HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4935

۴۹۳۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی عَنِ ابْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَّادٍ قَالَ : انْطَلَقْتُ أَنَا وَالْأَشْتَرُ اِلَی عَلِیْ فَقُلْنَا ہَلْ عَہِدَ اِلَیْکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدًا لَمْ یَعْہَدْہُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ؟ قَالَ : لَا اِلَّا مَا کَانَ فِیْ کِتَابِیْ ہَذَا فَأَخْرَجَ کِتَابًا مِنْ قِرَابِ سَیْفِہِ فَاِذَا فِیْہِ الْمُؤْمِنُوْنَ تَتَکَافَأُ دِمَاؤُہُمْ وَیَسْعَی بِذِمَّتِہِمْ أَدْنَاہُمْ وَہُمْ یَدٌ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ وَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلٰی نَفْسِہِ وَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ .فَہٰذَا ہُوَ حَدِیْثُ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِتَمَامِہٖ وَالَّذِیْ فِیْہِ مِنْ نَفْیِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ بِالْکَافِرِ ہُوَ قَوْلُہٗ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ .فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ مَعْنَاہُ عَلٰی مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ مَعْنَاہُ عَلٰی مَا ذَکَرُوْا لَکَانَ ذٰلِکَ لَحْنًا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبْعَدُ النَّاسِ مِنْ ذٰلِکَ وَلَکَانَ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذِیْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہٖ۔ فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ لَفْظُہُ کَذٰلِکَ وَاِنَّمَا ہُوَ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ عَلِمْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ ذَا الْعَہْدِ ہُوَ الْمَعْنِیُّ بِالْقِصَاصِ .فَصَارَ ذٰلِکَ کَقَوْلِہٖ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ بِکَافِرٍ .وَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ ذَا الْعَہْدِ کَافِرٌ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْکَافِرَ الَّذِیْ مَنَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقْتَلَ بِہٖ الْمُؤْمِنُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ہُوَ الْکَافِرُ الَّذِی لَا عَہْدَ لَہٗ۔فَہٰذَا مِمَّا لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یُقْتَلُ بِالْکَافِرِ الْحَرْبِیِّ وَأَنَّ ذَا الْعَہْدِ الْکَافِرِ الَّذِیْ قَدْ صَارَ لَہُ ذِمَّۃٌ لَا یُقْتَلُ بِہٖ أَیْضًا .وَقَدْ نَجِدُ مِثْلَ ہَذَا کَثِیْرًا فِی الْقُرْآنِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِسَائِکُمْ اِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ .فَکَانَ مَعْنٰی ذٰلِکَ وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ اِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ فَقَدَّمَ وَأَخَّرَ .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ اِنَّمَا مُرَادُہُ فِیْہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ بِکَافِرٍ فَقَدَّمَ وَأَخَّرَ .فَالْکَافِرُ الَّذِیْ مُنِعَ أَنْ یُقْتَلَ بِہٖ الْمُؤْمِنُ ہُوَ الْکَافِرُ غَیْرُ الْمُعَاہَدِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : قَوْلُہٗ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ اِنَّمَا مَعْنَاہُ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ فَانْقَطَعَ الْکَلَامُ ثُمَّ قَالَ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ کَلَامًا مُسْتَأْنَفًا أَیْ : وَلَا یُقْتَلُ الْمُعَاہَدُ فِیْ عَہْدِہِ .فَکَانَ مِنْ حُجَّتِنَا عَلَیْہِ أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ اِنَّمَا جَرَی فِی الدِّمَائِ الْمَسْفُوْکِ بَعْضُہَا بِبَعْضٍ لِأَنَّہٗ قَالَ الْمُسْلِمُوْنَ یَدٌ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ تَتَکَافَأُ دِمَاؤُہُمْ وَیَسْعَی بِذِمَّتِہِمْ أَدْنَاہُمْ ثُمَّ قَالَ لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَہْدِہِ فَاِنَّمَا أَجْرَی الْکَلَامَ عَلَی الدِّمَائِ الَّتِیْ تُؤْخَذُ قِصَاصًا وَلَمْ یَجْرِ عَلٰی حُرْمَۃِ دَمٍ بِعَہْدٍ فَیُحْمَلُ الْحَدِیْثُ عَلٰی ذٰلِکَ فَہٰذَا وَجْہٌ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ اِنَّمَا رُوِیَ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ أَنَّہٗ رُوِیَ عَنْ غَیْرِہِ مِنْ طَرِیْقٍ صَحِیْحٍ فَہُوَ کَانَ أَعْلَمَ بِتَأْوِیْلِہٖ .وَتَأْوِیْلُہُ فِیْہِ اِذْ کَانَ مُحْتَمِلًا عِنْدَکُمْ یَحْتَمِلُ ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَکَرْتُمْ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَعْنَاہُ فِی الْحَقِیْقَۃِ ہُوَ مَا تَأَوَّلَہٗ عَلَیْہِ .
