت مانگنے پر وعید کی روایات کو چار صحابہ سے اور پھر چھ صحابہ کرام سے پیش کیا اور روایت عمر (رض) اور وعید والی روایت میں شاندار تطبیق پیش کر کے ان کا محل متعین کیا ہے۔ اپنے مؤقف کو پوری قوت سے پیش کیا ہے یہ اختلاف جواز عدم جواز کا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