HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4629

۴۶۲۹: مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَۃَ ، قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ کَانَتْ لِزَمْعَۃَ جَارِیَۃٌ یَطَؤُہَا ، وَکَانَ یَظُنُّ بِرَجُلٍ آخَرَ أَنَّہٗ یَقَعُ عَلَیْہَا ، فَمَاتَ زَمْعَۃُ وَہِیَ حُبْلَی ، فَوَلَدَتْ غُلَامًا ، کَانَ یُشْبِہُ الرَّجُلَ الَّذِیْ کَانَ یُظَنُّ بِہَا ، فَذَکَرَتْہُ سَوْدَۃُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَّا الْمِیْرَاثُ فَلَہٗ، وَأَمَّا أَنْتِ فَاحْتَجِبِیْ مِنْہٗ، فَاِنَّہٗ لَیْسَ لَک بِأَخٍ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ زَمْعَۃَ کَانَ یَطَأُ تِلْکَ الْأَمَۃَ ، وَأَنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِسَوْدَۃِ لَیْسَ ہُوَ لَک بِأَخٍ یَعْنِی ابْنَ الْمَوْطُوْئَ ۃِ .فَدَلَّ ہَذَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ یَکُنْ قَضَی فِیْ نَسَبِہٖ عَلَی زَمْعَۃَ بِشَیْئٍ ، وَأَنَّ وَطْئَ زَمْعَۃَ لَمْ یَکُنْ - عِنْدَہُ - بِمُوْجِبٍ أَنَّ مَا جَائَ تْ بِہٖ تِلْکَ الْمَوْطُوْئَ ۃُ مِنْ وَلَدٍ مِنْہُ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَّا الْمِیْرَاثُ فَلَہُ فَہٰذَا یَدُلُّ عَلَی قَضَائِہِ بِنَسَبِہٖ .قِیْلَ لَہٗ : مَا یَدُلُّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْتُ ، لِأَنَّ عَبْدَ بْنَ زَمْعَۃَ قَدْ کَانَ ادَّعَاہٗ، وَزَعَمَ أَنَّہٗ ابْنُ أَبِیْہِ، لِأَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَدْ أَخْبَرَتْ فِیْ حَدِیْثِہَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ عَنْہَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّ عَبْدَ بْنَ زَمْعَۃَ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - حِیْنَ نَازَعَہُ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ - أَخِی ابْنُ وَلِیْدَۃِ أَبِیْ، وُلِدَ عَلَی فِرَاشِ أَبِی فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ سَوْدَۃُ قَالَتْ مِثْلَ ذٰلِکَ ، وَہُمَا وَارِثَا زَمْعَۃَ ، فَکَانَا مُقِرَّیْنِ لَہُ بِوُجُوْبِ الْمِیْرَاثِ ، مِمَّا تَرَکَ زَمْعَۃُ .فَجَازَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمَا فِی الْمَالِ الَّذِیْ کَانَ یَکُوْنُ لَہُمَا ، لَوْ لَمْ یُقِرَّ بِمَا أَقَرَّا بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ ، وَلَمْ یَجِبْ بِذٰلِکَ ثُبُوْتُ نَسَبٍ ، یَجِبُ بِہٖ حُکْمٌ ، فَیُخَلَّیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ النَّظَرِ اِلَیْ سَوْدَۃَ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّمَا کَانَ أَمْرُہَا بِالْحِجَابِ مِنْہٗ، لِمَا کَانَ رَأَی مِنْ شَبَہِہِ بِ عُتْبَۃَ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قِیْلَ لَہٗ : ہَذَا لَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، لِأَنَّ وُجُوْدَ الشَّبَہٖ، لَا یَجِبُ بِہٖ ثُبُوْتُ نَسَبٍ ، وَلَا یَجِبُ بِعَدَمِہِ انْتِفَائُ نَسَبٍ .أَلَا تَرَیْ اِلَی الرَّجُلِ الَّذِیْ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ امْرَأَتِی وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَلْ لَک مِنْ اِبِلٍ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ فَمَا أَلْوَانُہَا ؟ فَذَکَرَ کَلَامًا .قَالَ فَہَلْ فِیْہَا مِنْ أَوْرَقَ ؟ قَالَ : اِنَّ فِیْہَا لَوَرِقًا .قَالَ مِمَّ تَرَیْ ذٰلِکَ جَائَ ہَا ؟ قَالَ : مِنْ عِرْقٍ نَزَعَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّ ہَذَا مِنْ عِرْقٍ نَزَعَہُ وَقَدْ ذَکَرْنَا ہٰذَا الْحَدِیْثَ بِاِسْنَادِہٖ، فِی بَابِ اللِّعَانِ فَلَمْ یُرَخِّصْ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَفْیِہٖ، لِبُعْدِ شَبَہِہِ مِنْہٗ، وَلَا مَنَعَہُ مِنْ اِدْخَالِہِ عَلَی بَنَاتِہٖ وَحَرَمِہٖ، بَلْ ضَرَبَہُ لَہُ مَثَلًا ، أَعْلَمَہُ بِہٖ أَنَّ الشَّبَہَ لَا یُوْجِبُ ثُبُوْتَ الْأَنْسَابِ ، وَأَنَّ عَدَمَہُ لَا یَجِبُ بِہٖ انْتِفَائُ الْأَنْسَابِ .فَکَذٰلِکَ ابْنُ وَلِیْدَۃِ زَمْعَۃَ ، لَوْ کَانَ وَطْئُ زَمْعَۃَ لِأُمِّہِ یُوْجِبُ ثُبُوْتَ نَسَبِہٖ مِنْہٗ، اِذًا لَمَا کَانَ لِبُعْدِ شَبَہِہِ مِنْہُ مَعْنًی ، وَلَکَانَ نَسَبُہٗ مِنْہُ ثَابِتُ الدَّخْلِ عَلَی بَنَاتِہٖ، کَمَا یَدْخُلُ عَلَیْہِنَّ غَیْرُہُ مِنْ بَنِیْہِ وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا - فِیْ ذٰلِکَ - مِمَّا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنْہُمَا ، فَاِنَّہٗ قَدْ خَالَفَہُمَا فِیْ ذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ
٤٦٢٩: یوسف بن زبیر نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے نقل کیا کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ وطی کرتے تھے ان کا گمان یہ تھا کہ اور (فلاں) آدمی بھی اس سے قربت کرتا ہے زمعہ کی وفات ہوگئی جبکہ وہ حاملہ تھی اور اس نے ایک بچہ جنا اور وہ بچہ اس آدمی کے مشابہہ تھا جس کے متعلق زمعہ کو گمان تھا حضرت سودہ (رض) نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا۔ یہ زمعہ ہی کی میراث ہے۔ رہا تیرا معاملہ تو تو اس سے پردہ کیا کرو ‘ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ اس روایت میں واضح موجود ہے کہ زمعہ اس سے وطی کرتا تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ (رض) کو صاف فرمایا وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ بلکہ وہ موطوہ کا بیٹا ہے۔ اس سے واضح دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمعہ کے لیے نسب کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا اور زمعہ کا اس سے وطی کرنا بھی آپ کے ہاں اس بات کو لازم کرنے والا نہ تھا کہ جو بچہ جنا ہے یہ اسی کا ہے۔ اس پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔ اس حدیث میں ” اما المیراث فلہ “ کے الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ نسب کے سلسلہ میں تھا۔ اس حدیث میں یہ بات کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المیراث فلہ یہ جملہ نسبی فیصلے پر دلالت نہیں۔ بلکہ اتنی بات ہے کہ عبد بن زمعہ نے اس کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا خیال یہ تھا کہ وہ اس کا باپ جایا ہے کیونکہ عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے کہ عبد بن زمعہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سعد (رض) کے جھگڑے کے موقعہ پر کہا یہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے اور میرے والد کے بستر پر پیدا ہوا اور یہ بات سودہ (رض) کے لیے بھی درست ہے کہ وہ ایسی بات کہیں کیونکہ زمعہ کے وہی دونوں وارث تھے۔ تو وہ اس کا اقرار زمعہ کی میراث کے وجوب کے لیے کر رہے تھے۔ تو یہ اقرار دونوں کو اس تمام مال کے متعلق درست تھا جو زمعہ چھوڑ کر مرے تھے۔ جیسا کہ اگر وہ دونوں اقرار نہ بھی کرتے تب بھی وہ وارث تھے مگر اس سے ثبوت نسب نہیں ہوا کہ جس سے کوئی حکم لگ سکے۔ کہ سودہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ سودہ (رض) کو پردہ کا حکم تو اس لیے دیا تھا کہ عتبہ سے اس کی مشابہت پائی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ایسی بات نہیں ہوسکتی کیونکہ فقط مشابہت کے پائے جانے سے نسب ثابت ہوتا اور نہ ہی عدم مشابہت نسب کی نفی کو لازم کرنے والا ہے۔ اس کے لیے آپ اس روایت کو سامنے رکھیں کہ ایک شخص بارگاہ نبوی میں عرض پیرا ہے کہ میری بیوی نے سیاہ رنگ بچہ جنا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا۔ کس رنگ کے ہیں ؟ اس نے رنگوں کے متعلق بات بتلائی تو آپ نے فرمایا کیا ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں آپ نے فرمایا وہ گندمی رنگ کہاں سے آئے تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے عرض کیا کہ کسی رگ نے اسے کھینچا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی کسی رگ نے کھینچا ہو۔ یہ روایت مکمل تفصیل کے ساتھ باب اللعان میں گزری ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عدم مشابہت کی وجہ سے نسبت کی نفی کو جائز قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس وجہ سے اس کو دوسرے بیٹے اور بیٹیوں اور دیگر مس توراۃ کے پاس آنے جانے سے روکا۔ بلکہ ایک مثال دے کر اسے بتلایا کہ محض مشابہت سے نسب ثابت نہیں ہوتا اور عدم مشابہت سے نسب کی نفی نہیں کی جاتی۔ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر زمعہ نے اس کی ماں سے وطی کی ہے تو اس کا اس سے نسب ثابت ہوگا اور اس صورت میں عدم مشابہت کا کوئی مطلب نہ ہوگا اور اس کا نسب اس سے ثابت رہے گا اور یہ اس کی بیٹیوں کے پاس دوسرے بیٹوں کی طرح آ جا اور داخل ہو سکے گا۔ رہی وہ روایت جو عمر فاروق (رض) اور ابن عمر (رض) سے اس سلسلہ میں منقول ہے تو ابن عباس (رض) اور زید بن ثابت (رض) سے اس کے خلاف روایت موجود ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٥۔
