HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4413

۴۴۱۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ قَبِیْصَۃُ بْنُ أَبِیْ ذُؤَیْبٍ أَنَّہٗ سَمِعَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ یَقُوْلُ الطَّلَاقُ اِلَی الرَّجُلِ ، وَالْعِدَّۃُ اِلَی الْمَرْأَۃِ ، اِنْ کَانَ الرَّجُلُ حُرًّا ، وَکَانَتِ الْمَرْأَۃُ أَمَۃً ، فَثَلَاثُ تَطْلِیْقَاتٍ ، وَالْعِدَّۃُ : عِدَّۃُ الْأَمَۃِ حَیْضَتَانِ وَاِنْ کَانَ عَبْدًا ، وَامْرَأَتُہٗ حُرَّۃً ، طَلَّقَ طَلَاقَ الْعَبْدِ تَطْلِیْقَتَیْنِ ، وَاعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الْحُرَّۃِ ثَلَاثَ حِیَضٍ .فَلَمَّا جَائَ ہَذَا الِاخْتِلَافُ عَنْہُمْ ، ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا یُحْتَجُّ فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ أَحَدٍ مِنْہُمْ ، لِأَنَّہٗ مَتَی احْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ بَعْضِہِمْ ، احْتَجَّ مُخَالِفٌ عَلَیْہِ بِقَوْلٍ مِثْلِہٖ ، فَارْتَفَعَ ذٰلِکَ کُلُّہُ أَنْ یَکُوْنَ فِیْہِ حُجَّۃٌ لِأَحَدِ الْفَرِیْقَیْنِ عَلَی الْفَرِیْقِ الْآخَرِ .وَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ جَعَلَ الْأَقْرَائَ الْحَیْضَ عَلٰی مُخَالِفِہِ أَنْ قَالَ : فَاِذَا کَانَتِ الْأَقْرَائُ الْأَطْہَارَ ، فَاِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ وَہِیَ طَاہِرَۃٌ، فَحَاضَتْ بَعْدَ ذٰلِکَ بِسَاعَۃٍ ، فَحُسِبَ ذٰلِکَ لَہَا قُرْء ٌ مَعَ قُرْأَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ ، کَانَتْ عِدَّتُہَا قُرْأَیْنِ وَبَعْضَ قُرْئٍ ، وَاِنَّمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّ الْأَقْرَائَ الْأَطْہَارُ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ قَالَ فَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْحَجُّ أَشْہُرٌ مَعْلُوْمَاتٌ فَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی شَہْرَیْنِ وَبَعْضِ شَہْرٍ ، فَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا الْأَقْرَائَ الثَّلَاثَۃَ عَلٰی قُرْأَیْنِ وَبَعْضِ قُرْئٍ . فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ فِی الْأَقْرَائِ ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ ، وَلَمْ یَقُلْ فِی الْحَجِّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ ، وَاِنْ قَالَ فِیْ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ فَأَجْمَعُوْا أَنَّ ذٰلِکَ عَلَی شَہْرَیْنِ وَبَعْضِ شَہْرٍ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا قَالَ الْمُخَالِفُ لَنَا ، وَلٰـکِنَّہٗ اِنَّمَا قَالَ أَشْہُرٌ ، وَلَمْ یَقُلْ ثَلَاثَۃُ .فَأَمَّا مَا حَصَرَہٗ بِالثَّلَاثَۃِ ، فَقَدْ حَصَرَہٗ بِعَدَدٍ مَعْلُوْمٍ ، فَلَا یَکُوْنُ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ الْعَدَدِ ، کَمَا أَنَّہٗ لَمَّا قَالَ وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِسَائِکُمْ اِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ .فَحَصَرَ ذٰلِکَ بِالْعَدَدِ ، فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلٰی أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ الْعَدَدِ ، فَکَذٰلِکَ لَمَّا حَصَرَ الْأَقْرَائَ بِالْعَدَدِ ، فَقَالَ ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلٰی أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ الْعَدَدِ .وَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّ الْأَقْرَائَ الْأَطْہَارُ أَیْضًا أَنْ قَالَ : لَمَّا کَانَتِ الْہَائُ تَثْبُتُ فِیْ عَدَدِ الْمُذَکَّرِ فَیُقَالُ ثَلَاثَۃُ رِجَالٍ وَتَنْتَفِیْ مِنْ عَدَدِ الْمُؤَنَّثِ ، فَیُقَالُ ثَلَاثُ نِسْوَۃٍ فَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ فَأَثْبَتَ الْہَائَ ، ثَبَتَ أَنَّہٗ أَرَادَ بِذٰلِکَ مُذَکَّرًا ، وَہُوَ الطُّہْرُ لَا الْحَیْضُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ الشَّیْئَ اِذَا کَانَ لَہُ اسْمَانِ ، أَحَدُہُمَا مُذَکَّرٌ وَالْآخَرُ مُؤَنَّثٌ ، فَاِنْ جُمِعَ بِالْمُذَکَّرِ أُثْبِتَتِ الْہَائُ ، وَاِنْ جُمِعَ بِالْمُؤَنَّثِ أُسْقِطَتِ الْہَائُ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّک تَقُوْلُ ہَذَا ثَوْبٌ ، وَہٰذِہِ مِلْحَفَۃٌ فَاِنْ جَمَعْتُ بِالثَّوْبِ قُلْت ثَلَاثَۃُ أَثْوَابٍ وَاِنْ جَمَعْتُ بِالْمِلْحَفَۃِ قُلْت ثَلَاثُ مَلَاحِفَ وَکَذٰلِکَ ہٰذِہِ دَارٌ ، وَہٰذَا مَنْزِلٌ لِشَیْئٍ وَاحِدٍ .فَکَانَ الشَّیْئُ قَدْ یَکُوْنُ وَاحِدًا یُسَمَّی بِاسْمَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ أَحَدُہُمَا مُذَکَّرٌ ، وَالْآخَرُ مُؤَنَّثٌ فَاِذَا جُمِعَ بِالْمُذَکَّرِ ، فَعَلَ فِیْہِ کَمَا یَفْعَلُ فِیْ جَمْعِ الْمُذَکَّرِ فَأُثْبِتَتِ الْہَائُ ، وَاِنْ جُمِعَ بِالْمُؤَنَّثِ ، فُعِلَ فِیْہِ کَمَا یُفْعَلُ فِیْ جَمْعِ الْمُؤَنَّثِ ، فَأُسْقِطَتِ الْہَائُ .فَکَذٰلِکَ الْحَیْضَۃُ وَالْقُرْئُ ، ہُمَا اسْمَانِ بِمَعْنًی وَاحِدٍ ، وَہُوَ الْحَیْضَۃُ فَاِنْ جُمِعَ بِالْحَیْضَۃِ ، سَقَطَتِ الْہَائُ ، فَقِیْلَ : ثَلَاثُ حِیَضٍ ، وَاِنْ جُمِعَ بِالْقُرْئِ ، ثَبَتَتِ الْہَائُ فَقِیْلَ ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ وَذٰلِکَ کُلُّہٗ، اسْمَانِ لِشَیْئٍ وَاحِدٍ ، فَانْتَفَی بِذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ الْمُخَالِفُ لَنَا .وَأَمَّا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَمَۃَ جُعِلَ عَلَیْہَا فِی الْعِدَّۃِ ، نِصْفُ مَا جُعِلَ عَلَی الْحُرَّۃِ .فَکَانَتِ الْأَمَۃُ اِذَا کَانَتْ مِمَّنْ لَا تَحِیْضُ ، کَانَ عَلَیْہَا نِصْفُ عِدَّۃِ الْحُرَّۃِ ، اِذَا کَانَتْ مِمَّنْ لَا تَحِیْضُ ، وَذٰلِکَ شَہْرٌ وَنِصْفٌ فَاِذَا کَانَتْ مِمَّنْ تَحِیْضُ جُعِلَ عَلَیْہَا - بِاتِّفَاقِہِمْ - حَیْضَتَانِ ، وَأُرِیْدَ بِذٰلِکَ نِصْفُ مَا عَلَی الْحُرَّۃِ ؛ وَلِہَذَا قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ قَدِرْتُ أَنْ أَجْعَلَہَا حَیْضَۃً وَنِصْفًا ، لَفَعَلْت .فَلَمَّا کَانَ مَا عَلَی ہٰذِہِ الْأَمَۃِ ہُوَ الْحَیْضَ لَا الْأَطْہَارَ ، وَذٰلِکَ نِصْفُ مَا عَلَی الْحُرَّۃِ ، ثَبَتَ أَنَّ مَا عَلَی الْحُرَّۃِ أَیْضًا ، ہُوَ مِنْ جِنْسِ مَا عَلَی الْأَمَۃِ ، وَہُوَ الْحَیْضُ لَا الْأَطْہَارُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ قَوْلُ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا فِی الْقُرْئِ اِلٰی أَنَّہَا الْحَیْضُ ، وَانْتَفَی قَوْلُ مُخَالِفِہِمْ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ عِدَّۃِ الْأَمَۃِ ،
