HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

620

۶۲۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِیْثِ یُوْنُسَ، عَنِ ابْنِ وَہْبٍ، وَحَدِیْثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوٗدَ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (فَإِذَا ذَہَبَ قَدْرُہَا، فَاغْسِلِیْ عَنْکِ الدَّمَ، وَتَوَضَّئِیْ وَصَلِّیْ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِالْوُضُوْئِ مَعَ أَمْرِہٖ إِیَّاہَا بِالْغُسْلِ، فَذٰلِکَ الْوُضُوْئُ، ہُوَ الْوُضُوْئُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، فَھٰذَا مَعْنٰی حَدِیْثِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَلَیْسَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عِنْدَکُمْ، فِیْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، بِدُوْنِ مَالِکٍ وَاللَّیْثِ وَعَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا صِحَّۃُ الرِّوَایَۃِ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ أَنَّہَا تَتَوَضَّأُ فِیْ حَالِ اسْتِحَاضَتِہَا لِوَقْتِ کُلِّ صَلَاۃٍ) .إِلَّا أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہٗ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ ذٰلِکَ، لِنَعْلَمَ مَا الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یُعْمَلَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ؟ فَکَانَ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ، (أَنَّہٗ أَمَرَ أُمَّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتَ جَحْشٍ بِالْغُسْلِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ) .فَقَدْ ثَبَتَ نَسْخُ ذٰلِکَ، بِمَا قَدْ رَوَیْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْفَصْلِ الثَّانِیْ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ، فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ عَنِ الْوَہْبِیِّ، فِیْ أَمْرِ (سَہْلَۃَ بِنْتِ سُہَیْلٍ، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَمَرَہَا بِالْغُسْلِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَلَمَّا أَجْہَدَہَا ذٰلِکَ أَمَرَہَا أَنْ تَجْمَعَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِغُسْلٍ، وَبَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، بِغُسْلٍ، وَتَغْتَسِلُ لِلصُّبْحِ غُسْلًا) .فَکَانَ مَا أَمَرَہَا بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ، نَاسِخًا لَمَا کَانَ أَمَرَہَا بِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ، مِنَ الْغُسْلِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ، کَیْفَ مَعْنَاہُ؟ فَإِذَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ، قَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْہِ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ الَّتِیْ اُسْتُحِیْضَتْ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاخْتُلِفَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ فِیْ ذٰلِکَ .فَرَوٰی الثَّوْرِیُّ عَنْہُ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہَا بِذٰلِکَ، وَأَنْ تَدَعَ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِہَا .وَرَوَاہُ ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَیْضًا، عَنْ أَبِیْہِ، وَلَمْ یَذْکُرْ زَیْنَبَ، إِلَّا أَنَّہٗ وَافَقَ الثَّوْرِیَّ فِیْ مَعْنٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ، فَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الْجَمْعِ بَیْنَ کُلِّ صَلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ فِیْ أَیَّامِ الْاِسْتِحَاضَۃِ خَاصَّۃً .