HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4921

۴۹۲۱: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ قَاسِمِ ابْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ جَوْشَنٍ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَوْسٍ السَّدُوْسِیِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَقَالَ فِیْ خُطْبَتِہِ أَلَا اِنَّ قَتِیْلَ خَطَأِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ ، فِیْہِ دِیَۃٌ مُغَلَّظَۃٌ مِائَۃٌ مِنَ الْاِبِلِ مِنْہَا أَرْبَعُوْنَ خِلْفَۃً فِیْ بُطُوْنِہَا أَوْلَادُہَا .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَالُوْا : لَا قَوَدَ عَلَی مَنْ قَتَلَ رَجُلًا بِعَصًا أَوْ حَجَرٍ .وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ مِنْہُمْ أَبُوْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا فَقَالُوْا : اِذَا کَانَتِ الْخَشَبَۃُ مِثْلُہَا یَقْتُلُ فَعَلَی الْقَاتِلِ بِہَا الْقِصَاصُ وَذٰلِکَ عَمْدٌ .وَاِنْ کَانَ مِثْلُہَا لَا یَقْتُلُ فَفِیْ ذٰلِکَ الدِّیَۃُ وَذٰلِکَ شِبْہُ الْعَمْدِ .وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْمَا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْنَا أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی مِنْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَا اِنَّ قَتِیْلَ خَطَأِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ ، فِیْہِ مِائَۃٌ مِنَ الْاِبِلِ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا قَالُوْا ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِذٰلِکَ الْعَصَا الَّتِیْ لَا تَقْتُلُ مِثْلُہَا الَّتِیْ ہِیَ کَالسَّوْطِ الَّذِی لَا یَقْتُلُ مِثْلُہٗ .فَاِنْ کَانَ أَرَادَ ذٰلِکَ فَہُوَ الَّذِیْ قُلْنَا ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ أَرَادَ ذٰلِکَ وَأَرَادَ مَا قُلْتُمْ أَنْتُمْ فَقَدْ تَرَکْنَا الْحَدِیْثَ وَخَالَفْنَاہُ .فَنَحْنُ بَعْدُ لَمْ نُثْبِتْ خِلَافَنَا لِہٰذَا الْحَدِیْثِ اِذْ کُنَّا نَقُوْلُ : اِنَّ مِنَ الْعَصَا مَا اِذَا قُتِلَ بِہٖ لَمْ یَجِبْ بِہٖ عَلَی الْقَاتِلِ قَوَدٌ .وَہٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ حَمَلْنَا عَلَیْہِ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَوْلَی مِمَّا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ؛ لِأَنَّ مَا حَمَلْنَاہُ عَلَیْہِ لَا یُضَادُّ حَدِیْثَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِیجَابِہٖ الْقَوَدَ عَلَی الْیَہُوْدِیِّ الَّذِیْ رَضَخَ رَأْسَ الْجَارِیَۃِ بِحَجَرٍ .وَمَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی یُضَادُّ ذٰلِکَ وَیَنْفِیْہِ .وَلَأَنْ یُحْمَلَ الْحَدِیْثُ عَلٰی مَا یُوَافِقُ بَعْضُہٗ بَعْضًا أَوْلَی مِنْ أَنْ یُحْمَلَ عَلٰی مَا یُضَادُّ بَعْضُہٗ بَعْضًا .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَأَنْتَ قَدْ قُلْتُ اِنَّ حَدِیْثَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہَذَا مَنْسُوْخٌ فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ فَکَیْفَ أَثْبَتَّ الْعَمَلَ بِہٖ ہَاہُنَا ؟ قِیْلَ لَہٗ : لَمْ نَقُلْ اِنَّ حَدِیْثَ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہَذَا مَنْسُوْخٌ مِنْ جِہَۃِ مَا ذَکَرْتُ وَقَدْ ثَبَتَ وُجُوْبُ الْقَوَدِ وَالْقَتْلِ بِالْحَجَرِ فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ .وَاِنَّمَا قُلْتُ :اِنَّ الْقِصَاصَ بِالْحَجَرِ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَنْسُوْخًا لِمَا قَدْ ذَکَرْتُ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ .