HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

40

۴۰: وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ سُلَیْمَانَ أَنَّہٗ قَالَ فِیْ دَجَاجَۃٍ وَقَعَتْ فِیْ بِئْرٍ فَمَاتَتْ قَالَ یُنْزَحُ مِنْہَا قَدْرُ أَرْبَعِیْنَ دَلْوًا أَوْ خَمْسِیْنَ ، ثُمَّ یُتَوَضَّأُ مِنْہَا .فَھٰذَا مَنْ رَوَیْنَا عَنْہُ ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَابِعِیْہِمْ ، قَدْ جَعَلُوْا مِیَاہَ الْآبَارِ نَجِسَۃً بِوُقُوْعِ النَّجَاسَاتِ فِیْہَا وَلَمْ یُرَاعُوْا کَثْرَتَہَا وَلَا قِلَّتَہَا ، وَرَاعُوا دَوَامَہَا وَرُکُوْدَہَا ، وَفَرَّقُوْا بَیْنَہَا وَبَیْنَ مَا یَجْرِیْ مِمَّا سِوَاہَا .فَإِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ مَعَ مَا تَقَدَّمَہَا مِمَّا رَوَیْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ذَہَبَ أَصْحَابُنَا فِی النَّجَاسَاتِ الَّتِیْ تَقَعُ فِی الْآبَارِ وَلَمْ یَجُزْ لَہُمْ أَنْ یُخَالِفُوْہَا لِأَنَّہٗ لَمْ یُرْوَ عَنْ أَحَدٍ خِلَافُہَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَأَنْتُمْ قَدْ جَعَلْتُمْ مَائَ الْبِئْرِ نَجِسًا بِوُقُوْعِ النَّجَاسَۃِ فِیْہَا فَکَانَ یَنْبَغِیْ أَنْ لَا تَطْہُرَ تِلْکَ الْبِئْرُ أَبَدًا لِأَنَّ حِیْطَانَہَا قَدْ تَشَرَّبَتْ ذٰلِکَ الْمَائَ النَّجِسَ ، وَاسْتَکَنَّ فِیْہَا ، فَکَانَ یَنْبَغِیْ أَنْ تُطَمَّ .قِیْلَ لَہٗ : لَمْ تَرَ الْعَادَاتِ جَرَتْ عَلٰی ھٰذَا قَدْ فَعَلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ مَا ذَکَرْنَا فِیْ زَمْزَمَ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرُوْا ذٰلِکَ عَلَیْہِ وَلَا أَنْکَرَہٗ مَنْ بَعْدَہُمْ ، وَلَا رَأٰی أَحَدٌ مِنْہُمْ طَمَّہَا وَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاِنَائِ الَّذِیْ قَدْ نَجِسَ مِنْ وُلُوْغِ الْکَلْبِ فِیْہِ ؛ أَنْ یُغْسَلَ ؛ وَلَمْ یَأْمُرْ بِأَنْ یُکْسَرَ ؛ وَقَدْ شَرِبَ مِنَ الْمَائِ النَّجَسِ .فَکَمَا لَمْ یُؤْمَرْ بِکَسْرِ ذٰلِکَ الْاِنَائِ ، فَکَذٰلِکَ لَا یُؤْمَرُ بِطَمِّ تِلْکَ الْبِئْرِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْاِنَائَ یُغْسَلُ ، فَلِمَ لَا کَانَتِ الْبِئْرُ کَذٰلِکَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ الْبِئْرَ لَا یُسْتَطَاعُ غَسْلُہَا ، لِأَنَّ مَا یُغْسَلُ بِہٖ یَرْجِعُ فِیْہَا وَلَیْسَتْ کَالْاِنَائِ الَّذِیْ یُہْرَاقُ مِنْہُ مَا یُغْسَلُ بِہٖ .فَلَمَّا کَانَتَ الْبِئْرُ مِمَّا لَا یُسْتَطَاعُ غَسْلُہَا وَقَدْ ثَبَتَ طَہَارَتُہَا فِیْ حَالٍ مَا .وَکَانَ کُلُّ مَنْ أَوْجَبَ نَجَاسَتَہَا بِوُقُوعِ النَّجَاسَۃِ فِیْہَا وَقَدْ أَوْجَبَ طَہَارَتَہَا بِنَزْحِہَا وَإِنْ لَمْ یُنْزَحْ مَا فِیْہَا مِنْ طِیْنٍ .