HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5149

۵۱۴۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجُوْرِیِّ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلُہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ الْاِسْلَامُ یَعْلُو وَلَا یُعْلَی .أَفَیَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ النَّصْرَانِیَّۃُ عِنْدَہُ اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ وَزَوْجُہَا نَصْرَانِیٌّ ، أَنَّہَا تَبِیْنُ مِنْہٗ، وَلَا یُنْتَظَرُ بِہَا اِسْلَامُہُ اِلٰی أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْعِدَّۃِ ، وَتَکُوْنُ الْحَرْبِیَّۃُ الَّتِیْ لَیْسَتْ بِکِتَابِیَّۃٍ ، اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ ، ثُمَّ جَائَ تْنَا مُسْلِمَۃً ، یُنْتَظَرُ بِہَا اِلْحَاقُ زَوْجِہَا بِہَا مُسْلِمًا ، فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ خُرُوْجِہَا مِنَ الْعِدَّۃِ ؟ ہَذَا مُحَالٌ ، لِأَنَّ اِسْلَامَہَا فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ اِذَا کَانَ یُبِیْنُہَا مِنْ زَوْجِہَا النَّصْرَانِیِّ الذِّمِّیِّ ، فَاِسْلَامُہَا فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَخُرُوْجُہَا اِلَی دَارِ الْاِسْلَامِ ، وَتَرْکُہَا زَوْجَہَا الْمُشْرِکَ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ أَنْ یُبِیْنَہَا .فَثَبَتَ بِہٰذَا ، مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، أَنَّہٗ کَانَ یَرَی الْعِصْمَۃَ مُنْقَطِعَۃً بِاِسْلَامِ الْمَرْأَۃِ ، لَا لِخُرُوْجِہَا مِنَ الْعِدَّۃِ .وَاِذَا ثَبَتَ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِہٖ ، اسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ تَرْکُ مَا قَدْ کَانَ ثَبَتَ عِنْدَہٗ، مِنْ حُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ رَدِّہِ زَیْنَبَ ، عَلٰی أَبِی الْعَاصِ ، عَلَی النِّکَاحِ الْأَوَّلِ ، وَصَارَ اِلَی خِلَافِہٖ، اِلَّا بَعْدَ ثُبُوْتِ نَسْخِ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا النَّظْرُ فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّا رَأَیْنَا الْمَرْأَۃَ اِذَا أَسْلَمَتْ وَزَوْجُہَا کَافِرٌ ، فَقَدْ صَارَتْ اِلَیْ حَالٍ لَا یَجُوْزُ أَنْ یَسْتَأْنِفَ نِکَاحَہُ عَلَیْہَا ، لِأَنَّہَا مُسْلِمَۃٌ وَہُوَ کَافِرٌ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ اِلَی مَا یَطْرَأُ عَلَی النِّکَاحِ ، مِمَّا لَا یَجُوْزُ مَعَہُ الْاِسْتِقْبَالُ لِلنِّکَاحِ ، کَیْفَ حُکْمُہٗ؟ فَرَأَیْنَا اللّٰہَ - عَزَّ وَجَلَّ - قَدْ حَرَّمَ الْأَخَوَاتِ مِنَ الرَّضَاعَۃِ ، وَکَانَ مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً صَغِیْرَۃً لَا رَضَاعَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا فَأَرْضَعَتْہَا أُمُّہٗ، حُرِّمَتْ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ ، وَانْفَسَخَ النِّکَاحُ ، فَکَانَ الرَّضَاعُ الطَّارِئُ عَلَی النِّکَاحِ ، فِیْ حُکْمِ الرَّضَاعِ الْمُتَقَدِّمِ لِلنِّکَاحِ فِیْ أَشْبَاہٍ لِذٰلِکَ ، یَطُوْلُ الْکِتَابُ بِذِکْرِہَا .