HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5324

۵۳۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ اِسْحَاقَ یَقُوْلُ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیُّ وَغَیْرُہٗ، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ صَالَحَ قُرَیْشًا عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ عَلٰی أَنَّہٗ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِیْ عَقْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَہْدِہِ دَخَلَ فِیْہِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِیْ عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ دَخَلَ فِیْہِ .فَتَوَاثَبَتْ خُزَاعَۃُ وَبَنُو کَعْبٍ وَغَیْرُہُمْ مَعَہُمْ ، فَقَالُوْا : نَحْنُ فِیْ عَقْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَہْدِہٖ۔ وَتَوَاثَبَتْ بَنُوْبَکْرٍ ، فَقَالُوْا : نَحْنُ فِیْ عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ .وَقَامَتْ قُرَیْشٌ عَلَی الْوَفَائِ بِذٰلِکَ سَنَۃً وَبَعْضَ سَنَۃٍ ، ثُمَّ اِنَّ بَنِیْ بَکْرٍ عَدَوْا عَلَی خُزَاعَۃَ ، عَلٰی مَا لَہُمْ بِأَسْفَلِ مَکَّۃَ .فَقَالَ لَہُ الزُّبَیْرُ : بَیَّتُوْھُمْ فِیْہِ، فَأَصَابُوْا مِنْہُمْ رَجُلًا وَتَجَاوَزَ الْقَوْمُ فَاقْتَتَلُوْا ، وَرَفَدَتْ قُرَیْشٌ بَنِیْ بَکْرٍ بِالسِّلَاحِ وَقَاتَلَ مَعَہُمْ مَنْ قَاتَلَ مِنْ قُرَیْشٍ بِالنَّبْلِ مُسْتَخْفِیًا ، حَتَّیْ جَاوَزُوْا خُزَاعَۃَ اِلَی الْحَرَمِ ، وَقَائِدُ بَنِیْ بَکْرٍ یَوْمَئِذٍ ، نَوْفَلُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، فَلَمَّا انْتَہَوْا اِلَی الْحَرَمِ قَالَتْ بَنُوْبَکْرٍ : یَا نَوْفَلُ اِلَہَکَ اِلَہَکَ ، اِنَّا قَدْ دَخَلْنَا الْحَرَمَ .فَقَالَ کَلِمَۃً عَظِیْمَۃً : لَا اِلَہَ لَہُ الْیَوْمَ یَا بَنِیْ بَکْرٍ ، أَصِیْبُوْا ثَأْرَکُمْ ، قَدْ کَانَتْ خُزَاعَۃُ أَصَابَتْ قَبْلَ الْاِسْلَامِ نَفَرًا ثَلَاثَۃً ، وَہُمْ مُتَحَرِّفُوْنَ ، دُوَیْبًا ، وَکُلْثُوْمًا ، وَسُلَیْمَانَ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ زُرَیْقِ بْنِ یَعْمُرَ ، فَلَعَمْرِیْ یَا بَنِیْ بَکْرٍ ، اِنَّکُمْ تَسْرِقُوْنَ فِی الْحَرَمِ ، أَفَلَا تُصِیْبُوْنَ ثَأْرَکُمْ فِیْہٖ؟ قَالَ : وَقَدْ کَانُوْا أَصَابُوْا مِنْہُمْ رَجُلًا لَیْلَۃَ بَیَّتُوْھُمْ بِالْوَتِیرِ ، وَمَعَہُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِہِ یُقَالُ لَہُ مُنَبِّہٌ رَجُلًا مُفْرَدًا فَخَرَجَ ہُوَ وَتَمِیْمٌ .فَقَالَ مُنَبِّہٌ : یَا تَمِیْمُ ، اُنْجُ بِنَفْسِکَ ، فَأَمَّا أَنَا ، فَوَاللّٰہِ، اِنِّیْ لَمَیِّتٌ ، قَتَلُوْنِیْ أَوْ لَمْ یَقْتُلُوْنِی .فَانْطَلَقَ تَمِیْمٌ فَأُدْرِکَ مُنَبِّہٌ فَقَتَلُوْھُ وَأَفْلَتَ تَمِیْمٌ ، فَلَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ ، لَحِقَ اِلَی دَارِ بُدَیْلِ بْنِ وَرْقَائَ ، وَدَارِ رَافِعٍ مَوْلًی لَہُمْ .