HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4628

۴۶۲۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : مَنْ وَطِئَ أَمَۃً ثُمَّ ضَیَّعَہَا فَأَرْسَلَہَا تَخْرُجُ ، ثُمَّ وَلَدَتْ ، فَالْوَلَدُ مِنْہٗ، وَالضَّیْعَۃُ عَلَیْہِ. قَالَ نَافِعٌ : فَہٰذَا قَضَائُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَقَوْلُ ابْنِ عُمَرَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَا جَائَ تْ بِہٖ ہٰذِہِ الْأَمَۃُ مِنْ وَلَدٍ ، فَلَا یَلْزَمُ مَوْلَاہَا اِلَّا أَنْ یُقِرَّ بِہٖ ، وَاِنْ مَاتَ قَبْلَ أَنْ یُقِرَّ بِہٖ ، لَمْ یَلْزَمْہُ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا قَالَ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَۃَ ہُوَ لَک یَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ وَلَمْ یَقُلْ ہُوَ أَخُوْک فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ ہُوَ لَک أَیْ : ہُوَ مَمْلُوْکٌ لَکَ، لِحَقِّ مَالِکٍ عَلَیْہِ مِنَ الْیَدِ ، وَلَمْ یَحْکُمْ فِیْ نَسَبِہٖ بِشَیْئٍ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ بِالْحِجَابِ مِنْہُ .فَلَوْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ قَدْ جَعَلَہُ ابْنَ زَمْعَۃَ اِذًا لَمَا حَجَبَ بِنْتَ زَمْعَۃَ مِنْہٗ، لِأَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَأْمُرْ بِقَطْعِ الْأَرْحَامِ بَلْ کَانَ یَأْمُرُ بِصِلَتِہَا ، وَمِنْ صِلَتِہَا ، التَّزَاوُرُ ، فَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَأْمُرَہَا وَقَدْ جَعَلَہٗ أَخَاہَا بِالْحِجَابِ مِنْہٗ؟ .ہَذَا لَا یَجُوْزُ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. وَکَیْفَ یَجُوْزُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ، وَہُوَ یَأْمُرُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا أَنْ تَأْذَنَ لِعَمِّہَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ عَلَیْہَا ، ثُمَّ یَحْجُبُ سَوْدَۃَ مِمَّنْ قَدْ جَعَلَہٗ أَخَاہَا وَابْنَ أَبِیْھَا ؟ ، وَلٰـکِنَّ وَجْہَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ حَکَمَ فِیْہِ بِشَیْئٍ غَیْرِ الْیَدِ ، الَّتِیْ جَعَلَہُ بِہَا لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَۃَ ، وَلِسَائِرِ وَرَثَۃِ زَمْعَۃَ دُوْنَ سَعْدٍ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنَی قَوْلِہٖ الَّذِی وَصَلَہُ بِہٰذَا الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ، وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ ؟ قِیْلَ لَہٗ : ذٰلِکَ عَلَی التَّعْلِیْمِ مِنْہُ لِسَعْدٍ ، أَیْ أَنَّک تَدَّعِی لِأَخِیْکَ، وَأَخُوْک لَمْ یَکُنْ لَہُ فِرَاشٌ ، وَاِنَّمَا یَثْبُتُ النَّسَبُ مِنْہُ لَوْ کَانَ لَہُ فِرَاشٌ ، فَاِذَا لَمْ یَکُنْ لَہُ فِرَاشٌ ، فَہُوَ عَاہِرٌ ، وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ .وَقَدْ بَیَّنَ ہٰذَا الْمَعْنَی وَکَشَفَہٗ۔
٤٦٢٨: اسامہ بن زید نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا کہ جس نے اپنی لونڈی سے وطی کی پھر اس کو ضائع کیا اور اس کو باہر نکلنے دیا پھر اس نے بچہ جنا تو یہ لڑکا اس کا شمار ہوگا اور ضائع کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ عمر (رض) کا فیصلہ اور ابن عمر (رض) کا قول ہے۔ ان سے اختلاف کرتے ہوئے دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ لونڈی کے ہاں جو بچہ پیدا ہوگا وہ آقا کو لازم نہیں ہوگا البتہ یہ کہ وہ اس کا اقرار کرلے۔ اگر اقرار سے پہلے مرگیا تو وہ بچہ اس سے متعلق نہ کیا جائے گا اس کی دلیل سابقہ روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : ” ہو لک یا عبد بن زمعۃ “ آپ نے یہ نہیں فرمایا وہ تیرا بھائی ہے اور ” ہو لک “ کا سے یہ معنی لینا درست ہے کہ وہ تیرا غلام ہے کیونکہ تم لوگوں نے اپنے مال سے خریدا ہے اس کے نسب میں کچھ فیصلہ نہ کیا جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ بنت زمعہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ابن زمعہ کا بھائی قرار دیا ہوتا تو بنت زمعہ اس سے پردہ نہ کرتیں کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطع رحمی کا حکم دینے والے نہ تھے بلکہ آپ صلہ رحمی کا حکم دینے والے تھے اور ایک دوسرے کی ملاقات یہ صلہ رحمی کا حصہ ہے پھر یہ کیونکر جائز تھا کہ اس کو اس کا بھائی قرار دے کر پھر اس سے پردے کا حکم دیا گیا ؟ اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ممکن نہیں ہے اور یہ درست کیسے ہوسکتا ہے جبکہ آپ عائشہ (رض) کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنے رضاعی چچا کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دیں پھر سودہ (رض) کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ اپنے بھائی اور باپ کے بیٹے سے پردہ کریں ؟ مگر اس کی اصل وجہ ہمارے ہاں (واللہ اعلم) یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق اور کوئی فیصلہ نہیں فرمایا۔ سوائے اس بات کے کہ وہ عبد بن زمعہ کی ملکیت ہے اور زمعہ کے تمام ورثاء کا اس میں حق ہے سعد کا حق نہیں۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ اگر بات اتنی سی ہے جو آپ نے کہی تو پھر اس ارشاد کو ساتھ ملانے کا کیا مقصد ہے : ” الولد للفراش وللعاہرالحجر ؟ “ اس سے تو نسب کے ساتھ ان سے ملانا عیاں ہو رہا ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات سعد (رض) کو سمجھانے کے لیے کہی کہ تم اس کے متعلق دعویٰ رکھتے ہو کہ وہ تیرے بھائی کا ہے۔ حالانکہ یہ اس کی ذاتی لونڈی نہیں۔ اگر یہ اس کی ذاتی لونڈی ہوتی تو تب نسب ثابت ہوتا جب اس کی لونڈی نہیں تو وہ زانی ہے اور زانی پتھروں کا حقدار ہے۔ یہ روایت اس معنی کی وضاحت کر رہی ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے علماء کا قول یہ ہے لونڈی کے ہاں جو بچہ پیدا ہوگا وہ آقا کو لازم نہیں ہوگا البتہ یہ کہ وہ اس کا اقرار کرلے۔ اگر اقرار سے پہلے مرگیا تو وہ بچہ اس سے متعلق نہ کیا جائے گا اس کی دلیل سابقہ روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ” ہو لک یا عبد بن زمعۃ “ آپ نے یہ نہیں فرمایا وہ تیرا بھائی ہے اور ” ہو لک “ کا سے یہ معنی لینا درست ہے کہ وہ تیرا غلام ہے کیونکہ تم لوگوں سے اپنے مال سے خریدا ہے اس کے نسب میں کچھ فیصلہ نہ کیا جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ بنت زمعہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ابن زمعہ کا قرار دیا ہوتا تو بنت زمعہ اس سے پردہ نہ کرتیں کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطع رحمی کا حکم دینے والے نہ تھے بلکہ آپ صلہ رحمی کا حکم دینے والے تھے اور ایک دوسرے کی ملاقات یہ صلہ رحمی کا حصہ ہے پھر یہ کیونکر جائز تھا کہ اس کو اس کا بھائی قرار دے کر پھر اس سے پردے کا حکم دیا گیا ؟ اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ممکن نہیں ہے۔
اور یہ درست کیسے ہوسکتا ہے جبکہ آپ عائشہ (رض) کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنے رضاعی چچا کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دیں پھر سودہ (رض) کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ اپنے بھائی اور باپ کے بیٹے سے پردہ کریں ؟
اصل وجہ : مگر اس کی اصل وجہ ہمارے ہاں (واللہ اعلم) یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق اور کوئی فیصلہ نہیں فرمایا۔ سوائے اس بات کے کہ وہ عبد بن زمعہ کی ملکیت ہے اور زمعہ کے تمام ورثاء کا اس میں حق ہے سعد کا حق نہیں۔
اشکال :
اگر بات اتنی سی ہے جو آپ نے کہی تو پھر اس ارشاد کو ساتھ ملانے کا کیا مقصد ہے ” الولد للفرش وللعاہرالحجر ؟ “ اس سے تو نسب کے ساتھ ان سے ملانا عیاں ہو رہا ہے۔
جواب : یہ بات سعد (رض) کو سمجھانے کے لیے کہ تم اس کے متعلق دعویٰ رکھتے ہو کہ وہ تیرے بھائی کا ہے۔ حالانکہ یہ اس کی ذاتی لونڈی نہیں۔ اگر یہ اس کی ذاتی لونڈی ہوتی تو تب نسب ثابت ہوتا جب اس کی لونڈی نہیں تو وہ زانی ہے اور زانی پتھروں کا حقدار ہے۔ یہ روایت اس معنی کی وضاحت کر رہی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