وَکَانَتْ ثَمَّۃَ أَشْیَائَ ، یَخْتَلِفُ فِیْہَا الْحُکْمُ اِذَا کَانَتْ مُتَقَدِّمَۃً لِلنِّکَاحِ ، أَوْ طَرَأَتْ عَلَی النِّکَاحِ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ نِکَاحَ الْمَرْأَۃِ فِیْ عِدَّتِہَا مِنْ زَوْجِہَا ، وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ الْعِدَّۃَ مِنَ الْجِمَاعِ فِی النِّکَاحِ الْفَاسِدِ ، یَمْنَعُ مِنْ النِّکَاحِ ، کَمَا یَمْنَعُ اِذَا کَانَتْ بِسَبَبِ نِکَاحٍ صَحِیْحٍ .وَکَانَتِ الْمَرْأَۃُ لَوْ وُطِئَتْ بِشُبْہَۃٍ ، وَلَہَا زَوْجٌ ، فَوَجَبَتْ عَلَیْہَا بِذَلک عِدَّۃٌ ، لَمْ تَبِنْ بِذٰلِکَ مِنْ زَوْجِہَا ، وَلَمْ یُجْعَلْ ہٰذِہِ الْعِدَّۃُ کَالْعِدَّۃِ الْمُتَقَدِّمَۃِ لِلنِّکَاحِ .فَفُرِّقَ فِیْ ہٰذَا ، بَیْنَ حُکْمِ الْمُسْتَقْبَلِ وَالْمُسْتَدْبَرِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْمَرْأَۃِ اِذَا أَسْلَمَتْ وَزَوْجُہَا کَافِرٌ ، ہَلْ تَبِیْنُ مِنْہُ بِذٰلِکَ ، وَیَکُوْنُ حُکْمُ مُسْتَقْبِلِ ذٰلِکَ وَمُسْتَدْبِرِہِ سَوَائً ، کَمَا کَانَ ذٰلِکَ فِی الرِّضَاعِ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ؟ أَوْ لَا تَبِیْنُ مِنْہُ بِاِسْلَامِہَا ، فَلَا یَکُوْنُ حُکْمُ اِسْلَامِہَا الْحَادِثِ کَہُوَ ، اِذَا کَانَ قَبْلَ النِّکَاحِ ، کَالْعِدَّۃِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا الَّتِیْ فُرِّقَ بَیْنَ حُکْمِ الْمُسْتَقْبِلِ فِیْہَا وَحُکْمِ الْمُسْتَدْبِرِ ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَوَجَدْنَا الْعِدَّۃَ الطَّارِئَۃَ عَلَی النِّکَاحِ ، لَا یَجِبُ فِیْہَا فُرْقَۃٌ فِیْ حَالِ وُجُوْبِہَا ، وَلَا یُعَدُّ ذٰلِکَ .وَکَانَ الرَّضَاعُ الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، یَجِبُ بِہٖ الْفُرْقَۃُ فِیْ حَالِ کَوْنِہٖ، وَلَا یُنْتَظَرُ بِہَا شَیْء ٌ بَعْدَہٗ، وَکَانَ الْاِسْلَامُ الطَّارِئُ عَلَی النِّکَاحِ ، کُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ فُرْقَۃً تَجِبُ بِہٖ .فَقَالَ قَوْمٌ : تَجِبُ فِیْ وَقْتِ اِسْلَامِ الْمَرْأَۃِ ، وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا .وَقَالَ آخَرُوْنَ لَا تَجِبُ الْفُرْقَۃُ ، حَتّٰی تَعْرِضَ عَلَی الزَّوْجِ الْاِسْلَامَ فَیَأْبَاہٗ، فَیُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَرْأَۃِ أَوْ تَخْتَارُہٗ، فَتَکُوْنُ امْرَأَتُہُ عَلٰی حَالِہَا وَہُوَ قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .وَقَالَ آخَرُوْنَ ہِیَ امْرَأَتُہُ مَا لَمْ یُخْرِجْہَا مِنْ أَرْضِ الْہِجْرَۃِ وَہُوَ قَوْلُ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَسَنَأْتِی بِأَسَانِیدَ ہٰذِہِ الرِّوَایَاتِ فِیْ آخِرِ ہٰذَا الْبَابِ ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ اِسْلَامَ الزَّوْجَۃِ الطَّارِئَ عَلَی النِّکَاحِ یُوْجِبُ الْفُرْقَۃَ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَبَیْنَ زَوْجِہَا ، فِیْ حَالِ مَا ثَبَتَ ، أَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ بِحُکْمِ الرَّضَاعِ ، أَشْبَہٗ مِنْہُ بِحُکْمِ الْعِدَّۃِ .