وَخَرَجَ عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ ، حَتَّی قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ عَمْرٌو : لَا ہُمَّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدَا حِلْفَ أَبِیْنَا وَأَبِیْہَ الْأَتْلَدَا وَالِدًا کُنَّا وَکُنْتَ وَلَدَا ثُمَّۃَ أَسْلَمْنَا فَلَمْ نَنْزِعْ یَدَا فَانْصُرْ رَسُوْلَ اللّٰہِ نَصْرًا أَعْتَدَا وَادْعُ عِبَادَ اللّٰہِ یَأْتُوْا مَدَدَا فِیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَدْ تَجَرَّدَا اِنْ سِیْمَ خَسْفًا وَجْہُہُ تَرَبَّدَا فِیْ فَیْلَقٍ کَالْبَحْرِ یَأْتِی مُزْبِدَا اِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَا وَنَقَضُوْا مِیْثَاقَکَ الْمُؤَکَّدَا وَجَعَلُوْا لِیْ فِیْ کَدَائَ رُصَّدَا وَزَعَمُوْا أَنْ لَسْتُ أَدْعُو أَحَدًا وَہُمْ أَذَلُّ وَأَقَلُّ عَدَدَا ہُمْ بَیَّتُوْنَا بِالْوَتِیرِ ہُجَّدَا فَقَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَسُجَّدَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَصَرْتُ بَنِیْ کَعْبٍ .ثُمَّ خَرَجَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ فِیْ نَفَرٍ مِنْ خُزَاعَۃَ حَتَّی قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَأَخْبَرُوْھُ بِمَا أُصِیْبَ مِنْہُمْ وَقَدْ رَجَعُوْا .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَأَنَّکُمْ بِأَبِیْ سُفْیَانَ قَدْ قَدِمَ لِیَزِیْدَ فِی الْعَہْدِ ، وَیَزِیْدَ فِی الْمُدَّۃِ .ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوًا مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ عَنْ عِکْرَمَۃَ فِیْ طَلَبِ أَبِیْ سُفْیَانَ الْجَوَابَ مِنْ أَبِیْ بَکْرٍ ، وَمِنْ عُمَرَ ، وَمِنْ عَلِی ، وَمِنْ فَاطِمَۃَ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ ، وَجَوَابِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ لَہُ بِمَا أَجَابَہُ فِیْ ذٰلِکَ ، عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، وَلَمْ یَذْکُرْ خَبَرَ أَبِیْ سُفْیَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَا أَمَانَ الْعَبَّاسِ اِیَّاہُ وَلَا اِسْلَامَہٗ، وَلَا بَقِیَّۃَ الْحَدِیْثِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ أَنَّ الصُّلْحَ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ أَہْلِ مَکَّۃَ ، دَخَلَتْ خُزَاعَۃُ فِیْ صُلْحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْحِلْفِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہٗ، وَدَخَلَتْ بَنُوْبَکْرٍ فِیْ صُلْحِ قُرَیْشٍ ، لِلْحِلْفِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہٗ.فَصَارَ حُکْمُ حُلَفَائِ کُلِّ فَرِیْقٍ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمِنْ قُرَیْشٍ فِی الصُّلْحِ ، کَحُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحُکْمِ قُرَیْشٍ .وَکَانَ بَیْنَ حُلَفَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ حُلَفَائِ قُرَیْشٍ مِنَ الْقِتَالِ ، مَا کَانَ ، فَکَانَ ذٰلِکَ نَقْضًا مِنْ حُلَفَائِ قُرَیْشٍ لِلصُّلْحِ الَّذِیْ کَانُوْا دَخَلُوْا فِیْہِ، وَخُرُوْجًا مِنْہُمْ بِذٰلِکَ مِنْہُ .فَصَارُوْا بِذٰلِکَ ، حَرْبًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .ثُمَّ أَمَدَّتْ قُرَیْشٌ حُلَفَائَ ہَا ہٰؤُلَائِ بِمَا قَوَّوْہُمْ بِہٖ عَلَی قِتَالِ خُزَاعَۃَ ، حَتَّی قُتِلَ مِنْہُمْ مَنْ قُتِلَ وَقَدْ کَانَ الصُّلْحُ مَنَعَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ .فَکَانَ فِیْمَا فَعَلُوْا مِنْ ذٰلِکَ ، نَقْضًا لِلْعَہْدِ ، وَخُرُوْجًا مِنِ الصُّلْحِ ، فَصَارَتْ قُرَیْشٌ بِذٰلِکَ ، حَرْبًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلِأَصْحَابِہٖ .فَقَالَ الْآخَرُوْنَ : وَکَیْفَ یَکُوْنُ بِمَا ذَکَرْتُمْ کَمَا وَصَفْتُمْ ، وَقَدْ رَوَیْتُمْ أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ وَفَدَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ بَعْدَ أَنْ کَانَ بَیْنَ بَنِیْ بَکْرٍ وَبَیْنَ خُزَاعَۃَ مِنَ الْقِتَالِ مَا کَانَ ، وَبَعْدَ أَنْ کَانَ مِنْ قُرَیْشٍ لِبَنِیْ بَکْرٍ مِنَ الْمَعُوْنَۃِ لَہُمْ مَا کَانَ عَلِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَوْضِعِہٖ، فَلَمْ یَصِلْہُ وَلَمْ یَعْرِضْ لَہٗ۔فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ عِنْدَہٗ فِیْ أَمَانِہِ عَلٰی حَالِہٖ ، غَیْرَ خَارِجٍ مِنْہُ مِمَّا کَانَ مِنْ بَنِیْ بَکْرٍ فِیْ قِتَالِ خُزَاعَۃَ ، وَمَا کَانَ مِنْ قُرَیْشٍ فِیْ مَعُوْنَۃِ بَنِیْ بَکْرٍ بِمَا أَعَانُوْھُمْ بِہٖ مِنِ الطَّعَامِ وَالسِّلَاحِ وَالتَّظْلِیْلِ ، غَیْرِ نَاقِضٍ لِأَمَانِہِ بِصُلْحِہِ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغَیْرَ مُخْرِجٍ لَہٗ مِنْہُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ أَنَّ تَرْکَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّعَرُّضَ لِأَبِیْ سُفْیَانَ ، لَمْ یَکُنْ لِأَنَّ الصُّلْحَ الَّذِیْ کَانَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَبَیْنَ أَہْلِ مَکَّۃَ قَائِمٌ ، وَلٰـکِنَّہٗ تَرَکَہٗ، لِأَنَّہٗ کَانَ وَافِدًا اِلَیْہِ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، طَالِبًا الصُّلْحَ الثَّانِیَ ، سِوَی الصُّلْحِ الْأَوَّلِ ، لِانْتِقَاضِ الصُّلْحِ الْأَوَّلِ ، فَلَمْ یَعْرِضْ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلٍ وَلَا غَیْرِہٖ، لِأَنَّ مِنْ سُنَّۃِ الرُّسُلِ أَنْ لَا یُقْتَلُوْا .
