HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

5981

قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ یَرُدُّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعِی .فَقَالَ قَوْمٌ : لَا یَسْتَحْلِفُ الْمُدَّعِی وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ یَسْتَحْلِفُ فَاِنْ حَلَفَ اسْتَحَقَّ مَا ادَّعَی بِحَلِفِہِ وَاِنْ لَمْ یَحْلِفْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ شَیْئٌ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا قَدْ رَوَیْنَاہُ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ فِی الْقَسَامَۃِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْأَنْصَارِ تُبَرِّئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا فَقَالُوْا : کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ ؟ .فَقَالُوْا : قَدْ رَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَیْمَانَ الَّتِی جَعَلْنَاہَا فِی الْبَدْئِ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِمْ فَجَعَلَہَا عَلَی الْمُدَّعِیْنَ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَالَ أَتُبْرِئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا لَمْ یَکُنْ مِنَ الْیَہُوْدِ رَدُّ الْأَیْمَانِ عَلَی الْأَنْصَارِ فَیَرُدُّہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ حُجَّۃً لِمَنْ یَرٰی رَدَّ الْیَمِیْنِ فِی الْحُقُوْقِ .اِنَّمَا قَالَ أَتُبْرِئُکُمْ یَہُوْدُ بِخَمْسِیْنَ یَمِیْنًا ؟ فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ : کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ ؟ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ الْقَسَامَۃِ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلَی النَّکِیرِ مِنْہُ عَلَیْہِمْ اِذْ قَالُوْا کَیْفَ نَقْبَلُ أَیْمَانَ قَوْمٍ کُفَّارٍ ؟ فَقَالَ لَہُمْ أَتَحْلِفُوْنَ وَتَسْتَحِقُّوْنَ کَمَا قَالَ : أَیَدَّعُوْنَ وَیَسْتَحِقُّوْنَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ہٰذَیْنِ الْوَجْہَیْنِ لَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ أَنْ یَحْمِلَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا دُوْنَ الْآخَرِ اِلَّا بِبُرْہَانٍ یَدُلُّہُ عَلٰی ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْمَا سِوَیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مِنَ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فَاِذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ رَوٰی عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ لَوْ یُعْطَی النَّاسُ بِدَعْوَاہُمْ لَادَّعٰی نَاسٌ دِمَائَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَہُمْ وَلٰـکِنَّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْمُدَّعِیَ لَا یَسْتَحِقُّ بِدَعْوَاہُ دَمًا وَلَا مَالًا وَاِنَّمَا یَسْتَحِقُّ بِہَا یَمِیْنَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ خَاصَّۃً .