فَحَدِیْثُ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ اِیجَابِ الْقَوَدِ عِنْدَنَا غَیْرُ مَنْسُوْخٍ .وَفِیْ کَیْفِیَّۃِ الْقَوَدِ الْوَاجِبِ قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ مَنْسُوْخًا عَلٰی مَا فَسَّرْنَا وَبَیَّنَّا فِی الْبَابِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْبَابِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلَّذِیْنَ قَالُوْا : اِنَّ الْقَتْلَ بِالْحَجَرِ لَا یُوْجِبُ الْقَوَدَ فِیْ دَفْعِ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ مَا أَوْجَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقَتْلِ فِیْ ذٰلِکَ حَقًّا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَجَعَلَ الْیَہُوْدِیَّ کَقَاطِعِ الطَّرِیْقِ الَّذِیْ یَکُوْنُ مَا وَجَبَ عَلَیْہِ حَدًّا مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَاِنَّ قَاطِعَ الطَّرِیْقِ اِذَا قَتَلَ بِحَجَرٍ أَوْ بِعَصًا وَجَبَ عَلَیْہِ الْقَتْلُ فِیْ قَوْلِ الَّذِیْ یَزْعُمُ أَنَّہٗ لَا قَوَدَ عَلَی مَنْ قَتَلَ بِعَصًا ، وَقَدْ قَالَ بِہٰذَا الْقَوْلِ جَمَاعَۃٌ مِنْ أَہْلِ النَّظَرِ .وَقَدْ قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْخِنَاقِ اِنَّ عَلَیْہِ الدِّیَۃَ وَأَنَّہٗ لَا یُقْتَلُ اِلَّا أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ فَیُقْتَلُ وَیَکُوْنُ ذٰلِکَ حَدًّا مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتَلَ الْیَہُوْدِیَّ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِأَنَّہٗ وَجَبَ عَلَیْہِ الْقَتْلُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَا یَجِبُ عَلَی قَاطِعِ الطَّرِیْقِ .فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَاِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : کُلُّ مَنْ قَطَعَ الطَّرِیْقَ فَقَتَلَ بِعَصًا أَوْ حَجَرٍ أَوْ فَعَلَ ذٰلِکَ فِی الْمِصْرِ یَکُوْنُ حُکْمُہٗ فِیْمَا فَعَلَ حُکْمَ قَاطِعِ الطَّرِیْقِ ، وَکَذٰلِکَ الْخَنَّاقُ الَّذِیْ قَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ أَنَّہٗ یُقْتَلُ .وَقَدْ کَانَ یَنْبَغِی فِی الْقِیَاسِ عَلَی قَوْلِہٖ : أَنْ یَکُوْنَ یَجِبُ عَلَی مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مَرَّۃً وَاحِدَۃً الْقَتْلُ وَیَکُوْنُ ذٰلِکَ حَدًّا مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَا یَجِبُ اِذَا فَعَلَہُ مِرَارًا لِأَنَّا رَأَیْنَا الْحُدُوْدَ یُوْجِبُہَا انْتِہَاکُ الْحُرْمَۃِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً ثُمَّ لَا یَجِبُ عَلَی مَنْ انْتَہَکَ تِلْکَ الْحُرْمَۃَ ثَانِیَۃً اِلَّا مَا وَجَبَ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِہَا فِی الْبَدْئِ .فَکَانَ النَّظْرُ فِیْمَا وَصَفْنَا أَنْ یَکُوْنَ الْجَانِی الْخَنَّاقُ کَذٰلِکَ أَیْضًا وَأَنْ یَکُوْنَ حُکْمُہٗ فِیْ أَوَّلِ مَرَّۃٍ ہُوَ حُکْمَہُ فِیْ آخِرِ مَرَّۃٍ ہَذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَفِیْ ثُبُوْتِ مَا ذَکَرْنَا مَا یَرْفَعُ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حُجَّۃٌ عَلَی مَنْ یَقُوْلُ مَنْ قَتَلَ رَجُلًا بِحَجَرٍ فَلَا قَوَدَ عَلَیْہِ .وَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا فِیْ قَوْلِہٖ ہَذَا
