HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4447

۴۴۴۷: أَنَّ أَبَا شُعَیْبٍ الْبَصْرِیَّ صَالَحَ بْنَ شُعَیْبٍ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الزَّمِنُ ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ قَالَتْ : قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ زَوْجِی طَلَّقَنِیْ، وَاِنَّہٗ یُرِیْدُ أَنْ یَقْتَحِمَ ، قَالَ انْتَقِلِیْ عَنْہُ .فَہٰذِہِ فَاطِمَۃُ تُخْبِرُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا أَمَرَہَا أَنْ تَنْتَقِلَ حِیْنَ خَافَتْ زَوْجَہَا عَلَیْہَا .فَقَالَ قَائِلٌ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ ہَذَا وَفِیْ بَعْضِ مَا قَدْ رُوِیَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَنَّہٗ طَلَّقَہَا وَہُوَ غَائِبٌ ، أَوْ طَلَّقَہَا ثُمَّ غَابَ فَخَاصَمَتْ ابْنَ عَمِّہِ فِیْ نَفَقَتِہَا ، وَفِیْ ہٰذَا أَنَّہَا کَانَتْ تَخَافُہٗ، فَأَحَدُ الْحَدِیْثَیْنِ یُخْبِرُ أَنَّہٗ کَانَ غَائِبًا ، وَالْآخَرُ یُخْبِرُ أَنَّہٗ کَانَ حَاضِرًا ، فَقَدْ تَضَادَّ ہَذَانِ الْحَدِیْثَانِ .قِیْلَ لَہٗ : مَا تَضَادَّا ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ فَاطِمَۃُ لَمَّا طَلَّقَہَا زَوْجُہَا ، خَافَتْ عَلَی الْہُجُوْمِ عَلَیْہَا وَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَاہَا بِالنَّفَقَۃِ ثُمَّ غَابَ بَعْدَ ذٰلِکَ ، وَوَکَّلَ ابْنَ عَمَّہُ بِنَفَقَتِہَا ، فَخَاصَمَتْ حِیْنَئِذٍ فِی النَّفَقَۃِ وَہُوَ غَائِبٌ ، فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا سُکْنَی لَکَ وَلَا نَفَقَۃَ .فَاتَّفَقَ مَعْنَیْ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ ہٰذَا، وَمَعْنَیْ حَدِیْثِ الشَّعْبِیِّ وَأَبِیْ سَلْمَۃَ ، وَمَنْ وَافَقَہُمَا عَلٰی ذٰلِکَ عَنْ فَاطِمَۃَ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْمُطَلَّقَۃَ طَلَاقًا بَائِنًا ، وَہِیَ حَامِلٌ مِنْ زَوْجِہَا ، أَنَّ لَہَا النَّفَقَۃَ عَلَی زَوْجِہَا ، وَبِذٰلِکَ حَکَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہَا فِیْ کِتَابِہٖ فَقَالَ وَاِنْ کُنَّ أُوْلَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ .فَاحْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ تِلْکَ النَّفَقَۃُ جُعِلَتْ عَلَی الْمُطَلِّقِ ، لِأَنَّہٗ یَکُوْنُ عَنْہَا مَا یُغَذِّی الصَّبِیَّ فِیْ بَطْنِ أُمِّہِ فَیَجِبُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ لِوَلَدِہٖ، کَمَا یَجِبُ عَلَیْہِ أَنْ یُغَذِّیَہُ فِیْ حَالِ رَضَاعِہِ بِالنَّفَقَۃِ عَلَی مَنْ تُرْضِعُہٗ، وَتُوَصِّلُ الْغِذَائَ عَلَیْہِ، ثُمَّ یُغَذِّیَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِمِثْلِ مَا یُغَذَّی بِہٖ مِثْلُہٗ مِنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ .