HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

958

۹۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ وَشَرِیْکٌ، أَنَّہُمَا سَمِعَا عُثْمَانَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْہَبٍ قَالَ : سُئِلَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ " مَا التَّفْرِیْطُ فِی الصَّلَاۃِ؟ " قَالَ : أَنْ تُؤَخَّرَ حَتّٰی یَجِیْئَ وَقْتُ الْأُخْرٰی .قَالُوْا : وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا، مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، (لَمَّا سُئِلَ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ، فَصَلَّی الْعَصْرَ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہٗ، ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ بِعَیْنِہٖ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ وَقْتٌ لَہُمَا جَمِیْعًا) .قِیْلَ لَہُمْ : مَا فِیْ ھٰذَا حُجَّۃٌ تُوْجِبُ مَا ذَکَرْتُمْ، لِأَنَّ ھٰذَا قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ بِہٖ أَنَّہٗ صَلّٰی الظُّہْرَ فِی الْیَوْمِ الثَّانِیْ فِیْ قُرْبِ الْوَقْتِ الَّذِیْ صَلّٰی فِیْہِ الْعَصْرَ فِی الْیَوْمِ الْأَوَّلِ، وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ وَالْحُجَّۃَ فِیْہِ فِیْ بَابِ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ قَوْلُہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ (الْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ) .فَلَوْ کَانَ کَمَا قَالَ الْمُخَالِفُ لَنَا، لَمَا کَانَ بَیْنَہُمَا وَقْتٌ اِذَا کَانَ مَا قَبْلَہُمَا وَمَا بَعْدَہُمَا وَقْتٌ کُلُّہٗ، وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ دَلِیْلًا عَلٰی أَنَّ کُلَّ صَلَاۃٍ مِنْ تِلْکَ الصَّلَوَاتِ مُنْفَرِدَۃٌ بِوَقْتٍ غَیْرِ وَقْتِ غَیْرِہَا مِنْ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَدْ رَوَیَا ذٰلِکَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ ثُمَّ قَالَاہُمَا فِی التَّفْرِیْطِ فِی الصَّلَاۃِ" أَنَّہٗ تَرْکُہَا حَتّٰی یَدْخُلَ وَقْتُ الَّتِیْ بَعْدَہَا " .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ وَقْتَ کُلِّ صَلَاۃٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ خِلَافُ وَقْتِ الصَّلَاۃِ الَّتِیْ بَعْدَہَا فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ صَلَاۃَ الصُّبْحِ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ تُقَدَّمَ عَلَی وَقْتِہَا وَلَا تُؤَخَّرَ عَنْہُ فَإِنَّ وَقْتَہَا وَقْتٌ لَہَا خَاصَّۃً دُوْنَ غَیْرِہَا مِنَ الصَّلَاۃِ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ سَائِرُ الصَّلَوَاتِ، کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ مُنْفَرِدَۃٌ لِوَقْتِہَا دُوْنَ غَیْرِہَا فَلَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُؤَخَّرَ عَنْ وَقْتِہَا وَلَا یُقَدَّمَ قَبْلَہٗ .فَإِنِ اعْتَلَّ مُعْتَلٌّ بِالصَّلَاۃِ بِعَرَفَۃَ وَبِجَمْعٍ .قِیْلَ لَہٗ قَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْاِمَامَ بِعَرَفَۃَ، لَوْ صَلَّی الظُّہْرَ فِیْ وَقْتِہَا، فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ، وَصَلَّی الْعَصْرَ فِیْ وَقْتِہَا فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ، وَفَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ فِی الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِمُزْدَلِفَۃَ، فَصَلّٰی کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فِیْ وَقْتِہَا، کَمَا صَلّٰی فِیْ سَائِرِ الْأَیَّامِ، کَانَ مُسِیْئًا .وَلَوْ فَعَلَ ذٰلِکَ، وَہُوَ مُقِیْمٌ أَوْ فَعَلَہٗ، وَہُوَ مُسَافِرٌ، فِیْ غَیْرِ عَرَفَۃَ، وَجَمْعٍ، لَمْ یَکُنْ مُسِیْئًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ عَرَفَۃَ وَجَمْعًا، مَخْصُوْصَتَانِ بِھٰذَا الْحُکْمِ، وَأَنَّ حُکْمَ مَا سِوَاہُمَا فِیْ ذٰلِکَ، بِخِلَافِ حُکْمِہِمَا .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ أَنَّہٗ تَأْخِیْرُ الْأُوْلٰی، وَتَعْجِیْلُ الْآخِرَۃِ وَکَذٰلِکَ کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ یَجْمَعُوْنَ بَیْنَہُمَا .
