HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4938

۴۹۳۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَلَّامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ حُمَیْدٍ الْمَدَنِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔وَالنَّظْرُ عِنْدَنَا شَاہِدٌ لِذٰلِکَ أَیْضًا وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْحَرْبِیَّ دَمَہُ حَلَالٌ وَمَالَہُ حَلَالٌ ، فَاِذَا صَارَ ذِمِّیًّا حَرُمَ دَمُہُ وَمَالُہُ کَحُرْمَۃِ دَمِ الْمُسْلِمِ وَمَالِ الْمُسْلِمِ .ثُمَّ رَأَیْنَا مَنْ سَرَقَ مِنْ مَالِ الذِّمِّیِّ مَا یَجِبُ فِیْہِ الْقَطْعُ ، قُطِعَ کَمَا یُقْطَعُ فِیْ مَالِ الْمُسْلِمِ .فَلَمَّا کَانَتِ الْعُقُوْبَاتُ فِی انْتِہَاکِ الْمَالِ الَّذِیْ قَدْ حَرُمَ بِالذِّمَّۃِ کَالْعُقُوْبَاتِ فِی انْتِہَاکِ الْمَالِ الَّذِیْ حَرُمَ بِالْاِسْلَامِ کَانَ یَجِیْئُ فِی النَّظَرِ أَیْضًا أَنْ تَکُوْنَ الْعُقُوْبَۃُ فِی الدَّمِ الَّذِیْ قَدْ حَرُمَ بِالذِّمَّۃِ کَالْعُقُوْبَۃِ فِی الَّذِیْ قَدْ حَرُمَ بِالْاِسْلَامِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْعُقُوْبَاتِ الْوَاجِبَاتِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَۃِ الْأَمْوَالِ قَدْ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَبَیْنَ الْعُقُوْبَاتِ الْوَاجِبَاتِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَۃِ الدَّمِ ، وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْعَبْدَ یَسْرِقُ مِنْ مَالِ مَوْلَاہُ فَلَا یُقْطَعُ وَیَقْتُلُ مَوْلَاہُ فَیُقْتَلُ ، فَفَرَّقَ بَیْنَ ذٰلِکَ فَمَا تُنْکِرُوْنَ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ قَدْ فَرَّقَ بَیْنَ مَا یَجِبُ فِی انْتِہَاکِ مَالِ الذِّمِّیِّ وَدَمِہٖ؟ قِیْلَ لَہٗ : ہَذَا الَّذِیْ ذٰکَرْت قَدْ زَادَ مَا ذَہَبْنَا اِلَیْہِ تَوْکِیدًا لِأَنَّکَ ذَکَرْتُ أَنَّہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْعَبْدَ لَا یُقْطَعُ فِیْ مَالِ مَوْلَاہُ وَأَنَّہٗ یُقْتَلُ بِمَوْلَاہُ وَبِعَبِیْدِ مَوْلَاہُ .فَمَا وَصَفْتُ مِنْ ذٰلِکَ کَمَا ذَکَرْتُ فَقَدْ خَفَّفُوْا أَمْرَ الْمَالِ وَوَکَّدُوْا أَمْرَ الدَّمِ فَأَوْجَبُوْا الْعُقُوْبَۃَ فِی الدَّمِ حَیْثُ لَمْ یُوْجِبُوْہَا بِالْمَالِ .فَلَمَّا ثَبَتَ تَوْکِیدُ أَمْرِ الدَّمِ وَتَخْفِیْفُ أَمْرِ الْمَالِ ثُمَّ رَأَیْنَا مَالَ الذِّمِّیِّ یَجِبُ فِی انْتِہَاکِہِ عَلَی الْمُسْلِمِ مِنَ الْعُقُوْبَۃِ کَمَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ مَالِ الْمُسْلِمِ کَانَ دَمُہٗ أَحْرَی أَنْ یَکُوْنَ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَتِہِ مِنَ الْعُقُوْبَۃِ مَا یَکُوْنُ عَلَیْہِ فِی انْتِہَاکِ حُرْمَۃِ دَمِ الْمُسْلِمِ .وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ ذِمِّیًّا لَوْ قَتَلَ ذِمِّیًّا ثُمَّ أَسْلَمَ الْقَاتِلُ أَنَّہٗ یُقْتَلُ بِالذِّمِّیِّ الَّذِیْ قَتَلَہُ فِیْ حَالِ کُفْرِہِ وَلَا یُبْطِلُ ذٰلِکَ اِسْلَامُہُ .فَلَمَّا رَأَیْنَا الْاِسْلَامَ الطَّارِئَ عَلَی الْقَتْلِ لَا یُبْطِلُ الْقَتْلَ الَّذِیْ کَانَ فِیْ حَالِ الْکُفْرِ وَکَانَتِ الْحُدُوْدُ تَمَامُہَا أَحَدُہَا وَلَا یُوْجَدُ عَلٰی حَالٍ - لَا یَجِبُ فِی الْبَدْئِ مَعَ تِلْکَ الْحَالِ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ قَتَلَ رَجُلًا وَالْمَقْتُوْلُ مُرْتَدٌّ أَنَّہٗ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ شَیْء ٌ وَأَنَّہٗ لَوْ جَرَحَہُ وَہُوَ مُسْلِمٌ ثُمَّ ارْتَدَّ - عِیَاذًا بِاَللّٰہِ - فَمَاتَ لَمْ یُقْتَلْ .فَصَارَتْ رِدَّتُہُ الَّتِیْ تَقَدَّمَتِ الْجِنَایَۃَ وَالَّتِی طَرَأَتْ عَلَیْہَا فِیْ دَرْئِ الْقَتْلِ - سَوَائً .فَکَانَ کَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ أَنْ یَکُوْنَ الْقَاتِلُ قَبْلَ جِنَایَتِہٖ وَبَعْدَ جِنَایَتِہِ سَوَائً .