HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5

۵ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ یَحْیٰی قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ ڑ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَنَا شَرِیْکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ النَّخَعِیُّ عَنْ طَرِیْفِ ڑ الْبَصَرِیِّ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ عَنْ جَابِرٍ أَوْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ (کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرِنَا فَانْتَہَیْنَا اِلٰی غَدِیْرٍ وَجِیْفَۃٍ فَکَفَفْنَا وَکَفَّ النَّاسُ حَتّٰی أَتَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لَکُمْ لَا تَسْتَقُوْنَ ؟ فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، ھٰذِہِ الْجِیْفَۃُ ، فَقَالَ اسْتَقُوْا ، فَإِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْئٌ فَاسْتَقَیْنَا وَارْتَوَیْنَا )فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ ، فَقَالُوْا : لَا یُنَجِّسُ الْمَائَ شَیْ وَقَعَ فِیْہِ ، إِلَّا أَنْ یُغَیِّرَ لَوْنَہٗ، أَوْ طَعْمَہٗ، أَوْ رِیْحَہٗ ، فَأَیُّ ذٰلِکَ اِذَا کَانَ ، فَقَدْ نَجِسَ الْمَائُ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنََ فَقَالُوْا أَمَّا مَا ذَکَرْتُمُوْہُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ فَلَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْہِ لِأَنَّ بِئْرَ بُضَاعَۃَ قَدِ اخْتَلَفَتْ فِیْہَا مَا کَانَتْ فَقَالَ قَوْمٌ کَانَتْ طَرِیْقًا لِلْمَائِ إِلَی الْبَسَاتِیْنِ فَکَانَ الْمَائُ لَا یَسْتَقِرُّ فِیْہَا فَکَانَ حُکْمُ مَائِہَا کَحُکْمِ مَائِ الْأَنْہَارِ وَھٰکَذَا نَقُوْلُ فِیْ کُلِّ مَوْضِعٍ کَانَ عَلٰی ھٰذِہِ الصِّفَۃِ وَقَعَتْ فِیْ مَائِہِ نَجَاسَۃٌ فَلَا یَنْجُسُ مَاؤُہٗ إِلَّا أَنْ یَغْلِبَ عَلٰی طَعْمِہٖ أَوْ لَوْنِہٖ أَوْ رِیْحِہٖ أَوْ یَعْلَمُ أَنَّہَا فِی الْمَائِ الَّذِیْ یُؤْخَذُ مِنْہَا ، فَإِنْ عَلِمَ ذٰلِکَ کَانَ نَجَسًا ، وَإِنْ لَمْ یَعْلَمْ ذٰلِکَ کَانَ طَاہِرًا .وَقَدْ حُکِیَ ھٰذَا الْقَوْلُ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ عَنِ الْوَاقِدِیِّ ، حَدَّثَنِیْہِ أَبُوْ جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعِ ڑالثَّلْجِیِّ عَنِ الْوَاقِدِیِّ أَنَّہَا کَانَتْ کَذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ النَّجَاسَۃَ اِذَا وَقَعَتْ فِی الْبِئْرِ فَغَلَبَتْ عَلٰی طَعْمِ مَائِہَا أَوْ رِیْحِہِ أَوْ لَوْنِہِ ، أَنَّ مَائَ ہَا قَدْ فَسَدَ .وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ بِئْرِ بُضَاعَۃَ مِنْ ھٰذَا شَیْ إِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ بِئْرِ بُضَاعَۃَ فَقِیْلَ لَہٗ : إِنَّہُ یُلْقٰی فِیْہَا الْکِلَابُ وَالْمَحَائِضُ فَقَالَ (إِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجِّسُہُ شَیْئٌ ).وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ بِئْرًا لَوْ سَقَطَ فِیْہَا مَا ہُوَ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ لَکَانَ مَحَالًا أَنْ لَا یَتَغَیَّرَ رِیْحُ مَائِہَا وَطَعْمُہٗ، ھٰذَا مِمَّا یُعْقَلُ وَیُعْلَمُ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ وَقَدْ أَبَاحَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَائَ ہَا وَأَجْمَعُوا أَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ وَقَدْ دَاخَلَ الْمَائَ التَّغْیِیْرُ مِنْ جِہَۃٍ مِنَ الْجِہَاتِ اللَّاتِیْ ذَکَرْنَا ؛ اسْتَحَالَ عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنْ یَکُوْنََ سُؤَالُہُمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ مَائِہَا وَجَوَابُہُ إِیَّاہُمْ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا أَجَابَہُمْ ، کَانَ وَالنَّجَاسَۃُ فِی الْبِئْرِ .