فَلَمَّا کَانَ بَقَائُ طِیْنِہَا فِیْہَا ، لَا یُوْجِبْ نَجَاسَۃَ مَا یَطْرَأُ فِیْہَا مِنَ الْمَائِ وَإِنْ کَانَ یَجْرِی عَلٰی ذٰلِکَ الطِّیْنِ کَانَ اِذَا مَا بَیْنَ حِیْطَانِہَا أَحْرٰی أَنْ لَا یَنْجُسَ ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مَأْخُوْذًا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، لَمَا طَہُرَتْ حَتّٰی تُغْسَلَ حِیْطَانُہَا وَیَخْرُجَ طِیْنُہَا وَیُحْفَرَ فَلَمَّا أَجْمَعُوْا أَنَّ نَزْحَ طِیْنِہَا وَحَفْرَہَا غَیْرُ وَاجِبٍ، کَانَ غَسْلُ حِیْطَانِہَا أَحْرَی أَنْ لَا یَکُوْنَ وَاجِبًا .وَھٰذَا کُلُّہٗ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤٠ : حماد بن سلمہ نے ابو سلیمان (رح) سے دریافت کیا اگر مرغی کنوئیں میں گر کر مرجائے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا چالیس ڈول یا پچاس ڈول کی مقدار پانی نکال دیں پھر اس سے وضو کرلیں۔ یہ جن اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تابعین (رح) نے روایت کیا انھوں نے کنووں کے پانیوں کو نجاسات کے پڑجانے سے نجس قرار دیا اور اس میں قلت اور کثرت کی رعایت نہیں کی بلکہ پانی کے دوام اور رکنے کی رعایت کی ہے اور انھوں نے چلنے والے پانی کو دیگر پانیوں سے الگ قرار دیا ہے۔ ان روایات کی طرف ان روایات سمیت جو ان سے پہلے ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہیں ہمارے علماء کنووں میں گرنے والی نجاستوں کے سلسلے میں اس طرف گئے ہیں۔ ان کو ان روایات کی مخالفت بھی جائز نہیں کیونکہ کسی سے بھی ان کی مخالفت منقول نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تم نے کنویں کے پانی کو نجاست پڑنے سے نجس (پلید) قرار دیا۔ تو اس سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کنواں کبھی بھی پاک نہ ہو کیونکہ اس کی دیواروں میں وہ پلید پانی سرایت کرچکا اور ان میں جاگزین ہوچکا۔ پس کنویں کی پاکیزگی کے لیے مناسب ہے کہ کنویں ہی کو پاٹ دیا جائے۔ اسے جواب میں یہ کہا جائے گا یہ چیز عادات سے ثابت نہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے اصحاب پیغمبر کی موجودگی میں وہ عمل کیا جو ہم نے پیچھے ذکر کیا ہے اور ان میں سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا اور نہ ہی بعد والوں میں سے کسی نے انکار کیا اور نہ ان میں سے کسی نے اس کے پاٹنے کی رائے دی بلکہ خود جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس برتن کو جس میں سے کتے نے پانی لیا تھا یہ حکم فرمایا کہ اس کو دھو دیا جائے اور آپ نے توڑنے کا حکم نہیں دیا حالانکہ پلید پانی پیالے میں سرایت کرچکا ہے تو جس طرح اس برتن کے توڑنے کا حکم نہیں اسی طرح اس کنویں کے پاٹنے کا حکم بھی نہ دیا جائے گا۔ پھر اگر کوئی یہ کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ برتنوں کو تو دھویا جاتا ہے لیکن کنووں کو آج تک دھوتے نہیں دیکھا گیا تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ کنویں کا دھونا ممکن نہیں کیونکہ اس میں جس پانی سے دھویا جائے گا وہ دوبارہ لوٹ کر اسی میں جائے گا۔ وہ برتن کی طرح نہیں ہے کہ جس میں دھوئے ہوئے پانی کو بہا دیا جاتا ہے پس جب کنواں ان چیزوں میں سے ہوگیا جن کا دھونا ممکن نہیں اور اس کی طہارت جس حال میں بھی ہو وہ ثابت ہوگئی اور ہر وہ شخص جس نے نجاست کے گر جانے سے اس کی نجاست کا حکم لگایا تھا تو اس میں سے پانی کے نکال لیے جانے کے بعد اس کا پاک ہونا لازم ہوگیا۔ اگرچہ اس کی مٹی کو نہیں نکالا گیا۔ جب اس کی مٹی کا اس میں باقی رہنا وہ اس میں تازہ نکلنے والے پانی کی نجاست کو واجب نہیں کرتا۔ خواہ وہ اسی مٹی پر ہی چل رہا ہو تو اس کی دیواروں کا نجس نہ ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا۔ اگر بطور نظر کے یہ بات مان لی جائے تو وہ پاک ہی نہیں ہوا چہ جائیکہ اس کی دیواروں کو دھو دیا جائے اور اس کی مٹی کو نکال دیا جائے اور پاٹ دیا جائے۔ پس جب اس پر سب متفق ہیں کہ اس کی مٹی اور کھدائی واجب نہیں تو اس کی دیواروں کا دھونا بدرجہ اولیٰ واجب نہ ہوگا اور یہ سب امام ابوحنیفہ، ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے۔
حاصل کلام : اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تابعین کے آثار واضح کر رہے ہیں کہ نمبر ١ نجاسات کے پڑنے سے کنوؤں کا پانی ناپاک ہوجاتا ہے نمبر ٢ اس میں انھوں نے قلت و کثرت کی رعایت نہیں کی بلکہ دوام و رکود (رکنا) کی رعایت کی ہے اور جاری پانی کو دوسرے پانیوں سے الگ شمار کیا ہے ان آثار سے اور جو اس سے پہلے ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احادیث نقل کی ہیں ہمارے علماء ان نجاسات کے سلسلے میں اس طرف گئے ہیں جو کنوؤں میں گرجاتی ہیں اور ان کو ان روایات کی مخالفت جائز بھی نہیں کیونکہ کسی سے بھی ان روایات کے خلاف قول منقول نہیں۔
ایک اعتراض :
نجاست کے گرنے سے تم نے کنوئیں کو ناپاک قرار دیا تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کنواں کبھی پاک نہ ہو خواہ سارا پانی اس میں سے نکال لیا جائے کیونکہ کنوئیں کی دیوار میں نجس پانی سرایت کرچکا اور جاگزین ہوچکا کنوئیں کو پاک کرنے کی بجائے پاٹ دینا مناسب ہوگا۔
S: عادۃً کنواں پاٹ ڈالنے کی بات دیکھنے میں نہیں آئی اور کنوئیں سے ناپاک پانی کے نکالنے والا عمل عبداللہ بن زبیر (رض) نے صحابہ کرام اور تابعین کی موجودگی میں کیا جبکہ زمزم میں ایک حبشی غلام گر کر مرگیا تھا اور کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا اور نہ پاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور نہ تابعین و تبع تابعین میں سے کسی نے دیا اور نہ کسی نے پاٹ ڈالنے کی رائے دی اور خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولوغ کلب والے برتن کے متعلق حکم فرمایا کہ اس کو دھویا جائے اس کو توڑنے کا حکم نہیں فرمایا حالانکہ اس برتن میں نجس پانی سرایت کرچکا ہے پس جس طرح اس برتن کے توڑنے کا حکم (بالاتفاق) نہیں دیا جاتا اسی طرح کنوئیں کے پاٹ ڈالنے کا بھی حکم نہ دیا جائے گا۔
