HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5973

۵۹۷۲: حَدَّثَنَا بَحْرٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی الْقَضَائِ بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ فِیْ خَاص مِنَ الْأَشْیَائِ فِی الْأَمْوَالِ خَاصَّۃً وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَجِبُ أَنْ یُقْضَی فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْأَشْیَائِ اِلَّا بِرَجُلَیْنِ أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَیْنِ وَلَا یُقْضَی بِشَاہِدٍ وَیَمِیْنٍ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْأَشْیَائِ قَالُوْا : أَمَّا مَا رَوَیْتُمُوْھُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا ذُکِرَ فِیْہِ أَنَّہٗ قَضٰی بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ فَقَدْ دَخَلَہٗ الضَّعْفُ الَّذِی لَا یَقُوْمُ بِہٖ مَعَہُ حُجَّۃٌ .وَأَمَّا حَدِیْثُ زَمْعَۃَ عَنْ سُہَیْلٍ فَقَدْ سَأَلَ الدَّرَاوَرْدِیُّ سُہَیْلًا عَنْہُ فَلَمْ یَعْرِفْہُ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ السُّنَنِ الْمَشْہُوْرَۃِ وَالْأُمُوْرِ الْمَعْرُوْفَۃِ اِذًا لَمَا ذَہَبَ عَلَیْہِ وَأَنْتُمْ قَدْ تُضَعِّفُوْنَ مِنَ الْأَحَادِیْثِ مَا ہُوَ أَقْوَی مِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ بِأَقَلَّ مِنْ ہٰذَا .وَأَمَّا حَدِیْثُ عُثْمَانَ بْنِ الْحَکَمِ مِنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَیْلٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَمُنْکَرٌ أَیْضًا لِأَنَّ أَبَا صَالِحٍ لَا تُعْرَفُ لَہٗ رِوَایَۃٌ عَنْ زَیْدٍ .وَلَوْ کَانَ عِنْدَ سُہَیْلٍ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ مَا أَنْکَرَ عَلَی الدَّرَاوَرْدِیِّ مَا ذَکَرْتُمْ عَنْ رَبِیْعَۃَ وَیَقُوْلُ لَہٗ لَمْ یُحَدِّثْنِیْ بِہٖ أَبِیْ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ وَلٰـکِنْ حَدَّثَنِیْ بِہٖ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مَعَ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ الْحَکَمِ لَیْسَ بِاَلَّذِیْ یَثْبُتُ مِثْلُ ہٰذَا بِرِوَایَتِہٖ۔ وَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ فَمُنْکَرٌ لِأَنَّ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ لَا نَعْلَمُہُ یُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ بِشَیْئٍ فَکَیْفَ یَحْتَجُّوْنَ بِہٖ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا؟ .وَأَمَّا حَدِیْثُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ جَابِرٍ فَاِنَّ عَبْدَ الْوَہَّابِ رَوَاہُ کَمَا ذَکَرْتُمْ .وَأَمَّا الْحُفَّاظُ مَالِکٌ وَسُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ وَأَمْثَالُہُمَا فَرَوَوْہُ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَذْکُرُوْا فِیْہِ جَابِرًا وَأَنْتُمْ لَا تَحْتَجُّوْنَ بِعَبْدِ الْوَہَّابِ فِیْمَا یُخَالِفُ فِیْہِ الثَّوْرِیَّ وَمَالِکًا .ثُمَّ لَوْ لَمْ یُنَازَعْ فِیْ طَرِیْقِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَسَلِمَتْ عَلَی ہٰذِہِ الْأَلْفَاظُ الَّتِی قَدْ رُوِیَتْ عَلَیْہَا لَکَانَتْ مُحْتَمِلَۃً لِلتَّأْوِیْلِ الَّذِی لَا یَقُوْمُ لَکُمْ بِمِثْلِہَا مَعَہُ الْحُجَّۃُ .