٤٩٣٤: قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں اور اشتر حضرت علی (رض) کی خدمت میں گئے اور پوچھا کہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ سے کوئی وعدہ لیا ہے جو عام لوگوں سے نہ لیا گیا ہو۔ انھوں نے فرمایا نہیں مگر وہ جو میری اس کتاب میں ہے۔ پھر انھوں نے اپنی تلوار کی نیام سے ایک کتاب (لکھی تحریر) نکالی جس میں تحریر تھا کہ ایمان والوں کے خون باہم برابر ہیں اور ان کے عہد کے لیے ادنیٰ مسلمان بھی کوشش کرسکتا ہے۔ مسلمان کفار کے خلاف ایک قوت ہیں۔ مؤمن کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ کسی معاہدے والے کو معاہدے کے دوران قتل کیا جائے۔ جس نے دین میں کوئی نئی بات نکالی (جس کی دین میں اصل نہیں) تو اس کا وبال اسی پر ہوگا اور جس نے کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ تفصیلی روایت یہ ہے حضرت علی (رض) کے جس ارشاد میں کافر کے بدلے مؤمن کے قتل کی نفی ہے وہ آپ کا یہ ارشاد ہے۔ ” لایقتل مؤمن بکافر ولا ذو عہد فی عہدہ “ اب ان الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کا وہ معنی مراد لینا محال و ناممکن ہے کیونکہ اگر وہ معنی ہو جو فریق اوّل نے ذکر کیا تو یہ بات غلط ثابت ہوگی حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور تھے۔ پھر عبارت اس طرح ہوتی۔ ” یقتل مؤمن بکافر ولا ذی عہد فی عہدہ “ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے اور نہ ہی معاہدے والے کافر کو بدلے دوران عہد قتل کیا جائے۔ جب الفاظ اس طرح نہیں ہیں بلکہ الفاظ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ ہیں تو اس سے ثابت ہوگیا کہ قصاص میں ذوالعہد سے مراد ذمی ہے۔ اب مفہوم اس طرح ہوگا۔ ” لایقتل مؤمن ولا ذو عہد فی عہدہ بکافر “ کہ کوئی مؤمن اور ذمی عہد کے دوران کافر (حربی) کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ معاہدہ والا بھی کافر ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس کافر کے بدلے میں مؤمن کے قتل سے منع فرمایا وہ حربی وغیرہ ذمی کافر ہے اور اس پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کافر حربی کے قتل کے بدلے مؤمن کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاسکتا رہا وہ کافر جو ذمی ہے اس کو ذمی ہونے کی وجہ سے حربی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جاسکتا اور عبارت میں اس قسم کی تقدیم و تاخیر والی عبارات قرآن میں بکثرت موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ارشاد الٰہی ہے۔ ” واللآئی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر واللآئی لم یحضن “ (الطلاق ٤) اب اس آیت کا معنی یہ ہے ” واللآئی لم یحضن ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر “ کہ وہ عورتیں جو آئسہ ہیں اور وہ عورتیں جن کو حیض نہیں آیا اگر ان کی عدت میں تمہیں شک ہو تو پھر ان کی عدت تین ماہ ہے۔ پس مقدم و موخر کیا۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” لا یقتل مؤمن بکافر ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مقصد یہ ہے (واللہ اعلم) کہ کسی مؤمن اور کسی ذمی کو اس کے عہد کے دوران کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے تو عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے پس جس کافر کے بدلے مؤمن کو قتل کرنے سے منع کیا اس سے مراد کافر حربی یعنی جس سے کوئی عہد و پیمان نہ ہو وہ ہے کہ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ ” لا یقتل مؤمن بکافر “ یہ کلام فرما کر کلام منقطع کردی پھر فرمایا ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ تو یہ جملہ مستانفہ ہے اس کا ماقبل سے تعلق نہیں ہے اب مطلب یہ ہوا کہ ” ولا یقتل المعاہد فی عہدہ “ کہ کسی معاہدہ والے کو دوران عہد قتل نہ کیا جائے۔ اس خون سے متعلق ہے جو کسی کے بدلے میں بہایا جائے کیونکہ آپ نے فرمایا مسلمانوں کو اپنے غیر پر قوت و غلبہ حاصل ہے اور ان کے عہد کو پورا کرنے کے لیے ادنیٰ ترین بھی کوشش کرے۔ پھر فرمایا ” لایقتل مؤمن۔۔۔ تو یہ کلام اس خون سے متعلق ہے جو قصاص کے طور پر بہایا جائے اور معاہدے کی وجہ سے خون کی حرمت کے بارے میں یہ کلام جاری نہیں ہوا۔ فلہذا اس روایت کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔ یہ روایت حضرت علی (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ صحیح سند کے ساتھ کسی دوسرے صحابی سے بھی مروی ہے پس حضرت علی (رض) اس کی تاویل کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی تاویل تمہارے ہاں ان دو معانی کا احتمال رکھتی ہے جو تم نے ذکر کئے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حقیقت میں اس کا معنی وہی ہوگا جو خود حضرت علی (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ (دلیل یہ روایت ہے)