٥٣٢٣: محمد بن مسلم بن شہاب زہری وغیرہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے حدیبیہ والے سال اس شرط پر صلح کی کہ جو قبیلہ چاہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاہدے میں شامل ہوجائے اور جو آدمی چاہے وہ عقد قریش میں داخل ہو۔ تو بنو خزاعہ اور بنو کعب وغیرہ اور ان کے حامی قبائل کود پڑے اور کہنے لگے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد اور عہد میں شامل ہوتے ہیں قریش نے اس معاہدے کی ایک سال اور دوسرے سال کا کچھ حصہ پاسداری کی۔ پھر اسفل مکہ میں بنو بکر نے بنو خزاعہ کے مال پر حملہ کر کے لوٹ لیا۔ زبیر نے کہا ان پر رات کو حملہ کر دو ۔ چنانچہ انھوں نے ان کے ایک آدمی کو مار ڈالا وہ لوگ آگے بڑھے اور باہمی لڑنے لگے۔ قریش نے اسلحہ سے بنو بکر کی امداد کی اور قریش نے خفیہ طور پر تیروں کے ذریعہ لڑائی میں شرکت کی۔ یہاں تک کہ بنو خزاعہ حرم تک پہنچ گئے اس وقت بنو بکر کا سپہ سالار نوفل بن معاویہ تھا۔ جب وہ حرم تک پہنچے تو بنو بکر کہنے لگے اے نوفل۔ ہلاکت سے بچ۔ ہلاکت سے بچ۔ اب ہم حرم میں داخل ہوچکے۔ تو اس نے بڑی بری بات کہی۔ آج اس کا کوئی معبود نہیں۔ اے بنی بکر تم اپنا بدلہ چکاؤ اسلام سے پہلے بنو خزاعہ نے ان کے تین آدمی قتل کئے تھے اور وہ لڑائی سے الگ تھے ان کے نام یہ تھے
نمبر ١ ذویب۔
نمبر ٢ کلثوم۔
نمبر ٣ سلیمان بن اسود بن زریق یعمری۔ اے بنی بکر۔ میری عمر کی قسم ! اگرچہ تم حرم میں پہنچ رہے ہو کیا تم اس میں اپنا بدلہ نہ لو گے ؟ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے بنو خزاعہ کے ایک آدمی کو مقام و تیر میں شب خون مار کر قتل کردیا تھا اس وقت اس کے ساتھ اس کی قوم کا ایک منبّہ نامی آدمی تھا وہ اکیلا آدمی تھا چنانچہ وہ اور تمیم دونوں نکلے۔ منبّہ نے کہا اے تمیم تم اپنے آپ کو بچاؤ‘ اللہ کی قسم ! میں مارا جاؤں گا۔ خواہ وہ مجھے قتل کریں یا اور کچھ۔ تمیم چلا گیا انھوں نے منبّہ کو پا کر قتل کردیا اور تمیم بچ نکلا۔ جب وہ مکہ میں داخل ہوا تو بدیل بن ورقاء اور ان کے غلام رافع سے ملا اور عمرو بن سالم خزاعی وہاں سے نکلا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کھڑا ہوگیا اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف فرما تھے اور اس نے یہ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے۔
نمبر 1: اے اللہ ! میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا اور اپنے دادا کا پرانا عہد یاد دلاتا ہوں۔
نمبر 2: ہم تمہارے لیے باپ کی جگہ تھے اور تم بیٹوں کی جگہ بلاشبہ قریش نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا ہے۔
نمبر 3: اور آپ کے پکے وعدے کو توڑ دیا ہے اور انھوں نے میرے لیے بھی مقام کداء میں مورچہ بنایا۔
نمبر 4: اے اللہ کے رسول آپ مضبوط مدد کریں اللہ کے بندوں کو بلاؤ وہ مدد کے لیے آئیں گے۔
نمبر 5: ہم وہاں اسلام لائے اور آج تک بیعت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری مضبوط مدد فرمائیں۔
نمبر 6: اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بلاؤ۔ وہ مدد کے لیے آئیں گے۔
نمبر 7: ان میں اللہ کا رسول ہے جنہوں نے تلوار کو سونتا ہے اگر کسی نے ذلت کا ارادہ کیا تو آپ کا چہرہ محفوظ کردیا جاتا ہے۔
نمبر 8: وہ بہت بڑے لشکر میں ہیں جو جھاگ مارنے والے سمندر کی طرح ہے۔
نمبر 9: اور ان کا خیال یہ تھا کہ میں کسی کو نہ بلاؤں گا حالانکہ وہ زیادہ ذلیل اور عدد میں کم ہیں۔