٤٤١٣: قبیصہ بن ابی ذؤیب نے بتلایا کہ میں نے زید بن ثابت (رض) کو فرماتے سنا طلاق کا اعتبار مرد کے لحاظ سے ہوگا اور عدت کا اعتبار عورت کے لحاظ سے ہوگا اگر مرد آزاد ہے اور عورت لونڈی ہے تو وہ تین طلاق سے مغلظہ ہوگی اور لونڈی کی عدت دو حیض ہے (تو دو حیض کے بعد وہ فارغ ہوجائے گی) اور اگر خاوند غلام ہے اور اس کی بیوی آزاد ہے تو وہ دو طلاق سے مغلظہ ہوجائے گی اور عدت آزاد عورتوں کی طرح تین حیض گزارے گی۔ جب صحابہ کرام (رض) سے یہ مختلف روایات منقول ہیں اگر کوئی فریق ایک صحابی کے قول سے دلیل پکڑ لے گا تو دوسرا ان کے دوسرے قول سے دلیل دے گا۔ اس سے دونوں قول مرتفع ہوجائیں گے اور فریقین میں سے کسی کے پاس دوسرے فریق کے خلاف حجت نہ رہے گی۔ مثلاً فریق اوّل کی یہ دلیل کہ اقراء سے مراد حیض ہے کیونکہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طہر میں طلاق دی پھر تھوڑی دیر بعد اس کو حیض آگیا تو یہ حیض اور دو اور حیض سے اس کی عدت پوری ہوجائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ثلاثۃ قروء جبکہ طہر سے عدت شمار کرنے میں تین کا عدد پورا نہیں ہوتا کیونکہ طلاق والا طہر شمار کریں تب بھی کم رہے اور شمار نہ کریں تو زیادہ ہونے کی وجہ سے تین نہ بنے۔ جبکہ آیت میں ثلاثہ کا لفظ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عدت طہر سے شمار ہوگی نہ حیض سے پورے نہ بھی ہوں تب بھی شرعی اطلاق میں ثلاثہ کا اطلاق اس طرح ہوتا رہتا ہے کہ تین سے کم پر بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” الحج اشہر معلومات “ اور یہ اطلاق جمع کے مطابق تین ماہ ہونے چاہئیں حالانکہ وہ دو ماہ اور تیسرے ماہ کا بعض حصہ ہے۔ اسی طرح ہم نے قروء کو دو حیض اور تیسرے کا اکثر حصہ پر تین کا لفظ بول دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اقراء میں تو خاص تین کا لفظ استعمال فرمایا جبکہ حج میں ثلاثہ اشہر نہیں فرمایا۔ اگر ثلاثہ اشہر فرمایا جاتا تو پھر بالاتفاق معنی دو ماہ اور تیسرے کا کچھ حصہ بن جاتا۔ مگر یہاں تو صرف جمع بولا گیا جس میں احتمال معنی سے یہ مراد لی گئی۔ مگر یہاں تین کے عدد میں محصور کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے معلوم عدد مراد ہے جو کہ تین سے کم نہ ہو۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا :{ وَالّٰئِٓیْ یَپسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآپکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ وَّالّٰئِٓیْ لَمْ یَحِضْنَ ١}(الطلاق : ٤) تو آئسہ اور نابالغہ کی عدت کو تین ماہ میں محصور کیا گیا جس میں کمی نہیں ہوسکتی بالکل اسی طرح ثلاثۃ قروء میں تین سے کم پر اطلاق درست نہ ہوگا اور معدود مونث ہو تو عدد میں ھاؔ نہ آئے گی۔ مثلاً : ثلاث نسوۃٍ ۔ ثلاثہ میں ہا موجود ہو تو اس کی تمیز مذکر آئے گی مثلاً ثلاثہ یسوۃ۔ اب آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ ثلاثۃ قروء ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قروء کا لفظ مذکر ہے اور اس کے معانی میں سے طہر کا معنی ظاہراً اور معناً اس کے موافق ہے کیونکہ حیض کا لفظ مونث ہے۔ پس طہر مراد ہے اور اس سے عدت شمار ہوگی۔ اس سلسلہ میں ان کے خلاف دلیل یہ ہے کہ جب کسی چیز کے دو نام ہوں جن میں ایک مذکر اور دوسرا مونث ہو۔ اگر لفظ مذکر سے جمع بنائیں تو ہا کو سلامت رکھیں گے اور مونث سے جمع کی صورت میں ہا ساقط ہوگی۔ مثلا ” ہذا ثوب ہذہ ملحفۃ “ اگر ثوب کو جمع پڑھیں تو ثلاثۃ اثواب کہیں گے اور ملحفہ کو جمع بنائیں تو ثلاث ملحفات کہیں گے۔ اسی طرح لفظ دار ‘ منزل۔ ہذہ دار ‘ ہذا منزل ایک چیز پر بولے جاتے ہیں۔ پس ایک چیز کے بعض اوقات دو نام ہوتے ہیں اور وہ تذکیر و تانیث کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ مذکر کی جمع مذکر کے مطابق اور مونث کی جمع اس کے مطابق لائیں گے۔ مثلاً ہا کو ساقط کردیں گے۔ بالکل اسی طرح حیض وقروء کا لفظ ہے کہ یہ دو اسماء ہیں معنی تو ایک ہے مگر ان کی جمع مختلف ہیں اور وہ اختلاف لفظ کی وجہ سے ہے مثلاً ثلاث حیض ‘ ثلاثۃ قرؤ۔ تو اس استعمال سے ثابت ہوا ہر مفرد اپنی جمع رکھتا ہے اس کے معنی کی جمع سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ہمارے مخالف کے دلائل کا جواب ہوگیا۔ البتہ بطور نظر اس بات کی صورت یہ بنے گی کہ ہم نے غور کیا کہ لونڈی کی عدت آزاد عورت کی عدت کے مقابلے میں آدھی مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ لونڈی ان عورتوں میں سے ہو جن کو حیض آتا ہے۔ تو اس کی عدت اس آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے جس کو حیض نہیں آتا اور یہ ڈیڑھ ماہ ہے اور اگر اس کو حیض آتا ہو تو بالاتفاق اس لونڈی کی عدت دو حیض ہے اور اس سے مراد آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔ اسی وجہ سے حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام کی موجودگی میں فرمایا کہ اگر میں اس کو ڈیڑھ حیض کرنے پر قادر ہوتا تو ڈیڑھ حیض کردیتا (مگر یہ قدرت الٰہی کا مسئلہ ہے) ۔ پس جب لونڈی کی عدت حیض سے شمار ہوئی طہر سے نہیں اور یہ عدت آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔ تو اس سے ثابت ہوگیا کہ آزاد عورت کی عدت لونڈی کی عدت کی ہم جنس ہوگی اور وہ حیض ہے طہر نہیں۔ پس اس سے فریق اوّل کا قول ثابت ہوگیا جو کہ حیض سے عدت کو شمار کرتے ہیں اور مخالف کے قول کی نفی ہوگئی اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
منصفانہ قول : جب صحابہ کرام (رض) سے یہ مختلف روایات منقول ہیں اگر کوئی فریق ایک صحابی کے قول سے دلیل پکڑ لے گا تو دوسرا ان کے دوسرے قول سے دلیل دے گا۔ اس سے دونوں قول مرتفع ہوجائیں گے اور فریقین میں سے کسی کے پاس دوسرے فریق کے خلاف حجت نہ رہے گی۔ مثلاً فریق اوّل کی یہ دلیل۔
فریق اوّل کی دلیل : کہ اقراء سے مراد حیض ہے کیونکہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طہر میں طلاق دی پھر تھوڑی دیر بعد اس کو حیض آگیا تو یہ حیض اور دو اور حیض سے اس کی عدت پوری ہوجائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ثلاثۃ قروء جبکہ طہر سے عدت شمار کرنے میں تین کا عدد پورا نہیں ہوتا کیونکہ طلاق والا طہر شمار کریں تب بھی کم رہے اور شمار نہ کریں تو زیادہ ہونے کی وجہ سے تین نہ بنے۔ جبکہ آیت میں ثلاثہ کا لفظ ہے۔
فریق ثانی کی دلیل : وہ کہتے ہیں کہ عدت طہر سے شمار ہوگی نہ حیض سے پورے نہ بھی شرعی اطلاق میں ثلاثہ کا اطلاق اس طرح ہوتا رہتا ہے کہ تین سے کم پر بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الحج اشہر معلومات “ اور یہ اطلاق جمع کے مطابق تین ماہ ہونے چاہئیں حالانکہ وہ دو ماہ اور تیسرے ماہ کا بعض حصہ ہے۔ اسی طرح ہم قروء کو دو حیض اور تیسرے کے اکثر پر تین کا لفظ بول دیا۔