حاصل روایت : اس روایت میں واضح موجود ہے کہ زمعہ اس سے وطی کرتا تھا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سودہ (رض) کو صاف فرمایا وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ بلکہ وہ موطوہ کا بیٹا ہے۔ اس سے واضح دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمعہ کے لیے نسب کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا اور زمعہ کا اس سے وطی کرنا بھی آپ کے ہاں اس بات کو لازم رنے والا نہ تھا کہ جو بچہ جنا ہے یہ اسی کا ہے۔ اس پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔
اشکال : اس حدیث میں ” اما المیراث فلہ “ کے الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ نسب کے سلسلہ میں تھا۔
جواباس حدیث میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المیراث فلہ یہ جملہ نسبی فیصلے پر دلالت نہیں۔ بلکہ اتنی بات ہے کہ عبد بن زمعہ نے اس کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا خیال یہ تھا کہ وہ اس کا باپ جایا ہے کیونکہ عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے کہ عبد بن زمعہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سعد (رض) کے جھگڑے کے موقعہ پر کہا کہ یہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے اور میرے والد کے بستر پر پیدا ہوا اور یہ بات سودہ (رض) کے لیے بھی درست ہے کہ وہ ایسی بات کہیں کیونکہ زمعہ کے وہی دونوں وارث تھے۔ تو وہ اس کا اقرار زمعہ کی میراث کے وجوب کے لیے کر رہے تھے۔ تو یہ اقرار دونوں کو اس تمام مال کے متعلق درست تھا جو زمعہ چھوڑ کر مرے تھے۔ جیسا کہ اگر وہ دونوں اقرار نہ بھی کرتے تب بھی وہ وارث تھے مگر اس سے ثبوت نسب نہیں ہو کہ جس سے کوئی حکم لگ سکے۔ کہ سودہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیا جائے۔
ایک اور اشکال :
اگر کوئی یہ کہے کہ سودہ (رض) کو پردہ کا حکم تو اس لیے دیا تھا کہ عتبہ سے اس کی مشابہت پائی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں موجود ہے۔
جواباس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ایسی بات نہیں ہوسکتی کیونکہ فقط مشابہت کے پائے جانے سے نہ نسب ثابت ہوتا اور عدم مشابہت نسب کی نفی کو لازم کرنے والی نہیں ہے۔
اس کے لیے آپ اس روایت کو سامنے رکھیں کہ ایک شخص بارگاہ نبوی میں عرض پیرا ہے کہ میری بیوی نے سیاہ رنگ بچہ جنا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا۔ کس رنگ کے ہیں ؟ اس نے رنگوں کے متعلق بات بتلائی تو آپ نے فرمایا کیا ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں آپ نے فرمایا وہ گندمی رنگ کہاں سے آئے تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے عرض کیا کہ کسی رگ نے اسے کھینچا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی کسی رگ نے کھینچا ہو۔
یہ روایت مکمل تفصیل کے ساتھ ٤٥٦٨ باب اللعان میں گزری ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عدم مشابہت کی وجہ سے نسبت کی نفی کو جائز قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس وجہ سے اس کو دوسرے بیٹے اور بیٹیوں اور دیگر مس توراۃ کے پاس آنے جانے سے روکا۔ بلکہ ایک مثال دے کر اسے بتلایا کہ محض مشابہت سے نسب ثابت نہیں ہوتا اور عدم مشابہت سے نسب کی نفی نہیں کی جاتی۔ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر زمعہ نے اس کی ماں سے وطی کی ہے تو اس کا اس سے نسب ثابت ہوگا اور اس صورت میں عدم مشابہت کا کوئی مطلب نہ ہوگا اور اس کا نسب اس سے ثابت رہے گا اور یہ اس کی بیٹیوں کے پاس دوسرے بیٹوں کی طرح آ جا اور داخل ہو سکے گا۔
فریق اوّل کی دوسری و تیسری دلیل کا جواب :
رہی وہ روایت جو عمر فاروق (رض) اور ابن عمر (رض) سے اس سلسلہ میں منقول ہے تو ابن عباس (رض) اور زید بن ثابت (رض) سے اس کے خلاف روایت موجود ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