٩٥٨: عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے پوچھا گیا کہ نماز میں تفریط کیا ہے تو انھوں نے فرمایا تم اس کو مؤخر کر دو یہاں تک کہ دوسری کا وقت آجائے۔ ان مخالف علماء کا مؤقف یہ ہے کہ اس بات پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے پہلے دن عصر کی نماز اس وقت ادا فرمائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا پھر دوسرے دن ظہر کی نماز بعینہٖ اسی وقت میں پڑھی تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ دونوں ہی کا وقت ہے۔ ان حضرات کو یہ جواب دیا جائے گا کہ اس روایت میں کوئی ایسی چیز نہیں جو تمہاری بات کو لازم کرے کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ دوسرے روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ظہر ایسے قریبی وقت میں ادا کی جو پہلے دن کی نماز عصر والے وقت سے قریب تر تھا اور ہم اس کو پہلے بیان کر آئے کہ اس کی دلیل پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے مابین ہے اگر مخالف کی بات مان لی جائے تو ماقبل اور مابعد سارے کا سارا وقت ہو تو ان کے مابین وقت نہ رہا پھر یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ن نمازوں میں سے ہر ایک نماز اپنا ایک منفرد وقت رکھتی ہے جو تمام نمازوں سے الگ ہے۔ مزید دلیل یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رض) نے نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں اس روایت کو بیان کیا ہے پھر دونوں نے اس کو نماز میں کوتاہی قرار دیا یعنی وہ نماز کو اس وقت تک چھوڑے رکھے یہاں تک کہ بعد والا وقت داخل ہوجائے پھر دونوں نے یہ کہا کہ یہ نماز میں تفریط ہے اور اس نے اس کو بعد والی نماز کے وقت داخل ہونے تک مؤخر کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نمازوں کے اوقات میں سے ہر ایک نماز کے اس وقت کے خلاف ہے جو اس کے بعد ہے اس باب کا یہ حکم روایات کے معانی کو درست رکھنے کے لیے ہے۔ البتہ غور و فکر کے طریقے سے یہ ہے کہ ہم نے غور کیا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ صبح کی نماز اپنے وقت سے مقدم اور مؤخر نہیں کی جاسکتی۔ اس کا ایک خاص وقت ہے۔ جو دوسری نمازوں کے علاوہ ہے پس غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام نمازوں کے اوقات اسی طرح ہوں اور ہر ایک ان میں سے اپنے وقت میں دوسروں کی بجائے منفرد ہو اور نہ ہی اس وقت سے مؤخر ہوں نہ مقدم ‘ اگر کوئی شخص عرفات و مزدلفہ کی وجہ سے اعتراض کرے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام نے ظہر کی نماز عام دنوں کی طرح اپنے وقت میں پڑھا دی اور نماز عصر عام دنوں کی طرح پڑھ لی اور مزدلفہ میں مغرب و عشاء کے ساتھ یہی سلوک کیا کہ ہر ایک کو اس کے وقت میں پڑھ لیا جیسا کہ عام ایّام میں کرتا ہے تو یہ آدمی گناہ گار ہوگا خواہ اس نے اقامت کی حالت میں ایسا کیا یا مسافر کی حالت میں اور عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ کیا تو یہ گناہ گار نہیں ہوگا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ عرفہ اور مزدلفہ کی جمع مخصوص جمع ہے اور ان کے علاوہ وہ حکم ان دونوں کے حکموں سے الگ ہے۔ ہماری اس بات سے ثابت ہوگیا کہ جو کچھ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو نمازوں کے جمع کے متعلق لکھا ہے اس کی صورت یہی ہے کہ پہلی نماز کو مؤخر کیا جائے اور دوسری نماز کو جلدی کیا جائے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اسی طرح ہی جمع کرتے تھے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
حدیث جبرائیل (علیہ السلام) میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے دن عصر کی نماز اس وقت ادا فرمائی جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا پھر دوسرے دن ظہر کی نماز بعینہٖ اسی وقت میں پڑھائی پس جمع بین الصلاتین ثابت ہوگئی۔
ازالہ اشتباہ :
یہ جمع حقیقی کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس میں واضح احتمال ہے کہ دوسرے دن ظہر کو اس وقت کے قریب لے جا کر پڑھا جس میں پہلے دن عصر پڑھی تھی اور قرب سے متعلق ایسی تعبیر کلام عرب میں بہت پائی جاتی ہیں۔
اور اس کی دلیل خود روایت کے یہ الفاظ ہیں : الوقت فیما بین ھذین الوقتین۔ اگر وہ وقت الگ نہ تھے تو ان دو اوقات کے درمیان درمیان کو نماز کے وقت قرار دینے کا کوئی معنی نہیں ان کے درمیان فاصلہ نہ تھا تو قبل اور مابعد دونوں کو وقت قرار دیا جاتا مابین نہ کہا جاتا پس یہ دلیل نہ بن سکی کہ ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھی گئی۔
دلیل کا ایک اور رُخ :
حضرت ابوہریرہ (رض) اور ابن عباس (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مواقیت صلوۃ میں وہ روایات نقل کیں پھر جب ان سے استفسار کیا گیا تو انھوں نے نماز کو اپنے وقت سے ہٹا کر پڑھنے کو تفریط قرار دیا پس ثابت ہوگیا کہ ان کے فتویٰ اور روایت میں تطبیق ہے اور وہ جمع صوری سے ہی ہوسکتی ہے نہ کہ اور سے پس ہر نماز اپنے اپنے وقت میں تھی یہ جمع روایات کی صورت ہے۔
نظر و فکر طحاوی (رح) : (واما وجہ ذلک)
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کو وقت سے مقدم یا مؤخر کرنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ اس کا وقت خاص ہے اور اسی میں ادائیگی ضروری ہے اور کسی نماز کا وقت اس میں شامل نہیں تو فکر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام نمازیں ایسی ہی ہوئیں کیونکہ ہر ایک منفرد وقت تو رکھتی ہے پس اس کے وقت سے اسے مقدم و مؤخر کرنا جائز نہیں۔
بیمار استدلال :
میدان عرفات و مزدلفہ میں جمع حقیقی کے تو جناب بھی قائل ہیں۔
الجواب : اگر امام عرفات و مزدلفہ میں جمع نہ کرے بلکہ الگ الگ اپنے وقت میں ادا کرتے تو سب کہیں گے کہ اس نے برا کیا اور اگر عام دنوں میں کوئی آدمی عرفات و مزدلفہ میں جا کر ان نمازوں کو جمع کرے تو سب اس کو گناہ گار کہیں گے معلوم ہوا کہ ان مقامات کا جمع صلوۃ کے متعلق خصوصی حکم ہے اور اس پر کسی دوسرے کو قیاس کرنا غلط ہے۔
جمع صوری صحابہ کرام (رض) کا طرز عمل تھا :
روایات ملاحظہ ہوں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