جواب اللہ تعالیٰ نے اقراء میں تو خاص تین کا لفظ استعمال فرمایا جبکہ حج میں ثلاثہ اشہر نہیں فرمایا۔ اگر ثلاثہ اشہر فرمایا جاتا تو پھر بالاتفاق معنی دو ماہ اور تیسرے کا کچھ حصہ بن جاتا۔ مگر یہاں تو صرف جمع بولا گیا جس میں احتمال معنی سے یہ مراد لی گئی۔ مگر یہاں تین کے عدد میں محصور کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے معلوم عدد مراد ہے جو کہ تین سے کم نہ ہو۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا۔ ” واللآئی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر واللآئی لم یحضن “ (الطلاق ٤) تو آئسہ اور نابالغہ کی عدت کو تین ماہ میں محصور کیا گیا جس میں کمی نہیں ہوسکتی بالکل اسی طرح ثلاثۃ قروء میں تین سے کم پر اطلاق درست نہ ہوگا۔
فریق ثانی کی دوسری دلیل : ثلاثہ میں ہا موجود ہو تو اس کی تمیز مذکر آئے گی مثلاً ثلاثہ رجال اور معدود مونث ہو تو عدد میں ھا نہ آئے گی مثلاً تلاث نسوۃٍ اب آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ ثلاثۃ قروء ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قروء کا لفظ مذکر ہے اور اس کے معانی میں سے طہر کا معنی ظاہراً اور معناً اس کے موافق ہے کیونکہ حیض کا لفظ مونث ہے۔ پس طہر مراد ہے اور اس سے عدت شمار ہوگی۔
الجواب من الفریق الاوّل : جب کسی چیز کے دو نام ہوں جن میں ایک مذکر اور دوسرا مونث ہو۔ اگر لفظ مذکر سے جمع بنائیں تو ہا کو سلامت رکھیں گے اور مونث سے جمع کی صورت میں ہا ساقط ہوگی۔ مثلا ” ہذا ثوب ہذہ ملحفۃ “ اگر ثوب کو جمع پڑھیں تو ثلاثۃ اثواب کہیں گے اور ملحفہ کو جمع بنائیں تو ثلاث ملحفات کہیں گے۔ اسی طرح لفظ دار ‘ منزل۔ ہذہ دار ‘ ہذا منزل ایک چیز پر بولے جاتے ہیں۔ پس ایک چیز کے بعض اوقات دو نام ہوتے ہیں اور وہ تذکیر و تانیث کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ مذکر کی جمع مذکر کے مطابق اور مونث کی جمع اس کے مطابق لائیں گے۔ مثلاً ہا کو ساقط کردیں گے۔ بالکل اسی طرح حیض وقروء کا لفظ ہے کہ یہ دو اسماء ہیں معنی تو ایک ہے مگر ان کی جمع جموع یا مختلف ہیں اور وہ اختلاف لفظ کی وجہ سے ہے مثلاً ثلاث حیض ‘ ثلاثۃ قرؤ۔ تو اس استعمال سے ثابت ہوا کہ ہر مفرد اپنی جمع رکھتا ہے اس کے معنی کی جمع سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے ابھرنے والے استدلالات کے جواب ذکر کردیئے گئے۔ اب نظری دلیل پیش کی جاتی ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم نے غور کیا کہ لونڈی کی عدت آزاد عورت کی عدت کے مقابلے میں آدھی مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ لونڈی ان عورتوں میں سے ہو جن کو حیض آتا ہے۔ تو اس کی عدت اس آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے جس کو حیض نہیں آتا اور یہ ڈیڑھ ماہ ہے اور اگر اس کو حیض آتا ہو تو بالاتفاق اس لونڈی کی عدت دو حیض ہے اور اس سے مراد آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔ اسی وجہ سے حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام کی موجودگی میں فرمایا کہ اگر میں اس کو ڈیڑھ حیض کرنے پر قادر ہوتا تو ڈیڑھ حیض کردیتا (مگر یہ قدرت الٰہی کا مسئلہ ہے)
پس جب لونڈی کی عدت حیض سے شمار ہوئی طہر سے نہیں اور یہ عدت آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔ تو اس سے ثابت ہوگیا کہ آزاد عورت کی عدت لونڈی کی عدت کی ہم جنس ہوگی اور وہ حیض ہے طہر نہیں۔
پس اس سے فریق اوّل کا قول ثابت ہوگیا جو کہ حیض سے عدت کو شمار کرتے ہیں اور مخالف کے قول کی نفی ہوگئی اور یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