وَلَکِنَّہُ - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - کَانَ بَعْدَ أَنْ أُخْرِجَتَ النَّجَاسَۃُ مِنَ الْبِئْرِ فَسَأَلُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ : ہَلْ تَطْہُرُ بِإِخْرَاجِ النَّجَاسَۃِ مِنْہَا فَلَا یَنْجُسُ مَاؤُہَا الَّذِیْ یَطْرَأُ عَلَیْہَا بَعْدَ ذٰلِکَ ؟ وَذٰلِکَ مَوْضِعٌ مُشْکِلٌ لِأَنَّ حِیْطَانَ الْبِئْرِ لَمْ تُغْسَلْ وَطِیْنُہَا لَمْ یَخْرُجْ فَقَالَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ الْمَائَ لَا یُنَجَّسُ) یُرِیْدُ بِذٰلِکَ الْمَائَ الَّذِیْ طَرَأَ عَلَیْہَا بَعْدَ إِخْرَاجِ النَّجَاسَۃِ مِنْہَا لَا أَنَّ الْمَائَ لَا یَنْجُسُہٗ اِذَا خَالَطَتْہُ النَّجَاسَۃُ وَقَدْ رَأَیْنَاہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (الْمُؤْمِنُ لَا یَنْجُسُ)۔
٥ : حضرت جابر یا حضرت ابو سعیدالخدری (رض) سے روایت ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے چلتے ہوئے ہم ایک جوہڑ کے پاس پہنچے جس کے پاس مردار بھی پڑا تھا ہم نے اور دیگر لوگوں نے وہاں کے پانی کے استعمال سے ہاتھ روک لیا یہاں تک کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا۔ تم پانی پلاتے کیوں نہیں ؟ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ : یہ مردار پڑا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانی پیؤ پلاؤ بلاشبہ پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرسکتی پس ہم نے پانی پیا اور سیر ہوگئے۔ علماء کی ایک جماعت نے ان مذکورہ آثار کو اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پانی میں جو چیز بھی گرجائے وہ پانی کو نجس نہیں کرسکتی سوائے اس صورت کے کہ اس کا رنگ ذائقہ اور بو تبدیل ہوجائے۔ ان میں سے جو علامت پائی جائے گی اس سے پانی نجس ہوجائے گا ۔ علماء کی دوسری جماعت نے اس کی مخالفت کی ہے چنانچہ انھوں نے فرمایا گزشتہ روایت میں تم نے بیربضاعہ کا ذکر کیا اس میں تمہارے حق میں کوئی دلیل نہیں ملتی کیونکہ بیر بضاعہ کے بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں بعض لوگوں نے کہا یہ باغات کی طرف جانے والے راستہ میں پڑتا تھا اور پانی اس میں مستقل طور پر نہ ٹھہرتا تھا۔ پس اس کے پانی کا حکم دریا کے پانی جیسا ہے اور ہم اسی طرح ہر اس مقام پر حکم دیں گے جو اس صفت پر مشتمل ہوگا کہ اگر اس کے پانی میں نجاست پڑجائے تو اس کا پانی پلید نہ ہوگا سوائے اس صورت کے کہ اس کے ذائقہ یا رنگ یا بو پر نجاست کا غلبہ ہوجائے یا جہاں سے پانی لیا جا رہا ہے اس کا نجس ہونا معلوم ہوجائے تو وہ پانی نجس شمار ہوگا۔ اور اگر ایسا معلوم نہیں ہوا تو وہ پانی پاک شمار ہوگا یہ قول جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اس کو بیئر بضاعہ کے سلسلے میں امام واقدی (رح) نے نقل کیا ہے چنانچہ ہمارے استاد احمد نے ابو عبداللہ محمد بن شجاع ثلجی نے واقدی سے بیئر بضاعہ کے متعلق اس طرح نقل کیا ہے اور اس میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نجاست جب کنوئیں میں گرکر اس کے پانی کے ذائقہ بو یا رنگ کو بدل ڈالے تو اس کا پانی پلید ہوجائے گا اور بیئر بضاعہ میں اس ان میں سے کوئی چیز نہیں پائی جاتی اس میں صرف اتنی بات ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیئر بضاعہ کے بارے میں یہ بتا کر سوال کیا گیا کہ اس میں کتے اور حیض والے کپڑے ڈالے جاتے ہیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پانی کوئی چیز بھی پلید نہیں کرسکتی اور ہم بخوبی جانتے ہیں اگر کسی بھی کنوئیں میں کوئی ایسی چیز گرجائے جو اس سے بہت کم ہو تو یہ بات ناممکن ہے کہ اس کنوئیں کے پانی کی بو اور ذائقہ اور رنگ تبدیل نہ ہو اتنی بات تو عقل اور تجربہ سے جانی پہچانی ہے جب یہ بات اسی طرح ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے اس کے پانی کو مباح قرار دیا ہے اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ان مذکورہ اطراف میں سے کسی لحاظ سے پانی میں تبدیلی آگئی (ـاور پھر اس کو استعمال کیا گیا) اور ہر چیز بھی ہمارے ہاں ناممکن ہے (واللہ اعلم) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام (رض) نے اس پانی کے متعلق سوال کیا ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ جواب دیا ہو جو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا اور نجاست بھی کنوئیں میں موجود ہو (واللہ اعلم) لیکن یہ تمام بات کنوئیں سے نجاست نکال دینے کے بعد تھی اور انھوں نے سوال بھی اس سلسلے میں کیا کہ آیا کہ کنوئیں سے نجاست نکال دینے کے بعد وہ پانی پلید نہیں ہوتا جو اس کے بعد کنوئیں میں سے نکلے اور یہ مشکل بات ہے کیونکہ کنوئیں کی دیواریں نہ دھوئی گئیں اور نہ اس کی مٹی نکالی گئی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا کہ پانی پلید نہیں ہوتا یعنی اس سے مراد وہی پانی تھا جو نجاست کے نکالنے کے بعد تازہ نکلا ہے یہ معنی نہیں تھا کہ پانی اس وقت بھی پلید نہیں جب اس کے ساتھ نجاست مل گئی چنانچہ ہمارے سامنے اسی انداز کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (الْمُؤْمِنُ لَا یَنْجُسُ ) ہے ۔
اللغات : غدیر سیلاب گہری وادی میں جو پانی چھوڑ جائے اور رکا ہوا پانی۔
خلاصہ روایات : ان مذکورہ بالا پانچوں روایات کا حاصل یہ ہے کہ پانی قلیل ہو یا کثیر تبدیلی ٔوصف کے بغیر نجاست گرنے سے ناپاک نہ ہوگا۔
مذاہب ِائمہ و امام طحاوی (رح) :
1 پانی میں نجاست کے پڑجانے سے جب تک اس کے اوصاف میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو وہ ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی قلیل مقدار میں ہو یا کثیر یہ امام مالک ‘ سعید بن مسیب اور ابراہیم نخعی (رح) کا قول ہے۔
دوسری جماعت :
" قلیل پانی نجاست گرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے کثیر پانی نجاست کے پڑنے سے اس وقت ناپاک ہوگا جبکہ اس کا ایک وصف بدل جائے امام شافعی و امام احمد بن حنبل اور ائمہ احناف اسی طرف گئے ہیں پھر امام شافعی (رح) کے ہاں قلتین سے کم مقدار ماء قلیل اور قلتین اور اس سے زائد کثیر ہے اور احناف قلیل و کثیر کی مقدار صاحب معاملہ کی رائے پر چھوڑتے ہیں۔
امام طحاوی (رح) کا ارشاد :
مذکورہ بالا تشریح تو امام طحاوی کے اشارہ کو سمجھانے کے لیے کی گئی ہے وہ پہلی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک جماعت نے ان آثار کو سامنے رکھ کر کہا کہ پانی اس وقت تک ناپاک نہیں ہوتا جب تک اس کا رنگ یا ذائقہ یا بو میں سے کوئی وصف نہ بدل جائے جب ایک بدل جائے گا تو پانی نجس ہوجائے گا۔
نمبر ٢ : دوسرے ائمہ کے قول کی طرف اشارہ وخالفہم فی ذلک آخرون سے کردیا کہ دیگر ائمہ نے اس سے اختلاف کیا ہے اگلی سطور میں پہلے قول کے متعدد جوابات دیئے ہیں
پہلے مسلک کے جوابات :
جواب نمبر ١: روایات میں جس بیر بضاعہ کا تذکرہ ہے اس سے مسلک نمبر اول کا استدلال درست نہیں کیونکہ بیر بضاعہ کی کیفیت کے متعلق علماء کے قول بہت مختلف ہیں بعض کا قول یہ ہے کہ وہ کنواں باغات کی سیرابی کا کام دیتا تھا باغات کی طرف پانی جانے والے راستہ میں واقع تھا اس میں پانی برقرار نہیں رہتا تھا بلکہ منتقل ہوتا رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ نہروں کے پانی کی طرح جاری پانی کے حکم میں تھا اس بات کی تصدیق ہمارے استاذ ابو جعفر احمد نے شجاع ثلجی کی وساطت سے واقدی سے نقل کی ہے۔
اور جو پانی ماء جاری کے حکم میں ہو اس کے متعلق ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر اس میں نجاست گرجائے تو وہ اس وقت تک نجس نہیں ہوتا جب تک اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ نہ بدل جائے یا اس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس سے حاصل کئے جانے والے پانی میں وہ نجاست مل کر آرہی ہے اگر ایسا معلوم ہو تو وہ نجس ہے ورنہ وہ پانی پاک رہے گا۔
جواب نمبر ٢: دوسری دلیل یہ ہے کہ اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ نجاست کنوئیں میں گر کر پانی کے ذائقہ یا بو یا رنگ کو بدل دے تو وہ بالاتفاق نجس ہوجائے گا مذکورہ بالا روایات میں سے کسی روایت میں بھی یہ قید موجود نہیں تمہاری یہ قید قیاس سے ہوسکتی ہے تو قلیل و کثیر والی قید کیوں معتبر نہیں۔