٤٩٢١: عقبہ بن اوس سدوسی ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ نے اپنے خطبہ میں فرمایا سنو ! شبہ عمد کا مقتول وہ ہے جو کوڑے لاٹھی اور پتھر سے قتل ہوجائے اس میں دیت مغلظہ یعنی سو اونٹ ہیں جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جس شخص نے کسی کو لاٹھی یا پتھر سے ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے یہ بات کہنے والوں میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہیں۔ فریق ثانی میں امام ابو یوسف (رح) محمد (رح) بھی شامل ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسی لکڑی ہو جو ہلاک کردیتی ہو تو اس میں قاتل پر قصاص ہے اور یہ قتل عمد میں شامل ہے اور اگر لکڑی ایسی نہ ہو جس سے عموماً ہلاکت ہوتی ہے تو اس میں دیت ہے اور یہ شبہ عمد ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ارشاد گرامی لوگو ! سنو ! شبہ عمد کوڑے ‘ عصا اور پتھر سے قتل کرنا ہے اور اس میں سو اونٹ دیت ہے۔ اس میں آپ کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وہ لاٹھی مراد لی ہو جو ہلاک نہیں کرتی اور وہ اس کوڑے کی طرح ہے جس سے ہلاکت واقع نہیں ہوتی اور اگر یہی بات ہو تو پھر ہماری بات ثابت ہوگئی اور اگر آپ کی مراد یہ نہ ہو بلکہ وہ بات ہو جو تم کہہ رہے ہو تو گویا پھر ہم نے روایت کو ترک کردیا اور اس کے خلاف کیا حالانکہ ہم نے حدیث کی مخالفت نہیں کی اس لیے کہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بعض لاٹھیاں ایسی ہیں کہ ان سے ہلاکت کے سبب قاتل پر قصاص لازم نہیں ہوتا۔ ہمارا یہ معنی فریق اوّل کے معنی سے بہتر ہے کیونکہ اس طرح وہ حضرت انس (رض) والی روایت جس میں یہودی پر قصاص لازم قرار دیا گیا جس نے بچی کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اور فریق اوّل کا معنی روایت انس (رض) کے خلاف ہے اور اس کی نفی کرتا ہے۔ حدیث کا ایسا مفہوم لینا جس سے روایات ایک دوسرے کے موافق ہوں اس معنی لینے سے بہتر ہے جس سے روایات میں تضاد ہو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے تو گزشتہ باب میں کہا تھا کہ روایت انس (رض) منسوخ ہے اور یہاں اس سے اس عمل کو ثابت کر رہے ہیں۔ تو اس کے جواب میں کہے ہم عرض کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کی روایت اس جہت سے منسوخ ہے جس سے آپ کہتے ہیں اور جس کا ذکر آپ نے کیا۔ جبکہ اس روایت سے قصاص اور پتھر سے ہلاک کرنے کا وجوب ثابت ہو رہا ہے میں نے تو وہاں یہ کہا تھا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ پتھر کے ساتھ قصاص لینا منسوخ ہوچکا ہو۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں میں نے دلیل بھی ذکر کی ہے تو ہمارے نزدیک حضرت انس (رض) والی روایت قصاص کے وجوب کے سلسلہ میں منسوخ نہیں ہے۔ البتہ واجب قصاص کس طریقہ سے لیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں منسوخ ہونے کا احتمال ہے جیسا کہ گزشتہ باب میں ہم نے وضاحت کی ہے۔ حدیث انس (رض) میں یہ بھی احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قتل میں حق خداوندی کے طور پر قصاص کو لازم کیا ہو اور یہودی کو بمنزلہ ڈاکو کے قرار دیا جس پر اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد لاگو ہوتی ہے۔ ان کو جواب میں کہیں گے کہ اگر آپ کی بات کو اسی طرح تسلیم کرلیا جائے تو وہ ڈاکو جس نے پتھر یا لاٹھی سے کسی کو ہلاک کیا تو آپ بھی اس کے متعلق مانتے ہیں (حالانکہ لاٹھی کے ساتھ قتل کی صورت میں قصاص آپ کے ہاں واجب نہیں ہے) مجتہدین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ ادھر امام ابوحنیفہ (رح) گلا گھونٹ کر مارنے والے پر دیت کو لازم کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جب تک وہ اس فعل کا ارتکاب متعدد بار نہ کرے اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور کئی بار کرنے سے اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا۔ اب ہم (فریق ثانی) بھی یہی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی کا قتل اس لیے کیا ہو کہ اس کا قتل اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہوگیا تھا جیسا کہ ڈاکو کا قتل واجب ہوتا ہے۔ اگر یہ بات اسی طرح ہے تو پھر امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ جو آدمی ڈاکہ زنی کرے اور لاٹھی یا پتھر سے لوگوں کو ہلاک کرے یا شہر کے اندر یہ (ڈاکہ زنی وغیرہ) کرے تو اس کا حکم ڈاکو جیسا ہوگا اور اسی طرح اس کلا دبا کر ہلاک کرنے والے کا حکم ہے جس نے متعدد بار یہ حرکت کی ہو کہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ اب امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر قیاس کا تقاضا یہ ہے۔ کہ جو شخص ایک مرتبہ اس طرح کرے اس کا قتل بھی واجب و لازم ہو اور یہ قتل اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے طور پر اس پر لاگو ہوگا جیسا کہ متعدد بار کرنے سے اس پر لازم ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدود کو لازم کرنے والی چیز ایک مرتبہ قابل احترام چیز کی حرمت کا گرا دینا ہے تو اس حرمت کے پہلی مرتبہ گرانے سے جو حد لازم ہوتی ہے وہی کئی مرتبہ گرانے سے لازم ہوتی ہے۔ اب ہم نے جو کچھ بیان کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہ کہ گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے والے کا حکم بھی یہی ہو اور جو حکم پہلی بار سے لازم ہو متعدد بار کرنے سے وہی حکم ہو اس باب میں قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ اب ہماری بات کے ثابت ہونے سے حضرت انس (رض) کی روایت کا اس شخص کے خلاف حجت ہونا ختم ہوجاتا ہے جس کا قول یہ ہے کہ جس شخص نے پتھر سے کسی کو ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی ایک اور دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : نسائی فی القسامہ باب ٣٣‘ مسند احمد ٢؍١١‘ ١٠٣‘ ٣؍٤١٠۔
فریق اوّل کا مؤقف : جو لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے ہلاک کرے اس پر قصاص نہیں بلکہ دیت کاملہ ہے۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
امام طحاوی (رح) کا قول : کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جس شخص نے کسی کو لاٹھی یا پتھر سے ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے یہ بات کہنے والوں میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : فریق ثانی میں امام ابو یوسف (رح) محمد (رح) بھی شامل ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسی لکڑی ہو جو ہلاک کردیتی ہو تو اس میں قاتل پر قصاص ہے اور یہ قتل عمد میں شامل ہے اور اگر لکڑی ایسی نہ ہو جس سے عموماً ہلاکت ہوتی ہے تو اس میں دیت ہے اور یہ شبہ عمد ہے۔
فریق اوّل کے مؤقف کا جواب : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی لوگو ! سنو ! شبہ عمد کوڑے ‘ عصاء اور پتھر سے قتل کرنا ہے اور اس میں سو اونٹ دیت ہے۔ اس میں آپ کے مؤقف کی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وہ لاٹھی مراد لی ہو جو ہلاک نہیں کرتی اور وہ اس کوڑے کی طرح ہے جس سے ہلاکت واقعہ نہیں ہوتی اور اگر یہی بات ہو تو پھر ہماری بات ثابت ہوگئی اور اگر آپ کی مراد یہ نہ ہو بلکہ وہ بات ہو جو تم کہہ رہے ہو تو گویا پھر ہم نے روایت کو ترک کردیا اور اس کے خلاف کیا حالانکہ ہم نے حدیث کی مخالفت نہیں کی اس لیے کہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بعض لاٹھیاں ایسی ہیں کہ ان سے ہلاکت کے سبب قاتل پر قصاص لازم نہیں ہوتا۔
ہمارا یہ معنی فریق اوّل کے معنی سے بہتر ہے کیونکہ اس طرح وہ حضرت انس (رض) والی روایت جس میں یہودی پر قصاص لازم قرار دیا گیا جس نے بچی کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اور فریق اوّل کا معنی روایت انس (رض) کے خلاف ہے اور اس کی نفی کرتا ہے۔
حدیث کا ایسا مفہوم لینا جس سے روایات ایک دوسرے کے موافق ہوں اس معنی لینے سے بہتر ہے جس سے روایات میں تضاد ہو۔
