HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5137

۵۱۳۶ : حَدَّثَنَا خَلَّادٌ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَاسِطِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ ہَارُوْنَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیْدُ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمِثْلِ حَدِیْثِ أَحْمَدَ بْنِ دَاوٗدَ ، وَزَادَ اِنَّہٗ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .فَکَانَ تَزْوِیْجُ غَیْلَانَ لِلنِّسْوَۃِ اللَّاتِیْ کُنَّ عِنْدَہُ حِیْن أَسْلَمَ ، فِیْ وَقْتٍ کَانَ تَزَوُّجُ ذٰلِکَ الْعَدَدِ جَائِزًا ، وَالنِّکَاحُ عَلَیْہِ ثَابِتٌ .وَلَمْ یَکُنْ لِلْوَاحِدَۃِ حِیْنَئِذٍ ، مِنْ ثُبُوْتِ النِّکَاحِ اِلَّا مَا لِلْعَاشِرَۃِ مِثْلُہٗ ، ثُمَّ أَحْدَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ حُکْمًا آخَرَ ، وَہُوَ تَحْرِیْمُ مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ ، فَکَانَ ذٰلِکَ حُکْمًا طَارِئًا ، طَرَأَتْ بِہٖ حُرْمَۃٌ حَادِثَۃٌ عَلَی نِکَاحِ غَیْلَانَ ، فَأَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ ، أَنْ یُمْسِکَ مِنْ النِّسَائِ الْعَدَدَ الَّذِی أَبَاحَہُ اللّٰہٗ، وَیُفَارِقُ مَا سِوٰی ذٰلِکَ ، وَجَعَلَ کَرَجُلٍ لَہٗ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، فَطَلَّقَ اِحْدَاہُنَّ ، فَحُکْمُہٗ أَنْ یَخْتَارَ مِنْہُنَّ وَاحِدَۃً فَیَجْعَلُ ذٰلِکَ الطَّلَاقَ عَلَیْہَا ، وَیُمْسِکُ الْأُخْرَی .وَکَذٰلِکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ یَقُوْلَانِ فِیْ ہٰذَا .فَأَمَّا مَنْ تَزَوَّجَ عَشْرَ نِسْوَۃٍ ، بَعْدَ تَحْرِیْمِ اللّٰہِ مَا جَاوَزَ الْأَرْبَعَ فِیْ عُقْدَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، فَاِنَّہٗ اِنَّمَا عَقَدَ النِّکَاحَ عَلَیْہِنَّ عَقْدًا فَاسِدًا ، فَلَا یَثْبُتُ بِذٰلِکَ لَہُ نِکَاحٌ .أَلَا تَرَی أَنَّہٗ لَوْ تَزَوَّجَ ذَاتَ رَحِمٍ مَحْرَمٍ مِنْہُ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، وَہُوَ مُشْرِکٌ ، ثُمَّ أَسْلَمَ ، أَنَّہَا لَا تُقَرُّ تَحْتَہٗ، وَاِنْ کَانَ عَقْدُہُ لِذٰلِکَ کَانَ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَہُوَ مُشْرِکٌ .فَلَمَّا کَانَ ہَذَا یُرَدُّ حُکْمُہٗ فِیْہِ اِلَی حُکْمِ نِکَاحَاتِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْمَا یَعْقِدُوْنَ فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ ، کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا حُکْمُہٗ فِی الْعَشْرِ نِسْوَۃً اللَّاتِیْ تَزَوَّجَہُنَّ وَہُوَ مُشْرِکٌ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، یُرَدُّ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ نِکَاحَاتِہِمْ .فَاِنْ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقْدَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، فَنِکَاحُہُنَّ بَاطِلٌ ، وَاِنْ کَانَ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقَدٍ مُتَفَرِّقَۃٍ ، جَازَ نِکَاحُ الْأَرْبَعِ الْأُوَلِ مِنْہُنَّ ، وَبَطَلَ نِکَاحُ سَائِرِہِنَّ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ تَرَکَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ قَوْلَہُمَا ، فِیْ شَیْئٍ قَالَاہُ فِیْ ہٰذَا الْمَعْنَی .