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ أَیَّامَ الْحَیْضِ، کَانَ مَوْضِعُہَا مَعْرُوْفًا .ثُمَّ جَائَ شُعْبَۃُ، فَرَوَاہُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَمَا رَوَاہُ الثَّوْرِیُّ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ أَیَّامَ الْأَقْرَائِ وَتَابَعَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ .فَلَمَّا رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ کَمَا ذَکَرْنَا، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ، کَشَفْنَاہُ، لِنَعْلَمَ مِنْ أَیْنَ جَائَ الِاخْتِلَافُ، فَکَانَ ذِکْرُ أَیَّامِ الْأَقْرَائِ فِیْ حَدِیْثِ الْقَاسِمِ عَنْ زَیْنَبَ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ عَائِشَۃَ، فَوَجَبَ أَنْ یَجْعَلَ رِوَایَتَہُ عَنْ زَیْنَبَ، غَیْرَ رِوَایَتِہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَکَانَ حَدِیْثُ زَیْنَبَ الَّذِیْ فِیْہِ ذِکْرُ الْأَقْرَائِ، حَدِیْثًا مُنْقَطِعًا لَا یَثْبُتُہُ أَہْلُ الْخَبَرِ لِأَنَّہُمْ لَا یَحْتَجُّوْنَ بِالْمُنْقَطِعِ وَإِنَّمَا جَائَ انْقِطَاعُہٗ، لِأَنَّ زَیْنَبَ لَمْ یُدْرِکْہَا الْقَاسِمُ وَلَمْ یُوْلَدْ فِیْ زَمَنِہَا، لِأَنَّہَا تُوُفِّیَتْ فِیْ عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَہِیَ أَوَّلُ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَاۃً بَعْدَہُ وَکَانَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ہُوَ الَّذِیْ لَیْسَ فِیْہِ ذِکْرُ الْأَقْرَائِ، إِنَّمَا فِیْہِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الْمُسْتَحَاضَۃَ أَنْ تَجْمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ بِغُسْلٍ) ، عَلٰی مَا فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ، وَلَمْ یُبَیِّنْ أَیُّ مُسْتَحَاضَۃٍ ہِیَ؟ فَقَدْ وَجَدْنَا اسْتِحَاضَۃً قَدْ تَکُوْنُ عَلٰی مَعَانِیْ مُخْتَلِفَۃٍ .فَمِنْہَا أَنْ یَکُوْنَ مُسْتَحَاضَۃً، قَدِ اسْتَمَرَّ بِہَا الدَّمُ، وَأَیَّامُ حَیْضِہَا مَعْرُوْفَۃٌ لَہَا .فَسَبِیْلُہَا أَنْ تَدَعَ الصَّلَاۃَ أَیَّامَ حَیْضِہَا، ثُمَّ تَغْتَسِلَ وَتَتَوَضَّأَ بَعْدَ ذٰلِکَ .وَمِنْہَا أَنْ یَکُوْنَ مُسْتَحَاضَۃً، لِأَنَّ دَمَہَا قَدِ اسْتَمَرَّ بِہَا، فَلَا یَنْقَطِعُ عَنْہَا، وَأَیَّامُ حَیْضِہَا قَدْ خَفِیَتْ عَلَیْہَا .فَسَبِیْلُہَا أَنْ تَغْتَسِلَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، لِأَنَّہَا لَا یَأْتِیْ عَلَیْہَا وَقْتٌ إِلَّا احْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ فِیْہِ حَائِضًا أَوْ طَاہِرًا مِنْ حَیْضٍ أَوْ مُسْتَحَاضَۃً، فَیُحْتَاطُ لَہَا فَتُؤْمَرُ بِالْغُسْلِ.وَمِنْہَا أَنْ تَکُوْنَ مُسْتَحَاضَۃٌ، قَدْ خَفِیَتْ عَلَیْہَا أَیَّامَ حَیْضِہَا، وَدَمُہَا غَیْرُ مُسْتَمِرٍّ بِہَا، یَنْقَطِعُ سَاعَۃً، وَیَعُوْدُ بَعْدَ ذٰلِکَ ھٰکَذَا ہِیَ فِیْ أَیَّامِہَا کُلِّہَا .فَتَکُوْنُ قَدْ أَحَاطَ عِلْمُہَا أَنَّہَا فِیْ وَقْتِ انْقِطَاعِ دَمِہَا، اِذَا اغْتَسَلَتْ حِیْنَئِذٍ، غَیْرُ طَاہِرٍ مِنْ حَیْضٍ، طُہْرًا یُوْجِبُ عَلَیْہَا غُسْلًا .فَلَہَا أَنْ تُصَلِّیَ فِیْ حَالِہَا تِلْکَ مَا أَرَادَتْ مِنَ الصَّلَوَاتِ بِذٰلِکَ الْغُسْلِ إِنْ أَمْکَنَہَا ذٰلِکَ .فَلَمَّا وَجَدْنَا الْمَرْأَۃَ قَدْ تَکُوْنُ مُسْتَحَاضَۃً بِکُلِّ وَجْہٍ مِنْ ھٰذِہِ الْوُجُوْہِ، الَّتِیْ مَعَانِیْہَا مُخْتَلِفَۃٌ، وَأَحْکَامُہَا مُخْتَلِفَۃٌ، وَاسْمُ الْمُسْتَحَاضَۃِ یَجْمَعُہَا وَلَمْ نَجِدْ فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ذٰلِکَ، بَیَانُ اسْتِحَاضَۃِ تِلْکَ الْمَرْأَۃِ الَّتِیْ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہَا بِمَا ذَکَرْنَا، أَیُّ مُسْتَحَاضَۃٍ ہِیَ؟ لَمْ یَجُزْ لَنَا أَنْ نَحْمِلَ ذٰلِکَ عَلٰی وَجْہٍ مِنْ ھٰذِہِ الْوُجُوْہِ، دُوْنَ غَیْرِہٖ، إِلَّا بِدَلِیْلٍ یَدُلُّنَا عَلٰی ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ہَلْ نَجِدُ فِیْہِ دَلِیْلًا؟