وَلَمَّا کَانَ اِسْلَامُہُ بَعْدَ جِنَایَتِہِ قَبْلَ أَنْ یُقْتَلَ بِہَا لَا یَدْفَعُ عَنْہُ الْقَوَدَ کَانَ کَذٰلِکَ اِسْلَامُہُ الْمُتَقَدِّمُ لِجِنَایَتِہِ لَا یَدْفَعُ عَنْہُ الْقَوَدَ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٩٣٧: محمد بن ابی حمیدالمدنی نے محمد بن منکدر سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ہمارے ہاں قیاس بھی اسی کی تائید کرتا ہے وہ اس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حربی کافر کا خون حلال ہے اور اس کا مال بھی حلال ہے۔ جب وہ ذمی بن جاتا ہے تو پھر اس کا مال اور جان دونوں حرام ہوجاتے ہیں اور ان کی حرمت مسلمان کے مال و جان کی طرح ہوتی ہے پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو آدمی ذمی کا اتنا مال چوری کرے جس پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے تو اس چور کا ہاتھ اسی طرح کاٹا جائے گا جس طرح کسی مسلمان کا مال چوری کرنے سے کاٹا جاتا ہے تو جب ذمی کے مال کی حرمت توڑنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کے مال کی حرمت توڑنے میں لازم ہے تو قیاس اسی بات کو چاہتا ہے کہ ذمی کے خون کی حرمت توڑنے والے کو بھی وہی سزا ملے جو مسلمان کا خون بہانے والے کو ملتی ہے۔ مال کی حرمت توڑنے اور خون کی حرمت توڑنے کی سزاؤں میں فرق ہے وہ اس طرح کہ جب غلام اپنے مالک کے مال سے چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اور اگر وہ اپنے مالک کو قتل کر دے تو اس کو قصاص میں قتل کیا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ دونوں کی سزاؤں میں فرق ہے تو پھر تم اس بات کا بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ذمی کے مال کی حرمت توڑنے اور اس کے خون کی حرمت توڑنے کی سزا میں فرق ہے۔ آپ کی یہ بات تو ہماری بات کی تائید مزید کر رہی ہے۔ کیونکہ تم نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مالک کا مال چوری کرنے پر غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا لیکن اس کو قتل کرنے کی صورت میں اسے قتل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ غلام مالک کے غلاموں کو قتل کر دے تب بھی قتل کیا جائے گا تو بقول تمہارے انھوں نے مال کے معاملے میں آسانی اور خون کے معاملے میں سختی رکھی ہے چنانچہ قتل کی صورت میں سزا کو لازم قرار دیا اور چوری کے معاملے میں لازم قرار نہیں دیا تو خون کے معاملے کی تائید اور مالی معاملے کی آسانی ثابت ہوگئی پھر ہم نے دیکھا کہ ذمی کا مال چوری کرنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کا مال چوری کرنے میں دی جاتی ہے تو پھر یہ بات بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگئی کہ ذمی کو قتل کی صورت میں وہی سزا دی جائے جو مسلمان کے قتل کی صورت میں دی جاتی ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی ذمی کسی ذمی کو قتل کر دے پھر وہ قاتل اسلام قبول کرلے تو اس کو ذمی مقتول کے بدلے میں قتل کیا جائے گا جس کو حالت کفر میں اس نے قتل کیا۔ اسلام کی وجہ سے قتل کا قصاص باطل نہ ہوگا۔ جب ہم نے دیکھا کہ قتل کے بعد والا اسلام حالت کفر میں پائے جانے والے قتل کو باطل نہیں کرتا اور تمام حدود یکساں ہیں وہ ایسی حالت میں نہیں پائی جاتیں کہ اس حالت کے ہوتے ہوئے ابتداء میں لازم نہ ہوں۔ ذرا غور تو کرو۔ کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے اور مقتول مرتد ہو تو قاتل پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور وہ اگر کسی مسلمان کو زخمی کر دے پھر وہ (خدانخواستہ) مرتد ہو کر مرجائے تو اس زخمی کرنے والے کو قتل نہ کیا جائے گا پس ثابت ہوا کہ اس کا جنایت سے پہلے مرتد ہونا اور بعد میں مرتد ہونا دونوں قصاص میں قتل کو ساقط کرنے میں برابر ہیں۔ پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جرم کرنے سے پہلے اور بعد میں قاتل کا حکم ایک جیسا ہو تو جب جنایت کے بعد اور قصاص سے پہلے اس کا مسلمان ہونا اس سے قصاص کو ساقط نہیں کرتا تو اسی طرح جنایت سے پہلے کا اسلام بھی قصاص کو ساقط نہیں کرتا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
