HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4920

۴۹۲۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیْدِ الثَّقَفِیُّ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَۃَ وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذَّبْحَ وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ وَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ۔فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِأَنْ یُحْسِنُوْا الْقِتْلَۃَ وَأَنْ یُرِیْحُوْا مَا أَحَلَّ اللّٰہُ لَہُمْ ذَبْحَہُ مِنَ الْأَنْعَامِ فَمَا أَحَلَّ لَہُمْ قَتْلَہٗ مِنْ بَنِی آدَمَ فَہُوَ أَحْرَی أَنْ یُفْعَلَ بِہٖ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : لَا یُسْتَأْنَی بُرْئُ الْجِرَاحِ وَخَالَفَ مَا ذَکَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ فَکَفَی بِہٖ جَہْلًا فِیْ خِلَافِہِ کُلُّ مَنْ تَقَدَّمَہٗ مِنَ الْعُلَمَائِ .وَ عَلٰی ذٰلِکَ فَاِنَّا نُفْسِدُ قَوْلَہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ وَذٰلِکَ اِنَّا رَأَیْنَا رَجُلًا لَوْ قَطَعَ یَدَ رَجُلٍ خَطَأً فَبَرَأَ مِنْہَا وَجَبَتْ عَلَیْہِ دِیَۃُ الْیَدِ وَلَوْ مَاتَ مِنْہَا وَجَبَتْ عَلَیْہِ دِیَۃُ النَّفْسِ وَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ فِی الْیَدِ شَیْء ٌ وَدَخَلَ مَا کَانَ یَجِبُ فِی الْیَدِ فِیْمَا وَجَبَ فِی النَّفْسِ .فَصَارَ الْجَانِیْ کَمَنْ قُتِلَ وَلَیْسَ کَمَنْ قُطِعَ وَصَارَتِ الْیَدُ لَا یَجِبُ لَہَا حُکْمٌ اِلَّا وَالنَّفْسُ قَائِمَۃٌ وَلَا یَجِبُ لَہَا حُکْمٌ اِذَا کَانَتْ النَّفْسُ تَالِفَۃً .فَصَارَ النَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ اِذَا قَطَعَ یَدَہٗ عَمْدًا فَاِنْ بَرَأَ فَالْحُکْمُ لِلْیَدِ وَفِیْہَا الْقَوَدُ وَاِنْ مَاتَ مِنْہَا فَالْحُکْمُ لِلنَّفْسِ وَفِیْہَا الْقِصَاصُ لَا فِی الْیَدِ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ حُکْمِ الْخَطَأِ . وَیَدْخُلُ أَیْضًا عَلَی مَنْ یَقُوْلُ : اِنَّ الْجَانِیَ یُقْتَلُ کَمَا قُتِلَ أَنْ یَقُوْلَ اِذَا رَمَاہُ بِسَہْمٍ فَقَتَلَہٗ أَنْ یَنْصِبَ الرَّامِیَ فَیَرْمِیَہُ حَتّٰی یَقْتُلَہٗ، وَقَدْ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَبْرِ ذِی الرُّوْحِ فَلَا یَنْبَغِی أَنْ یُصْبَرَ أَحَدٌ لِنَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ وَلٰـکِنْ یُقْتَلُ قَتْلًا لَا یَکُوْنُ مَعَہُ شَیْء ٌ مِنَ النَّہْیِ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ نَکَحَ رَجُلًا فَقَتَلَہُ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا یَجِبُ لِلْوَلِیِّ أَنْ یَفْعَلَ بِالْقَاتِلِ کَمَا فَعَلَ وَلٰـکِنْ یَجِبُ لَہٗ أَنْ یَقْتُلَہُ لِأَنَّ نِکَاحَہُ اِیَّاہُ حَرَامٌ عَلَیْہِ .فَکَذٰلِکَ صَبْرُہُ اِیَّاہُ فِیْمَا وَصَفْنَا حَرَامٌ عَلَیْہِ وَلٰـکِنْ لَہُ قَتْلُہُ کَمَا یُقْتَلُ مَنْ حَلَّ دَمُہُ بِرِدَّۃٍ أَوْ بِغَیْرِہَا .ہَذَا ہُوَ النَّظْرُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .غَیْرَ أَنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ لَا یُوْجِبُ الْقَوَدَ عَلَی مَنْ قُتِلَ بِحَجَرٍ وَسَنُبَیِّنُ قَوْلَہُ ہَذَا وَالْحُجَّۃُ لَہُ فِیْ بَابِ شِبْہُ الْعَمْدِ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤٩٢٠: ابوالاشعث نے حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت کی کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے احسان کو ہر چیز میں لازم قرار دیا۔ پس جب تم قتل کرو تو اچھے انداز سے قتل کرو اور جب کسی (جانور ) کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور مناسب یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم فرمایا کہ اچھے طریقے سے قتل کریں اور جن جانوروں کا ذبح کرنا اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جائز رکھا ہے ان سے یہ سلوک کرنا نہایت مناسب ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ زخم کے درست ہونے کا انتظار کرنے کی کیا حاجت ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم صحیح روایات ذکر کر آئے اس سے ان کی مخالفت لازم آئے گی اور اس کی جہالت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ علماء متقدمین کا مخالف ہے بلکہ قیاس کے اعتبار سے بھی اس کی بات غلط ہے۔ ملاحظہ کریں۔ ہم نے غور کر کے دیکھا کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی دوسرے آدمی کا ہاتھ کاٹ دے اور وہ درست ہوجائے تو اس پر ہاتھ کی دیت لازم ہوتی ہے اور اگر وہ اس کی وجہ سے مرجائے تو اس پر ایک جان کی دیت لازم ہوتی ہے اور ہاتھ کے سلسلہ میں کچھ لازم نہیں آتا۔ ہاتھ کے سلسلہ میں لازم ہونے والی سزا نفس و جان کی چٹی میں لازم ہونے والی سزا میں داخل ہوجاتی ہے اور جرم کرنے والا قاتل کی طرح ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ کاٹنے والے کی طرح نہیں رہتا۔ ہاتھ کا حکم صرف اس صورت میں لازم ہوتا ہے جبکہ انسانی جان باقی ہو اور اگر اس کی جان ضائع ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم واجب نہیں ہوتا تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب وہ جان بوجھ کر ہاتھ کاٹے تو حکم اسی طرح ہو اگر وہ درست ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم لگے گا اور اس میں دیت ہے اور اگر اس سے مرجائے تو نفس کا حکم ہوگا اور اس میں قصاص لازم ہوگا ہاتھ کا بدلہ نہ ہوگا۔ خطاء کے سلسلہ میں ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے۔ اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ جناب اگر آپ کہتے ہیں کہ اسی طرح قتل کرنا لازم ہے تو آپ اس آدمی کے متعلق کیا فرمائیں گے جس نے کسی کو تیر مار کر ہلاک کردیا تو کیا آپ تیر مارنے والے کو کھڑا کر کے تیر مارنے کا حکم دیں گے حالانکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑا کر کے کسی بھی جاندار کو تیر مارنے کی صاف ممانعت فرمائی ہے۔ اس موقعہ پر تو آپ یہی فرمائیں گے کہ جس طریقے پر اس کو قتل کی ممانعت نہ کی گئی ہو اس طریقے پر قتل کیا جائے۔ ذرا غور کرو کہ اگر کوئی مرد کسی مرد سے بدفعلی کرے اور اس کی وجہ سے اس کو ہلاک کر دے تو مقتول کے ولی کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قاتل کے ساتھ وہی فعل کرے جو اس نے کیا بلکہ قاتل پر لازم ہے کہ وہ اس کو صرف قتل کرے۔ کیونکہ قاتل کے ساتھ بدفعلی کرنا بھی حرام ہے اور اسے باندھ کر اس کو ہلاک کرنا بھی حرام ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا صرف اس کو قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ جس طرح اس شخص کو قتل کیا جاتا ہے جس کا خون مرتد ہونے یا کسی اور وجہ سے مباح ہوچکا ہو۔ قیاس کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں پتھر سے ہلاک کرنے والے پر بدلہ واجب نہیں۔ ہم آپ کے اس قول اور دلیل کو باب شبہ عمد میں ان شاء اللہ بیان کریں گے۔