جواب نمبر ٣: جب بالاتفاق اوصاف کی تبدیلی سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے تو بیر بضاعہ جیسا چھوٹا کنواں تو کیا ایسے چار کنوؤں میں ایک مردار کتا گرجائے تو سب کو متعفن کر دے گا پس ذرا سی سمجھ والا بیر بضاعہ والی روایت کے ظاہر سے استدلال نہیں کرسکتا کیونکہ ان چیزوں کے گرنے سے تغیر نہ ہونا محال و ناممکن ہے جب یہ بات اسی طرح ہے حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے پانی کو مباح قرار دیا اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ پانی میں کسی بھی اعتبار سے تغیر ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے استعمال کا حکم دیں۔
جواب نمبر ٤ واللہ اعلم۔ ہمارے نزدیک یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام (رض) بیر بضاعہ کے متعلق ایسے وقت میں سوال کر رہے ہوں جبکہ یہ نجاسات اس میں موجود ہوں بلکہ (واللہ اعلم) ۔ یہ سوال کنوئیں سے ان نجاسات کے نکالے جانے کے بعد سے متعلق تھا کہ آیا وہ کنواں اور اس میں نیا نکلنے والا پانی پاک ہوجائے گا جبکہ کنوئیں کی دیواریں نہیں دھوئی گئیں اور نہ گابھ نکالی گئی۔ تو اس پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان الماء لا ینجس “ الماء سے وہی پانی مراد ہے جو کنوئیں کی غلاظت سے صفائی کے بعد اس میں ظاہر ہوا ہے یہ معنی نہیں کہ نجاست پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا اور یہ ارشاد نبوت علی اسلوب الحکیم ہے جیسا ان روایات میں ہے : ان المسلم لا ینجس اور ان الارض لاینجس۔ ان روایات کا یہ معنی نہیں کہ مسلمان نجاست لگنے کے باوجود ناپاک نہیں ہوتا اور زمین نجاست پڑنے کے باوجود ناپاک نہیں ہوتی بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ ازالہ نجاست کے بعد وہ پاک ہوجاتے ہیں ہمیشہ ناپاک نہیں رہتے کہ پاک نہ ہو سکیں۔ واللہ اعلم
یہاں امام طحاوی (رح) نے دو روایتیں ذکر فرمائی ہیں جو کہ لا ینجسہ کے مفہوم کی وضاحت کے لیے ہیں ۔
حَدَّثَنَاہُ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ ثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَدِیٍّ عَنْ حُمَیْدٍ ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ ( أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَقِیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جُنُبٌ فَمَدَّ یَدَہٗ إِلَیَّ فَقَبَضْتُ یَدَیَّ عَنْہُ وَقُلْتُ إِنِّیْ جُنُبٌ فَقَالَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا یَنْجُسُ ) وَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ( إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَنْجُسُ ) ۔
: حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حالت میں ملا کہ مجھے غسل جنابت کی حاجت تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک میری طرف بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا میں تو حالت جنابت میں ہوں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا یَنْجُسُ ۔ مطلب یہ کہ مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢٣، مسلم فی الحیض ١١٥؍١١٦‘ مسند احمد ٢؍٢٣٥؍٣٨٣‘ ابن ابی شیبہ ١؍١٧٣، بیہقی السنن الکبریٰ ١؍١٨٩۔
لطیف طرز استدلال :
جنابت والے شخص کا نماز کی ادائیگی کے لحاظ سے تمام جسم حکماً ناپاک ہے۔ مگر کھانے پینے اور مصافحہ کے لحاظ سے سوائے نجاست والے مقام کے تمام جسم پاک ہے بالکل اسی طرح جب تک کنوئیں میں نجس پانی اور اشیاء ہیں تو حکماً تمام کنواں ناپاک ہے جب ناپاک پانی نکال لیا تو اب نیا پانی اور کنوئیں کی دیواریں اور گابھ سب پاک ہیں۔
پس لاینجس کا یہ معنی نہ ہوا کہ کوئی نجس چیز اس کو ناپاک نہیں کرسکتی۔
دوسری روایت : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان الارض لاتنجس ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