وَذٰلِکَ أَنَّہُمَا قَالَا فِیْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ سُبِیَ وَلَہٗ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، وَسُبِیْنَ مَعَہُ : اِنَّ نِکَاحَہُنَّ کُلِّہِنَّ قَدْ فَسَدَ وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُنَّ .قَالَ : فَقَدْ کَانَ یَنْبَغِی - عَلٰی مَا حَمَلَا عَلَیْہِ حَدِیْثَ غَیْلَانَ - أَنْ یَجْعَلَا لَہٗ أَنْ یَخْتَارَ مِنْہُنَّ اثْنَیْنِ فَیُمْسِکُہُمَا ، وَیُفَارِقُ الِاثْنَتَیْنِ الْبَاقِیَتَیْنِ ، لِأَنَّ نِکَاحَ الْأَرْبَعِ قَدْ کَانَ کُلُّہُ ثَابِتًا صَحِیْحًا ، وَاِنَّمَا طَرَأَ الرِّقُّ عَلَیْہِ، فَحَرَّمَ عَلَیْہِ مَا فَوْقَ الِاثْنَتَیْنِ کَمَا أَنَّہٗ لَمَّا طَرَأَ حُکْمُ اللّٰہِ فِیْ تَحْرِیْمِ مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ ، أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْلَانَ بِاخْتِیَارِ أَرْبَعٍ مِنْ نِسَائِہٖ، وَفَارَقَ سَائِرَہُنَّ .قِیْلَ لَہٗ : مَا خَرَجَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ بِمَا ذَکَرْتُ ، عَنْ أَصْلِہِمَا ، وَلٰکِنَّہُمَا ذَہَبَا اِلَی مَا قَدْ خَفِیَ عَلَیْکَ .وَذٰلِکَ أَنَّ ہَذَا کَانَ تَزَوَّجَ الْأَرْبَعَ فِیْ وَقْتٍ مَا تَزَوَّجَہُنَّ بَعْدَمَا حُرِّمَ عَلَی الْعَبْدِ تَزَوُّجِ مَا فَوْقَ الِاثْنَتَیْنِ . فَاِذَا تَزَوَّجَ ، وَہُوَ حَرْبِیٌّ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، مَا فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ، ثُمَّ سُبِیَ وَسُبِیْنَ مَعَہٗ، رُدَّ حُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمِ تَحْرِیْمٍ ، قَدْ کَانَ قَبْلَ نِکَاحِہٖ، فَصَارَ کَأَنَّہٗ تَزَوَّجَہُنَّ فِیْ عُقَدٍ بَعْدَمَا صَارَ رَقِیْقًا ، وَہُوَ فِیْ ذٰلِکَ ، کَرَجُلٍ تَزَوَّجَ صَبِیَّتَیْنِ صَغِیْرَتَیْنِ ، فَجَائَ تِ امْرَأَۃٌ فَأَرْضَعَتْہُمَا مَعًا ، فَاِنَّہُمَا تَبِیْنَانِ مِنْہُ جَمِیْعًا ، وَلَا یُؤْمَرُ بِأَنْ یَخْتَارَ اِحْدَاہُمَا فَیُمْسِکُہَا ، وَیُفَارِقُ الْأُخْرَی ، لِأَنَّ حُرْمَۃَ الرَّضَاعِ طَرَأَتْ عَلَیْہِ بَعْدَ نِکَاحِہِ اِیَّاہُمَا .وَکَذٰلِکَ الرِّقُّ الطَّارِئُ عَلَی النِّکَاحِ ، الَّذِی وَصَفْنَا ، حُکْمُہٗ حُکْمُ ہَذَا الرَّضَاعِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا .وَہُمَا جَمِیْعًا مُفَارِقَانِ ، لِمَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْلَانَ بْنِ سَلْمَۃَ ، لِأَنَّ غَیْلَانَ لَمْ یَکُنْ حُرْمَۃُ اللّٰہِ لِمَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ ، تَقَدَّمَتْ نِکَاحَہُ فَیُرَدُّ حُکْمُ نِکَاحِہِ اِلَیْہَا ، وَاِنَّمَا طَرَأَتِ الْحُرْمَۃُ عَلَی نِکَاحِہِ بَعْدَ ثُبُوْتِہِ کُلِّہٖ، فَرُدَّتْ حُرْمَۃُ مَا حَرَّمَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ اِلَی حُکْمٍ حَادِثٍ بَعْدَ النِّکَاحِ ، فَوَجَبَ لَہُ بِذٰلِکَ الْخِیَارُ ، کَمَا یَجِبُ لَہُ فِی الطَّلَاقِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا .فَاِنْ احْتَجُّوْا أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ ،