وَذٰلِکُمْ أَنَّکُمْ اِنَّمَا رَوَیْتُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضٰی بِالْیَمِیْنِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ .وَلَمْ یُبَیِّنْ فِی الْحَدِیْثِ کَیْفَ کَانَ ذٰلِکَ السَّبَبُ وَلَا الْمُسْتَحْلِفُ مَنْ ہُوَ ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ بِہٖ یَمِیْنُ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .وَاِذَا ادَّعَی الْمُدَّعِی وَلَمْ یُقِمْ عَلَی دَعْوَاہُ اِلَّا شَاہِدًا وَاحِدًا فَاسْتَحْلَفَ لَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ فَرَوَیْ ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ الْمُدَّعِیَ یَجِبُ لَہُ الْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ لَا بِحُجَّۃٍ أُخْرَی غَیْرَ الدَّعْوَی - لَا یَجِبُ لَہُ الْیَمِیْنُ اِلَّا بِہَا .کَمَا قَالَ قَوْمٌ : اِنَّ الْمُدَّعِیَ لَا یَجِبُ لَہُ الْیَمِیْنُ فِیْمَا ادَّعَیْ اِلَّا أَنْ یُقِیْمَ الْبَیِّنَۃَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَتْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ خُلْطَۃٌ وَلَبْسٌ فَاِنْ أَقَامَ عَلٰی ذٰلِکَ بَیِّنَۃً اسْتَحْلَفَ لَہٗ وَاِلَّا لَمْ یَسْتَحْلِفْ .فَأَرَادَ الَّذِیْ رَوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَنْ یَنْفِیَ ہٰذَا الْقَوْلَ وَیُثْبِتَ الْیَمِیْنَ بِالدَّعْوَی وَاِنْ لَمْ یَکُنْ مَعَ الدَّعْوَی غَیْرُہَا فَہٰذَا وَجْہٌ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ بِہٖ یَمِیْنُ الْمُدَّعِی مَعَ شَاہِدِہِ الْوَاحِدِ لِأَنَّ شَاہِدَہُ الْوَاحِدَ کَانَ مِمَّنْ یُحْکَمُ بِشَہَادَتِہٖ وَحْدَہُ وَہُوَ خُزَیْمَۃُ بْنُ ثَابِتٍ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ عَدَلَ شَہَادَتَہُ بِشَہَادَۃِ رَجُلَیْنِ .
٥٩٧٢: عمرو بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ ایک گواہ اور قسم سے بعض خاص مالی معاملات میں فیصلہ فرمایا اور انھوں نے ان آثار کو بطور دلیل پیش کیا۔ فریق ثانی : کا کہنا ہی کسی بھی چیز میں ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ وہ فیصلہ نافذ ہوگا جو کہ دو مردوں کی گواہی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے کیا جائے گا۔ جواب دلیل : یہ روایات جو آپ نے پیش کی یہ ضعیف روایت ہے اس کو بطور دلیل پیش نہیں کرسکتے۔ رہی زمعہ والی روایت جس کو سہیل سے نقل کیا گیا ہے تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ دراوردی نے خود سہیل سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں تو اس روایت کو نہیں جانتا اگر یہ روایت سنن مشہورہ سے ہوتی تو اس سے یہ معاملہ نہ ہوتا آپ تو اس سے زیادہ قوی روایات کو بھی ضعیف قرار دیتے ہو۔ عثمان بن حکم جس کو حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا گیا ہے وہ منکر ہے کیونکہ ابو صالح کی کوئی روایت حضرت زید (رض) سے معروف نہیں ہے۔ اگر اس سلسلے میں سہیل کے پاس کوئی روایت ہوتی تو وہ دراوردی کے سامنے انکار نہ کرتے۔ ربیعہ کی روایت جس میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے والد نے تو یہ ابوہریرہ (رض) سے بیان نہیں کی مگر مجھے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے بیان کی حالانکہ عثمان بن حکم ایسا راوی نہیں ہے کہ جس کی روایت سے اس قسم کی بات ثابت ہو سکے۔ روایت ابن عباس (رض) بھی منکر ہے کیونکہ قیس بن سعد ہمارے علم کی حد تک تو عمرو بن دینار سے کچھ بھی روایت نہیں کرتے تو اس قسم کے معاملات میں وہ اس کی روایت سے کیسے دلیل بناتے ہیں ؟ جعفر بن محمد کی روایت جو انھوں نے اپنے والد کے واسطہ سے جابر (رض) سے نقل کی ہے۔ اس سند کے ساتھ تو اس کو عبدالوہاب نے نقل کیا۔ مگر حفاظ حدیث مالک ‘ سفیان جیسے علماء نے جعفر عن ابیہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کی اور جابر کا تذکرہ نہیں کیا اور عبدالوہاب کی روایت ثوری ومالک کے خلاف قابل حجت نہیں۔ اگر سند کی اس بحث سے قطع نظر کر کے روایت کو من و عن تسلیم کرلیا جائے پھر بھی اس میں احتمال تاویل ہونے کی وجہ سے تمہارے ہاں قابل حجت نہ بنے گی۔ تم نے یہ روایت بیان کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ کیا۔ روایت سے اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا اور نہ حلف اٹھانے والا معلوم ہے۔ ممکن ہے کہ وہ مفہوم ہو جو آپ نے مراد لیا اور یہ بھ ممکن ہے کہ اس سے مراد مدعیٰ علیہ کی قسم ہو۔ جب مدعی نے دعویٰ تو کردیا مگر اپنے دعویٰ پر فقط ایک گواہ پیش کرسکا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعیٰ علیہ سے قسم لے کر فیصلہ فرما ‘ دیا پس یہ روایت بیان کردی گئی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ مدعی کے لیے لازم ہے کہ اس کی خاطر مدعیٰ علیہ پر قسم آئے جبکہ دعویٰ کے لیے اور دلیل نہ ہو اور اس کے حق کے لیے قسم صرف اسی صورت میں لازم ہوگی۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مدعی کو اپنے حق کے لیے قسم لینا لازم نہیں سوائے اس صورت کے کہ وہ اس پر دلیل پیش کر دے کہ اس کے اور مدعیٰ علیہ کے درمیان گڑبڑ و اشتباہ تھا اگر وہ اس پر دلیل قائم کر دے تو اس کے لیے مدعیٰ علیہ سے حلف لیا جائے گا ورنہ نہیں۔ پس جس نے اس روایت کو بیان کیا اس کا مقصد اس بات کی نفی کرنا تھا کہ قسم تو صرف دعویٰ ہی سے ثابت ہوجاتی ہے اگرچہ دعویٰ کے ساتھ کوئی اور بات نہ ہو۔ تو یہ اس حدیث کا باعث ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مدعی سے ایک گواہ کے ساتھ قسم لینا مراد ہو۔ کیونکہ اس کا ایک گواہ ان لوگوں سے ہو جس اکیلے کی گواہی سے فیصلہ ہوجاتا ہے اور وہ خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) ہیں کہ جن کی گواہی کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔ روایت یہ ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ ایک گواہ اور قسم سے بعض خاص مالی معاملات میں فیصلہ فرمایا اور انھوں نے ان آثار کو بطور دلیل پیش کیا۔
فریق ثانی : کسی بھی چیز میں ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ وہ فیصلہ نافذ ہوگا جو کہ دو مردوں کی گواہی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے کیا جائے گا۔
جواب دلیل : یہ روایت جو آپ نے پیش کی یہ ضعیف روایت ہے اس کو بطور دلیل پیش نہیں کرسکتے۔