٦٢٠: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی جیسا یونس عن ابن وہب اور جیسا حدیث محمد بن علی عن سلیمان بن داؤد نقل کی ہے صرف اتنا الفاظ کا فرق ہے : فاذا ذہب قدرھا فاغسلی عنک الدم وتوضئی و صلی۔ ہم نے جو ذکر کیا اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستحاضہ کے متعلق اس روایت کی صحت ثابت ہوگئی کہ وہ استحاضہ کی حالت میں ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔ مگر اس باب میں جو روایات شروع میں مذکور ہوئیں وہ بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں پس ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس سے متعلق غور و فکر کے تقاضے کو سامنے لائیں تاکہ ہمارے سامنے یہ ظاہر ہوجائے کہ کس پر عمل کرنا مناسب ہے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس باب کی ابتداء میں جو امّ حبیبہ (رض) بنت جحش کو فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت غسل کرو۔ پس اس کا نسخ تو اس باب کی فصل دوم میں منقولہ روایات جو ابن ابی داؤد نے سہلہ بنت سہل (رض) سے نقل کی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا جب اس بات نے ان کو تھکا دیا تو اس کو حکم دیا کہ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ایک غسل سے اور نماز صبح کے لیے مستقل غسل کرے پس آپ نے اس کو جو حکم فرمایا اس سے پہلے والا حکم منسوخ ہوگیا یعنی ہر نماز کے لیے غسل۔ پس ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ کی روایات پر ہم نظر ڈالیں کہ ان کا مفہوم کیا ہے ؟ چنانچہ عبدالرحمن بن قاسم نے اس مستحاضہ کے متعلق روایت نقل کی جس کو استحاضہ کی تکلیف زمانہ نبوت میں پیش آئی اور عبدالرحمن سے اس سلسلہ میں روایات مختلف ہیں۔ چنانچہ ثوری نے زینب بنت جحش (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس بات کا حکم دیا کہ ایّام حیض میں نماز کو چھوڑ دے۔ اسے ابن عیینہ نے عبدالرحمن سے اپنے والد کی وساطت سے ذکر کیا اور اس نے زینب کا تذکرہ نہیں کیا البتہ مفہوم حدیث میں ثوری کی موافقت کی ہے اور وہ ایّام استحاضہ میں دو نمازوں کو ایک غسل سے جمع کر کے ادا کرنا ہے پس اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان کے ایّام حیض معروف و مشہور تھے۔ پھر شعبہ نے قاسم کی وساطت کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی طرح روایت کی جیسا کہ ثوری و ابن عیینہ نے کی البتہ اس نے ایّام حیض کا تذکرہ نہیں کیا اور ابن اسحق نے بھی اسی طرح روایت کی۔ جب یہ روایت اس مذکور طریق سے وارد ہے جس کا حاصل اختلاف ہے اب ہم اس کو مقام اختلاف جاننے کے لیے جانچتے ہیں ‘ ملاحظہ ہو۔ قاسم نے زینب (رض) سے جو روایت کی ہے اس میں ایّام حیض کا تذکرہ ہے مگر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں۔ پس ضروری ہوگیا کہ اس کی زینب (رض) والی روایت کو اس کی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت سے الگ جانا جائے ‘ پھر زینب (رض) والی روایت جس میں ایّام حیض کا تذکرہ ہے تو وہ منقطع روایت ہے اسے اہل اصول ثابت نہیں مانتے کیونکہ وہ منقطع کو قابل حجت قرار نہیں دیتے اور انقطاع کا موقع یہ ہے کہ قاسم کی زینب سے ملاقات ثابت نہیں بلکہ قاسم کی ولادت بھی اس کی وفات کے بعد ہوئی کیونکہ اس کی وفات خلافت فاروقی میں ہوئی اور ازواج مطہرات (رض) میں یہ پہلی زوجہ محترمہ ہیں جنہوں نے آپ کے بعد وفات پائی اور روایت عائشہ صدیقہ (رض) میں ایّام حیض کا تذکرہ نہیں اس میں یہ ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستحاضہ کو حکم فرمایا کہ وہ دو نمازوں کو ایک غسل سے جمع کر کے پڑھے اور اس روایت میں یہ واضح نہیں کہ اس سے کونسی مستحاضہ مراد ہے اس لیے کہ تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ مستحاضہ کئی قسم ہیں : ! بعض مستحاضہ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا خون دائمی جاری رہتا ہے اور ان کے ایّام حیض معلوم و معروف ہوتے ہیں۔ پس ان کے لیے تو مسئلہ آسان ہے کہ ایّام حیض میں نماز کو ترک کر دے ‘ غسل کرلے اور پھر ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ " بعض مستحاضہ کا خون منقطع نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے مگر اس کے ایّام حیض اسے معلوم نہیں پس اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے گی کیونکہ اس کے ہر وقت میں یہ احتمال ہے کہ وہ اس میں حائضہ ہو یا حیض سے پاک ہو یا مستحاضہ ہو۔ پس اس کے متعلق احتیاط سے کام لیا جائے گا اور اسے غسل کا حکم دیا جائے گا۔#بعض مستحاضہ وہ ہیں جن پر ان کے ایّام حیض تو مخفی ہوتے ہیں مگر ان کا خون دائمی نہیں بلکہ کبھی تو منقطع ہوتا ہے اور کبھی لوٹ آتا ہے۔ وہ تمام اوقات میں یہ اپنے طور پر جانتی ہیں کہ اس کا خون ابھی منقطع ہوگا۔ جب وہ غسل کرتی ہے تو اس وقت وہ حیض سے پاکیزگی والے طہر کی طرح پاک نہیں ہوتی کہ جس طہر کی بناء پر اس پر غسل کو لازم کیا جائے۔ پس اس کے لیے صورت یہ ہوگی کہ اسے اپنی اس حالت میں نماز ادا کرنی ہوگی۔ اسی غسل سے جس قدر نمازیں وہ ادا کرنا چاہتی ہے اگر اسے یہ ممکن ہو۔ جب ہم نے دیکھا عورت بعض اوقات ہر اعتبار سے مستحاضہ ہوتی ہے جبکہ ہر صورت کا حکم الگ الگ ہے اور اس کے احکام بھی مختلف ہیں اور مستحاضہ کا نام سب کو شامل ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں اس عورت کے استحاضہ کی وضاحت بھی نہیں کہ جس کے بارے میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ حکم دیا جس کا ہم نے تذکرہ کیا کہ وہ کونسی مستحاضہ ہے۔ پس ہمارے لیے یہ درست نہیں کہ ہم ان اقسام میں سے کسی ایک پر دوسرے کو چھوڑ کر اس کو محمول کرسکیں۔ جب تک کہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہ ہو۔ پس ہم نے اس سلسلے میں غور و فکر کی کہ آیا اس کی کوئی دلیل میسر ہے۔ چنانچہ ہم نے یہ دلیل پا لی۔
پس اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو وضو کا حکم دینے کے ساتھ غسل کا حکم فرمایا اور یہ وہی وضو ہے جو ہر نماز کے لیے اور غسل سے وہی غسل ہے جو ایام حیض کی مقدار گزرنے پر ہوگا اور ابوحنیفہ (رح) کی روایت کا بھی یہی معنی ہے اور حماد بن سلمہ کا مرتبہ تمہارے ہاں مالک (رح) و لیث (رح) و عمرو (رح) بن الحارث سے کم نہیں ہے۔
حاصل روایات :
آٹھ روایات سے یہ بات مشترک طور پر ثابت ہوگئی کہ مستحاضہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کرے گی۔
فریق سوم کی طرف سے فریقین کو جوابات :
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شروع باب کی روایات جو فریق نمبر اوّل و ثانی نے پیش کی ہیں اور فریق ثالث کی روایات ان میں سے کس پر کیوں کر عمل ہو۔ چنانچہ پہلی روایات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام حبیبہ بنت جحش (رض) کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرمایا اور اس کی تنسیخ سہلہ بنت سہیل والی روایت سے ثابت ہوچکی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے ان کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم فرمایا اور جب ان پر گراں گزرا تو اس حکم کو منسوخ فرما کر دو نمازوں کے لیے ایک غسل کا حکم فرمایا کل پانچوں نمازوں کے لیے تین غسل کا حکم فرمایا پس آپ کا یہ حکم پہلے کے لیے ناسخ تھا۔