فَیُحْتَمَلُ أَیْضًا اِذَا کَانَ حَمْلًا فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ، أَنْ یَجِبَ عَلٰی أَبِیْھَاغِذَاؤُہُ بِمَا یُغَذَّی بِہٖ مِثْلُہٗ فِیْ حَالِہٖ تِلْکَ مِنَ النَّفَقَۃِ عَلٰی أُمِّہٖ، لِأَنَّ ذٰلِکَ یُوَصِّلُ الْغِذَائَ اِلَیْہِ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَ تِلْکَ النَّفَقَۃُ اِنَّمَا جُعِلَتْ لِلْمُطَلَّقَۃِ خَاصَّۃً ، لِعِلَّۃِ الْعِدَّۃِ ، لَا لِعِلَّۃِ الْوَلَدِ الَّذِیْ فِیْ بَطْنِہَا .فَاِنْ کَانَتْ النَّفَقَۃُ عَلَی الْحَامِلِ اِنَّمَا جُعِلَتْ لَہَا لِمَعْنَی الْعِدَّۃِ ، ثَبَتَ قَوْلُ الَّذِیْنَ قَالُوْا لِلْمَبْتُوْتَۃِ النَّفَقَۃُ وَالسُّکْنَیْ حَامِلًا کَانَتْ أَوْ غَیْرَ حَامِلٍ .وَاِنْ کَانَتِ الْعِلَّۃُ الَّتِی بِہَا وَجَبَتْ النَّفَقَۃُ ہِیَ الْوَلَدُ ، فَاِنَّ ذٰلِکَ لَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ النَّفَقَۃَ وَاجِبَۃٌ لِغَیْرِ الْحَامِلِ ، فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ لِنَعْلَمَ کَیْفَ الْوَجْہُ فِیْمَا أَشْکَلَ مِنْ ذٰلِکَ .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ یَجِبُ عَلَیْہِ أَنْ یُنْفِقَ عَلٰی ابْنِہٖ الصَّغِیْرِ فِیْ رَضَاعِہِ حَتّٰی یَسْتَغْنِیَ عَنْ ذٰلِکَ ، وَیُنْفِقَ عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ مَا یُنْفِقُ عَلَی مِثْلِہٖ ، مَا کَانَ الصَّبِیُّ مُحْتَاجًا اِلَی ذٰلِکَ .فَاِنْ کَانَ غَنِیًّا عَنْہُ بِمَالٍ لَہٗ، قَدْ وَرِثَہُ عَنْ أُمِّہٖ، أَوْ قَدْ مَلَکَہُ بِوَجْہٍ سِوٰی ذٰلِکَ ، مِنْ ہِبَۃٍ أَوْ غَیْرِہَا لَمْ یَجِبْ عَلٰی أَبِیْہَ أَنْ یُنْفِقَ عَلَیْہِ مِنْ مَالِہٖ ، وَأَنْفَقَ عَلَیْہِ مِمَّا وَرِثَ ، أَوْ مِمَّا وُہِبَ لَہٗ۔فَکَانَ اِنَّمَا یُنْفِقُ عَلَیْہِ مِنْ مَالِہِ لِحَاجَتِہِ اِلَی ذٰلِکَ ، فَاِذَا ارْتَفَعَ ذٰلِکَ ، لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ الْاِنْفَاقُ عَلَیْہِ مِنْ مَالِہٖ .وَلَوْ أَنْفَقَ عَلَیْہِ الْأَبُ مِنْ مَالِہِ عَلٰی أَنَّہٗ فَقِیْرٌ اِلَی ذٰلِکَ ، بِحُکْمِ الْقَاضِیْ عَلَیْہِ، ثُمَّ عَلِمَ أَنَّ الصَّبِیَّ قَدْ کَانَ وَجَبَ لَہُ مَالٌ قَبْلَ ذٰلِکَ ، بِمِیْرَاثٍ أَوْ غَیْرِہٖ، کَانَ لِلْأَبِ أَنْ یَرْجِعَ بِذٰلِکَ الْمَالِ الَّذِی أَنْفَقَہُ فِیْ مَالِ الصَّبِیِّ الَّذِی وَجَبَ لَہٗ، بِالْوَجْہِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا .وَکَانَ الرَّجُلُ اِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ وَہِیَ حَامِلٌ ، فَحَکَمَ الْقَاضِی لَہَا عَلَیْہِ بِالنَّفَقَۃِ ، فَأَنْفَقَ عَلَیْہَا حَتَّی وَضَعَتْ وَلَدًا حَیًّا ، وَقَدْ کَانَ أَخٌ لَہٗ مِنْ أُمِّہِ مَاتَ قَبْلَ ذٰلِکَ ، فَوَرِثَہُ الْوَلَدُ وَأُمُّہُ حَامِلٌ بِہٖ ، لَمْ یَکُنْ لِلْأَبِ ، فِیْ قَوْلِہِمْ جَمِیْعًا ، أَنْ یَرْجِعَ عَلٰی ابْنِہِ بِمَا کَانَ أَنْفَقَ عَلٰی أُمِّہِ بِحُکْمِ الْقَاضِی لَہَا عَلَیْہِ بِذٰلِکَ ، اِذَا کَانَتْ حَامِلًا بِہٖ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ النَّفَقَۃَ عَلَی الْمُطَلَّقَۃِ الْحَامِلِ ، ہِیَ لِعِلَّۃِ الْعِدَّۃِ الَّتِیْ ہِیَ فِیْہَا ، مِنْ الَّذِی طَلَّقَہَا ، لَا لِعِلَّۃِ مَا ہِیَ بِہٖ حَامِلٌ مِنْہُ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ ، ثَبَتَ أَنَّ کُلَّ مُعْتَدَّۃٍ مِنْ طَلَاقٍ بَائِنٍ ، فَلَہَا مِنَ النَّفَقَۃِ مِثْلُ مَا لِلْمُعْتَدَّۃِ مِنِ الطَّلَاقِ ، اِذَا کَانَتْ حَامِلًا ، قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِمَّا وَصَفْنَا وَبَیَّنَّا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللّٰہِ، وَقَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا، وَرُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، وَاِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ .
٤٤٤٧: عروہ نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گزارش کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اقارب ان کے پاس خوب آئیں جائیں۔ (میرا رہنا وہاں مشکل ہے) تو آپ نے فرمایا وہاں سے تم منتقل ہوجاؤ۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : یہ فاطمہ بنت قیس (رض) ہیں جو اس روایت میں بتلا رہی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس لیے منتقل ہونے کا حکم دیا جبکہ فاطمہ (رض) کو اپنے متعلق خاوند سے خطرہ محسوس ہوا۔ یہ مفہوم درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا جبکہ اس سلسلہ کی روایت میں وارد ہے کہ جب ان کے خاوند نے ان کو طلاق دی تو وہ خود موجود نہ تھے یا طلاق کے بعد غائب ہوگئے۔ تو فاطمہ (رض) نے خاوند کے بھتیجے سے نفقہ کے متعلق جھگڑا کیا اور یہ روایت بتلا رہی ہے کہ خاوند کی طرف سے ان کو خطرہ محسوس ہوا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ غائب تھے (یمن گئے تھے) اور ایک روایت میں ہے کہ وہ موجود تھے۔ ان دونوں روایات میں تضاد ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ان دونوں روایات میں تضاد نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ فاطمہ (رض) کو جب ان کے خاوند نے طلاق دی ہو تو انھوں نے اپنے ہاں ہجوم کا خطرہ محسوس کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں استفسار کیا پھر ان کے خاوند نفقہ لے کر آئے (انہوں نے انکار کیا) پھر وہ (جہاد میں) چلے گئے اور اپنے بھتیجے کو خرچے کے سلسلہ میں کہہ کر گئے فاطمہ (رض) نے نفقہ قلیل سمجھ کر اس سے جھگڑا کیا (جب کہ خاوند) غائب تھا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) کو فرمایا تمہارے لیے رہائش و نفقہ کچھ نہیں اب حضرت عروہ (رض) کی روایت کا مفہوم حضرت شعبی اور ابو سلمہ (رح) کی روایت کے موافق حضرت فاطمہ (رض) سے روایت کرنے والوں کی روایات کے مفہوم کے مطابق ہوگیا۔ روایات میں موافقت معنی کے لحاظ سے تو یہی ہے جو ہم نے بیان کردی ‘ اب بطریق نظر اس کا معنی ملاحظہ ہو۔ پھر طریق نظر کی صورت یہ ہوگی ‘ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے متعلق تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جس عورت کو خاوند تین طلاق بائنہ دیدے اور وہ حاملہ ہو تو اس کے لیے خاوند کے ذمہ نفقہ لازم ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اس بات کا حکم فرمایا ہے ارشاد قرآنی ہے۔ ” وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملہن “ اگر وہ حاملہ ہوں تو تم ان پر وضع حمل تک خرچ کرو۔ اب اس میں تین احتمال ہیں۔ اس بات کا بھی احتمال کہ طلاق دینے والے پر یہ خرچہ اس وجہ سے لازم ہو کہ وہ اس نفقہ سے ماں کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ اس کو غذا پہنچاتا ہے۔ فلہذا یہ خرچہ بچے کی وجہ سے واجب ہو جیسا کہ بچے کے دودھ پینے کی حالت میں دودھ پلانے والی کو نفقہ دے کر بچے کو غذا پہنچانا والد پر لازم ہے اس کے بعد بھی اس بچے کو کھانے پینے کی ان اشیاء سے غذا پہنچانا ضروری ہے جو اس کو بطور غذا دی جاتی ہیں تو اس بات کا احتمال بھی ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو تو اس کے باپ پر اس کے مناسب حال غذا لازم ہو جو ماں کو دیئے جانے والے نفقہ سے ہو کیونکہ اسی کے ذریعہ غذا بچے تک پہنچتی ہے (براہ راست نہیں پہنچتی) اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نفقہ صرف عورت کے لیے ہو اور اس کی وجہ عدت ہو اس کے پیٹ میں موجود بچہ اس کی علت نہ ہو۔ پھر اگر خرچہ اس وجہ سے حاملہ کے لیے مقرر ہوا تو ان لوگوں کا قول ثابت ہوگیا جو یہ کہتے ہیں کہ مطلقہ بائنہ کے لیے نفقہ اور رہائش لازم ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ اور اگر نفقہ کے لازم ہونے کی علت بچے کو تسلیم کیا تو یہ اس بات پر دلالت نہیں کہ غیر حاملہ کے لیے بھی نفقہ ہوگا پھر ہم نے اس میں غور و فکر کیا تاکہ اس گنجلک کا حل ظاہر ہو۔ چنانچہ وہ مل گیا کہ مرد پر اپنے چھوٹے بچے کا جو دودھ پیتا ہو خرچہ لازم ہے اور اس وقت تک لازم ہے یہاں تک کہ اسے دودھ کی حاجت نہ رہے اس کے بعد بھی جب تک بچہ ضرورت مند رہتا ہے اس کی حالت کے مطابق باپ اس پر خرچ کرتا ہے اور اگر وہ بچہ اپنے ذاتی مال کی وجہ سے بےنیاز ہو یعنی وہ مال جو اسے ماں کی طرف سے وراثت میں میسر آیا ہو یا کسی دوسرے ذرائع مثلاً ہبہ وغیرہ سے اس کا مالک بنا ہو تو اس صورت میں والد پر واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اس پر خرج کرے بلکہ وہ اس بچے کو وراثت و ہبہ کے ذریعہ ملنے والے مال میں سے خرچ کرے۔ پس باپ تو اپنے مال میں سے بچے پر اس لیے خرچ کرتا ہے کیونکہ بچے کو اس کی ضرورت ہوتی ہے پس اب جبکہ اس کی حاجت نہ رہی تو باپ پر اپنے مال میں سے اس بچے پر خرچ کرنا لازم نہ رہا اور اگر والد قاضی کے حکم پر بچے پر اس لیے خرچ کرتا ہے کہ وہ فقیر ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس سے پہلے بچے کو وراثت و ہبہ وغیرہ سے مال مل گیا تھا تو اس صورت میں والد بچے کے مال میں سے وہ مال واپس لے سکتا ہے۔ جو اس نے بچے پر اس دوران میں خرچ کیا ہے اس وجہ سے ہم نے اوپر ذکر کردی۔ اب جب کوئی شخص اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دے اور قاضی کے کہنے پر اس کو خرچہ دے یہاں تک کہ اس کا زندہ بچہ پیدا ہوجائے اور اس سے پہلے اس کا ماں کی طرف سے بھائی فوت ہوچکا ہو اور وہ ماں کے پیٹ میں اس کا وارث بن گیا ہو تو تمام حضرات ائمہ کے ہاں اس بچے سے وہ مال واپس نہیں لیا جاسکتا جو اس نے قاضی کے کہنے پر اس بچے کی ماں پر اس وقت خرچ کیا جب وہ حاملہ تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ حاملہ مطلقہ کا نفقہ اس کی عدت کی وجہ سے ہے جو وہ گزار رہی ہے اس بچے کی وجہ سے نہیں جس کے ساتھ وہ حاملہ ہے۔ تو جب بات اس طرح ہے جس طرح ہم نے بیان کی تو ثابت ہوگیا کہ ہر مطلقہ بائنہ کے لیے اسی طرح نفقہ ہوگا جس طرح مطلقہ حاملہ کے لیے ہوتا ہے۔ قیاس و نظر کا یہی تقاضا ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد (رح) کا قول ہے۔ مزید اقوال تابعین (رح) ذیل میں ہیں :