اعتراض نمبر ٢:
برتن کو تو دھونے کی بات آپ خود تسلیم کر رہے ہیں تو کنویں کو کیوں دھونے کے قائل نہیں ہوتے۔
الجواب : برتن کو بار بار دھو کر اس کا پانی پلٹ دیا جاتا ہے کنوئیں کی دیواریں دھونے سے پانی پھر اسی میں لوٹ جائے گا جب نکالیں گے تو پھر دیواروں پر پڑجائے گا پس اس کے دھونے کی طاقت نہیں۔ (اگر آپ کرسکتے ہیں تو کرتے جائیں ہم منع نہیں کرتے) جب کنوئیں کا دھونا استطاعت سے بڑھ کر ہے اور اس کی طہارت اسی حالت میں ہی ثابت ہے نیز جو لوگ نجاست کے گرنے سے اس کی نجاست کے قائل ہیں انھوں نے ناپاک پانی نکالنے کے بعد کنوئیں کی طہارت کو لازم قرار دیا ہے خواہ کنوئیں کی گابھ نہ نکالی جائے تو حاصل جواب یہ ہوا کہ جب گابھ کا موجود رہنا تازہ نکلنے والے پانی کی نجاست کو لازم نہیں کرتا خواہ وہ پانی گابھ پر بہہ کر آ رہا ہو بلکہ وہ بالکل پاک قرار دیا جاتا ہے تو جو کچھ اس کی دیواروں کے درمیان سرایت کر جانے والا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ نجس نہ رہے۔

دلیل عقلی :
ذرا غور سے سوچیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مناسب تو یہی ہے کہ جب تک کنوئیں کی دیواروں کو نہ دھویا جائے اور گابھ کو نہ نکالا جائے اور گہرائی میں اس کو نہ کھودا جائے تو اس وقت تک کنواں پاک نہ ہو مگر اس پر سب نے اتفاق کرلیا کہ گابھ کا نکالنا اور مزید کھدائی کرنا لازم نہیں بلکہ اس کی حاجت نہیں تو دیواروں کا دھونا بھی واجب و لازم نہ ہونا چاہیے۔
یہی امام ابوحنیفہ (رح) ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
` بَابُ سُوْرِ الْہِرِّ `
بلّی کا جوٹھا
سو ٔر :۔ جوٹھا پانی۔ اس کی علماء نے سات قسمیں بیان کی ہیں :
قسم حکم
! مسلمان کا جوٹھا ۔ بالاتفاق پاک ہے۔
" جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ بالاتفاق پاک ہے۔
# کافر کا جوٹھا ۔ اس میں اختلاف ہے۔
$ خنزیر کا جوٹھا ۔ بالاتفاق ناپاک ہے۔
% کتے کا جوٹھا ۔ اس میں اختلاف ہے۔
& گھر میں رہنے والے درندوں ‘ بلی ‘ چوہا ‘ سانپ وغیرہ کا جوٹھا ۔ طاہر یا مکروہ (آگے بحث ہوگی)
' خچر گدھے کا جوٹھا ۔ مکروہ ہے
اختلافِ ائمہ (رح) :
نمبر ١: امام شافعی ‘ مالک و احمد (رح) اور دیگر علماء بلی کے جو ٹھے کو بالکل طاہر قرار دیتے ہیں نمبر ٢ : امام ابوحنیفہ حسن بصری ‘ ابن سیرین (رح) طاہر تو نہیں بلکہ مکروہ ہے امام طحاوی کے ہاں کراہت تحریمی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