اب اس روایت کا حال ملاحظہ ہو جو جمع بین الصلاتین میں پیش کی جاتی ہے اس کا مدار عبدالرحمن بن قاسم پر ہے۔
نمبر ١: کبھی وہ اپنے والد سے اس طرح بیان کرتے ہیں یہ اس مستحاضہ عورت کے متعلق ہے جو عہد نبوت میں استحاضہ میں مبتلا ہوئی۔
نمبر ١: ان کے شاگرد ثوری نے ان سے روایت کرتے ہوئے اس کو زینب بنت جحش قرار دیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حیض کے دنوں میں نماز چھوڑنے کا حکم دیا۔
نمبر ٢: سفیان بن عیینہ نے انہی سے روایت کرتے ہوئے زینب کا ذکر نہیں کیا مگر بقیہ متن حدیث میں ثوری جیسی روایت نقل کی اور وہ ایک غسل میں دو نمازوں کا ایام استحاضہ میں جمع کرنا ہے معلوم ہوا کہ یہ کوئی ایسی عورت تھی جس کے ایام حیض مقرر تھے۔
نمبر ٣: شعبہ نے اس کو ثوری کی طرح حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا البتہ ایام حیض کا انھوں نے تذکرہ نہیں کیا۔
نمبر ٤: مگر محمد بن اسحاق نے اس روایت کو متابعت شعبہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا مگر مستحاضہ سہلہ بنت سہل کا ذکر کیا۔
نمبر ٥: جب اس حدیث کے متن میں اس قدر اختلاف ہوا تو اب ہمیں تلاش کرنا ہے کہ یہ اختلاف کہاں سے آیا پس غور سے معلوم ہوا کہ ایام حیض کا ذکر حدیث قاسم عن زینب میں تو موجود ہے مگر قاسم عن عائشہ میں نہیں ہے تو ضروری ہے کہ ان روایتوں کو دو قرار دیا جائے پس حدیث زینب جس میں ایام حیض کا تذکرہ ہے وہ حدیث منقطع ہے منقطع قابل حجت نہیں انقطاع کی وجہ یہ ہے کہ قاسم کی زینب سے ملاقات نہیں ہوئی بلکہ ان کی وفات زمانہ عمر بن خطاب (رض) میں ہوئی یہ آپ کی پہلی زوجہ محترمہ ہیں جن کی وفات آپ کے بعد ہوئی اور قاسم اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے تھے پس یہ فریق ثالث کے خلاف حجت نہیں بن سکتی۔
اب حدیث عائشہ (رض) اس میں ایام حیض کا تذکرہ نہیں اس میں یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستحاضہ کو حکم فرمایا کہ وہ ایک غسل میں دو نمازیں پڑھ لیں مگر اس میں یہ مذکور نہیں کہ وہ مستحاضہ کون ہے ؟
ہم نے استحاضہ کو مختلف حالتوں میں پایا۔
نمبر ١: مستحاضہ کا خون تو دائمی ہو مگر ایام حیض معین ہوں اس کا حکم یہ ہے کہ ایام حیض میں نماز چھوڑ دے پھر ایّام گزرنے پر غسل کرلے اور آئندہ ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔
نمبر ٢: مستحاضہ کا دم تو دائمی ہے مگر ایام حیض بھی نامعلوم ہیں تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرے کیونکہ اس کے ہر وقت میں طہر اور دم حیض کا احتمال یا استحاضہ کا احتمال ہے پس احتیاطاً ہر نماز کے لیے غسل کا حکم ہوگا۔
نمبر ٣: مستحاضہ کے ایام حیض نامعلوم ہوں مگر خون مستمر نہ ہو بلکہ منقطع ہو چل پڑتا ہو پھر لوٹ آتا ہو اب اس عورت کو اس قدر علم تو ہے کہ کب اس کا خون تھوڑی دیر کے لیے بند ہوتا ہے جب وہ اس وقت غسل کرے تو وہ حیض سے پاک ہونے والی تو نہیں کہ اس پر غسل کو لازم کیا جائے اب اس کا حکم یہ ہے کہ وہ اسی حالت میں نماز پڑھے اور اسی غسل سے جتنی ممکن ہو نمازیں ادا کرے۔
جب غور کیا تو مستحاضہ کے لفظ کو سب میں مشترک پایا مگر انواع و احکام کے لحاظ سے ان کو مختلف پایا تو اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حدیث عائشہ (رض) میں متعین طور پر ان میں سے کون سی مستحاضہ مراد ہے اب اس تعیین کے لیے مزید دلیل کی ضرورت ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