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ فاطمہ بنت قیس (رض) ہیں جو اس روایت میں بتلا رہی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس لیے منتقل ہونے کا حکم دیا جبکہ فاطمہ (رض) کو اپنے متعلق خاوند سے خطرہ محسوس ہوا۔
ایک مزید اشکال :
یہ مفہوم درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا جبکہ اس سلسلہ کی روایت میں وارد ہے کہ جب ان کے خاوند نے ان کو طلاق دی تو وہ خود موجود نہ تھے یا طلاق کے بعد غائب ہوگئے۔ تو فاطمہ (رض) نے خاوند کے بھتیجے سے نفقہ کے متعلق جھگڑا کیا اور یہ روایت بتلا رہی ہے کہ خاوند کی طرف سے ان کو خطرہ محسوس ہوا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ غائب تھے (یمن گئے تھے) اور ایک روایت میں ہے کہ وہ موجود تھے۔ ان دونوں روایات میں تضاد ہے۔
جوابان دونوں روایات میں تضاد نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ فاطمہ (رض) کو جب ان کے خاوند نے طلاق دی ہو تو فاطمہ (رض) نے اپنے ہاں ہجوم کا خطرہ محسوس کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں استفسار کیا پھر ان کے خاوند نفقہ لے کر آئے (انہوں نے انکار کیا) پھر وہ (جہاد میں) چلے گئے اور اپنے بھتیجے کو خرچے کے سلسلہ میں کہہ کر گئے فاطمہ (رض) نے نفقہ قلیل سمجھ کر اس سے جھگڑا کیا (جب کہ خاوند) غائب تھا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) کو فرمایا تمہارے لیے رہائش و نفقہ کچھ نہیں اب حضرت عروہ (رض) کی روایت کا مفہوم حضرت شعبی اور ابو سلمہ (رح) کی روایت کے موافق حضرت فاطمہ (رض) سے روایت کرنے والوں کی روایات کے مفہوم کے مطابق ہوگیا۔ روایات میں موافقت معنی کے لحاظ سے تو یہی معنی ہے جو ہم نے بیان کردیا اب بطریق نظر اس کا معنی ملاحظہ ہو۔
نظر طحاوی (رح) :
اس کے متعلق تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جس عورت کو خاوند تین طلاق بائنہ دے دیں اور وہ حاملہ ہو تو اس کے لیے خاوند کے ذمہ نفقہ لازم ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اس بات کا حکم فرمایا ہے ارشاد قرآنی ہے۔ ” وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملہن “ اگر وہ حاملہ ہوں تو تم ان پر وضع حمل تک خرچ کرو۔ اب اس میں تین احتمال ہیں۔
احتمال اوّل : اس بات کا بھی احتمال ہے کہ طلاق دینے والے پر یہ خرچہ اس وجہ سے لازم ہو کہ وہ اس نفقہ سے ماں کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ اس کو غذا پہنچاتا ہے۔ فلہذا یہ خرچہ بچے کی وجہ سے واجب ہو جیسا کہ بچے کے دودھ پینے کی حالت میں دودھ پلانے والی کو نفقہ دے کر بچے کو غذا پہنچانا والد پر لازم ہے اس کے بعد بھی اس بچے کو کھانے پینے کی ان اشیاء سے غذا پہنچانا ضروری ہے جو اس کو بطور غذا دی جاتی ہیں۔