فَلَمَّا کَانَ الرَّضَاعُ تَجِبُ بِہٖ الْفُرْقَۃُ سَاعَۃَ یَکُوْنُ ، وَلَا یَنْتَظِرُ بِہٖ خُرُوْجَ الْمَرْأَۃِ مِنْ عِدَّتُہَا ، کَانَ کَذٰلِکَ ، الْاِسْلَامُ .فَہٰذَا وَجْہُ النَّظَرِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّ الْمَرْأَۃَ تَبِیْنُ مِنْ زَوْجِہَا بِاِسْلَامِہَا ، فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ کَانَتْ ، أَوْ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ .وَقَدْ کَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، یُخَالِفُوْنَ ہٰذَا، وَیَقُوْلُوْنَ فِی الْحَرْبِیَّۃِ ، اِذَا أَسْلَمَتْ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ وَزَوْجُہَا کَافِرٌ ، اِنَّہَا امْرَأَتُہٗ، مَا لَمْ تَحِضْ ثَلَاثَ حِیَضٍ ، أَوْ تَخْرُجْ اِلَی دَارِ الْاِسْلَامِ ، فَأَیُّ ذٰلِکَ کَانَتْ بَانَتْ بِہٖ مِنْ زَوْجِہَا .وَقَالُوْا : کَانَ النَّظْرُ فِیْ ہٰذَا ، أَنْ تَبِیْنَ مِنْ زَوْجِہَا بِاِسْلَامِہَا سَاعَۃَ أَسْلَمَتْ .وَقَالُوْا : اِذَا أَسْلَمَتْ ، وَزَوْجُہَا فِیْ دَارِ الْاِسْلَامِ ، فَہِیَ امْرَأَتُہُ عَلٰی حَالِہَا ، حَتّٰی یَعْرِضَ الْقَاضِیْ عَلَی زَوْجِہَا الْاِسْلَامَ فَیُسْلِمُ ، فَتَبْقَیْ تَحْتَہٗ، أَوْ یَأْبَی ، فَیُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا .وَقَالُوْا : کَانَ النَّظْرُ فِیْ ذٰلِکَ أَنْ تَبِیْنَ مِنْہُ بِاِسْلَامِہَا ، سَاعَۃَ أَسْلَمَتْ ، وَلٰـکِنَّا قَلَّدْنَا مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَذَکَرُوْا
٥١٤٨: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے البتہ ” الاسلام یعلو ولا یعلٰی “ کے الفاظ نقل نہیں کئے۔ کیا یہ درست ہے کہ دارالاسلام میں کوئی نصرانیہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند نصرانی ذمی ہو وہ عورت اسی وقت اس سے جدا ہوجائے اور اس عورت کے عدت میں سے نکلنے لگے تک اس خاوند کے اسلام لانے کا تو انتظار نہ کیا جائے اور حربیہ عورت جو کہ کتابیہ بھی نہیں وہ دارالحرب میں اسلام لے آئے پھر دارالاسلام میں داخل ہوجائے تو اس کے سلسلہ میں اس کے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کیا جائے کہ وہ اس کی عدت کے اندر اندر مسلمان ہوجائے۔ یہ بات بالکل ناممکن ہے کیونکہ جب دارالاسلام میں اسلام قبول کرلینا اس کے خاوند نصرانی ذمی سے اس کو الگ کردیتا ہے تو دارالحرب میں اس کا اسلام لانا مشرک خاوند سے اس کو کیونکر الگ نہ کرے گا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابن عباس (رض) بھی عورت کے اسلام لانے سے اس کا نکاح کافر خاوند سے ٹوٹ جانے کے قائل تھے عدت تک خاوند کے اسلام کے انتظار کرنے کے قائل نہ تھے۔ اب جبکہ ان کے اپنے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوگئی تو اب یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ اس کو ترک کریں جو ان کے ہاں حضرت زینب (رض) کے ابوالعاص (رض) پر واپس کرنے کے سلسلے میں ثابت شدہ ہے کہ پہلے نکاح پر واپس کردیا اور مخالف قول کو اختیار کریں بس یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ ان کے ہاں پہلے قول کا منسوخ ہونا ثابت ہو۔ آثار کو پیش نظر رکھتے ہوئے تو اس باب کا یہی مفہوم ہے۔ اب نظری اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عورت اسلام قبول کرے اور اس کا خاوند کافر ہی رہے تو وہ عورت ایسے حال میں ہوجاتی ہے کہ اس آدمی کا نکاح اس عورت کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ مسلمان ہے اور وہ کافر ہے۔ تو ہم نے چاہا کہ اس حالت کا حکم معلوم کریں جو نکاح پر طاری ہوتی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے نکاح کا سامنا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعی بہن سے نکاح کو حرام کیا ہے وہ آدمی جس نے چھوٹی بچی سے نکاح کیا کہ آدمی اور اس منکوحہ کے مابین رضاعت کا رشتہ نہ تھا۔ نکاح کے بعد اس خاوند کی ماں نے اس لڑکی کو دودھ پلا دیا تو وہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی اور اس وجہ سے نکاح فسخ ہوجائے گا۔ ایسے مواقع میں وہ رضاعت جو اب طاری ہوئی ہے یہ پہلے پیش آنے والی رضاعت کی طرح ہے اس میں طویل بحث ہے اس میں بعض صورتیں اگرچہ مختلف فیہ ہیں جبکہ نکاح سے پہلے ہوں یا نکاح کے بعد پیش آئیں ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ خاوند کی عدت میں ہوتے ہوئے نکاح کو حرام کیا ہے اور مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح فاسد میں جماع کی وجہ سے جو عدت لازم آتی ہے وہ بھی نکاح سے مانع ہے جس طرح کہ صحیح نکاح کی عدت مانع ہے اور اگر عورت سے بالشبہ وطی ہوئی حالانکہ اس کا خاوند موجود تھا تو وطی بالشبہہ کی وجہ سے اس عورت پر عدت لازم ہے۔ مگر اس عدت کے باوجود وہ اپنے خاوند سے بائنہ نہ ہوگی اور یہ عدت اس عدت کی طرح نہ ہوگی جو نکاح سے پہلے عورت کسی اور خاوند کی عدت گزارتی ہے تو اس صورت میں مقدم (وہ نکاح جس کی موجودگی میں عدت گزارے تو وہ نکاح قائم رہے گا) اور موخر (عورت میں کیا جانے والا نکاح جائز نہیں یہ موخر ہے) میں فرق کیا جائے گا۔ پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس عورت کے بارے میں معلوم کریں جو کہ مسلمان ہوگئی اور اس کا خاوند کافر ہے کیونکہ وہ اس وجہ سے اس سے جدا ہوجائے گی اس میں مقدم و موخر کا حکم ایک جیسا ہوگا جیسا کہ رضاعت کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا یا اسلام کی وجہ سے اس سے جدا نہ ہوگی اور اس کے ابھی اسلام قبول کرنے کو نکاح سے پہلے والے اسلام کی طرح قرار نہیں دیا جائے گا جیسا کہ عدت کا مسئلہ ہم نے ذکر کیا کہ اس میں مقدم و موخر کا فرق کیا گیا ہے۔ پس غور کے بعد معلوم ہوا کہ نکاح پر طاری ہونے والی عدت میں واجب ہونے کی حالت اور اس کے بعد تفریق لازم نہیں ہے اور دوسری طرف جس رضاعت کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے تفریق لازم ہوجاتی ہے اور اس کے طاری ہونے کے بعد کسی اور بات کی قطعاً انتظار نہیں کی جاتی۔ وہ اسلام جو نکاح کے بعد آتا ہے اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ اس سے جدائی واجب ہوجاتی ہے تو ایک جماعت کے ہاں عورت کے اسلام لاتے ہی جدائی واجب ہوجاتی ہے اور یہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے اور دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ جب تک خاوند پر اسلام کو پیش نہ کیا جائے اور وہ انکار نہ کر دے تو اس وقت ان میں تفریق کردی جائے گی اور اگر وہ اقرار کرے تو وہ بدستور اس کی بیوی ہے یہ حضرت عمر (رض) کا قول ہے۔ ایک تیسری جماعت کا قول یہ ہے کہ وہ اس کی بیوی ہے جب تک کہ وہ اس کو دارالحرب سے نہ نکالے اور یہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کا قول ہے۔ اسناد کے ساتھ یہ روایات باب کے آخر میں ہم ذکر کریں گے۔ کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورت کا نکاح کے بعد اسلام لانا خاوند اور بیوی کے درمیان تفریق کو لازم کردیتا ہے خواہ اس کی حالت کوئی بھی ہو۔ تو اس سے یہ خود ثابت ہوگیا کہ اس کے حکم کی مشابہت عدت کی بجائے رضاعت سے زیادہ ہے تو جب رضاعت کی وجہ سے جدائی لازم ہوجاتی ہے جب بھی رضاعت پائی جائے پہلے یا بعد۔ عورت کے عدت سے نکلنے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ پس اس پر قیاس کرتے ہوئے اسلام لانے کا حکم بھی یہی ہوگا۔ پس اس سلسلہ میں تقاضائے نظر یہی ہے۔ کہ عورت اسلام لاتے ہی اپنے کافر خاوند سے جدا ہوا جائے گی خواہ وہ دارالحرب میں ہو یا دارالاسلام میں۔ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول اس کے خلاف ہے۔ حربیہ کا حکم : وہ حربیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب وہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند دارالحرب میں کافر ہے تو وہ اس کی بیوی رہے گی جب تک کہ اس عورت کو تین حیض نہ آجائیں یا پھر وہ عورت دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کر جائے ان دو میں سے جو صورت پیش آجائے اس سے وہ اپنے خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیاس اسی بات کا متقاضی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے اسلام لاتے ہی جدا ہوجائے۔ اگر وہ اسلام لائی جبکہ اس کا خاوند دارالاسلام میں تھا تو وہ اس کی اسی طرح بیوی ہے یہاں تک کہ قاضی اس کے خاوند پر اسلام پیش کرے اور وہ اسلام لے آئے تو وہ اس کے تحت باقی رہے گی یا انکار کر دے تو ان میں تفریق کردی جائے گی۔ یہاں نظر قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ اسلام لاتے ہی اپنے اسلام کی وجہ سے خاوند سے جدا ہوجائے مگر ہم نے حضرت عمر (رض) کے قول کی تقلید کی۔
نوٹ : کیا یہ درست ہے کہ دارالاسلام میں کوئی نصرانیہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند نصرانی ذمی ہو وہ عورت اسی وقت اس سے جدا ہوجائے اور اس عورت کے عدت میں سے نکلنے لگ تک اس خاوند کے اسلام لانے کا تو انتظار نہ کیا جائے اور حربیہ عورت جو کہ کتابیہ بھی نہیں وہ دارالحرب میں اسلام لے آئے پھر دارالاسلام میں داخل ہوجائے تو اس کے سلسلہ میں اس کے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کیا جائے کہ وہ اس کی عدت کے اندر اندر مسلمان ہوجائے۔
یہ بات بالکل ناممکن ہے کیونکہ جب دارالاسلام میں اسلام قبول کرلینا اس کے خاوند نصرانی ذمی سے اس کو الگ کردیتا ہے تو دارالحرب میں اس کا اسلام لانا مشرک خاوند سے اس کو کیونکر الگ نہ کرے گا۔
پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابن عباس (رض) بھی یہی رائے رکھتے تھے کہ عورت کے اسلام لانے سے اس کا نکاح کافر خاوند سے ٹوٹ جانے کے قائل تھے عدت تک خاوند کے اسلام کے انتظار کرنے کے قائل نہ تھے۔ اب جبکہ ان کے اپنے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوگئی تو اب یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ اس کو ترک کریں جو ان کے ہاں حضرت زینب (رض) کے ابوالعاص (رض) پر واپس کرنے کے سلسلے میں ثابت شدہ ہے کہ پہلے نکاح پر واپس کردیا اور مخالف قول کو اختیار کریں بس یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ ان کے ہاں پہلے قول کا منسوخ ہونا ثابت ہو۔
آثار کو پیش نظر رکھتے ہوئے تو اس باب کا یہی مفہوم ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اب نظری اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عورت اسلام قبول کرے اور اس کا خاوند کافر ہی رہے تو وہ عورت ایسے حال میں ہوجاتی ہے کہ اس آدمی کا نکاح اس عورت کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ مسلمان ہے اور وہ کافر ہے۔
تو ہم نے چاہا کہ اس حالت کا حکم معلوم کریں جو اس نکاح پر طاری ہوتی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے نکاح کا سامنا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعی بہن سے نکاح کو حرام کیا ہے وہ آدمی جس نے چھوٹی بچی سے نکاح کیا کہ آدمی اور اس منکوحہ کے مابین رضاعت کا رشتہ نہ تھا۔ نکاح کے بعد اس خاوند کی ماں نے اس لڑکی کو دودھ پلا دیا تو وہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی اور اس وجہ سے نکاح فسخ ہوجائے گا۔ ایسے مواقع میں وہ رضاعت جو اب طاری ہوئی ہے یہ پہلے پیش آنے والی رضاعت کی طرح ہے اس میں طویل بحث ہے اس میں بعض صورتیں اگرچہ مختلف فیہ ہیں جبکہ نکاح سے پہلے ہوں یا نکاح کے بعد پیش آئیں ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ خاوند کی عدت میں ہوتے ہوئے نکاح کو حرام کیا ہے اور مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح فاسد میں جماع کی وجہ سے جو عدت لازم آتی ہے وہ بھی نکاح سے مانع ہے جس طرح کہ صحیح نکاح کی عدت مانع ہے۔
اور اگر عورت سے بالشبہ وطی ہوئی حالانکہ اس کا خاوند موجود تھا تو وطی بالشبہہ کی وجہ سے اس عورت پر عدت لازم ہے۔ مگر اس عدت کے باوجود وہ اپنے خاوند سے بائنہ نہ ہوگی اور یہ عدت اس عدت کی طرح نہ ہوگی جو نکاح سے پہلے عورت کسی اور خاوند کی عدت گزارتی ہے تو اس صورت میں مقدم (وہ نکاح جس کی موجودگی میں عدت گزارے تو وہ نکاح قائم رہے گا) اور موخر (عورت میں کیا جانے والا نکاح جائز نہیں یہ موخر ہے) میں فرق کیا جائے گا۔
پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس عورت کے بارے میں معلوم کریں جو کہ مسلمان ہوگئی اور اس کا خاوند کافر ہے کیونکہ وہ اس وجہ سے اس سے جدا ہوجائے گی اس میں مقدم و موخر کا حکم ایک جیسا ہوگا جیسا کہ رضاعت کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا یا اسلام کی وجہ سے اس سے جدا نہ ہوگی اور اس کے ابھی اسلام قبول کرنے کو نکاح سے پہلے والے اسلام کی طرح قرار نہیں دیا جائے گا جیسا کہ عدت کا مسئلہ ہم نے ذکر کیا کہ اس میں مقدم و موخر کا فرق کیا گیا ہے۔