٥١٣٦: سعید بن ابی عروبہ نے معمر سے انھوں نے زہری سے انھوں نے سالم بن عبداللہ عن ابیہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احمد بن داؤد نے روایت کی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ کہ اس نے ان عورتوں سے شادی زمانہ جاہلیت میں کی تھی۔ تو غیلان (رض) کے اسلام لانے کے وقت ان کی جو بیویاں موجود تھیں ان سے انھوں نے اس وقت نکاح کیا تھا جب اتنی تعداد میں بیویاں رکھنا جائز تھا اور ان سے نکاح ثابت تھا اور ایک سے ثبوت نکاح اور دسویں عورت سے ثبوت نکاح دونوں برابر تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دوسرا حکم ظاہر فرمایا اور وہ چار بیویوں سے بیک وقت نکاح سے زائد نکاح کی حرمت تھی پس یہ جدید حکم حضرت غیلان (رض) کے نکاح پر طاری ہوا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وجہ سے ان کو حکم فرمایا کہ اپنی بیویوں میں سے اتنی تعداد (چار) کو رکھ لیں جس کو اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا اور باقی کو جدا کردیں ان کو اس آدمی کی طرح قرار دیا گیا جس کی چار بیویاں ہوں پھر وہ ان میں سے ایک کو طلاق دے تو اس کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو طلاق کے لیے اختیار کر کے اسے طلاق دے اور دوسری (چار) کو رکھ لے۔ س سلسلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) یہی فرماتے ہیں۔ وہاں وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عقد میں چار عورتوں سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی حرمت کے بعد دس عورتوں سے نکاح کیا تو اس کا نکاح ان سے فاسد عقد ہوگا فلہذا اس سے ان کا نکاح ثابت نہ ہوگا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے دارالحرب میں اپنی ذی رحم محرم سے نکاح کیا جبکہ وہ شرک کی حالت میں تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا تو وہ عورت اس کے نکاح میں برقرار نہ رہ سکے گی۔ اگرچہ اس کا عقد شرک کی حالت میں دارالحرب میں ہوا تھا۔ پس جب اس کا حکم مسلمان منکوحہ عورتوں سے نکاح کی طرف لوٹایا جاتا ہے جیسا کہ وہ دارالاسلام میں کرتے ہیں تو بالکل دس عورتوں سے نکاح کو بھی جو کہ شرک کی حالت میں دارالحرب میں واقع ہوا اس کو بھی مسلمانوں کے نکاحوں کی طرف لوٹایا جائے گا اور اگر اس نے ایک عقد میں نکاح کیا ان سے اس کا نکاح باطل ہوگا اور اگر متفرق عقدوں میں کیا تو پہلی چار سے نکاح تو جائز ہوگا اور بقیہ کا نکاح باطل ہوگا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اپنا قول چھوڑ دیا اور وہ اس طرح کہ جو شخص حربی ہو اور وہ قید ہو کر آئے اس کی چار بیویاں ہوں جو اس کے ساتھ قید ہوئیں ان سب کا نکاح فاسد ہوجائے گا اب اس کے اور زوجات کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔ حالانکہ حدیث غیلان (رض) کو جس بات پر امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے محمول کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو دو عورتوں کے چننے کا اختیار ہو کہ وہ ان کو روک لے اور باقی دو کو چھوڑ دے کیونکہ چاروں کا نکاح صحیح ثابت تھا۔ اب اس پر غلامی طاری ہوئی جس سے دو عورتوں سے زائد حرام ہوگئیں۔ جس طرح کہ جب چار سے زائد عورتوں کی حرمت کا حکم لگا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت غیلان (رض) کو اپنی ازواج میں سے چار کو چن لینے اور باقی کو چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا۔ جو کچھ تم نے ذکر کیا امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اس وجہ سے ضابطہ کو ترک نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایسی بات اختیار کی ہے جو آپ پر مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت اس نے چار عورتوں سے نکاح کیا اس وقت غلام پر دو عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہوچکا تھا۔ پس جب اس نے دارالحرب میں حربی ہونے کی حیثیت سے دو سے زیادہ عورتوں سے نکاح کیا۔ پھر وہ قید ہوگیا اور اس کے ساتھ وہ عورتیں بھی قیدی بن گئیں تو اس کا حکم اس تحریم کی طرف لوٹ گیا جو اس کے نکاح سے پہلے موجود تھی۔ گویا اس نے غلام بننے کے بعد ان سے ایک عقد میں نکاح کیا اس سلسلے میں وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے دو چھوٹی بچیوں سے نکاح کیا۔ پھر کسی عورت نے آ کر ان دونوں کو دودھ پلا دیا تو وہ دونوں اس سے جدا ہوجائیں گی اسے اس بات کا حکم نہ دیا جائے گا کہ ان میں سے ایک کو اختیار کر کے روک لے اور دوسری کو جدا کر دے کیونکہ دودھ کی وجہ سے حرمت ان دونوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بعد طاری ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جو غلامی اس نکاح کے بعد طاری ہوئی ہو جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے تو اس کا حکم اس رضاعت کی طرح ہوگا جس کا ہم نے ابھی تذکرہ کیا ہے اور یہ دونوں صورتیں اس صورت سے قطعاً مختلف ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت غیلان (رض) کے سلسلہ میں وارد ہے کیونکہ حضرت غیلان (رض) کے نکاح سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چار عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کا حرام ہونا وارد نہ ہوا تھا کہ جس کی بناء پر ان کے نکاح کا حکم اس کی طرف لوٹایا جاتا بلکہ نکاح کی حرمت اس وقت طاری ہوئی جب نکاح مکمل طور پر ثابت ہوچکا تھا فلہذا اب جو کچھ ان پر حرام ہوگا اس کی نسبت نکاح کے بعد پیدا ہونے والے حکم کی طرف ہوگی۔ فلہذا اس سے ان کے لیے اختیار کا پایا جانا ضروری ہوگیا جیسا کہ اس طلاق میں اختیار واجب ہے جس کو کہ ہم نے بیان کیا۔ اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں جس کو حمیضہ بنت شمردل نے حضرت حارث بن قیس (رض) سے روایت کیا ہے۔ روایت یہ ہے۔
تشریح ہاں وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عقد میں چار عورتوں سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی حرمت کے بعد دس عورتوں سے نکاح کیا تو اس کا نکاح ان سے فاسد عقد ہوگا فلہذا اس سے ان کا نکاح ثابت نہ ہوگا۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے دارالحرب میں اپنی ذی رحم محرم سے نکاح کیا جبکہ وہ شرک کی حالت میں تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا تو وہ عورت اس کے نکاح میں برقرار نہ رہ سکے گی۔ اگرچہ اس کا عقد شرک کی حالت میں دارالحرب میں ہوا تھا۔
پس جب اس کا حکم مسلمان منکوحہ عورتوں سے نکاح کی طرف لوٹایا جاتا ہے جیسا کہ وہ دارالاسلام میں کرتے ہیں تو بالکل دس عورتوں سے نکاح کو بھی جو کہ شرک کی حالت میں دارالحرب میں واقع ہوا اس کو بھی مسلمانوں کے نکاحوں کی طرف لوٹایا جائے گا اور الٰہی کا حکم ہوگا اور اگر اس نے ایک عقد میں نکاح کیا ان سے اس کا نکاح باطل ہوگا اور اگر متفرق عقدوں میں کیا تو پہلی چار سے نکاح تو جائز ہوگا اور بقیہ کا نکاح باطل ہوگا۔
