HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

874

۸۷۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَالِمٍ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یُوْسُفَ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَہٗ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاۃِ فَقَالَ : صَلِّ مَعَنَا قَالَ : فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَائُ مُرْتَفِعَۃٌ نَقِیَّۃٌ، ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَہٗ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِیْنَ تَطْلُعُ الْفَجْرُ .فَلَمَّا کَانَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ أَمَرَہٗ فَأَذَّنَ لِلظُّہْرِ فَأَبْرَدَ بِہَا فَأَنْعَمَ أَنْ یُبْرِدَ بِہَا، وَصَلَّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ، أَخَّرَہَا فَوْقَ الَّذِیْ کَانَ، وَصَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ یَغِیْبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّی الْعِشَائَ بَعْدَ مَا ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، وَصَلَّی الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِہَا ثُمَّ قَالَ : أَیْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاۃِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ : أَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَقَالَ : وَقْتُ صَلَاتِکُمْ فِیْمَا بَیْنَ مَا رَأَیْتُمْ) .فَأَمَّا مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، فَلَمْ یَخْتَلِفُوْا عَنْہُ فِیْہِ أَنَّہٗ صَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ، حِیْنَ طَلَعَ الْفَجْرُ، وَہُوَ أَوَّلُ وَقْتِہَا، وَصَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ التَّالِیْ حِیْنَ کَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَطْلُعَ وَھٰذَا اتِّفَاقُ الْمُسْلِمِیْنَ أَنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ، حِیْنَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ وَآخِرَ وَقْتِہَا حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ .أَمَّا مَا ذُکِرَ عَنْہُ فِیْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ، فَإِنَّہٗ ذُکِرَ عَنْہُ أَنَّہٗ صَلَّاہَا حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ عَلٰی ذٰلِکَ اتِّفَاقُ الْمُسْلِمِیْنَ أَنَّ ذٰلِکَ أَوَّلُ وَقْتِہَا .وَأَمَّا آخِرُ وَقْتِہَا فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَبَا سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَجَابِرًا، وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَوَوْا عَنْہُ أَنَّہٗ صَلَّاہَا فِی الْیَوْمِ التَّالِیْ، حِیْنَ کَانَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ .فَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ بَعْدَ مَا صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ ہُوَ وَقْتُ الظُّہْرِ بَعْدُ .وَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی قُرْبِ أَنْ یَصِیْرَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، وَھٰذَا جَائِزٌ فِی اللُّغَۃِ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ) فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ الْاِمْسَاکُ وَالتَّسْرِیْحُ مَقْصُوْدًا بِہٖ أَنْ یُفْعَلَ بَعْدَ بُلُوْغِ الْأَجَلِ لِأَنَّہَا بَعْدَ بُلُوْغِ الْأَجَلِ، قَدْ بَانَتْ وَحُرِّمَ عَلَیْہِ أَنْ یُمْسِکَہَا .وَقَدْ بَیَّنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعٍ آخَرَ فَقَالَ : (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ) .فَأَخْبَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ حَلَالًا لَہُنَّ بَعْدَ بُلُوْغِ أَجَلِہِنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا جُعِلَ لِلْأَزْوَاجِ عَلَیْہِنَّ فِی الْآیَۃِ الْأُخْرٰی‘ إِنَّمَا ہُوَ فِیْ قُرْبِ بُلُوْغِ الْأَجَلِ، لَا بَعْدَ بُلُوْغِ الْأَجَلِ .فَکَذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَمَّنْ ذَکَرْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّہٗ صَلَّی الظُّہْرَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ) یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی قُرْبِ أَنْ یَصِیْرَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، فَیَکُوْنُ الظِّلُّ اِذَا صَارَ مِثْلَہٗ، فَقَدْ خَرَجَ وَقْتُ الظُّہْرِ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ، أَنَّ الَّذِیْنَ ذَکَرُوْا ھٰذَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَدْ ذَکَرُوْا عَنْہُ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَیْضًا، (أَنَّہٗ صَلَّی الْعَصْرَ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، ثُمَّ قَالَ : مَا بَیْنَ ہَذَیْنِ وَقْتٌ) فَاسْتَحَالَ أَنْ یَکُوْنَ مَا بَیْنَہُمَا وَقْتٌ، وَقَدْ جَمَعَہُمَا فِیْ وَقْتٍ وَاحِدٍ، وَلَکِنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا مَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ فِیْمَا أَخْبَرَ عَنْ صَلَاتِہِ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ، (ثُمَّ أَخَّرَ الظُّہْرَ حَتّٰی کَانَ قَرِیْبًا مِنَ الْعَصْرِ) .فَأَخْبَرَ أَنَّہٗ إِنَّمَا صَلَّاہَا فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ فِیْ قُرْبِ دُخُوْلِ وَقْتِ الْعَصْرِ، لَا فِیْ وَقْتِ الْعَصْرِ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ اِذَا أَجْمَعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الرِّوَایَاتِ أَنَّ بَعْدَ مَا یَصِیْرُ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ وَقْتًا لِلْعَصْرِ أَنَّہٗ مُحَالٌ أَنْ یَکُوْنَ وَقْتًا لِلظُّہْرِ، لِاِخْبَارِہٖ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ لِکُلِّ صَلَاۃٍ، فِیْمَا بَیْنَ صَلَاتَیْہِ فِی الْیَوْمَیْنِ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٨٧٤: سلیمان بن بریدہ نے حضرت بریدہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی نے نمازوں کے اوقات دریافت کئے تو ارشاد فرمایا ہمارے ساتھ نماز پڑھو بریدہ (رض) کہتے ہیں جب سورج ڈھل گیا تو بلال (رض) کو حکم فرمایا تو انھوں نے اذان دی پھر ان کو حکم دیا انھوں نے عصر کی اقامت کہی جبکہ ابھی سورج سفید صاف ستھرا بلند تھا پھر اس کو حکم فرمایا انھوں نے مغرب کی نماز کھڑی کی جب کہ سورج غروب ہوچکا پھر اس کو حکم دیا انھوں نے عشاء کی جماعت کھڑی کی جب کہ شفق غائب ہوچکی پھر اس کو حکم فرمایا تو انھوں نے فجر کی جماعت اس وقت کھڑی کی جب صبح صادق طلوع ہوتی ہے جب دوسرا دن آیا تو اسے حکم دیا انھوں نے ظہر کی اذان دی اس کو خوب ٹھنڈا کر کے پڑھا اور بہت خوب ٹھنڈا کیا اور عصر کی نماز پڑھائی جبکہ سورج بلند تھا کل سے اس کو مؤخر کیا اور مغرب کی نماز پڑھائی جب کہ ابھی شفق غائب نہ ہوئی تھی اور عشاء کی نماز پڑھائی جبکہ رات کا ایک ثلث گزر چکا تھا اور نماز فجر خوب اسفار میں پڑھائی پھر ارشاد فرمایا اوقات نماز کے سلسلہ میں سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا جی حاضر ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تمہاری نمازوں کا وقت ان کے مابین ہے جو تم نے جان لیا۔ پھر جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان روایاتِ مذکورہ میں نماز فجر سے متعلق وارد ہوا ہے اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ آپ نے نماز فجر کو پہلے رو ز اس وقت ادا فرمایا جبکہ فجر طلوع ہوگئی اور یہ اس کا اوّل وقت ہے اور دوسرے دن کی ادائیگی طلوع آفتاب کے قریب تھی اس پر تو تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ فجر کا اوّل وقت طلوع فجر کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور آخری وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک ہے۔ رہی نماز ظہر تو اس کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ منقول ہے کہ اس کی ادائیگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت کی جب سورج ڈھل گیا اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ اس کا اوّل وقت ہے۔ البتہ اس کے آخری وقت کے متعلق حضرت ابن عباس ‘ ابوسعید ‘ جابر ‘ ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے روز نماز ظہر اس وقت ادا فرمائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور یہ ابھی ظہر ہی کا وقت ہے اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی یہ لیا جائے کہ اس وقت ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہونے کے قریب تھا اور لغت میں اس کا استعمال پایا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف۔۔۔} تو یہاں امساک و تسریح کا حکم اس وقت سے متعلق ہے جب عدت رجوع قریب اور اختتام ہو کیونکہ اگر عدت رجوع پوری ہوگئی تو عورت مطلقہ بائنہ بن جائے گی ‘ حق امساک باقی ہی نہ رہے گا اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمائی ہے : { واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن ۔۔۔} اس میں بتلایا کہ ان کو اپنے خاوندوں کے ساتھ عدت کے مکمل ہونے پر نکاح کرنا حلال ہے۔ پس اس سے یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ خاوندوں پر جو ذمہ داری عائد کی گئی وہ عدت کا زمانہ ختم ہونے کے قریب زمانہ تک کے لیے ہے۔ عدت کا زمانہ پورے ہوجانے کے بعد مراد نہیں۔ پس اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات میں ” صلی الظہر فی الیوم الثانی حین صار ظل کل شئی مثلہ “ میں قرب کا معنی مراد ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہونے کے قریب تھا۔ پس جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوجائے گا تو اس وقت ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جن حضرات نے ان آثار میں ظہر کا آخری وقت ذکر کیا انھوں نے ان آثار میں یہ بھی نقل کیا کہ آپ نے نماز عصر پہلے دن اس وقت ادا فرمائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ ان دو اوقات کے مابین وقت ہے۔ پس یہ بات ناممکن ہے کہ ان کے مابین الگ وقت ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک وقت میں جمع فرمایا ہو بلکہ ہمارے نزدیک اس کا معنی وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ‘ واللہ اعلم۔ اور ہماری اس بات پر ابو موسیٰ (رض) کی روایت بھی دلالت کرتی ہے۔ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسرے دن والی نماز کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا : ” ثم اخر الظہر حتی کان قریبًا من العصر “ تو ابو موسیٰ (رض) نے خبر دی کہ انھوں نے اس نماز کو اس وقت ادا کیا جب نماز عصر کے داخلے کا وقت قریب قریب تھا۔ یہ مطلب نہیں کہ وقت عصر میں ادا کیا۔ پس اس سے یہ بات پختہ ہوگئی کہ اس پر تمام کا اتفاق ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوجائے تو یہ عصر کا وقت ہے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ یہ ظہر کا وقت ہو کیونکہ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتلایا کہ دونوں دنوں کی نمازوں کے مابین نماز کا وقت ہے اور اس پر یہ آثار بھی دال ہیں۔
تخریج : مسلم ١؍٢٢٣‘ ترمذی ١؍٤٠‘ نسائی ١؍٩٠۔
حاصل روایات : امامت جبرائیل (علیہ السلام) اور سائل کے عملی جواب کی روایات سے نمازوں کے اوقات کی ابتداء اور انتہاء ظاہر ہوتی ہے امامت جبرائیل (علیہ السلام) کا واقعہ مکی زندگی کا ہے اور سائل والی روایات مدنی زندگی سے متعلق ہیں فجر کا ابتدائی وقت صبح صادق ہے اور آخری وقت طلوع آفتاب اور ظہر کا اول وقت زوال آفتاب اور آخری وقت دو مثل اور عصر کا اول وقت ایک مثل کے بعد اور آخری وقت اصفرار الشمس تک ہے مغرب کا اول وقت غروب آفتاب اور آخری وقت غروب شفق عشاء کا اول وقت غروب شفق اور آخری وقت رات کے دو ثلث ہے۔
نمازِ فجر اور استدلالِ ائمہ n
نماز فجر کے اول وقت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں روایات بالا میں طلوع صبح صادق کو ہی اس کا اول وقت تسلیم کیا گیا ہے اور دوسرے دن طلوع آفتاب سے ذرا پہلے فجر کو پڑھا گیا ہے۔
اختلافِ ائمہ :
فریق اوّل : امام مالک و شافعی (رح) نے ان روایات سے استدلال کیا جن میں اسفار کا لفظ وارد ہے ان کے ہاں اسفار ہونے پر فجر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