نمبر 10: تہجد کے وقت مقام و تیر میں انھوں نے ہم پر شب خون مار کر رکوع و سجدہ میں ہمیں قتل کردیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی کعب کی مدد کی جائے گی پھر بدیل بن ورقاء بنو خزاعہ کے ایک وفد کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور اپنے اوپر گزری ہوئی واردات سنا کر واپس آگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے پاس ابو سفیان معاہدے کی طوالت اور مدت میں اضافے کے لیے آئے گا۔ پھر اسی قسم کی روایت بیان کی کہ ابو سفیان نے حضرت ابوبکر ‘ عمر اور علی المرتضیٰ ‘ فاطمہ الزہراء (رض) اجمعین کے ساتھ بات کی اور ان حضرات نے جو جوابات دیئے وہ ذکر کئے۔ ایوب نے اپنی روایت میں ابو سفیان کی عباس (رض) سے گفتگو اور ان امن دینے اور ان کے اسلام لانے کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کا باقی حصہ نقل کیا ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں ‘ ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صلح جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل مکہ میں ہوئی بنو خزاعہ قبیلہ اس میں داخل ہوگیا اس لیے کہ وہ پہلے سے آپ کے حلیف چلے آ رہے تھے اور بنو بکر قریش کی صلح میں شامل ہوگئے کیونکہ ان کے اور قریش کے مابین پہلے سے معاہدہ چلا آ رہا تھا اور ہر فریق کے حلیف کا حکم بھی اصل معاہدہ کرنے والوں جیسا ہوگیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلفاء اور قریش کے حلفاء میں لڑائی ہوگئی اس سے حلفاء قریش اس معاہدے سے خارج ہوگئے اس سے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کے خلاف لڑنے والے بن گئے پھر اس سے بڑھ کر قریش نے اپنے حلفاء کی امداد کر کے ان کو بنو خزاعہ کے قتل کے لیے تقویت پہنچائی اور ان کے کئی آدمی مقتول ہوئے حالانکہ صلح اس کے لیے رکاوٹ تھی۔ پس ان کی یہ حرکت بھی نقص عہد تھا اور صلح سے نکلنا تھا اس سے قریش بھی آپ کے اور اصحاب کے محارب بن گئے۔ جو تم نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ابو سفیان جبکہ ابو سفیان مدینہ منورہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور یہ حاضری بنو بکر و بنو خزاعہ کی لڑائی کے بعد تھی اور قریش اس سے قبل بنو بکر کی مدد کرچکے تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابو سفیان کی اس حالت کا علم تھا مگر اس کے باوجود نہ تو آپ نے صلہ رحمی فرمائی اور نہ ہی اس پر تعرض فرمایا تو کیا یہ اس بات کی کھلی دلیل نہیں کہ آپ کے نزدیک وہ امان میں تھا بنو بکر و بنو خزاعہ کی لڑائی کی وجہ سے وہ امان سے خارج نہ ہوا تھا اور قریش نے بنو بکر کی اسلحہ اور کھانے سے جو معاونت کی تھی اس کے باوجود وہ صلح ختم نہ ہوئی تھی۔ جو ان کے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ہوئی تھی اور نہ وہ اس سے خارج ہوئے تھے۔ فریق اوّل کا کہنا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابو سفیان سے تعرض نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ جو صلح آپ کے اور مکہ والوں کے درمیان ہوئی تھی وہ باقی تھی بلکہ آپ کے چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کی خدمت میں تجدید صلح کے لیے آیا تھا۔ کیونکہ پہلی صلح ٹوٹ چکی تھی (جیسا کہ روایات میں یہ بات واضح ہے) اس کی آمد کی غرض سے آپ نے بذریعہ وحی پہلے مطلع کیا) باقی قتل کے لیے تعرض نہ کرنے کی وجہ صلح کا نہ ٹوٹنا نہیں بلکہ یہ وجہ تھی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا۔ جیسا مندرجہ ذیل روایت اس کی شاہد ہے۔
نوٹ : ان اشعار کو بیروت ‘ رحمانیہ کے نسخوں میں قدیمی کتب خانہ کے نسخہ سے مختلف نقل کیا گیا ہے ‘ ہم نے تمام کا ترجمہ کردیا ۔
(مترجم)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