M: آپ نے تو گزشتہ باب میں کہا تھا کہ روایت انس (رض) منسوخ ہے اور یہاں اس سے اس عمل کو ثابت کر رہے ہیں۔
جوابہم عرض کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کی روایت اس جہت سے منسوخ ہے جس سے آپ کہتے ہیں اور جس کا ذکر آپ نے کیا۔ جبکہ اس روایت سے قصاص اور پتھر سے ہلاک کرنے کا وجوب ثابت ہو رہا ہے میں نے تو وہاں یہ کہا تھا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ پتھر کے ساتھ قصاص لینا منسوخ ہوچکا ہو۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں میں نے دلیل بھی ذکر کی ہے تو ہمارے نزدیک حضرت انس (رض) والی روایت قصاص کے وجوب کے سلسلہ میں منسوخ نہیں ہے۔ البتہ واجب قصاص کس طریقہ سے لیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں منسوخ ہونے کا احتمال ہے جیسا کہ گزشتہ باب میں ہم نے وضاحت کی ہے۔
فریق اوّل کی دلیل کی طرف ایک اشارہ :
حدیث انس (رض) میں یہ بھی احتمال ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قتل میں حق خداوندی کے طور پر قصاص کو لازم کیا ہو اور یہودی کو بمنزلہ ڈاکو کے قرار دیا جس پر اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد لاگو ہوتی ہے۔
جواب اگر آپ کی بات کو اسی طرح تسلیم کرلیا جائے تو وہ ڈاکو جس نے پتھر یا لاٹھی سے کسی کو ہلاک کیا تو آپ بھی اس کے متعلق مانتے ہیں (حالانکہ لاٹھی کے ساتھ قتل کی صورت میں قصاص آپ کے ہاں واجب نہیں ہے) کہ اس ڈاکو کا قتل واجب ہے مجتہدین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔
ادھر امام ابوحنیفہ (رح) گلا گھونٹ کر مارنے والے پر دیت کو لازم کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جب تک وہ اس فعل کا ارتکاب متعدد بار نہ کرے اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور کئی بار کرنے سے اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا۔
اب ہم (فریق ثانی) بھی یہی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی کا قتل اس لیے کیا ہو کہ اس کا قتل اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہوگیا تھا جیسا کہ ڈاکو کا قتل واجب ہوتا ہے۔ اگر یہ بات اسی طرح ہے تو پھر امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ جو آدمی ڈاکہ زنی کرے اور لاٹھی یا پتھر سے لوگوں کو ہلاک کرے یا شہر کے اندر یہ (ڈاکہ زنی وغیرہ) کرے تو اس کا حکم ڈاکو جیسا ہوگا اور اسی طرح اس کا گلا دبا کر ہلاک کرنے والے کا حکم ہے جس نے متعدد بار یہ حرکت کی ہو کہ اس کو قتل کیا جائے گا۔
اب امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر قیاس کا تقاضا یہ ہے۔ کہ جو شخص ایک مرتبہ اس طرح کرے اس کا قتل بھی واجب و لازم ہو اور یہ قتل اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے طور پر اس پر لاگو ہوگا جیسا کہ متعدد بار کرنے سے اس پر لازم ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدود کو لازم کرنے والی چیز ایک مرتبہ قابل احترام چیز کی حرمت کا گرا دینا ہے تو اس حرمت کے پہلی مرتبہ گرانے سے جو حد لازم ہوتی ہے وہی کئی مرتبہ گرانے سے لازم ہوتی ہے۔
اب ہم نے جو کچھ بیان کیا اس پر قیاس کا تقاضا یہ کہ گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے والے کا حکم بھی یہی ہو اور جو حکم پہلی بار سے لازم ہو متعدد بار کرنے سے وہی حکم ہو اس باب میں قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ اب ہماری بات کے ثابت ہونے سے حضرت انس (رض) کی روایت کا اس شخص کے خلاف حجت ہونا ختم ہوجاتا ہے جس کا قول یہ ہے کہ جس شخص نے پتھر سے کسی کو ہلاک کیا اس پر قصاص نہیں ہے۔
فریق اوّل کی طرف سے ایک اور دلیل :
حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی ایک اور دلیل یہ روایت ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