احتمال دوم : تو اس بات کا احتمال بھی ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو تو اس کے باپ پر اس کے مناسب حال غذا لازم ہو جو ماں کو دیئے جانے والے نفقہ سے ہو کیونکہ اسی کے ذریعہ غذا بچے تک پہنچتی ہے (براہ راست نہیں پہنچتی)
احتمال سوم : اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نفقہ صرف عورت کے لیے ہو اور اس کی وجہ عدت ہو اس کے پیٹ میں موجود بچہ اس کی علت نہ ہو۔ پھر اگر خرچہ اس وجہ سے حاملہ کے لیے مقرر ہوا تو ان لوگوں کا قول ثابت ہوگیا جو یہ کہتے ہیں کہ مطلقہ بائنہ کے لیے نفقہ اور رہائش لازم ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔
اور اگر نفقہ کے لازم ہونے کی علت بچے کو تسلیم کیا تو یہ اس بات پر دلالت نہیں کہ غیر حاملہ کے لیے بھی نفقہ ہوگا پھر ہم نے اس میں غور و فکر کیا تاکہ اس گنجلک کا حل ظاہر ہو۔ چنانچہ وہ مل گیا کہ مرد پر اپنے چھوٹے بچے کا جو دودھ پیتا ہو خرچہ لازم ہے اور اس وقت تک لازم ہے یہاں تک کہ اسے دودھ کی حاجت نہ رہے اس کے بعد بھی بچہ جب تک ضرورت مند رہتا ہے اس کی حالت کے مطابق باپ اس پر خرچ کرتا ہے اور اگر وہ بچہ اپنے ذاتی مال کی وجہ سے بےنیاز ہو یعنی وہ مال جو اسے ماں کی طرف سے وراثت میں میسر آیا ہو یا کسی دوسرے ذرائع مثلاً ہبہ وغیرہ سے اس کا مالک بنا ہو تو اس صورت میں والد پر واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اس پر خرج کرے بلکہ وہ اس بچے کو وراثت و ہبہ کے ذریعہ ملنے والے مال میں سے خرچ کرے۔
پس باپ تو اپنے مال میں سے بچے پر اس لیے خرچ کرتا ہے کیونکہ بچے کو اس کی ضرورت ہوتی ہے پس اب جبکہ اس کی حاجت نہ رہی تو باپ پر اپنے مال میں سے اس بچے پر خرچ کرنا لازم نہ رہا اور اگر والد قاضی کے حکم پر بچے پر اس لیے خرچ کرتا ہے کہ وہ فقیر ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس سے پہلے بچے کو وراثت و ہبہ وغیرہ سے مال مل گیا تھا تو اس صورت میں والد بچے کے مال میں سے وہ مال واپس لے سکتا ہے۔ جو اس نے بچے پر اس دوران میں خرچ کیا ہے اس کی وجہ ہم نے اوپر ذکر کردی۔
اب جب کوئی شخص اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دے اور قاضی کے کہنے پر اس کو خرچہ دے یہاں تک کہ اس کا زندہ بچہ پیدا ہوجائے اور اس سے پہلے اس کا ماں کی طرف سے بھائی فوت ہوچکا ہو اور وہ ماں کے پیٹ میں اس کا وارث بن گیا ہو تو تمام حضرات ائمہ کے ہاں اس بچے سے وہ مال واپس نہیں لیا جاسکتا جو اس نے قاضی کے کہنے پر اس بچے کی ماں پر اس وقت خرچ کیا جب وہ حاملہ تھی۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حاملہ مطلقہ کا نفقہ اس کی عدت کی وجہ سے ہے جو وہ گزار رہی ہے اس بچے کی وجہ سے نہیں جس کے ساتھ وہ حاملہ ہے۔ تو جب بات اس طرح ہے جس طرح ہم نے بیان کی تو ثابت ہوگیا کہ ہر مطلقہ بائنہ کے لیے اسی طرح نفقہ ہوگا جس طرح مطلقہ حاملہ کے لیے ہوتا ہے۔
قیاس و نظر کا یہی تقاضا ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد (رح) کا قول ہے۔
اقوال صحابہ (رض) وتابعین (رح) :
یہی بات حضرت عمر ‘ عبداللہ بن مسعود (رض) و سعید بن مسیب اور ابراہیم نخعی (رح) سے بھی اسی طرح مروی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