پس غور کے بعد معلوم ہوا کہ نکاح پر طاری ہونے والی عدت میں واجب ہونے کی حالت اور اس کے بعد تفریق لازم نہیں ہے۔
اور دوسری طرف جس رضاعت کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے تفریق لازم ہوجاتی ہے اور اس کے طاری ہونے کے بعد کسی اور بات کی قطعاً انتظار نہیں کی جاتی۔
نکاح کے بعد اسلام کا حکم :
نکاح کے بعد اسلام کا حکم : وہ اسلام جو نکاح کے بعد آتا ہے اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ اس سے جدائی واجب ہوجاتی ہے تو ایک جماعت کے ہاں عورت کے اسلام لاتے ہی جدائی واجب ہوجاتی ہے اور یہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے اور دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ جب تک خاوند پر اسلام کو پیش نہ کیا جائے اور وہ انکار نہ کر دے تو اس وقت تک ان میں فرقت نہ ہوگی۔ اگر وہ انکار کر دے تو ان میں تفریق کردی جائے گی اور اگر وہ اقرار کرے تو وہ بدستور اس کی بیوی ہے یہ حضرت عمر (رض) کا قول ہے۔
ایک تیسری جماعت کا قول یہ ہے کہ وہ اس کی بیوی ہے جب تک کہ وہ اس کو دارالحرب سے نہ نکالے اور یہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کا قول ہے۔ اسناد کے ساتھ یہ روایات باب کے آخر میں ہم ذکر کریں گے۔
حاصل کلام یہ ہوا کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورت کا نکاح کے بعد اسلام لانا خاوند اور بیوی کے درمیان تفریق کو لازم کردیتا ہے خواہ اس کی حالت کوئی بھی ہو۔ تو اس سے یہ خود ثابت ہوگیا کہ اس کے حکم کی مشابہت عدت کی بجائے رضاعت سے زیادہ ہے تو جب رضاعت کی وجہ سے جدائی لازم ہوجاتی ہے جب بھی رضاعت پائی جائے پہلے یا بعد۔ عورت کے عدت سے نکلنے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ پس اس پر قیاس کرتے ہوئے اسلام لانے کا حکم بھی یہی ہوگا۔
پس اس سلسلہ میں تقاضائے نظر یہی ہے۔ کہ عورت اسلام لاتے ہی اپنے کافر خاوند سے جدا ہوا جائے گی خواہ وہ دارالحرب میں ہو یا دارالاسلام میں۔
ائمہ احناف کا مسلک : اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد (رح) کا قول اس کے خلاف ہے۔
حربیہ کا حکم : وہ حربیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب وہ اسلام لے آئے اور اس کا خاوند دارالحرب میں کافر ہے تو وہ اس کی بیوی رہے گی جب تک کہ اس عورت کو تین حیض نہ آجائیں یا پھر وہ عورت دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کر جائے ان دو میں سے جو صورت پیش آجائے اس سے وہ اپنے خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیاس اسی بات کا متقاضی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے اسلام لاتے ہی جدا ہوجائے۔
دارالاسلام میں مقیمہ کا حکم : اگر وہ اسلام لائی جبکہ اس کا خاوند دارالاسلام میں تھا تو وہ اس کی اسی طرح بیوی ہے یہاں تک کہ قاضی اس کے خاوند پر اسلام پیش کرے اور وہ اسلام لے آئے تو وہ اس کے تحت باقی رہے گی یا انکار کر دے تو ان میں تفریق کردی جائے گی۔ یہاں نظر قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ اسلام لاتے ہی اپنے اسلام کی وجہ سے خاوند سے جدا ہوجائے مگر ہم نے حضرت عمر (رض) کے قول کی تقلید کی۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