ہٰذَا حَدِیْثٌ ظَاہِرُ الْمَعْنَی وَلَا لَنَا أَنْ نَحْمِلَ مَا خَفِیَ عَلَیْنَا مَعْنَاہُ مِنَ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ عَلٰی ذٰلِکَ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَاِنَّا رَأَیْنَا الْمُدَّعِیَ الَّذِیْ عَلَیْہِ أَنْ یُقِیْمَ الْحُجَّۃَ عَلَی دَعْوَاہُ لَا تَکُوْنُ حُجَّتُہُ تِلْکَ حُجَّۃً جَارَّۃً اِلَی نَفْسِہِ مَغْنَمًا وَلَا دَافِعَۃً عَنْہَا مَغْرَمًا .فَلَمَّا وَجَبَتِ الْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ فَرَدُّوْہَا عَلَی الْمُدَّعِی فَاِنِ اسْتَحْلَفْنَا الْمُدَّعِیَ جَعَلْنَا یَمِیْنَہُ حُجَّۃً لَہٗ وَحَکَمْنَا لَہٗ بِحُجَّۃٍ کَانَتْ مِنْہُ ہُوَ بِہَا جَارٌّ اِلَی نَفْسِہِ مَغْنَمًا وَہٰذَا خِلَافُ مَا تَعَبَّدَ بِہٖ الْعُبَّادُ فَبَطَلَ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّمَا نَحْکُمُ لَہٗ بِیَمِیْنِہِ وَاِنْ کَانَ بِہَا جَارًّا اِلَی نَفْسِہٖ لِأَنَّ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ قَدْ رَضِیَ بِذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : وَہَلْ یُوْجِبُ رِضَا الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ زَوَالُ الْحُکْمِ عَنْ جِہَتِہٖ؟ .أَرَأَیْتُ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قَالَ مَا ادَّعَیْ عَلَی فُلَانٍ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ مُصَدَّقٌ فَادَّعَیْ عَلَیْہِ دِرْہَمًا فَمَا فَوْقَہُ ہَلْ یُقْبَلُ ذٰلِکَ مِنْہٗ؟ أَرَأَیْتُ لَوْ قَالَ قَدْ رَضِیتُ بِمَا شَہِدَ بِہٖ زَیْدٌ عَلَیَّ لِرَجُلٍ فَاسِقٍ أَوْ لِرَجُلٍ جَار اِلَی نَفْسِہِ بِتِلْکَ الشَّہَادَۃِ مَغْنَمًا شَہِدَ زَیْدٌ عَلَیْہِ بِشَیْئٍ ہَلْ یُحْکَمُ بِذٰلِکَ عَلَیْہٖ؟ .فَلَمَّا کَانُوْا قَدْ اتَّفَقُوْا أَنَّہٗ لَا یَحْکُمُ عَلَیْہِ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ وَأَنَّ رِضَاہُ فِیْ ذٰلِکَ وَغَیْرَ رِضَاہُ سَوَائٌ وَأَنَّ الْحُکْمَ لَا یَجِبُ فِیْ ذٰلِکَ وَاِنْ رَضِیَ اِلَّا بِمَا کَانَ یَجِبُ لَوْ لَمْ یَرْضَ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا یَمِیْنُ الْمُدَّعِی لَا یَجِبُ لَہٗ بِہَا حَقٌّ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ وَاِنْ رَضِیَ الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ بِہٖ بِذٰلِکَ .وَالْحُکْمُ بِیَمِیْنِہِ بَعْدَ رِضَاہُ بِہَا کَحُکْمِہَا قَبْلَ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا بُطْلَانَ رَدِّ الْیَمِیْنِ عَلَی الْمُدَّعَیْ عَلَیْہِ وَہٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ .
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : مدعیٰ علیہ کی طرف سے مدعی پر قسم لوٹانے کے سلسلہ میں اختلاف ہے ایک فریق کہتا ہے کہ مدعی سے قسم نہ لی جائے اور دوسرے فریق کا قول یہ ہے کہ اس سے قسم لی جائے اگر قسم اٹھائے تو اس چیز کا حقدار ہوجائے گا جس کا اس نے دعویٰ کیا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو اس کو کچھ نہ ملے گا۔ انھوں نے اس سلسلہ میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ جس کو سہل بن ابی حثمہ (رض) سے باب القسامہ میں نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو فرمایا یہود تو پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔ انصار نے عرض کیا کہ آپ کافروں کی قسم کس طرح قبول فرمائیں گے ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا پھر تم قسم اٹھاؤ گے کہ مستحق بن سکو ؟ یہ عین ممکن ہے کہ قسامۃ کا یہ حکم ہو (کہ مدعی پر قسم لوٹائی جاسکتی ہو) اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے یہ بات بطور انکار فرمائی جبکہ انھوں نے کہا کہ کافروں کی قسم کس طرح قابل قبول ہوگی ؟ تو آپ نے فرمایا پھر تم مستحق بننے کے لیے قسم اٹھاؤ گے (یعنی ایسا مت کرو) جیسا کہ فرمایا أیدعون ویستحقون ؟ “ کیا وہ فقط دعویٰ سے حقدار بن جائیں گے (یعنی ایسا نہ ہوگا) جب اس میں دونوں احتمال ہیں تو کسی فریق کو اس کے متعلق حق نہیں کہ اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے پیش کرے سوائے اس صورت کے جب اور کوئی دلیل مل جائے اب آثار مرویہ پر نگاہ ڈالنی ہوگی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کرنے پردے دیا جائے (گواہ طلب نہ کئے جائیں) تو بہت سے لوگ دوسرے فقط لوگوں کے خون و اموال کے دعویدار بن بیٹھیں گے لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مدعی فقط دعویٰ سے خون یا مال کا حقدار نہ بن جائے گا۔ اس کو مدعیٰ علیہ کی قسم حقدار بنائے گی۔ یہ روایت ابن عباس (رض) ظاہری معنی ر کھیتی ہے ہمیں مناسب نہیں کہ ہم اس کا وہ مفہوم لے لیں جو اس روایت کا ہے جس کا معنی مخفی ہے۔ غورفکر اور قیاس کے طریقہ پر اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ مدعی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کا ثبوت مہیا کرے اور اس کی وہ دلیل ایسی نہ ہونی چاہیے جو صرف اس کی طرف نفع کو کھینچنے والی ہو اور نہ ایسی ہو کہ جو اس سے تاوان کو دفع کرنے والی ہو (مدعی نے ایسی دلیل پیش کردی) پس جب مدعا علیہ پر قسم لازمہو گئی اور اس نے اس کو مدعی کی طرف لوٹا دیا تو پھر ہم اگر مدعی سے قسم لیں تو یا ہم نے اس کی قسم کو اس کے حق میں حجت بنادیا اور گویا ہم نے اس کے حق میں ایسی دلیل سے فیصلہ کیا جس کے ذریعہ وہ اپنی طرف نفع کو کھینچتا ہے اور یہ نیک بندوں کے طریقہ کے مخالف ہے۔ اس لیے یہ باطل ہے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ ہم قسم کے ذریعہ اس کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں اگرچہ وہ اس کے ساتھ اپنے لیے نفع کھینچنے والا ہے کیونکہ مدعا علیہ اس پر راضی ہے۔ تو اس کے جواب میں کہے کیا مدعا علیہ کی رضامندی اس کی طرف سے حکم کے زوال کو لازم کرسکتی ہے۔ مثلاً آپ فرمائیں اگر کوئی آدمی کہے کہ فلاں آدمی مجھ پر جس چیز کا دعویٰ کرتا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں پھر وہ فلاں اس پر ایک درہم یا زیادہ کا دعویٰ کرتا ہے تو کیا اس سے یہ بات قبول کی جائے گی اور یہ فرمائیں کہ اگر وہ کہے کہ زید نے مجھ پر جو گواہی دی ہے میں اس پر راضی ہوں حالانکہ وہ گواہی دینے والا فاسق یا ظالم ہے اور اس سے وہ مال اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے چنانچہ زید نے کسی چیز کی اس پر گواہی بھی دے دی کیا اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا۔ پس جب اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کے مطابق کسی چیز کا فیصلہ بھی نہ کیا جائے گا اور مدعا علیہ کا راضی ہونا یا راضی نہ ہونا برابر ہے اور حکم یہاں لازم نہ ہوگا خواہ وہ پسند کرے حکم وہی لازم ہوگا جو لازم ہونا چاہیے خواہ وہ راضی نہ بھی ہو۔ پس مدعی کی قسم کا بھی یہی حکم ہے۔ اس قسم سے اس کا کوئی حق ثابت نہیں ہوسکتا مدعا علیہ پر ثابت نہ ہوگا خواہ مدعا علیہ اس پر راضی بھی ہوجائے اور اس کی قسم سے فیصلہ رضامندی کے بعد بھی وہی حکم رکھتا ہے۔ جو پہلے تھا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مدعی پر قسم لوٹانے والی بات درست نہیں ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ (عبارت مدعا علیہ لکھا ہے یہاں مدعی ہونا چاہیے جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے مدعا علیہ پر قسم میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے واللہ اعلم)
اس باب میں امام طحاوی (رح) ایک گواہ اور قسم سے فیصلہ والے قول کی تردید کی روایت کا صحیح مفہوم بتلایا۔
مدعی سے قسم لی جائے گی یا نہیں ؟ اس میں دو قول معروف ہیں۔ نمبر ١ مدعی سے قسم نہ لی جائے اس قول کو احناف نے اختیار کیا۔
فریق ثانی : امام مالک و شافعی و جمہور کا قول یہ ہے کہ مدعی پر قسم کو لوٹایا جاسکتا ہے جبکہ مدعا علیہ اس بات کو پسند کرے وہ قسم دے کر اس چیز کا حقدار ہوجائے گا۔
تخریج : کذا فی المرقات والتعلیق ج ٤‘ ١٥٤۔
فریق ثانی : مدعی پر قسم کو لوٹایا جاسکتا ہے اگر مدعا علیہ اس کو پسند کرے تو وہ چیز لازم ہوجائے گی اس کی دلیل سہل بن ابی حثمہ (رض) کی روایت ہے جو باب القسامۃ میں گزری۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : مدعیٰ علیہ کی طرف سے مدعی پر قسم لوٹانے کے سلسلہ میں اختلاف ہے ایک فریق کہتا ہے کہ مدعی سے قسم نہ لی جائے اور دوسرے فریق کا قول یہ ہے کہ اس سے قسم لی جائے اگر قسم اٹھائے تو اس چیز کا حقدار ہوجائے گا جس کا اس نے دعویٰ کیا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو اس کو کچھ نہ ملے گا۔ انھوں نے اس سلسلہ میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ جس کو سہل بن ابی حثمہ (رض) سے باب القسامہ میں نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو فرمایا یہود تو پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔ انصار نے عرض کیا کہ آپ کافروں کی قسم کس طرح قبول فرمائیں گے ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا پھر تم قسم اٹھاؤ گے کہ مستحق بن سکو ؟
تخریج : بخاری فی الادب باب ٨٩‘ مسلم فی القسامہ ١؍٣‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٨‘ نسائی فی القسامہ باب ٤۔
نمبر 1: یہ عین ممکن ہے کہ قسامۃ کا یہ حکم ہو (کہ مدعی پر قسم لوٹائی جاسکتی ہو)
نمبر 2: اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے یہ بات بطور انکار فرمائی جبکہ انھوں نے کہا کہ کافروں کی قسم کس طرح قابل قبول ہوگی ؟ تو آپ نے فرمایا پھر تم مستحق بننے کے لیے قسم اٹھاؤ گے (یعنی ایسا مت کرو) جیسا کہ فرمایا أیدعون ویستحقون ؟ “ کیا وہ فقط دعویٰ سے حقدار بن جائیں گے (یعنی ایسا نہ ہوگا)
جب اس میں دونوں احتمال ہیں تو کسی فریق کو اس کے متعلق حق نہیں کہ اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے پیش کرے سوائے اس صورت کے جب اور کوئی دلیل مل جائے اب آثار مرویہ پر نگاہ ڈالنی ہوگی۔
آثار پر نگاہ :
حضرت ابن عباس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کرنے پردے دیا جائے (گواہ طلب نہ کئے جائیں) تو بہت سے لوگ دوسرے فقط لوگوں کے خون و اموال کے دعویدار بن بیٹھیں گے لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔
حاصل : اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مدعی فقط دعویٰ سے خون یا مال کا حقدار نہ بنے گا۔ اس کو مدعیٰ علیہ کی قسم حقدار بنائے گی۔ یہ روایت ابن عباس (رض) ظاہری معنی رکھتی ہے ہمیں مناسب نہیں کہ ہم اس کا وہ مفہوم لے لیں جو اس روایت کا ہے جس کا معنی مخفی ہے۔
نظر طحاویسوال :
غور و فکر اور قیاس کے طریقہ پر اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ مدعی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کا ثبوت مہیا کرے اور اس کی وہ دلیل ایسی نہ ہونی چاہیے جو صرف اس کی طرف نفع کو کھینچنے والی ہو اور نہ ایسی ہو کہ جو اس سے تاوان کو دفع کرنے والی ہو (مدعی نے ایسی دلیل پیش کردی)
پس جب مدعا علیہ پر قسم لازم ہوگئی اور اس نے اس کو مدعی کی طرف لوٹا دیا تو پھر ہم اگر مدعی سے قسم لیں تو یا ہم نے اس کی قسم کو اس کے حق میں حجت بنادیا اور گویا ہم نے اس کے حق میں ایسی دلیل سے فیصلہ کیا جس کے ذریعہ وہ اپنی طرف نفع کو کھینچتا ہے اور یہ نیک بندوں کے طریقہ کے مخالف ہے۔ اس لیے یہ باطل ہے۔
سوال : ہم قسم کے ذریعہ اس کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں اگرچہ وہ اس کے ساتھ اپنے لیے نفع کھینچنے والا ہے کیونکہ مدعا علیہ اس پر راضی ہے۔
جواب : کیا مدعا علیہ کی رضامندی اس کی طرف سے حکم کے زوال کو لازم کرسکتی ہے۔ مثلاً آپ فرمائیں اگر کوئی آدمی کہے کہ فلاں آدمی مجھ پر جس چیز کا دعویٰ کرتا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں پھر وہ فلاں اس پر ایک درہم یا زیادہ کا دعویٰ کرتا ہے تو کیا اس سے یہ بات قبول کی جائے گی اور یہ فرمائیں کہ اگر وہ کہے کہ زید نے مجھ پر جو گواہی دی ہے میں اس پر راضی ہوں حالانکہ وہ گواہی دینے والا فاسق یا ظالم ہے اور اس سے وہ مال اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے چنانچہ زید نے کسی چیز کی اس پر گواہی بھی دے دی کیا اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا۔
پس جب اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کے مطابق کسی چیز کا فیصلہ بھی نہ کیا جائے گا اور مدعا علیہ کا راضی ہونا یا راضی نہ ہونا برابر ہے اور حکم یہاں لازم نہ ہوگا خواہ وہ پسند کرے حکم وہی لازم ہوگا جو لازم ہونا چاہیے خواہ وہ راضی نہ بھی ہو۔ پس مدعی کی قسم کا بھی یہی حکم ہے۔ اس قسم سے اس کا کوئی حق ثابت نہیں ہوسکتا مدعا علیہ پر ثابت نہ ہوگا خواہ مدعا علیہ اس پر راضی بھی ہوجائے اور اس کی قسم سے فیصلہ رضامندی کے بعد بھی وہی حکم رکھتا ہے۔ جو پہلے تھا۔
حاصل کلام : پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مدعی پر قسم لوٹانے والی بات درست نہیں ہے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ (عبارت میں مدعا علیہ لکھا ہے یہاں مدعی ہونا چاہیے جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے مدعا علیہ پر قسم میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے واللہ اعلم)
یہاں امام طحاوی (رح) نے فریق اول کے مذہب کو ترجیح مگر سابقہ ترتیب کے خلاف فریق مغلوب کو بعد میں لائے۔ اس باب میں یہ ثابت کیا گیا کہ مدعی پر قسم کسی صورت نہیں لوٹائی جاسکتی۔ اس سے فیصلہ وہی رہے گا جو قسم سے پہلے تھا۔ مدعا علیہ پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔ خواہ مدعا علیہ قسم پر راضی ہو یا نہ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