نمبر ١ : حدیث امامت جبرائیل (علیہ السلام) : صلی بی الغداء عند ما اسفر روایت نمبر ٨٦٨۔
نمبر ٢: جابر (رض) والی روایت میں ثم صلی الصبح فاسفر روایت نمبر ٨٧١۔
نمبر ٣: حضرت بریدہ (رض) کی روایت میں صلی الفجر فاسفر بھا روایت نمبر ٨٧٤۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ اسفار پر فجر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
فریق نمبر ٢: احناف و حنابلہ اور جمہور فقہاء کے ہاں فجر کا آخری وقت طلوع آفتاب ہے طلوع آفتاب سے ذرا پہلے پڑھنا ان روایات سے ثابت ہے جیسا روایت حضرت ابو موسیٰ اشعری میں ہے کہ کئی کہہ رہے تھے طلعت الشمس اوکادت تطلع روایت نمبر ٨٧٣ روایت نمبر ٨٦٩ میں کا دت الشمس ان تطلع مذکور ہے ان سے ثابت ہوتا ہے آخری وقت طلوع آفتاب ہے۔
روایات فریق اوّل کا جواب یہ ہے اسفار سے سورج کے طلوع سے ذرا پہلے کا وقت مراد ہے امام طحاوی (رح) نے اسی وجہ سے اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کے الفاظ نقل کئے ہیں۔
وقت ظہر :
اماما ذکر سے اسی بات کو ذکر فرما رہے ہیں کہ بالاتفاق ظہر کا ابتدائی وقت زوال شمس ہے اور اب تک تمام روایات اسی بات کی شاہد ہیں کہ امامت جبرائیل ہو یا حدیث رجل ہو دونوں میں زوال کا لفظ لایا گیا ہے اگرچہ تعبیراتی الفاظ مختلف ہیں البتہ ظہر کے آخری وقت میں خاصا اختلاف ہے۔
اما آخر وقتھا سے اسی کی طرف اشارہ کیا فریق اوّل صاحبین اور جمہور فقہاء کے ہاں ظہر کا آخری وقت مثل اول تک ہے۔
فریق اوّل کی مستدل روایات :
اس سے قبل روایت ابن عباس ‘ ابو سعید الخدری ‘ ابوہریرہ ‘ جابر (رض) میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ دوسرے دن ظہر کی نماز اس وقت ادا کی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اس میں دو احتمال ہیں۔
نمبر ١: کہ مثل سے مراد ایک مثل ہو۔ بس یہی ظہر کا وقت ہے۔
نمبر ٢: دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل کے قریب ہوگیا اور لغت کے لحاظ سے قرب کی یہ تعبیر مستعمل ہے چنانچہ اس آیت میں ملاحظہ ہو۔ واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف (البقرہ : ٢٣١) تو یہاں امساک تبھی درست ہے جبکہ عدت طلاق ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیا جائے ورنہ ختم ہونے کے بعد تو موقعہ ہی نہ رہا اور دوسرے مقام پر فرمایا واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن (البقرہ : ٢٣٢) یہاں بلوغ سے مراد اختتام اجل ہے۔
الجواب : جن روایات میں صلی الظہر فی الیوم الثانی حین صار ظل کل شیء مثلہ ہے وہ روایات ابن عباس ‘ ابو سعید ‘ جابر اور ابوہریرہ (رض) سے مروی ہیں ان میں یہی دوسرا احتمال مراد ہے اور اس کے لیے دلیل انہی آثار میں اس طرح موجود ہے۔
والدلیل : سے اسی کو بیان فرمایا کہ ان روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ یوم اول میں آپ نے عصر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور یہ بھی آخر میں فرمایا ان دونوں کے مابین وقت ہے اگر وقت نہ ہو اور ان دونوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرلیا ہو تو یہ ناممکن ہے پس وہ احتمال نمبر ٢ والا معنی لینے سے روایات کا مفہوم اپنے مقام پر درست رہتا ہے۔
تائیدی دلیل :
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت میں ہے کہ دوسرے دن نماز عصر کے قریب نماز ظہر ادا کی تو اس سے گویا یہ بتلایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ظہر کو عصر کا وقت داخل ہونے کے قریب وقت میں ادا فرمایا نہ کہ عصر کے وقت میں پس ان روایات سے ثابت ہوگیا کہ بالاتفاق ان تمام روایات میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو تو ظہر کا وقت ہے تو اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوتا ہے پس یہ ممکن نہیں کہ اس وقت ظہر کا وقت باقی ہو کیونکہ دونوں دنوں میں تصریح ہے کہ ان دونوں اوقات کے درمیان نماز کا وقت ہے اور اس روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے جو ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے نقل فرمائی وہ یہ ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