تخریج : مسلم فی الصید ٥٧‘ ابو داؤد فی الاضاحی باب ١١‘ ترمذی فی الدیات باب ١٤‘ نسائی فی الضحایا باب ٢٢‘ ٢٦؍٢٧‘ ابن ماجہ فی الذبائح باب ٣‘ دارمی فی الاضاحی باب ١٠‘ مسند احمد ٤‘ ١٢٣؍١٢٤۔
لغات : القتلہ۔ حالت قتل۔ یریح۔ آرام پہنچانا۔
جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم فرمایا کہ اچھے طریقے سے قتل کریں اور جن جانوروں کا ذبح کرنا اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جائز رکھا ہے ان سے یہ سلوک کرنا نہایت مناسب ہے۔
ایک اعتراض :
زخم کے درست ہونے کا انتظار کرنے کی کیا حاجت ہے۔
جواب : گزشتہ صفحات میں ہم صحیح روایات ذکر کر آئے اس سے ان کی مخالفت لازم آئے گی اور اس کی جہالت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ علماء متقدمین کا مخالف ہے بلکہ قیاس کے اعتبار سے بھی اس کی بات غلط ہے۔ ملاحظہ کریں۔
نظر طحاوی (رح) :
ہم نے غور کر کے دیکھا کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی دوسرے آدمی کا ہاتھ کاٹ دے اور وہ درست ہوجائے تو اس پر ہاتھ کی دیت لازم ہوتی ہے اور اگر وہ اس کی وجہ سے مرجائے تو اس پر ایک جان کی دیت لازم ہوتی ہے اور ہاتھ کے سلسلہ میں کچھ لازم نہیں آتا۔ ہاتھ کے سلسلہ میں لازم ہونے والی سزا نفس و جان کی چٹی میں لازم ہونے والی سزا میں داخل ہوجاتی ہے اور جرم کرنے والا قاتل کی طرح ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ کاٹنے والے کی طرح نہیں رہتا۔ ہاتھ کا حکم صرف اس صورت میں لازم ہوتا ہے جبکہ انسانی جان باقی ہو اور اگر اس کی جان ضائع ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم واجب نہیں ہوتا تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب وہ جازن بوجھ کر ہاتھ کاٹے تو حکم اسی طرح ہو اگر وہ درست ہوجائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم لگے گا اور اس میں دیت ہے اور اگر اس سے مرجائے تو نفس کا حکم ہوگا اور اس میں قصاص لازم ہوگا ہاتھ کا بدلہ نہ ہوگا۔ خطاء کے سلسلہ میں ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے۔ اس پر قیاس کا تقاضا یہی ہے۔
فریق اوّل پر ایک سوال :
جناب اگر آپ کہتے ہیں کہ اسی طرح قتل کرنا لازم ہے تو آپ اس آدمی کے متعلق کیا فرمائیں گے جس نے کسی کو تیر مار کر ہلاک کردیا تو کیا آپ تیر مارنے والے کو کھڑا کر کے تیر مارنے کا حکم دیں گے حالانکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑا کر کے کسی بھی جاندار کو تیر مارنے کی صاف ممانعت فرمائی ہے۔
اس موقعہ پر تو آپ یہی فرمائیں گے کہ جس طریقے پر اس کو قتل کی ممانعت نہ کی گئی ہو اس طریقے پر قتل کیا جائے۔
ذرا غور ککرو کہ اگر کوئی مرد کسی مرد سے بدفعلی کرے اور اس کی وجہ سے اس کو ہلاک کر دے تو مقتول کے ولی کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قاتل کے ساتھ وہی فعل کرے جو اس نے کیا بلکہ قاتل پر لازم ہے کہ وہ اس کو صرف قتل کرے۔ کیونکہ قاتل کے ساتھ بدفعلی کرنا بھی حرام ہے اور اسے باندھ کر اس کو ہلاک کرنا بھی حرام ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا صرف اس کو قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ جس طرح اس شخص کو قتل کیا جاتا ہے جس کا خون مترد ہونے یا کسی اور وجہ سے مباح ہوچکا ہو۔ قیاس کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کے ہاں پتھر سے ہلاک کرنے والے پر بدلہ واجب نہیں۔ ہم آپ کے اس قول اور دلیل کو باب شبہ عمد میں ان شاء اللہ بیان کریں گے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