نمبر 1: رہی زمعہ والی روایت جس کو سہیل سے نقل کیا گیا ہے تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ دراوردی نے خود سہیل سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں تو اس روایت کو نہیں جانتا اگر یہ روایت سنن مشہورہ سے ہوتی تو اس سے یہ معاملہ نہ ہوتا آپ تو اس سے زیادہ قوی روایات کو بھی ضعیف قرار دیتے ہو۔
نمبر 2: عثمان بن حکم جس کو حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا گیا ہے وہ منکر ہے کیونکہ ابو صالح کی کوئی روایت حضرت زید (رض) سے معروف نہیں ہے۔ اگر اس سلسلے میں سہیل کے پاس کوئی روایت ہو تو وہ دراوردی کے سامنے انکار نہ کرتے۔
نمبر 3: ربیعہ کی روایت جس میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے والد نے تو یہ ابوہریرہ (رض) سے بیان نہیں کی مگر مجھے زید بن ثابت (رض) سے انھوں نے بیان کی حالانکہ عثمان بن حکم ایسا راوی نہیں ہے کہ جس کی روایت سے اس قسم کی بات ثابت ہو سکے۔
نمبر 4: روایت ابن عباس (رض) بھی منکر ہے کیونکہ قیس بن سعد ہمارے علم کی حد تک تو عمرو بن دینار سے کچھ بھی روایت نہیں کرتے تو اس قسم کے معاملات میں وہ اس کی روایت سے کیسے دلیل بناتے ہیں ؟
نمبر 4: جعفر بن محمد کی روایت جو انھوں نے اپنے والد کے واسطہ سے جابر (رض) سے نقل کی ہے۔ اس سند کے ساتھ تو اس کو عبدالوہاب نے نقل کیا۔ مگر حفاظ حدیث مالک ‘ سفیان جیسے علماء نے جعفر عن ابیہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کی اور جابر کا تذکرہ نہیں کیا اور عبدالوہاب کی روایت ثوری ومالک کے خلاف قابل حجت نہیں۔
دوسرا جواب : اگر سند کی اس بحث سے قطع نظر کر کے روایت کو من و عن تسلیم کرلیا جائے پھر بھی اس میں احتمال تاویل ہونے کی وجہ سے تمہارے ہاں قابل حجت نہ بنے گی۔ تم نے یہ روایت بیان کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ کیا۔ روایت اس کے سبب کا کہیں پتہ نہیں چلتا اور نہ حلف اٹھانے والا معلوم ہے۔ ممکن ہے کہ وہ مفہوم ہو جو آپ نے مراد لیا اور یہ بھ ممکن ہے کہ اس سے مراد مدعیٰ علیہ کی قسم ہو۔ جب مدعی نے دعویٰ تو کردیا مگر اپنے دعویٰ پر فقط ایک گواہ پیش کرسکا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعیٰ علیہ سے قسم لے کر فیصلہ فرمایا دیا پس یہ روایت بیان کردی گئی تاکہ لوگوں کو گو معلوم ہو کہ مدعی کے لیے لازم ہے کہ اس کی خاطر مدعیٰ علیہ پر قسم آئے جبکہ دعویٰ کے لیے اور دلیل نہ ہو اور اس کے حق کے لیے قسم صرف اسی طصورت میں لازم ہوگی۔
جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مدعی کو اپنے حق کے لیے قسم لینا لازم نہیں سوائے اس صورت کے وہ اس پر دلیل پیش کر دے کہ اس کے اور مدعیٰ علیہ کے درمیان گڑبڑ و اشتباہ تھا اگر وہ اس پر دلیل قائم کر دے تو اس کے لیے مدعیٰ علیہ سے حلف لیا جائے گا ورنہ نہیں۔
نمبر 1: پس جس نے اس روایت کو بیان کیا اس کا مقصد اس بات کی نفی کرنا تھی کہ قسم تو صرف دعویٰ ہی سے ثابت ہوجاتی ہے اگرچہ دعویٰ کے ساتھ کوئی اور بات نہ ہو۔ تو یہ اس حدیث کا باعث ہے۔
نمبر 2: یہ بھی ممکن ہے کہ مدعی سے ایک گواہ کے ساتھ قسم لینا مراد ہو۔ کیونکہ اس کا ایک گواہ ان لوگوں سے ہو جس اکیلے کی گواہی سے فیصلہ ہوجاتا ہے اور وہ خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) ہیں کہ جن کی گواہی کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔ روایت یہ ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