ہمارے ہاں قیاس بھی اسی کی تائید کرتا ہے وہ اس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حربی کافر کا خون حلال ہے اور اس کا مال بھی حلال ہے۔ جب وہ ذمی بن جاتا ہے تو پھر اس کا مال اور جان دونوں حرام ہوجاتے ہیں اور ان کی حرمت مسلمان کے مال و جان کی طرح ہوتی ہے پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو آدمی ذمی کا اتنا مال چوری کرے جس پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے تو اس چور کا ہاتھ اسی طرح کاٹا جائے گا جس طرح کسی مسلمان کا مال چوری کرنے سے کاٹا جاتا ہے تو جب ذمی کے مال کی حرمت توڑنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کے مال کی حرمت توڑنے میں لازم ہے تو قیاس اسی بات کو چاہتا ہے کہ ذمی کے خون کی حرمت توڑنے والے کو بھی وہی سزا ملے جو مسلمان کا خون بہانے والے کو ملتی ہے۔
ایک اعتراض :
مال کی حرمت توڑنے اور خون کی حرمت توڑنے کی سزاؤں میں فرق ہے وہ اس طرح کہ جب غلام اپنے مالک کے مال سے چور کرتا ہے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اور اگر وہ اپنے مالک کو قتل کر دے تو اس کو قصاص میں قتل کیا جاتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ دونوں کی سزاؤں میں فرق ہے تو پھر تم اس بات کا بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ذمی کے مال کی حرمت توڑنے اور اس کے خون کی حرمت توڑنے کی سزا میں فرق ہے۔
جواب آپ کی یہ بات تو ہماری بات کی تائید مزید کر رہی ہے۔ کیونکہ تم نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مالک کا مال چوری کرنے پر غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا لیکن اس کو قتل کی صورت میں اسے قتل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر وہ غلام مالک کے غلاموں کو قتل کر دے تب بھی قتل کیا جائے گا تو بقول تمہارے انھوں نے مال کے معاملے میں آسانی اور خون کے معاملے میں سختی رکھی ہے چنانچہ قتل کی صورت میں سزا کو لازم قرار دیا اور چوری کے معاملے میں لازم قرار نہیں دیا تو خون کے معاملے کی تائید اور مالی معاملے کی آسانی ثابت ہوگئی پھر ہم نے دیکھا کہ ذمی کا مال چوری کرنے میں وہی سزا ہے جو مسلمان کا مال چوری کرنے میں دی جاتی ہے تو پھر یہ بات بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگئی کہ ذمی کو قتل کی صورت میں وہی سزا دی جائے جو مسلمان کے قتل کی صورت میں دی جاتی ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی ذمی کسی ذمی کو قتل کر دے پھر وہ قاتل اسلام قبول کرلے تو اس کو ذمی مقتول کے بدلے میں قتل کیا جائے گا جس کو حالت کفر میں اس نے قتل کیا۔ اسلام کی وجہ سے قتل کا قصاص باطل نہ ہوگا۔
جب ہم نے دیکھا کہ قتل کے بعد والا اسلام حالت کفر میں پائے جانے والے قتل کو باطل نہیں کرتا اور تمام حدود یکساں ہیں وہ ایسی حالت میں نہیں پائی جاتیں کہ اس حالت کے ہوئے ہوئے ابتداء میں لازم نہ ہوں۔
ذرا غور تو کرو۔ کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے اور مقتول مرتد ہو تو قاتل پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور وہ اگر کسی مسلمان کو زخمی کر دے پھر وہ (خدانخواستہ) مرتد ہو کر مرجائے تو اس زخمی کرنے والے کو قتل نہ کیا جائے گا پس ثابت ہوا کہ اس کا جنایت سے پہلے مرتد ہونا اور بعد میں مرتد ہونا دونوں قصاص میں قتل کو ساقط کرنے میں برابر ہیں۔
پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جرم کرنے سے پہلے اور بعد میں قاتل کا حکم ایک جیسا ہو تو جب جنایت کے بعد اور قصاص سے پہلے اس کا مسلمان ہونا اس سے قصاص کو ساقط نہیں کرتا تو اسی طرح جنایت سے پہلے کا اسلام بھی قصاص کو ساقط نہیں کرتا۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا مسلک ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