تخریج : ابو داؤد فی الدیات باب ١١‘ واہجہاد باب ١٤٧‘ نسائی فی القسامۃ باب ٩‘ ١٣‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ٢١‘ مسند احمد ١‘ ١١٩؍١٢٢‘ ٢‘ ١٨٠؍١٩٢‘ ١٩٤؍٢١١۔
لغات : عہد الیہ۔ وعدہ کرنا۔ وصیت کرنا۔ تتکافأ۔ برابر۔ محدثا۔ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے والا۔
تفصیلی روایت یہ ہے کہ حضرت علی (رض) کے جس ارشاد میں کافر کے بدلے مؤمن کے قتل کی نفی ہے وہ آپ کا یہ ارشاد ہے۔ ” لایقتل مؤمن بکافروا لا ذو عہد فی عہدہ “ اب ان الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کا وہ معنی مراد لینا محال و ناممکن ہے کیونکہ اگر وہ معنی ہو جو فریق اوّل نے ذکر کیا تو یہ بات غلط ثابت ہوگی حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے زیادہ وعدہ کا پاس کرنے والے تھے۔ پھر عبارت اس طرح ہوتی۔ ” یقتل مؤمن بکافر ولا ذی عہد فی عہدہ “ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے اور نہ ہی معاہدے والے کافر کو بدلے دوران عہد قتل کیا جائے۔
جب الفاظ اس طرح نہیں ہیں البتہ الفاظ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ ہیں تو اس سے ثابت ہوگیا کہ قصاص میں ذوالعہد سے مراد ذمی ہے۔ اب مفہوم اس طرح ہوگا۔ ” لایقتل مؤمن ولا ذو عہد فی عہدہ بکافر “ کہ کوئی مؤمن اور ذمی عہد کے دوران کافر (حربی) کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا۔
اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ معاہدہ والا بھی کافر ہے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس کافر کے بدلے میں مؤمن کے قتل سے منع فرمایا وہ حربی وغیر ذمی کافر ہے اور اس پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کافر حربی کے قتل کے بدلے مؤمن کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاسکتا رہا وہ کافر جو ذمی ہے اس کو ذمی ہونے کی وجہ سے حربی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جاسکتا۔
اور عبارت میں اس قسم کی تقدیم و تاخیر والی عبارات قرآن میں بکثرت موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ارشاد الٰہی ہے۔ ” واللآئی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر واللآئی لم یحضن “ (الطلاق : ٤)
اب اس آیت کا معنی یہ ہے : ” واللآئی لم یحضن ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر “ کہ وہ عورتیں جو آئسہ ہیں اور وہ عورتیں جن کو حیض نہیں آیا اگر ان کی عدت میں تمہیں شک ہو تو پھر ان کی عدت تین ماہ ہے۔ پس مقدم و موخر کیا۔
اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” لا یقتل مؤمن بکافر ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مقصد یہ ہے (واللہ اعلم) کہ کسی مؤمن اور کسی ذمی کو اس کے عہد کے دوران کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے تو عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے پس جس کافر کے بدلے مؤمن کو قتل کرنے سے منع کیا اس سے مراد کافر حربی یعنی جس سے کوئی عہد و پیمان نہ ہو وہ ہے۔
ایک اعتراض :
کہ ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ ” لا یقتل مؤمن بکافر “ یہ کلام فرما کر کلام منقطع کردیا پھر فرمایا ” ولا ذو عہد فی عہدہ “ تو یہ جملہ مستانفہ ہے اس کا ماقبل سے تعلق نہیں ہے اب مطلب یہ ہوا کہ ” ولا یقتل المعاہد فی عہدہ “ کہ کسی معاہدہ والے کو دوران عہد قتل نہ کیا جائے۔
جوابنمبر 1: یہ روایت اس خون سے متعلق ہے جو کسی کے بدلے میں بہایا جائے کیونکہ آپ نے فرمایا مسلمانوں کو اپنے غیر پر قوت و غلبہ حاصل ہے اور ان کے عہد کو پورا کرنے کے لیے ادنیٰ ترین بھی کوشش کرے تو وہ بھی رد نہ کی جائے گی۔ پھر فرمایا ” لایقتل مؤمن۔۔۔ تو یہ کلام اس خون سے متعلق ہے جو قصاص کے طور پر بہایا جائے اور معاہدے کی وجہ سے خون کی حرمت کے بارے میں یہ کلام جاری نہیں ہوا۔ فلہذا اس روایت کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔
نمبر 2: یہ روایت حضرت علی (رض) کی وساطت سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ صحیح سند کے ساتھ کسی دوسرے صحابی سے بھی مروی ہے پس حضرت علی (رض) اس کی تاویل کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی تاویل تمہارے ہاں ان دو معانی کا احتمال رکھتی ہے جو تم نے ذکر کئے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حقیقت میں اس کا معنی وہی ہوگا جو خود حضرت علی (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ (دلیل یہ روایت ہے)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