سوال : اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اپنا قول چھوڑ دیا اور وہ اس طرح کہ جو شخص حربی ہو اور وہ قید ہو کر آئے اس کی چار بیویاں ہوں جو اس کے ساتھ قید ہوئیں ان سب کا نکاح فاسد ہوجائے گا اب اس کے اور زوجات کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔ حالانکہ حدیث غیلان (رض) کو جس بات پر امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے محمول کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو دو عورتوں کے چننے کا اختیار ہو کہ وہ ان کو روک لے اور باقی دو کو چھوڑ دے کیونکہ چاروں کا نکاح صحیح ثابت تھا۔ اب اس پر غلامی طاری ہوئی جس سے دو عورتوں سے زائد حرام ہوگئیں۔ جس طرح کہ جب چار سے زائد عورتوں کی حرمت کا حکم لگا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت غیلان (رض) کو اپنی ازواج میں سے چار کو چن لینے اور باقی کو چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا۔
جوابجو کچھ تم نے ذکر کیا امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) نے اس وجہ سے ضاطبہ کو ترک نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایسی بات اختیار کی ہے جو آپ پر مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت اس نے چار عورتوں سے نکاح کیا اس وقت غلام پر دو عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہوچکا تھا۔ پس جب اس نے دارالحرب میں حربی ہونے کی حیثیت سے دو سے زیادہ عورتوں سے نکاح کیا۔ پھر وہ قید ہوگیا اور اس کے ساتھ وہ عورتوں بھی قدی بن گئیں تو اس کا حکم اس تحریم کی طرف لوٹ گیا جو اس کے نکاح سے پہلے موجود تھی۔ گویا اس نے غلام بننے کے بعد ان سے ایک عقد میں نکاح کیا اس سلسلے میں وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے دو چھوٹی بچیوں سے نکاح کیا۔ پھر کسی عورت نے آ کر ان دونوں کو دودھ پلا دیا تو وہ دونوں اس سے جدا ہوجائیں گی اسے اس بات کا حکم نہ دیا جائے گا کہ ان میں سے ایک کو اختیار کر کے روک لے اور دوسری کو جدا کر دے کیونکہ دودھ کی وجہ سے حرمت ان دونوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بعد طاری ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جو غلامی اس نکاح کے بعد طاری ہوئی ہو جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے تو اس کا حکم اس رضاعت کی طرح ہوگا جس کا ہم نے ابھی تذکرہ کیا ہے اور یہ دونوں صورتیں اس صورت سے قطعاً مختلف ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت غیلان (رض) کے سلسلہ میں وارد ہے کیونکہ حضرت غیلان (رض) کے نکاح سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چار عورتوں سے زائد کے ساتھ نکاح کا حرام ہونا وارد نہ ہوا تھا کہ جس کی بناء پر ان کے نکاح کا حکم اس کی طرف لوٹایا جاتا بلکہ نکاح کی حرمت اس وقت طاری ہوئی جب نکاح مکمل طور پر ثابت ہوچکا تھا جلہٰذا اب جو کچھ ان پر حرام ہوگا اس کی نسبت نکاح کے بعد پیدا ہونے والے حکم کی طرف ہوگی۔ فلہذا اس سے ان کے لیے اختیار کا پایا جانا ضروری ہوگیا جیسا کہ اس طلاق میں اختیار واجب ہے جس کو کہ ہم نے بیان کیا۔
ایک اور روایت سے استدلال :
اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں جس کو حمیضہ بنت شمردل نے حضرت حارث بن قیس (رض) سے روایت کیا ہے۔ روایت یہ ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